بدھ، 24 جون، 2020

ننگی ڈکیت


آصف فرخی کی نذر
جو میری کراچی کے روزمرہ اور انڈرورلڈ کرداروں کی کہانیوں کے خاص مداح تھے۔

[یہ کہانی ایک سچے واقعے پر مبنی ہے، جو کسی نے مجھے سنایا۔ کہانی میں کسی جگہ یا شخص کا نام تبدیل نہیں کیا گیا، کیونکہ اس حمام میں تو سب ہی ننگے ہیں۔]


نشہ زندگی کی ضرورت ہے، میں نے بھی بہت نشے کئے ہیں۔ لیکن جو نشہ دوپہر کی نیند میں ہے، شاید ہی کسی اور چیز میں ہو گا۔ اور اگر اس میں کوئی خلل ڈال دے، تو اُس سے بڑا چراندی کوئی نہیں ہوتا۔

اس روز میں بہت گہری نیند سو رہا تھا۔ کہ اُدھر زور زور سے گھنٹی بجنے لگی۔ کچھ دیر تو بالکل سمجھ نہیں آیا کہ کیا ہو رہا ہے، پھر جیسے تیسے اٹھ کر گیا، اور دروازہ کھولا، تو عابد تھا۔ شکل اسکی بالکل ہونق ہو رہی تھی۔ جیسے کوئی بہت بڑی واردات ہو گئی ہو۔

”کیا ہوا؟… خیریت ہے؟…“، میں نے پوچھا۔ لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ وہ سیدھا اندر گھسا، اور باہر بالکنی کی طرف جا کر نیچے جھانکنے لگا۔ پھر پلٹا اور مجھے بلانے لگا۔ ”جلدی آئیں ڈاکصاحب، جلدی، وہ دیکھیں… وہ دیکھیں…“
بہت جذبات میں آیا ہوا تھا۔

خیر میں کیا کرتا، اپنی درد کرتی ٹانگ کو لے کر، لنگڑاتا ہوا چلا بالکنی کی طرف، اور نیچے جھانکا۔ تو نیچے تو کوئی ایسی خاص بات نہیں تھی، وہ ہی تھا جو
روز ہوتا ہے۔ ادھر میرے برابر عابد کہے جا رہا تھا، ”وہ دیکھئے… وہ دیکھئے، وہ جا رہی ہے…“۔

”کون جا رہی ہے؟… کیا ہے یہاں پر؟“۔ میری کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔

”وہ دیکھئے نا… وہ ہے ڈاکصاحب… ُادھر… وہ جا رہی ہے، رنڈی کی بچی… وہ برقع پہن لیا ہے اس نے، وہ ایڈجسٹ کر رہی ہے اسے اب… بھڑوی“۔ بہت جذبات اور غصے میں تھا۔

میں نے ذرا آگے ہو کر جھانکا۔ تو ایک لڑکی، الٹے ہاتھ پر، ایک بلڈنگ چھوڑ کر مین روڈ کی طرف جا رہی تھی۔ پیٹھ ہماری طرف تھی، اور اپنے برقعے کو کچھ درست کر رہی تھی۔

”اچھا، تو کیا ہوا پھر؟ کیا کیا اس نے؟…“۔

”ارے ڈاکصاحب، ڈکیت ہے وہ ایک نمبر کی، سالی…“

”اچھا؟…“ حیریت کم، اور بےیقینی زیادہ تھی اب مجھے اس کی بات پر۔ میں تھوڑا پیچھے ہٹ گیا۔ وہ لڑکی مین روڈ تک پہنچ گئی تھی۔ اسکو تکتے رہنے کا کیا فائدہ تھا۔ میں واپس اندر کی طرف آنے لگا۔

”آ جاؤ اندر چل کر بیٹھیں“ میں نے اس سے کہا۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں اسکی طرح ایکدم سے جذباتی نہیں ہوا تھا، شاید اس لیے وہ تھوڑا مایوس سا لگ رہا تھا۔ اب میں اس سے کیا کہتا کہ کیسا ٹنُ سو رہا تھا کہ آکر اس نے کباب میں ہڈی ڈالی۔ اور اب لگا تھا کسی رنڈی ڈکیت کے راگ الاپنے۔

میں آکر اندر اپنی گول میز کی کرسی پر بیٹھ گیا، جس جگہ میں ہمیشہ بیٹھا کرتا تھا۔ وہ خاموش کھڑا رہا۔ ”آؤ، بیٹھ جاؤ…“ میں نے آخر کار اس سے کہا۔
”قسم سے ڈاکصاحب، آج ایسا واقعہ ہوا… میں تو ہل گیا بری طرح سے…“ یہ کہتے ہوئے وہ کرسی کھینچ کر بیٹھا، اور جیسے کہ کچھ یاد آیا ہو، اچھل کر ایکدم کھڑا ہوا اور اپنی پتلون کی بیلٹ میں ہاتھ ڈال کر اڑاسی ہوئی بوتل نکالی۔ ”یہ میں نے لی تھی آپ کے لئیے، قسم سے بالکل بھول گیا تھا…“ یہ کہتے ہوئے اس نے ڈرائی جن کا پائینٹ میز پر رکھا اور دوبارہ بیٹھ گیا۔

چلو۔ میں نے سوچا۔ کچھ تو لایا ڈھنگ کی چیز۔ نہیں تو بلا وجہ احمق آدمی نے نیند کے لسن لگا دیے تھے۔ اب وہ میری طرف دیکھ کر گردن ہلا رہا تھا۔ ”قسم سے ڈاکصاحب آج تو مجھے بھی ضرورت ہے…“
”اچھا!…“ اب میں واقعی حیران تھا۔

”ایمان سے ڈاکصاحب… آپ کو تو معلوم ہے، چھوڑ دی ہے میں نے… بالکل بھی ہاتھ نہیں لگاتا ہوں ۔ آپ کو تو معلوم ہے نا… لیکن آج چاہئے مجھے… قسم سے… بال بال بچا ہوں… کیا بتاؤں… بتاتا ہوں ابھی“ یہ کہہ کر وہ تھوڑا رکا، آنکھ بند کر کے سوچا اس نے کچھ، پھر بولا ”اچھا ایک پیگ بنا دو… ایمان سے… بس… اسکے بعد نہیں مانگوں گا۔ صرف ایک چاہیے آج، بس۔ ایمان سے سین ایسا ہوا آج، دماغ بھننوٹ ہوا وا ہے بالکل۔“

اور میں بھی حیران ہوا تھا۔ عابد نے واقعی کئی سال سے چھوڑی ہوئی تھی، یہ مجھے معلوم تھا۔ بیٹھتا تھا ہمارے ساتھ محفل میں۔ اپنے پیسوں سے خرید کر بھی لا دیتا تھا۔ لیکن خود کبھی ہاتھ نہیں لگاتا۔ ”ہاں ہاں، بالکل… پیئو… پیئو۔ لیکن ہوا کیا ہے آج۔ یہ واقعہ تو بہت سنگین معلوم ہوتا ہے۔“

” بتاتا ہوں، بتاتا ہوں…“ یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گیا۔ اسکو اب پیگ کا انتظار تھا۔ میں اٹھا گلاس وغیرہ نکانے۔ مجھے بھی اطمینان سا ہوا تھا، کہ چلو دوسرے نشے کا بندوبست تو ہو گیا، نیند ماری گئی تو کیا۔ چند منٹ میں پیگ بنا کر اسکے سامنے رکھ دیا۔ اور اس نے گہری سوچ میں پیگ اٹھا کر منہ سے لگایا اور ایک کرخت سی شکل بنائی۔ جس سے لگتا تھا کہ واقعی بہت زمانے سے شراب کو منہ نہیں لگایا تھا۔ اب اپنی گردن کو زور سے دو جھٹکے دے کر وہ بولا، ”سچ بول رہا ہوں ڈاکصاحب۔ کتنے سالوں سے اسے منہ نہیں لگایا ہے…“

”ہاں مجھے پتہ ہے۔ تو بتاؤ ، ہوا کیا آج؟“

”بتاتا ہوں…“، اس نے دوسرا گھونٹ لیا ”بتاتا ہوں… دماغ کو ذرا ایک جگہ تو روک پاؤں… ایمان سے ایسا میں آج بچا ہوں… “ اب اس نے گلاس رکھ دیا، ”ایمان سے ڈاکصاحب، اتنے زمانے بعد پی ہے… کمال ہے بالکل۔“ گلاس کی طرف اشارہ کیا ”تو میں آج شیریں جناح کالونی کی طرف گیا تھا، تھوڑا کام تھا ذرا۔ واپسی پر سوچا کہ آپ کی طرف چکر لگا لوں، بہت دن ہو گئے… اور کچھ لے بھی لوں آپ کے لئے، اس کو بھی بہت دن ہو گئے۔ تو میں ادھر، بدر کمرشل والی دکان کی طرف چلا گیا۔ وہاں سے نکلا ہی تھا کہ یہ لڑکی کھڑی تھا… اب آپ کو تو پتہ ہے… یہ تو کمزوری ہے میری۔ شراب تو چھوڑ دی، لیکن اس کام کو کیسے چھوڑ سکتا ہوں۔ یہ تو معلوم ہے نا آپ کو۔ تو روک دی اس سے ذرا آگے جا کر گاڑی۔“ یہ کہہ کر وہ رکا، اور ایک گھونٹ لیا۔

”پیسے شروع میں اس نے زیادہ مانگے… پانچ ہزار، میں نے کہا، دیکھ تو سڑک پر کھڑی ہے، تیرا تو کوئی اوپر کا، یا نیچے کسی بھڑوے کا خرچا تو نہیں ہے نا، پھر بھی اتنے زیادہ پیسے مانگ رہی ہو؟ پھر تھوڑی بات چیت کے بعد میں نے دو ہزار میں راضی کرا لیا اس کو۔ بیٹھ گئی آ کر وہ گاڑی میں…“

اب نشے میں آتا جا رہا تھا کچھ کچھ۔ میں دیکھ رہا تھا اسے کافی غور سے۔

”تو اب میں لے کر اسے نکلا ہوں… بمشکل سو فٹ آگے گیا ہوں گا، کہ کہنے لگی مجھ سے وہ، کہ دیکھو پورے پانچ ہزار دے دو۔ میرے بھائی کا آپریشن ہے، مجھے چاہیے پیسے اسکے لئے۔ تو مطلب کہ سو فٹ بھی آگے نہیں گئے ہوں گے ابھی ہم، اور شروع تھی اپنا ڈاکہ ڈالنے میں…
تو میں بولا اس سے، کہ دیکھ ابھی تو تجھ سے پیسے کی بات ہوئی ہے، اور ابھی تُو پھر گئی اس سے؟ رنڈی تو تھی وہ پہلے سے، تو اور کیا بولتا میں آگے۔“ یہ کہہ کر اس نے ایک اور گھونٹ لیا، اور شروع ہو گیا پھر سے۔

”اصلی رنڈی رونا تھا ڈاکصاحب اسکا۔ بھائی کا آپریشن ہے، اوپر سے اور پیسے دے دو۔ ابے ایدھی سینٹر جا نا پھر، میری گاڑی میں کیوں چڑھی ہے؟

میں اس وقت ۲۶ اسٹریٹ پر پہنچ رہا تھا۔ بولتی ہے… یہ دیکھو نا، کتنے اچھے ہیں، میں کام ڈبل کروں گی، بالکل، بس پیسے دے دینا پورے… میں نے اسکی طرف دیکھا۔ وہ اپنے برقعے کے بٹن کھول رہی تھی… آگے سے بٹنوں والا برقع پہنا ہوا تھا اس نے۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کر رہی ہے۔ اور ایک ہی منٹ لگا ہو گا، اپنا پورا برقع اتار کر سائیڈ میں رکھ دیا اس نے۔

اب میں اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اندر سے تو وہ ٹائٹ تھی ٹھیک ٹھاک۔ ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی، چُست، بدن سے چپکی ہوئی، اور جینز۔ میں دیکھ ہی رہا تھا اُسے ، کہ وہ بولی، دیکھو پیسے مجھ کو چاہیئے فوراً۔
کیا مطلب فوراً؟ ابھی چلو، فلیٹ پر تو چلو، دے دوں گا۔
نہیں پیسے تم مجھے ابھی دو، یہاں پر، چلیں گے اسکے بعد پھر فلیٹ میں۔
اب شروع ہو رہی تھی وہ فل بدمعاشی پر اترنے۔ لیکن اس طرح تو میں اُسے گاڑی میں ایک ٹکا نہیں دینے والا تھا۔
دیکھو پیسے سارے تو نہیں ہیں میرے پاس… تم سے بات جو ہوئی ہے، وہ میں سارے تم کو دے دوں گا، فلیٹ پر پہنچتے ہی۔
پیسے ابھی دو، میں چلوں گی اسکے بعد تمھارے ساتھ… بگڑ رہی تھی اب سالی۔

مجھے لگا کہ وہ پیسے لئے بغیر نہیں چلے گی میرے ساتھ۔ اور پیسے مجھے اس کو دینے نہیں تھے اس طرح۔ شہباز کے سگنل سے پہلے میں نے گاڑی روک دی۔ میرا خیال تھا کہ پیسے اگر نہیں دوں گا تو وہ اتر جائے گی۔
یہ کیا کر رہے ہو، اس نے پوچھا۔
بھئی دیکھو، پیسے نہیں ہیں اس وقت میرے پاس دینے کو۔ فلیٹ پر تم چل نہیں رہی ہو، تو پھر ٹھیک ہے۔
ایک سیکنڈ کے لئے وہ پریشان ہوئی۔ پھر فوراً بولی، لیکن میرے بھائی کا آپریشن ہے آج، مجھے پیسے چاہیے…
اچھا،… کیا آپریشن ہے؟ میں نے اس سے پوچھا۔ یہ بھی اسکا کمال کا رنڈی رونا تھا۔
بولی۔ میرے چھوٹے بھائی کا، بائیک سے ایکسیڈنٹ ہوگیا، کل۔
اوہ ہو، یہ تو بہت برا ہوا۔ لیکن میں کیا کروں اب؟

وہ میری شکل تک رہی تھی، کچھ سہمی ہوئی بھی لگ رہی تھی۔ ڈری نظر سے اس نے اپنے دروازے کی طرف دیکھا۔ میں تاڑ گیا کہ اترنا نہیں چاہ رہی۔ میں نے سوچا کہ کچھ نہ بولوں، انتظار کروں۔ پھر وہ واپس میری طرف پلٹی، اور مجھے لگا کہ جیسے سارا ڈر خوف اتار پھینکا ہے۔ بولی، دیکھو پیسے مجھے پورے چاہئے اور ابھی چاہیے۔ پھر چلوں گی میں تمھارے ساتھ فکر مت کرو، پیسے دو۔
میں خاموش رہا اب بھی۔

اس نے دوبارہ دروازے کی طرف دیکھا، اور پھر پلٹی۔ یہ دیکھو میں سچ بتا رہی ہوں، جھوٹ نہیں بول رہی تم سے… یہ کہہ کر اس نے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اپنی ٹی شرٹ اوپر کی، ایک سیکنڈ کو وہ گردن میں اٹکی، پھر اتر گئی۔

میرا منہ ایکدم حیرت سے کھل گیا۔ یہ کیا کر رہی ہو؟ دماغ صحیح ہے تمھارا؟ ویسے اندر بریزر تو پہنا ہوا تھا اس نے۔ لیکن مجھے بالکل یقین نہیں آرہا تھا جو میں دیکھ رہا تھا۔

ڈاکصاحب، سچ بولوں، پھٹ کر ہاتھ میں آ گئی، یعنی کہ دماغ بالکل شنٹ ہو گیا کہ پتہ نہیں کس قسم کے حرامی پن میں پھنسنے جا رہا ہوں۔ یہ تو کچھ اور ہی کیس لگا اب مجھ کو۔“خاموش ہو گیا اب عابد دو سیکنڈ کے لئے، گھونٹ لیا، اور میری آنکھوں میں گھور کر دیکھا۔

”ڈاکصاحب، بہت دنیا دیکھی ہے میں نے، لیکن قسم سے سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایسا میرے ساتھ کبھی ہو گا۔

پورے پانچ ہزار چاہیے، بولی وہ اب۔ باہر کی طرف دیکھ رہی تھی دوبارہ۔ پھر پلٹی میری طرف۔ یہ دیکھو، یہ دیکھو، پورا کام کروں گی تمھارے ساتھ۔ اور اس بار وہ اپنا بریزر کھول رہی تھی۔

ابے نہیں، ابے نہیں، تو اب یہ نہیں کرے گی۔ میں نے بھی اسکا ہاتھ پکڑ لیا ڈاکصاحب۔ بہت ہو چکا حرامی پن۔ مروا دینا تھا اس بھڑوی نے مجھے۔ اتنے سارے لوگ جانتے ہیں مجھے، کاروبار ہے، عزت ہے۔ دو سیکنڈ میں برباد کر دینا تھا اس رنڈی نے۔ میں نے زور سے ہاتھ دبایا اسکا۔ تاکہ کچھ تکلیف بھی ہو سالی کو۔

اب چیخی۔ چھوڑو ہاتھ، چھوڑو۔ چھوڑ دیا میں نے۔ دیکھ سدھر جا ، سب میری سمجھ میں آ رہا ہے کہ تو کیا کرنا چاہ رہی ہے۔ پہن کپڑے، بن جا انسان۔ ویسے تو میں اگر چاہتا تو دھکا دے کر اسے باہر نکال سکتا تھا۔ لیکن کچھ دل سا آ گیا تھا اس پر، بڑی ہمت تھی سالی میں۔ اور سب سے بڑی غلطی کی میں نے۔ وہ خاموش تھی اب۔ گاڑی بھی رکی ہوئی تھی۔ اسکی گود میں رکھی ٹی شرٹ کی طرف میں نے اشارہ کیا اور بولا، پہن اس کو، انسان بن، ورنہ ابھی دھکا دے کر گاڑی سے باہر کروں گا۔

اثر ہو گیا اس پر، اور خاموشی سے ٹی شرٹ پہنے لگی۔ پھر بولی، اچھا مجھے پیسے ابھی دو سارے، مجھے چاہیے ابھی۔
اچھا ابھی دوں… اور تو چمپت ہو گئی پھر؟
نہیں بھاگوں گی۔ بولتی ہے۔ ٹی شرٹ پہن لی اس نے۔
میں نے گاڑی چلا دی، مگر جواب کوئی نہیں دیا۔ آگے سگنل پر خیابانِ شہباز پر مڑ گیا۔ تھوڑی دور ہی گیا ہوں گا کہ وہ پھر پیسے مانگتی ہے۔ ابے نہیں ہیں میرے پاس، پہنچ کر سب سے پہلا کام یہ ہی کروں گا… تو میری بات مانتی کیوں نہیں؟
ٹریفک تھا روڈ پر ذرا، میرا ایک سیکنڈ کو دھیان بٹا ہو گا، کہ مل گیا اس سالی کو موقع۔ پھر اتار دیا اسنے سب۔
یہ دیکھو نا، کتنے اچھے ہیں یہ…

تب میں نے اسکی طرف دیکھا۔ اس بار بریزر بھی اتار چکی تھی۔ تھے تو واقعی اچھے…“، مسکرا رہا تھا عابد، لیکن رکا نہیں۔ ”مگر میں نے تو اپنا سر پیٹ لیا۔ ابے پاگل ہو گئی ہے۔ مروا دے گی بالکل، یہاں بہت لوگ جانتے ہیں مجھے۔ دیکھ لیا کسی نے مجھے تو؟ اور شاید وہ یہ ہی چاہتی بھی تھی۔ تاکہ نکال دوں میں اسکے لئے پیسے، وہ بھی جتنے مانگے وہ۔ اتنے آرام سے یہ نہیں ہونے دینا تھا میں نے۔ یہ لو، یہ ڈالو اوپر سے۔ میں وہ اسکا برقعہ اٹھا کر اس کے سینے پر رکھنے لگا۔ دیکھ، یاد رکھنا کہ اگر میں تیری وجہ سے کسی مسئلے میں پھنسا، تو خیر نہیں ہو گی تیری پھر۔ بچے گی نہیں میرے ہاتھوں سے تو پھر۔ میری دھمکی کام کر گئی شاید۔ اور اس برقعے کو رکھا رہن دیا اس نے وہاں۔

ارے میں تو دکھا رہی تھی تم کو صرف، کتنے اچھے ہیں یہ، کتنا مزہ آئے گا تمھیں جب… ارے لیکن بھائی تم نے تو خود ، دن دھاڑے مجھے اٹھایا، تو اب یہ کیسے اپنی عزت کی وجہ سے پھٹ رہی ہے تمھاری… پیسے میں تم سے مانگ رہی ہوں زیادہ، اور مجھے واقعی پیسے چاہیے زیادہ، تو اس کے لئے کام بھی تو کر رہی ہوں۔ یہ دیکھو نا… ہنس بھی رہی تھی سالی اب۔

بھڑوی نے پھر سے برقعہ سائڈ پر کر دیا۔اور اب اپنے سینے کو ہلا کر دکھا رہی تھی۔ بائو لی تھی پوری۔ ابے تُو تو بالکل پاگل ہے، تو دیکھ نہیں رہی کہ ہم لوگ سڑک پر جا رہے ہیں، اگر کسی نے دیکھ لیا تو؟

وہ تمھارا مسئلہ ہے… بس پیسے دے دو… مجھے تو ویسے بھی سارے ایک ہی طرح دیکھتے ہیں، چاہے کپڑے پہنوں یا نہیں۔ یہ دیکھو نا، کتنے اچھے ہیں۔

ڈاکصاحب ، اُس کو کوئی فکر نہیں تھی کہ سڑک پر ہی ننگی ہو جائے۔ سچ بتا رہا ہوں۔ ایمان سے میری تو آج ایسی ڈبری ٹائٹ تھی کہ کبھی نہیں ہوئی، بیوی بچے ہیں میرے، خاندان ہے پورا، اس ہی علاقے میں رہتے ہیں۔ کوئی دیکھ لیتا اس ننگی کے ساتھ تو پھر کیا ہوتا؟ “

عابد واقعی ٹینشن میں آیا ہوا تھا۔ اس نے ایک اور گھونٹ لیا۔ اور خاموش رہا کچھ دیر۔ میرے دل میں آیا کہ میں بھی اس سے پوچھوں کہ اگر اتنی ہی اپنی عزت کی فکر تھی تو اٹھایا کیوں تھا لڑکی کو اس علاقے میں۔ لیکن پھر میں نے سوچا کہ میں خود تو اگلے وقتوں کا پروفیسر ہوں، کتابی انداز میں سوچتا ہوں، یہ ہنسے گا مجھ پر، کہ ڈاکٹر صاحب پتہ نہیں کس اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ اپنے انداز سے سوچتا تھا، یہ حرکتیں تو اس کا روز کا معمول تھیں۔ لیکن آج برا پھنسا تھا استاد۔ اب پھر شروع تھا۔

”آگے سگنل بند تھا… قسم سے ڈاکصاحب، ایسی برائی پر برائی آئی تھی آج۔ اگر رکتا سگنل پر، اسکی چمکتی دمکتی چھاتیوں کے ساتھ تو پھر تو نا لگ جاتے لسن…“ ہنس رہا تھا خود بھی۔

” کیا کرتا، پھر منتیں کر رہا تھا اسکی، اور کیا۔ ابے ڈال لے کوئی کپڑا، کیا فائدہ ہو گا اس طرح سے… ہم دونوں پھنسیں گے۔ لیکن اس سالی کو تو پیسے چاہیے تھے، اور مجھ پر پریشر ڈال رہی تھی ہر طرح سے۔ دیکھ سگنل بند ہے آگے۔ رکنا پڑے گا۔ لیکن اس پر کیا اثر ہونا تھا۔

سگنل پر رکنے کا تو اب سوال ہی نہیں تھا۔ وہ تو شکر ہے کہ سامنے سے ٹریفک زیادہ نہیں تھی۔ سگنل توڑا، اور سیدھی ہاتھ کی طرف جو نشاط ایوینیو والی روڈ ترچھی نکل رہی تھی، اس پر لے لیا گاڑی کو۔ نسبتاً کم ٹریفک ہوتا ہے اس پر۔

بلکہ ڈاکصاحب، سنسان ہی پڑی ہوئی تھی اس وقت۔ اب میں نے سوچا کہ چلو گاڑی روکو اور دھکا دو اسکو باہر۔ سالی کا کوئی بھروسہ نہیں تھا کہ کیا کرے گی اگر میں اسکو لے کر چلوں اوپر۔ ابھی میں نے گاڑی ذرا آہستہ ہی کی کہ،… ڈاکصاحب سوچو کیا کہا ہو گا اس نے؟“، مجھے دیکھتا ہوا مسکرایا، کہ جیسے میرے جواب کا منتظر ہو۔

”مجھے کیا معلوم کہ کیا کہا اس نے، تم بتاؤ۔“ رک کر اس نے گھونٹ لیا، پھر سر ہلا کر مسکرانے لگا۔

”کیا بولتی ہے وہ، سوچ سکتے ہو آپ؟… پیسے دے دو، مجھے پیسے چاہیے جلدی سے، بھائی کا آپریشن ہے… یہ جگہ ٹھیک ہے، ادھر ہی کر لو ہیپی اینڈنگ؟ “

" کیا؟ ہیپی اینڈنگ( happy ending)، یہ کیا ہوتا ہے؟ “ اب میں نے اسکو روک کر پوچھا، میری بھی سمجھ میں نہیں آیا۔

وہ شروع تھا۔ "بولتی ہے… ارے اتنا نہیں پتہ… ہیپی اینڈنگ… ارے وہ جو فلم میں ہوتی ہے… تم مجھے فلیٹ میں لے کر جائو گے، پھر کیا کرو گے؟…سالی اب ریکارڈ بھی لگا رہی تھی میرا، بس اس ہی کی کمی تھی۔
یہ دیکھو، بس پیسے دو پورے اور ادھر ہی، ہیپی اینڈنگ کر لو… سڑک بھی یہ کتنی سنسان ہے۔
اب وہ سالی اپنی پتلون اتار رہی تھی۔ پاگل تھی، پوری پاگل، الو کی پٹھی۔ ابے یہ کیا کر رہی ہے پھر سے۔ ادھر کیسے ہو گا یہ۔ ابے تو تو سالی مروائے گی، بلکہ اندر بھی کروا دے گی۔
جینز وہ نیچے گھٹنوں تک کر چکی تھی۔ اب اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنی ران پر دھر دیا۔ ارے…ڈاکصاحب…

دیکھو، پیسے دے دو نا۔ ادھر ہی کام بھی کر لو۔ اب سالی کہہ رہی تھی۔ اور ڈاکصاحب، ایسا میرا دماغ گھوم رہا تھا۔ سوچنے سمجھنے کی ساری طاقت نے جواب دے دیا۔ ہم دونوں ایک ساتھ تھمبو ہونے جا رہے تھے۔ مطلب، رنڈیاں ہوتی ہیں، میں نے بہت دیکھی ہیں۔ لیکن اتنی دلیر آج تک نہیں دیکھی۔ رنڈی تھوڑی تھی، وہ سالی تو ڈکیت تھی۔ پوری ڈکیت۔ بلکہ ننگی ڈکیت۔“

ہنس رہا تھا وہ۔ ایک گھونٹ لیا اس نے چھوٹا سا، ختم ہونے والا تھا اسکا پیگ۔ میں اسے غور سے دیکھ رہا تھا۔ فتح اور شکست، ایک ہی بات کے دو نام لگ رہے تھے مجھے۔

شیطانی مسکراہٹ اسکے چہرے پر اب کھیلنے لگی۔ ”اب دماغ تو میرا نہیں کام کر رہا تھا، لیکن ہاتھ تو کر رہا تھا۔ تو وہ خود سے، اسکی ران پر، اوپر کی طرف سرکنے لگا“ اور ایک زور دار قہقہہ لگایا عابد نے، ”ایسی رنڈی تھی سالی کہ ہاتھ اب روک دیا اس نے۔ بولتی ہے، پہلے پیسے دو۔ اور اب چونکہ دماغ نے کام کرنا بند کر دیا تھا، تو دوسرا ہاتھ پتلوں کی جیب میں گیا، اور اس میں جو نوٹ پڑے تھے وہ نکال کر اسُے دے دیے۔ کوئی دو تین سو روپے ہوں گے۔ وہ پکڑ کر بولی، یہ کیا ہے، اور دو۔

میں بولا، ابے جتنے پیسے پڑے تھے وہ دے دیے تجھے، ابھی اور نہیں ہیں، تو یہ ہی پکڑو۔ بولی، ان میں کام کیسے ہو گا۔ میں نے کہا، میں کونسا پوری ہیپی اینڈنگ کروں گا۔ جتنا مال اتنا سین۔ اور میں نے ہاتھ تو اچھی طرح پھیرا سالی پر۔

اب وہ ایک ٹوٹے ہوئے چہرے سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ بولی، مجھے تو پیسے سارے چاہیے۔ ضرورت ہے اشد مجھے۔

میں نے کہا، دیکھ، میں تجھے کیسے سمجھاؤں، ایک تو تو نے گاڑی میں بیٹھتے ہی پیسے ڈبل کر دیئے، اور کہتی ہو کہ ابھی دو، اور کپڑے اتار رہی ہو۔ نہیں دیئے پیسے تو پھنسوا دو گی مجھے۔ میں نے گاڑی روک دی اب۔ وہ مجھے دیکھتی رہی اور بولی، ادھر ہی کر لو نہ کام۔ مسکین لگنے لگی پھر ایکدم سے۔ ترس سا آ یا پھر مجھے۔ ویسے تو میں اسے وہیں پر گاڑی سے دھکا دے دینے کا سوچ رہا تھا۔ پتلون ابھی تک گھٹنوں پر تھی اسکی، اوپر بھی کچھ نہیں تھا، بس برقعہ پڑا تھا کندھوں سے۔

پیچھے والی سیٹ پر چلو، یا میں آ جاؤں تمھاری سیٹ پر، بولی۔ بالکل پاگل تھی، ذرا بات بھی اسکی سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ نہیں، میں نے اب سیدھا اس کو جواب دیا، یہاں سڑک پر کچھ نہیں ہو گا، چلنا ہے تو فلیٹ پر چل…
ٹائم نہیں ہے میرے پاس اتنا، ٹائم بہت لگ جائے گا اس میں۔

تو ٹھیک ہے، پھر نہیں ہو سکتا، جاؤ تم۔ میں نے اسے بولا اور اشارہ کیا دروازے کی طرف۔ اس نے پھر دروازے کی طرف دیکھا اور پھر سے ڈر اور مسکینی اس کے چہرے پر آ گئے۔

دیکھو، مجھے پیسے چاہیے، میری مدد کر دو، تم جو کہو گے میں کر دوں گی، بس اس وقت ٹائم نہیں ہے میرے پاس۔ پلیز مجھے پیسے دے دو، مجھے اس طرح مت اتارو۔

دیکھ، اور پیسے نہیں ہیں میرے پاس اس وقت، جو تھے تجھے دے دیے۔ میرا اس پر سے اعتماد بالکل اتر گیا تھا۔

تو کہیں سے کر دو۔ دیکھو میں تمہیں واپس بھی کر دوں گی۔ بھروسہ بھی کر لو میری بات کا۔ میں نہیں ہوں اتنی بری، جیسا تم سمجھ رہے ہو۔ اب بات کر رہی تھی وہ بھروسے کی… سالی۔ بس مجھے جان چھڑانی تھی اُس سے، اور وہ بھی اس طرح کہ کسی شور شرابے یا ہڑابڑی کے سین کا موقع نہ مل پائے۔ تو میں نے اس سے کہا، ایسے تو میں کدھر سے پیسے لا کر دوں تجھے۔ میرے پیسے تو فلیٹ میں پڑے ہیں۔ اگر بولتی ہو تو چلیں ادھر۔

ادھر اُدھر دیکھا اس نے تھوڑا پریشان ہو کر۔ بولی، بس پیسے لا دو مجھے، دیر ہو گئی ہے۔ جانا ہے بس اب۔

ٹھیک ہے، تو چلو، اور یہ ذرا اوپر کچھ ڈال لو۔ میں نے اسکے سینے کی طرف اشارہ کیا۔ اُدھر مارکیٹ ہے، لوگ ہوں گے۔ اور پھر مزید راستے میں کوئی ڈرامہ نہیں ہوا، بیٹھی رہی خاموش۔

یہاں پہنچ کر میں نے نیچے گاڑی کھڑی کی، اور بند ہی کرنے والا تھا، کہ اسکا ہاتھ بڑھا اسٹیرنگ کی طرف۔ اور میں پلک جھپکنے سے پہلے سمجھ گیا۔ جھٹ میں نے، اسکا ہاتھ پہنچنے سے پہلے، گاڑی کی چابی پکڑ لی۔ اور دوسرے ہاتھ سے اس کو پکڑ کر پیچھے دھکا دیا۔ سالی، یہ نہ سمجھ، بہت سیانڑی بنتی ہے، اگر میں چاہوں تو دو منٹ لگیں گے تجھے ٹائٹ کرنے میں۔ ابھی مجھے پہلی بار صحیح کا غصہ آیا تھا اس پر۔ لیکن وہ بھی چپ نہیں ہونے والی تھی۔ بولتی ہے، مجھے یہاں بیٹھا کر، اب تو خود شارٹ ہونے جا رہا ہے… چابی ادھر دے، میرے پاس، واپس آئے گا پھر لے لے… دیکھو مجھے چاہئے پیسے اس دقت، ابھی، میرے بھائی کا کیا ہو گا… تیری کنپٹی پر ٹی ٹی رکھ دی ہوتی، تو تیرے لئے بہتر ہوتا۔

ریشان تھی وہ شکل سے۔اور پھر اس نے چابیوں پر ایک اور جھپٹا مارنے کی کوشش کی، لیکن میں ایسا بھی کچا نہیں۔ میں نے اسکے ہاتھ روکے، بولا، ہاں تجھے دے دوں چابی گاڑی کی، تاکہ اگلی واردات تو اس پر کرے۔ اب وہ میرے ہاتھ پکڑ کر مجھے اترنے سے روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔ نہیں، تو نہیں جائے گا… چابی ادھر دے پہلے۔

ویسے ڈاکصاحب، ایک لڑکی کے حساب سے تو اس میں ٹھیک ٹھاک طاقت تھی، لیکن مججھے کیسے روک سکتی تھی۔ تو بیٹھ اب، آیا میں، ایک سیکنڈ میں۔ یہ کہہ کر میں نے ایک چھلانگ لگائی۔ اور اس طرح چلا کہ واقعی دو سیکنڈ میں آوں گا، اور مزید دو چار کو ساتھ لاوں گا۔ اور الٹا اس سالی کو تھمبو کروں گا۔“

اب عابد خاموش ہو گیا۔ میز پر رکھے اپنے گلاس کو دائیں بائیں جھولا دے رہا تھا، اور کچھ سوچ رہا تھا۔
پھر میں نے اس سے کہا، " تو دے دیتے کچھ پیسے اس کو، کیا پتہ کہ سچ بول رہی ہو۔“
خاموش رہا۔ پھر بولا، " ارے نہیں ڈاکصاحب، رنڈی تھی وہ … بلکہ ڈکیت، ننگی ڈکیت۔“

یہ کہتا ہوا وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اور پیگ کو اوپر اٹھا کر اسکی طرف اشارہ کیا ۔ "بس ڈاکصاحب، اﷲ کرے کہ اب کئی سال تک مجھے اسکی ضرورت نہ پڑے“۔

"کیوں ایسا کہہ رہے ہو… پیو… اور پیتے رہو۔ نشے کی تو ہر حساس آدمی کو ضرورت ہوتی ہے… بس کنٹرول میں رکھو… تم تو پورے مولوی بن جاتے ہو…“۔

"ہا ہا…“، ہنسا وہ "ویسے ٹھیک کہہ رہے ہو ڈاکصاحب، اتنی بہت ساری تکلیفوں کو بھلانے کے لئے کچھ نہ کچھ تو چاہئے۔ اور مولوی گیری کا اپنا ایک الگ نشہ ہے… اُن کو بھی دیکھا ہے بہت۔ لیکن مجھ سے یہ سب نہیں چلتا، میں اپنا ایک الگ کرتا ہوں۔ اب دیکھو نہ، کس چکر میں پھنسا آج …“۔ یہ کہتے ہوئے وہ پھر ہنسا اور آخری گھونٹ کو حلق میں انڈیل کر بولا، "ویسے ڈ اکصاحب، وہ ننگی ڈکیت مجھے لوٹنے آئی تھی، لیکن میں نے الٹا اُسے لوٹ لیا۔ صرف دو سو روپے میں پورا ہاتھ پھیرا“۔ اور قہقہ لگاتے ہوئے وہ پلٹا، اور فلیٹ کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔

اب مجھے کسی تیسرے نشے کی ضرورت تھی۔

ہفتہ، 22 اپریل، 2017

جانور کہیں کا


عبداللہ کے پیٹ سے دوبارہ آواز آئی۔

’’ چپ کر حرام زادے، اس وقت کچھ نہیں ہے میرے پاس، تیرے لئے‘‘۔ اس نے اپنے پیٹ سے کہا۔وہ میدان کے کونے میں، کوڑے کے ڈھیر پر کھڑا، ردّی کاغذ جمع کررہا تھا۔
اس نے دیکھا کہ کچھ آگے ایک ہیروئنچی بیٹھا پیشاب کررہا ہے۔
’’بھاگ حرام زادے۔ کتے کی اولاد... جہاں دیکھو بیٹھ کر پیشاب کرنے لگتا ہے... تیرے باپ کی زمین ہے کیا ؟‘‘ساتھ ہی ایک پتھر کھینچ کر ہیروئنچی کے مارا۔
ہیروئنچی پتھر سے بچ گیا ۔ لیکن گھبرا کر اس نے بھاگنے کی کوشش کی۔پر چونکہ پیشاب اس وقت جاری تھا، اس لئے زیاہ دور نہیں جا پایا۔ دو چار قدم آگے بڑھ کر دوبارہ بیٹھ گیا۔
عبداللہ کو اسُ کا پیشاب میں اٹھ کربھاگنا بہت مضحکہ خیز لگا۔ایک زور دا ر قہقہہ لگایا ’’ جانور کہیں کا...‘‘ اور دوُر سے دو تین پتھر اٹھا کر اور مارے۔ کوئی بھی نشانے پر نہیں لگا، ہیروئنچی وہیں بیٹھا پیشاب کرتا رہا۔ لیکن ہر پتھر پر کمر اس طرح موڑتا جیسے بچنے کی کوشش کررہا ہو۔ عبداللہ اس کی لہراتی کمر کا ناچ دیکھتا رہا اور ہنستا رہا۔
کچھ دیر میں ہیروئنچی اٹھ کر ازار بند باندھنے لگا۔ عبداللہ کو زور زور سے گالیاں دیں اور پتھر مارے۔ عبداللہ نے اپنا ردّی بھرا بورا اٹھایا اور بھاگا... ہیروئنچی نے اس کا پیچھا نہیں کیا۔
میدان سے نکل کر وہ سڑک پر آگیا۔ کونے پر ایک اور کوڑے کا ڈھیر تھا۔ وہاں کھڑا ہو کر کاغذ چننے لگا۔ کچھ دیر میں اس کا بورا بھر گیا۔ آج اس کا بورا خاصی جلدی بھر گیا تھا۔ خیال تھا کہ آج ایک پھیرا اور لگا پائے گا ، یعنی رات کی فلم پکی۔
اسی خیال میں مگن وہ تیز تیز سڑک پر چلا جارہا تھا کہ اس کی نظر ایک دکان پر پڑی۔ شیشے کے دروازے پر فلموں کے پوسٹر لگے تھے۔ ایک پوسٹر میں ہیرو اور ہیروئن ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے ہونٹ سے ہونٹ ملا رہے تھے۔ ایک اور پوسٹر مادھوری ڈکشٹ کا تھا۔ جس میں وہ سرخ لباس پہن کر رقص کررہی تھی۔ وہ مادھوری کی تصویر میں کھوگیا۔
یکا یک اسے بریک لگنے کی آواز آئی ، کوئی چیز اس سے آ کر ٹکرائی اور پھر اس نے اپنے آپ کو سڑک پر لڑکھتا ہوا پایا۔ شکر تھا کہ معمولی چوٹ آئی ۔ وہ اپنا جسم جھاڑتا ہوا اٹھا تو ایک موٹر سائیکل والا کھڑا اس پر چیخ رہا تھا۔
’’ اندھا ہوگیا ہے کیا ... راستہ دیکھ کر نہیں چلتا ‘‘
اب عبداللہ بے چارہ کیا کرتا ، وہ تو مادھوری دیکھ کر چل رہا تھا۔ لیکن وہ خاموش رہا اور موٹر سائیکل والا بک بک کرتا رہا۔
’’ مرنے کا اتنا شوق ہے تو کسی پل سے چھلانگ لگا دے ... جانور کہیں کا۔‘‘
’’ جانور کہیں کا ...‘‘ عبداللہ نے یہ الفاظ اپنے ذہن میں دہرائے۔ اسے خیال آیا کہ ابھی وہ اس ہیروئنچی کو یہی کہہ رہا تھا۔ ’’خیر ...اب دوبارہ میری باری ہے کسی کو یہ کہنے کی۔‘‘ اس نے اپنے دل میں سوچا۔
جب وہ مکانوں کی آخری قطار پر پہنچا جہاں سے کچی آبادی شروع ہوتی تھی اور جہاں اس کا گھر تھا ، تو اس نے اپنے چھوٹے بھائی کو گلی میں کھیلتے پایا ’’کمال ہے آج سلیم نیکر پہنے ہوئے ہے... آج ماں کو بڑا خیال آگیا۔‘‘ اس نے دل میں سوچا۔
دو قدم آگے چل کر وہ اپنی آباد ی کے میدان میں داخل ہوگیا۔ میدان میں ایک جانا پہچانا ٹرک کھڑا تھا، لیکن اس کی طرف زیادہ دھیا ن نہیں دیا۔ اپنی جھونپڑی کے دروازے پر پہنچا تواس نے دروازہ بند پایا، اور تب اس کی سمجھ میں آیا۔
’’ او ہو... یہ حرام زادہ پھر آیاہوا ہے۔‘‘
جھونپڑی کے اندر سے کسی مرد اور عورت کی باتیں کرنے کی آواز آرہی تھی۔ جس حرام زادے کی طرف عبداللہ کا خیال گیا تھا وہ اس کا سوتیلا باپ تھا جو ٹرک چلاتا تھا اور زیادہ وقت شہر سے باہر دور دراز کے چکر لگاتا تھا۔ اس کا اپنا باپ کون تھا یہ اسے نہیں معلوم تھا اور نہ ہی اس کے بارے میں اس نے کبھی سوچتا تھا۔
اب جب تک سوتیلا باپ اس کی ماں کے ساتھ رہے گا، اس کی ماں چھوٹے کی طرف توجہ زیادہ دے گی ۔ ’’ چلو اس میں بھی کیا برائی ہے۔ اس بورے کے پیسے تو میری جیب میں آئے۔‘‘ یہ سوچ کر وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا کباڑی کی دکان کی طرف چل دیا۔
بورے کی ردّی کے اسے پچاس روپے ملے۔ ابھی صرف دوپہر ہوئی تھی۔ شام تک وہ ایک اور بورا بھر سکتا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ دوسرے بورے کو بھی ماں سے بچالے۔ اس لالچ میں وہ دوبارہ نکل پڑا۔
شام کو جب میدان میں داخل ہوا تو اس کی ماں اور سوتیلا باپ باہر بیٹھے ہوئے تھے۔دل ہی دل میں اس نے اپنی قسمت کو گالی دی۔
اس کی ماں نے چیخنا شروع کیا ’’ شام کا یہ ٹائم ہوگیا ہے اور ابھی تک تو نے صرف ایک بورا بھرا ہے ...تو روز بروز کام چور ہوتا جارہا ہے‘‘ پھر اس نے سوتیلے باپ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’ دیکھ اس کو ... صرف گھر بیٹھا روٹیاں توڑتا ہے... کام کرنے بھیجو تو ایک بورا بھر کر لاتا ہے ،صبح سے۔‘‘
سوتیلے باپ نے بھی اسے سخت سست کہنا شروع کیں۔ عبداللہ اداس سا چہرہ بنائے کھڑا رہا۔یہ باتیں اس کے لئے معمولی تھیں۔ پھر سوتیلے باپ نے کہا۔
’’ اب کھڑا منہ کیا دیکھتا ہے۔ جا ،جا کر کباڑی کو بیچ کر آ۔ اس سے پہلے کہ وہ دکان بند کردے... جانور کہیں کا...‘‘
’’ جانور کہیں کا! ...جانور کہیں کا!‘‘ عبداللہ نے سنااور اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ اب دوسری دفعہ کسی نے اس کے لئے یہ الفاظ استعمال کئے تھے اور ابھی تک اس کو کسی پر بدلہ اتارنے کا موقع نہیں ملا تھا۔
غصے کے مارے اس کے جی میں آیا کہ اپنے سوتیلے باپ پر چیخنا شروع ہوجائے۔ ’’جانور کہیں کا ... جانور کہیں کا‘‘ لیکن پھر اس کا وہاں رہنا مشکل ہوجاتا،کسی طرح اپنے غصے کو قابو میں رکھا اور تیزتیز قدم اٹھاتا ہوا کباڑی کی دکان کی طرف بڑھنے لگا۔
کباڑی نے اس کا بورا تولا اور صبح کی طرح اس کو پچاس روپے نکال کر دینے لگا۔ لیکن عبداللہ نے کہا ’’ ٹھیک سے تول ... یہ پورے ستر کا مال ہے۔‘‘
کباڑی بولا ’’ صبح بھی تو ایک بورا لے کر آیا تھا ، اس کے بھی تو پچاس روپے بنے تھے۔‘‘
’’ لیکن اس میں کاغذ زیادہ ہے ...تیرا ترازو خراب ہے ... اس کے ستر روپے بنیں گے۔‘‘
’’ ارے لڑکے زبردستی ہے کیا ؟‘‘
’’ ایک تو چور بازاری کرتا ہے، اور اوپر سے اڑی دکھاتا ہے ... تیرے سارے دھندے پتا ہیں مجھ کو... اس بستی میں کیاصرف کباڑ کی کمائی ہے تیری۔ سارے میں اعلان کردوں گا تیرے کالے دھندے کا۔‘‘ عبداللہ کباڑی پر بری طرح چیخ رہا تھا۔
کباڑی خاموش رہا اور اس کے بدلتے تیوروں کا اندازہ لگانے لگا۔
’’ پورے پیسے نکال …… ورنہ ……‘‘
کباڑی نے عبداللہ کے غصے کا مزید امتحان لینا مناسب نہیں سمجھا۔ ویسے بھی وہ ان لوگوں سے خاصا منافع کمالیتا تھا۔ خاموشی سے بیس روپے اور نکال کر عبداللہ کو دے دیئے۔
عبداللہ نے پورے ستر روپوں کو اپنی مٹھی میں دباتے ہوئے زور سے کہا ’’ جانور کہیں کا...‘‘ اور تیزی سے دکان سے باہر چلا گیا۔
عبداللہ کے کلیجے میں کچھ ٹھنڈک پڑی۔ لیکن ابھی بھی ایک ادھار اُسے چکانا تھا۔
واپس آکر اس نے ماں کے ہاتھ میں چالیس روپے رکھے۔ ماں نے اس سے کہا ’’ صرف چالیس روپے ملے ؟‘‘
’’ ہاں کاغذ ہلکا تھا …… بھاؤ بھی آج کل کم ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ میدان سے باہر نکل گیا۔
80 روپوں نے اس کی جیب کو خاصا گرم کیا ہوا تھا۔ اب سوال یہ تھا کہ تفریح کا کیا بہانہ نکالا جائے۔ ابھی وہ میدان سے نکل کر گلی کے کونے تک آیا تھا کہ پان والے کی دکان پر اُسے کریم کھڑا ہوا نظر آیا۔
’’ اور استاد کیا ہورہا ہے۔‘‘ عبداللہ نے کریم سے کہا۔
’’ کچھ نہیں یار۔ بس ایسے ہی کھڑا ہوں‘‘
’’ کیا پروگرام ہے آج شام کا ...کچھ کرنے کا موڈ ہے۔‘‘ عبداللہ نے پوچھا۔
’’ کیا کرسکتے ہیں ...صرف پانچ روپے ہیں جیب میں۔‘‘ کریم نے بور منہ بناکرجواب دیا۔
’’پانچ روپے ہیں... تو ایک سگریٹ پلاؤ ... باقی سارا حساب کتاب اپنے باس پر چھوڑ دو۔‘‘
کریم نے دو سستے برانڈ کے سگریٹ خریدے اور دونوں سگریٹ پینے لگے۔
’’ اور کوئی شغل میلہ چل رہا ہے آس پاس۔‘‘ عبداللہ نے پوچھا۔
’’ بنگالی پاڑے میں کوئی انگلش فلم لگی ہوئی ہے ...سنا ہے کافی ٹھیک ٹھاک سین ہیں اس میں ... یا اگر تھوڑی دور جانے کا پروگرام ہے تو ذرا آگے ہیجڑوں کا شو بھی چل رہا ہے.. جو چیز باس کو زیادہ گرم کرے۔‘‘
عبداللہ نے سکون کے انداز میں جواب دیا۔ ’’ دونوں کرتے ہیں۔‘‘
سب سے پہلے انہوں نے گٹکا خریدا اورکلے میں دبا کر بنگالی پاڑے کی طرف چلے۔
گٹکے کے نشے میں دونوں نے وہ انگریزی فلم دیکھی۔ کریم نے ٹھیک کہا تھاکافی گرما گرم سین تھے اس میں اورفائیٹنگ کا تو جواب نہیں۔
عبداللہ نے کہا۔ ’’ مزہ آگیا یار... کیا ہیروئن تھی ...یہ سالی ہمارے ملک کی عورتیں ایسی کیوں نہیں ہوتیں... یہ سالا ملک... عورتیں بھی جعلی ہیں یہاں کی‘‘ عبداللہ خاصے موڈ میں تھا۔
انہوں نے ڈبل پتی کے پان اور سگریٹ دوبارہ خریدے اور مجرے کی طرف چلے۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ اندر جانے کا ٹکٹ بیس روپے کا ہے۔ عبداللہ نے اپنی جیب ٹٹولی تو پتہ چلا کہ اس کے پاس صرف ستائیس روپے باقی بچے ہیں۔
اس نے گیٹ والے سے بڑی التجا کی ’’ بھائی دو ٹکٹ دے دے ۔ ستائیس روپے کے‘‘
’’ دو ٹکٹ تو چالیس کے آئیں گے...تیرا اور لاؤ۔‘‘
’’ اور نہیں ہیں ابھی ... کل لادوں گا۔‘‘
’’ کل لاؤ گے …… تو پھر شو بھی کل دیکھنا‘‘۔
’’ دیکھو تم سے تمیز سے کہہ رہا ہوں ...پھر بعد میں نہیں کہنا کہ میں نے آرام سے بات نہیں کی۔‘‘ عبداللہ کچھ انداز بدل کر بولا۔
’’ ابے لڑکے... چل بھاگ یہاں سے ...پیسے نہیں ہیں تو شو کیسے دیکھے گا۔‘‘ گیٹ والا عبداللہ کے رعب میں نہیں آیا۔
’’ اچھا یہ بات ہے ...جانور کہیں کا۔‘‘ عبد اللہ نے نہایت تحقیر سے کہا۔
پھر اگلے ہی لمحہ اس کا غصہ آپ ہی آپ اتر گیا۔ شو نہ دیکھ پانے کا دکھ بھی ختم ہوگیا۔ اس کو لگا کئی من بوجھ اس کے دل سے ہٹ گیا ہے۔ اور ادھار تمام چکُ گئے ہیں۔ اس نے خاموشی سے کریم سے کہا ’’ چل یار نکل، کل آئیں گے۔‘‘
عبداللہ دل میں بہت خوش تھا۔ ’’ واہ یار کیا فٹ کرکے بدلہ اتارا ہے‘‘ اب تمباکو کا نشہ اس پر اور زیادہ اثر انداز ہورہا تھا۔ ایک فقیرنی کواس نے آپ سے پانچ روپے دے دیئے۔ کریم نے جب اس کی طرف کچھ حیرت سے دیکھا تو اس نے جواب دیا۔ ’’ غریب لوگ ہیں... موج کرلیں گے ... ان کا بھی کبھی کبھی خیال کرلینا چاہئے۔‘‘
ابھی وہ موڑ مڑ کر تھوڑی ہی دور گئے ہوں گے کہ انہوں نے دیکھا کہ آگے ایک پولیس کی موبائل کھڑی ہوئی ہے اور پولیس والے تلاشی لے رہے ہیں۔ یہ عام سی بات تھی، عبداللہ نے اس کی طرف بالکل دھیان نہیں دیا۔
لیکن پھر اچانک اس نے دیکھا کہ پولیس موبائل کو دیکھ کر کریم الٹے قدم واپس بھاگ گیا۔ اس کی سمجھ میں بالکل نہیں آیا۔ ابھی وہ کریم کی طرف حیرت سے دیکھ ہی رہا تھا کہ پولیس والے اسُ تک آگئے۔ انہوں نے کریم کو بھاگتا ہوا دیکھ لیا تھا۔
’’ یہ کون تھا... ایک نے کریم کے بھاگنے کی سمت اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔
’’ کریم‘‘
’’ کریم ؟... تو کیسے جانتا ہے‘‘
’’ اس لئے کہ وہ میرے علاقے میں رہتا ہے۔‘‘
’’ تم کون ہو ؟‘‘
’’ عبداللہ ... لیکن ہوا کیا ہے ؟‘‘ عبداللہ نے سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے پوچھا۔
’’ ہوا کیا ہے ؟... ایک تو دہشت گردوں کے ساتھ پھرتے ہو اور اوپر سے پوچھتے ہو ہوا کیاہے ... بتاؤ کیا کررہے تھے تم لوگ اسُ طرف؟‘‘ پولیس والے نے گرج کر پوچھا۔
عبداللہ کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ ابھی وہ خوفزدہ نظرو ں سے پولیس والے کو تک ہی رہا تھا کہ ایک اور نے اس کی تلاشی شروع کردی۔ اور اس کی جیب میں جو بائیس روپے ملے، وہ نکال کر اپنی جیب میں رکھ لئے۔
اس پر عبداللہ ایک دم پریشان ہو کر چیخنے لگا۔ ’’ میرے پیسے واپس کرو ...میرے پیسے واپس کرو۔‘‘
لیکن پولیس والے نے جواب دیا۔ ’’ ابے ... ایک تو علاقے میں دہشت گردی کرتا ہے اور اوپر سے کہتا ہے تیرے پیسے ہیں یہ... خیریت چاہتا ہے تو دفعان ہوجا یہاں سے۔
عبداللہ خاموش ہو کر کھڑا ہوگیا۔
’’ جاتا ہے کہ لے جاؤں تھانے تجھے۔‘‘
عبداللہ ا ب بھی کھڑا رہا۔
’’ بھاگو یہاں سے... اس بارپولیس والا زور سے چلایا۔ عبداللہ پلٹا۔ اور ابھی اس نے دو تین قدم ہی لئے ہوں گے کہ اس پولیس والے نے اپنی کلاشنکوف کی نال اوپر کی اورایک فائر کیا۔
گولی عبداللہ کے سر میں سے ہوتی ہوئی نکل گئی۔ اس کی کھوپڑی کے پرخچے اڑُ گئے ۔ عبد اللہ اس وقت اس پولیس والے کے اتنے قریب تھا کہ خون کے چند چھینٹے پولیس والے کی آستین پر بھی آئے۔
پولیس والا پریشان ہوکر پیچھے کی طرف ہوا اور اپنی آستین جھاڑتے ہوئے اس نے کہا ، ’’ جانور کہیں کا... سالا...‘‘

پیر، 15 جون، 2015

چچا عاشق حسین


تمہاری نظریں تو ان اوراق پر ہیں ، لیکن سوچتے میرے بارے میں ہو۔ ’’ افسانہ نگار کے ذہن میں کیا کیا کچھ ہوگا جو اس نے یہ افسانہ لکھا ہے؟ یہ پوری کہانی کیا واقعی اس کے روبرو پیش آئی تھی؟ یا محض اس کے دماغ کی ایجاد ہے۔ ‘‘ کہانی لکھنے والے کے اتنے وسیع تجربے سے تم متحیر ہو۔ اس بات نے تمہیں دنگ کیا ہوا ہے کہ ایک شخص کی زندگی میں اتنے بہت سے اور مختلف واقعات پیش آئے ہیں۔

میرے دوست اگر میں تم سے سچ کہوں تو ایسا کچھ نہیں ہے۔ یہ میرے تخیل کی پرواز نہیں ہے جو تمہیں دنگ کئے رکھتی ہے بلکہ تمہارے اپنے خیالات کا نیرنگ ہے۔ آؤ آج میں تمہاری سوچ کی ان گرہوں کو کچھ سلجھاؤں ، لیکن پہلے اصلی کہانی تو پڑھتے چلو۔

============


’’ نام تو ان کا کاشف حسین تھا ، لیکن گلی کے تمام لڑکے چچا عاشق حسین کہا کرتے تھے۔ نہ جانے یہ نام کب پڑا تھا ، یا کس نے رکھا تھا۔ لیکن جب سے میں اس محلے میں آکر رہ رہا ہوں یہی نام سنتا چلا آرہا تھا۔ ایک مدت تک تو مجھے بھی نہیں معلوم ہوپایا تھا کہ ان کا اصل نام کیا ہے۔ کبھی کبھار مخفف کے طور پر لڑکے صرف ’’چچا‘‘ کا لفظ بھی استعمال کرلیتے تھے۔ لیکن ادائیگی کچھ اس طرح کی ہوتی تھی کہ جیسے اس لفظ میں بھی معنی کی کئی تہیں پوشیدہ ہیں۔

شکل و صورت کے اعتبار سے وہ ذرا بھی ایسے نہیں تھے کہ ان کا شمار خوش شکلوں میں ہوتا۔ نہ ہی حلیہ کسی فلمی ہیرو کی طرح بنا کر رکھتے۔ نہ انداز میں کوئی بانکپن کہ کوئی پلٹ کر ان کے کرتے کے گلے کی طرف دیکھے یا دور سے عطر کی خوشبو آئے۔ عمر کوئی پینتالیس برس کے قریب ہوگی۔ عموماً سفید کرتا پاجامہ پہنتے۔ شلوار قمیض میں کم ہی نظر آتے تھے۔ صبح کام پر جاتے وقت اکثر پتلون قمیض میں ہوتے تھے۔

شروع شروع میں جب میں اس محلے میں آیا تھا، اکثر سوچتا کہ ان کا یہ نام کیوں پڑا۔ عشق و محبت کی ایسی کون سی داستان ان سے وابستہ ہو گی جس نے ان کا نام ہی تبدیل کروا دیا۔ شروع میں ، میں نے سراغ لگانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ ‘‘

============


چلو بھئی لائٹ چلی گئی ...... اب گرمی میں مزید نہیں لکھ رہا ، ویسے تو میرا پروگرام اٹھنے سے پہلے چند پیرا گراف اور لکھنے کا تھا لیکن مجھے معلوم ہے کہ اب ذہن میں کچھ نہیں آئے گا۔ جب لائٹ چلی جائے تو دماغ میں صرف گرمی ہی باقی رہ جاتی ہے۔

اب تمام گھر والے بھی اپنا کام کاج چھوڑ دیں گے ، اورپریشان حال ادھر سے ادھر ٹہلیں گے۔ میراایک کونے میں چین سے بیٹھنا بھی محال ہوجائے گا۔ باہر ابھی تک دھوپ بہت تیز ہے ، چھاؤں کا وقت آنے میں کوئی گھنٹہ بھر باقی ہے۔ اب ایسے میں آدمی کیا کرے۔ یا گھر والوں کے ساتھ ہم زبان ہوکر بجلی کے محکمے کے بارے میں اول فول بکے یا کہیں سے کوئی بات نکال کر سیاست پر بحث شروع کردے۔ یاکوئی خاندانی قصہ لے بیٹھے۔ یا میری طرح کونے میں بیٹھ کر اپنے چہرے پر پنکھا جھلے اور گھر والوں کو یکے بعد دیگرے ان تمام فضولیات میں حصہ لیتے ہوئے دیکھے اور دل ہی دل میں ان احمقوں پر ہنسے۔ خدا یا اگر ایسے گھر والے نہیں ہوتے تو اس تلخ اور بے مصرف زندگی میں میرا دل کیسے بہلتا۔

میری بیوی اب مجھ سے پوچھ رہی ہے کہ اس طرح کونے میں کیوں پڑا ہوں۔ مجھے گرمی نہیں لگ رہی کیا۔ بس ان ہی باتوں کی اسے فکر رہتی ہے۔ بھوک تو نہیں لگ رہی۔ میں نے آپ کے کپڑے استری کردیے ہیں ، آپ کا لنچ بکس تیار ہے ، ایسی ہی باتوں کی اسے فکر رہتی ہے۔ اس کے علاوہ میری ذات سے کوئی سروکار نہیں ہے ، میرے ذہن میں کیا الجھنیں ہیں ، کن خیالات میں سارا وقت ڈوبا رہتا ہوں ، اسے ذرا بھی علم نہیں ہے کہ میں کچھ سوچتا بھی ہوں یا میرا ذہن خالی سائیں سائیں کرتا رہتا ہے۔ اسے یہ معلوم کرنے کی ذرا بھی جستجو نہیں ہے۔رات کو برابر لیٹے دیر تک اس کے خراٹے کی آوازوں سے جاگتا رہتا ہوں ، اور سوچتا ہوں کہ اگر میرا ذہن بھی واقعی سائیں سائیں کی آوازوں سے گونجتا رہتا تو یہ زندگی کتنی شیریں ہوتی۔
اب میں گھر والوں کو مزید برداشت نہیں کرسکتا۔ اٹھ کرباہر جارہا ہوں۔ باہر اوپری منزل کے چھّجے کے نیچے سایہ ہے ، یہاں شاید نسبتا ً سکون ملے۔

گلی میں سناٹا ہے۔ کونے پر دو لڑکے کھڑے باتیں کررہے ہیں ، دونوں کے ہاتھوں میں کتابیں ہیں۔ شاید ٹیوشن پڑھنے جارہے ہوں گے۔ دور سے کسی ٹھیلے والے کی صدا آرہی ہے۔ اس کے علاوہ ہر طرف سکون اور خاموشی ہے۔ یہ میرا محلہ ہے۔ جہاں کچھ نہیں ہوتا۔ یہاں کوئی چچا عاشق حسین نہیں رہتے اور نہ ایسے لوگ بستے ہیں جو کسی عام سے آدمی کو چچا عاشق حسین کا لقب دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔

============


’’ صدیق کی دکان پر پہلی بار ان سے بات کرنے کا موقع ملا۔ کچھ سودا سلف لے رہا تھا کہ چچا آئے اور پوچھنے لگے۔
’’ میاں یہ انڈے کیسے دیئے ؟ ‘‘
میں نے اپنے آپ کو کبھی حاضر جواب نہیں سمجھا ہے لیکن اس وقت نہ جانے گلیوں ، محلّوں کے آداب کا کون سا بھولا سبق یاد آیا اور میں نے جواباً کہا۔ ’’ حضور انڈے تو بیٹھ کر دیتے ہیں۔ ‘‘
میرا اندازہ تھا کہ چچا خاصے متاثر ہوجائیں گے کہ ایک حاضر جواب، رنگین مزاج ، اور کچھ تھوڑا گستاخ لڑکا اس محلے میں منتقل ہوا ہے اور کچھ داد دینے کے اندازمیں ہنسیں گے ، اور پوچھیں گے کہ میں کون ہوں ، کہاں سے آیا ہوں ، یا کم از کم ایسے انداز میں تو جواب دیں گے جس سے ظاہر ہو کہ میں ان کی شاگردی کے لائق ہوں ، لیکن میری توقع کے خلاف چچا نے کسی رد عمل کا اظہارنہیں کیا۔ نہ ان کے چہرے پر کوئی مسکراہٹ پھیلی اور نہ انہوں نے استادانہ شفقت سے مجھے دیکھا۔ شوخی برطرف انہوں نے کسی غصے کا اظہار بھی نہیں کیا ، چہرے کے تاثر میں ذرا سے بھی ردوبدل کے بغیر بولے ’’ میاں میں نے آپ سے نہیں پوچھا۔ میں سمجھ سکتا ہوں کہ آپ بیٹھ کر انڈے دیتے ہیں۔ ‘‘

اس جملے نے مجھے جھنجھوڑ سا دیا ، میری ساری شوخی وہیں دم توڑ گئی ، صدیق دکاندار نے ایک زور دار قہقہہ لگایا۔ میرا دل چاہا کہ وہیں زمین میں گڑ جاؤں ، مزید کسی گستاخی کے لئے میرا حوصلہ جواب دے گیا۔ صدیق دکاندار مجھے ایسے دیکھ رہا تھا کہ گویا کہہ رہا ہو ’’ اور لو چچا عاشق حسین سے پنگا ‘‘ مجھے اپنی شوخی ، یوں قابو میں آتے ہوئے محسوس ہوئی جیسے سزا کے دوران ایک شریر لڑکا عمر بھر کے لئے توبہ کرکے روتا ہے۔

اس کے باوجود چچا کے چہرے پر کسی رد عمل کا اظہارنہیں ہوا۔ صدیق نے ان کو قیمت بتا دی۔ انہوں نے ایک درجن انڈے لئے اور ان کی قیمت ادا کی۔ میں اس دوران یہ سوچتا رہا کہ معافی مانگوں یا پہلو بدل کر کوئی اور شوخی دکھاؤں ، اصل میں ، میں اپنے تعارف کا کوئی بہانہ چاہتا تھا لیکن صورتحال ایسی ہوگئی تھی کہ کچھ کہتے نہیں بن پا رہا تھا۔

جاتے جاتے اسی سادہ سی شکل کے ساتھ جس پر نہ بوریت کے آثار تھے نہ کسی شوخی کے چچا نے کہا ’’ میاں کبھی کھڑے ہوکر انڈے دیجئے گا بھی نہیں ، نیچے گر کر فوراً ٹوٹ جائیں گے۔ تمام محنت اور تکلیف بے فائدہ ہوجائے گی ، انڈے ہمیشہ بیٹھ کر ہی دیجئے۔ ‘‘

صدیق نے ایک اور زور دار قہقہہ لگایا۔ دل تو میرا بھی بے ساختہ ہنسنے کو چاہ رہا تھا لیکن عزت ِنفس نے اس ہنسی کو دبا سا دیا۔ میرا خیال ہے کہ تشنہ سی اس ہنسی نے چہرے کو کھسیانہ بنا دیا ہوگا اور میں پہلے سے بھی زیادہ بے وقوف نظر آیا ہوں گا۔ اب سوچتا ہوں تو پہلے سے بھی زیادہ ہنستی آتی ہے۔

اس واقعہ کے بعد میں چچا عاشق حسین سے خاصا ڈر سا گیا تھا۔ کبھی راستے میں نظر آجائیں تو کوشش کرتا کہ اپنا راستہ بدل لوں یا دوسری طرف دیکھنے لگوں تاکہ ان سے نظریں نہ ملانا پڑیں۔ مجھے نامعلوم کیوں اس بات کا خدشہ لگا رہتا تھا کہ مجھے دیکھ کر وہ پھر انڈے دینے والی بات کا کوئی شوشہ نکالیں گے۔ اور میں محلے کے لڑکوں کے سامنے ذلیل ہوجاؤں گا۔ کبھی وہ رک کر لڑکوں سے باتیں کرتے ہوئے نظر آتے، ایسے میں تو میں اس طرف کا رخ بھی نہیں کرتا۔

میری پوزیشن خاصی عجیب ہوگئی تھی۔ ایک طرف تو میں چچا کے اس دلچسپ نام کے پیچھے چھپی کہانی معلوم کرنا چاہتا تھا اور چاہتا تھا کہ میں ان سے اور ان کی زندگی کے تجربے سے کچھ سیکھ پاؤں ، لیکن دوسری طرف مجبور تھا کہ میں چچا سے دور رہوں، نہیں تو اگر گلی کے لڑکوں کو پتہ چل گیا تو نہ جانے میرا کتنا ریکارