پیر، 7 جولائی، 2014

تمہارا افسانہ


یہ افسانہ تمہارا ہے ... تم جو اسے پڑھ رہے ہو۔

اس کے کردار ، اس کا پلاٹ اور حاشیے کا تمہاری زندگی سے تو تعلق نہیں، لیکن تم سمجھتے ہو کہ اس میں زندگی کے ایسے حقائق اور انسانی جذبات و نفسیات کے وہ راز پوشیدہ ہیں جن کو پڑھ کر تم ایک گہری سوچ میں ڈوب جاؤ گے۔ اور شاید یہ سوچ تمہاری زندگی میں ایک نئی جہت کا آغاز کرے ...لیکن اس افسانے میں ایساکچھ نہیں ہے۔ ابھی تک تم نے صرف پہلا پیرا گراف پڑھا ہے۔ گاؤں کے اسکول کے ماسٹر کو وڈیرے کی لڑکی سے عشق ہوا ہے۔ ’’ یہ بھی کیا پرانی کہانی ہے ...کوئی نئے پلاٹ نہیں ملتے آج کل لکھنے والوں کو ...‘‘ تم اپنے ذہن میں سوچتے ہو اور کہانی سے نظریں اٹھا لیتے ہو۔ گیلری کے باہر بجلی کا کھمبا ہے جس سے تار گزر رہے ہیں۔ تاروں سے پھٹی پرانی پتنگیں اور پلاسٹک کی تھیلیاں لٹکی ہوئی ہیں۔

تمہاری نظریں واپس کہانی کی طرف آجاتی ہیں۔

لیکن وڈیرے کو اس جوڑی پر کوئی اعتراض نہیں۔ وہ ان کی شادی کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے ، بلکہ شادی کے بعد گھر بسانے میں ماسٹر کی مالی مدد بھی کرنا چاہتا ہے۔ نہ ہی گاؤں میں کوئی ایسا شخص ہے جو فقرے کس رہا ہو یا وڈیرے کی عزت پر کوئی حرف آ رہا ہو کہ اس کی لڑکی ایک ماسٹر سے بیاہی جاتی ہے۔

’’ یہ کیسی کہانی ہے ...یہ کیساافسانوی گاؤں ہے ...‘‘ تم سوچتے ہو۔ آج کل کے لکھنے والے مجھ جیسے عام آدمی کے بارے میں کیوں نہیں لکھتے۔ عام زندگی کے ایسے واقعات کا ذکر کیوں نہیں کرتے جو ایک عام آدمی نظر انداز کرتا ہے۔ ‘‘

تم یہ سب کچھ سوچ رہے ہو۔ لیکن ضروری نہیں کہ لکھنے والا بھی تمہاری طرح سوچے۔ تمہاری زندگی ایک دم سادی اورسپاٹ گزری ہے۔ جہاں کہیں کسی رومان یا مہم جوئی کا موقع آیا تم نے اس سے نظریں چرالیں۔ اب تم چاہتے ہو کہ ایک عام آدمی کی عام زندگی میں طلسم ہوش ربا کی داستان کھل جائے۔ ایسا نہیں ہوسکتا۔ عام آدمی کی عام زندگی میں کوئی ایسی بات نہیں ہوتی جس کے بارے میں کہانی لکھی جاسکے۔ اور اگر تمہیں ایسی ہی ناممکن باتوں پر یقین ہے تو برابر والے کمرے میں چلے جاؤ جہاں ٹی وی پر خبرنامہ آرہا ہے اور دعا کرو کہ ایسی خبریں سنائی جائیں جن کی تمہیں زندگی بھر سے تمنا ہے۔

لیکن اپنے بارے میں یہ تمام خیالات تمہارے ذہن سے نہیں گزرتے۔ تم اب بھی اس افسانے میں ایسے نکتے تلاش کررہے ہو جن کی مدد سے عام زندگی پر کوئی روشنی ڈالی جاسکے۔

افسانہ آگے بڑھتا ہے۔ اگلے چند صفحوں میں اس نئے جوڑے کی زندگی کی رنگین اور دلچسپ مصروفیات پر نظر ڈالی گئی ہے۔ تم کو پڑھنے میں مزا آتا ہے۔ لیکن اس سب میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ایسی بات جو تمہیں چونکا دے۔ صرف ایک دلکش انداز بیان ہے۔ تمہیں اپنا مقصد حاصل ہوتا نظر نہیں آرہا۔ تم تھوڑی سی مایوسی محسوس کرتے ہو اور کچھ دیر کے لئے کہانی نیچے رکھ دیتے ہو۔

گیلری کے باہر کا منظر نہیں بدلاہے ، تم اٹھ کر گیلری میں چلے جاتے ہو اور باہر جھانکنے لگتے ہو۔ تمہارے کرائے کے فلیٹ سے، جو ایک مکان کی دوسری منزل پر واقع ہے ، خاصا علاقہ نظر آتا ہے۔ نیچے گلی میں وہی شور تماشا ہے جو روز ہوتا ہے۔ کونے کے ہوٹل کے تنور پر پٹھان روٹیاں لگا رہا ہے۔ گلی کے بیچ میں گٹر بہہ رہا ہے۔ جس کے پانی سے بچتا ہوا ایک ٹھیلے والا گزر رہا ہے۔ سامنے کے مکان کی چھت پر ایک لڑکی کھڑی ہے جس کی پیٹھ تمہاری طرف ہے اور جو شاید اپنی پچھلی گلی میں کسی سے بات کررہی ہے۔ تم خاصی دیر تک اسے دیکھتے رہتے ہو لیکن وہ نہیں پلٹتی۔ تم نے اکثر اس کو یوں ہی باتیں کرتے دیکھا ہے ، لیکن اس نے آج تک تمہیں نوٹ نہیں کیا۔ تم سوچتے ہو کہ کیا اس لڑکی کو بالکل پرواہ نہیں کہ محلے والے کیا کہتے ہوں گے۔

پھر تم بور ہو کر کمرے میں آجاتے ہو۔ ٹی وی سے ابھی تک خبرنامے کی آواز آرہی ہے تم کہانی دوبارہ اٹھانے کے بارے میں سوچتے ہو لیکن تمہارا موڈ نہیں ہوتا۔ تمہیں خیال آتا ہے کہ تم نے ابھی گلی میں اس کے بالکل برعکس ہوتے ہوئے دیکھا ہے جیسا کہ اس افسانے میں لکھا ہے۔ اگر معاشرے کے قواعد و ضوابط سے ہٹ کر کسی لڑکے اور لڑکی کی دوستی ہوتی ہے تو لوگ اسے آرام سے تسلیم نہیں کرتے۔ تم افسانہ نگار کی حقیقت سے واقفیت اور اس کی بے معنی رومانیت پر نظر ثانی کرتے ہو۔ پھر اپنے نقطہء نظر کو مزید مستحکم بنانے کے لئے خود اپنی زندگی کے بارے میں سوچنے لگتے ہو۔

تمہاری زندگی میں کبھی خوابوں میں دیکھی جانے والی باتیں سچ نہیں ثابت ہوئیں۔ نہ کبھی کسی کو تم سے محبت ہوئی ہے اور نہ کبھی تم کسی کی چاہت کے جال میں گرفتار ہوئے ہو۔ یہ سب باتیں ایک عام آدمی کی زندگی میں نہیں ہوتیں۔ ایک عام آدمی جس کی مالی حالت ایسی ہو کہ بس جیسے تیسے گزارا ہوجائے۔ جو نہ تو زیادہ کند ذہن ہو اور نہ ہی اتنا ذہین کہ اس کی ذہانت مجمع میں اسے نمایاں کرکے شرمندگی کا باعث بنے ۔۔۔ ایسا نہیں کہ کبھی کسی لڑکی کی طرف تم نے پلٹ کرنہیں دیکھا ہو ، یا کسی کو اپنا بنا لینے کے لئے تمہارا دل بے تحاشا نہیں چاہا ہو یہ سب ہوا ہے لیکن تم سمجھتے ہو کہ ان باتوں کی تکمیل ایک عام آدمی کے بس کی بات نہیں جو عزت سے زندگی گزارناچاہتا ہے۔ یہ تو بڑے لوگوں کے کھیل تماشے ہیں یا پھر ان بے وقوفوں کے جو سب کچھ گنوا دینے کے بعد بھی اپنی چھٹی حس پر پکاّ یقین رکھتے ہوں۔ تم سمجھتے ہو کہ تمہارا نقطہء نظر حقیقت کے بہت قریب ہے ...لیکن ایسا نہیں۔

تم کبھی کسی دل کے معاملے یا محبت کے رچاؤ میں اس لئے زیادہ نہیں الجھ پائے ہو کیونکہ تمہاری عجز اور انکساری نے تمہیں ہمیشہ صراط مستقیم پر رکھا ہے۔ اصل میں اس راہ پر تمہیں سکون ملتا ہے اور تمہارے لئے یہ سکون کسی رومان کی دلفریبی یا عام زندگی کی حقارت کے احساس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اللہ تمہیں اپنے اس احساس سکون کی امان میں رکھے۔ اب کہانی پڑھنے کا خیال تمہارے دماغ سے ہٹ جاتا ہے تم برابر والے کمرے میں چلے جاتے ہوجہاں ابھی تک خبرنامہ لگا ہوا ہے، لیکن کمرے میں جتنے لوگ ہیں کسی کی توجہ ٹی وی کی طرف نہیں۔ تمہاری بڑی لڑکی بیٹھی ہوئی کوئی ڈائجسٹ پڑھ رہی ہے۔ تمہاری بڑی بہن کا لڑکا، جو پچھلی گلی میں رہتا ہے ،کرسی پر بیٹھا ہے۔ اس کا سر کرسی کی پشت سے لگا ہوا ہے ، چہرہ چھت کی طرف ہے اور آنکھیں بند ہیں۔ تمہاری ماں بھی تخت پر بیٹھی اخبار پڑھ رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سب خبرنامے کے بعد آنے والے کسی پروگرام کا انتظار کررہے ہیں۔ اس خیال کے آتے ہی تمہارے ذہن میں امید کی ایک کرن چمکتی ہے کہ شاید اس سے اگلا افسانہ زیادہ اچھا ہو۔

باورچی خانے سے تمہاری بیوی کی روٹی پکانے اور چھوٹے لڑکے کو ٹیسٹ کی تیاری کرانے کی آواز آرہی ہے، تمہارا لڑکا زور زور سے کوئی قرآنی آیت یاد کررہا ہے، گھر کے باقی لوگ کہاں ہیں اس کا تمہیں کچھ پتہ نہیں۔

تم بہت جلد اس منظر ، اپنے لڑکے اور خبرنامہ کی آوازوں سے گھبرا جاتے ہو اور کہانی کی طرف پلٹتے ہو۔ کہانی کے ورق پلٹتے ہوئے تم اس کے بارے میں اپنی تمام توقعات بھول چکے ہوئے ہو۔ اب یہ بھی تمہاری عام سی زندگی کا حصہ بن چکی ہے۔ افسانہ نگار جب اپنے دلکش اور رومانی انداز میں منظر کشی کرتا ہے تو تم کو اپنے ٹی وی کے کمرے کا سماں محسوس ہوتا ہے جب وہ اس ماسٹر اور وڈیرے کی لڑکی کے درمیان عشق و محبت کا ذکر کرتا ہے تو تمہیں لگتا ہے کہ تمہاری بیوی باورچی خانے میں بیٹھی روٹیاں پکا رہی ہے اور جب وہ کھیتوں کے لہلہانے اور چڑیوں کے چہچہانے کا ذکر کرتا ہے تو تم کو لگتا ہے کہ تمہارا چھوٹا لڑکا کوئی قرآنی آیت یاد کررہا ہے۔

لیکن تمہاری توقعات کے بر خلاف کہانی کا منظر اوراس کا بہاؤ بدل چکا ہے۔ ماسٹر کے گھر کے حالات بدل رہے ہیں۔ لیکن تم کو اس تبدیلی کا احساس نہیں ہے۔ ماسٹر کو وڈیرے کی لڑکی کے حسن اور معاشرے میں اس کی حیثیت سے عشق ہوا تھا اور وہ وڈیرے کی لڑکی ماسٹر کے متعلق ایک عظیم دانشور اور ایک سچا اور انسانیت سے محبت کرنے والے انسان کے تصورات لے کر آئی تھی۔ پھر ان کے درمیان رومان کا جادو ختم ہوتا چلا گیا تھا ، مگر تم کو اس بات کا احساس نہیں۔

ماسٹر اور اس کی بیوی کے درمیان رشتے کی نوعیت بدلنے کے ساتھ ساتھ کہانی کا منظر بدل جاتا ہے۔ چڑیوں کے گانے میں خوشی کے بجائے غم آجاتا ہے، پر تم کو اب بھی لگتا ہے کہ جیسے تمہارا چھوٹا لڑکا کوئی آیت یاد کررہا ہوگا۔ گاؤں کے لوگوں کا رویہ بھی بدل گیا ہے۔ شروع میں ان کے اظہار اور ملن میں جومسرت تھی وہ اب باقی نہیں رہی۔ لیکن تم کو اب بھی وہ اپنے گھر کے ٹی وی کے ناظرین کی طرح معلوم ہوتے ہیں۔

پھر ایک روز ماسٹر کی بیوی بھاگ جاتی ہے۔ تم اس قصے کو پڑھتے ہو لیکن بات تمہاری سمجھ میں نہیں آتی۔ تم کسی صورت بھی یہ تصور نہیں کرسکتے کہ تمہاری بیوی روٹیاں پکاتے پکاتے گھر چھوڑ کر بھاگ جائے۔ تم کو دو بارہ یہ کہانی فلمی محسوس ہونے لگتی ہے۔ ماسٹر کے دل کے غم اور اس کی ویرانی سے تمہیں کوئی ہمدردی نہیں ہوتی۔ وڈیرے کی لڑکی تم سے اتنی ہی دور ہوتی ہے جتنی تمہارے محلے میں کسی مکان کی چھت پر کھڑی ہوئی لڑکی۔

اب تم کو اس کہانی سے کوئی لگاؤ نہیں۔ تم اسے دوبارہ نیچے رکھ دیتے ہو۔

گیلری کے باہر کا منظر اب تک نہیں بدلا ہے ، تم دوبارہ وہاں جاکر کھڑے ہوجاتے ہو... لیکن یہ کیا... یہ باہر کیاہورہا ہے... تم دیوار کی جالیوں کے نیچے چھپ جاتے ہو۔

سامنے والے مکان کی چھت پر اس لڑکی کے ساتھ تم کو کسی اور کی پرچھائیں بھی نظر آتی ہے۔ تمہارا دل زور زور سے دھڑکنے لگتا ہے۔ اس شخص نے لڑکی کو اپنے آپ سے چپکایا ہوا ہے اور وہ اس کے ہونٹ چوس رہا ہے۔ ’’ یہ کیا فحاشی ہے... ‘‘ گیلری کی جالیوں کے پیچھے چھپے ہوئے تم زور سے اپنا گلا صاف کرتے ہو تا کہ وہ ان حرکتوں کو روکیں۔ لیکن وہ ایک لمحے کے لئے تمہاری گیلری کی طرف دیکھتے ہیں اور پھر دوبارہ ایک دوسرے میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ تم کچھ دیر ان کے ہٹنے کا انتظار کرتے ہو پھر اپنا سا دل لئے کمرے میں واپس آجاتے ہو۔

اس وقت تمہارا دل سخت زخمی ہے۔ تمہیں محسوس ہورہا ہے کہ اب زندگی میں امید کی کوئی کرن باقی نہیں بچی۔ اس کہانی کے بارے میں سوچ کر تمہیں اپنا دل مزید ڈوبتا ہوا محسوس ہوتا ہے تم اسے اور نہیں پڑھ سکتے۔

پھر تم کتاب اٹھا کر اس کے ورق پلٹ کر اگلی کہانی پر پہنچ جاتے ہو اس امید میں کہ شاید وہ تمہارے دل کے ان زخموں پر مرہم پٹی کرسکے۔ یہ کہانی ادھوری چھوڑ دیتے ہو۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں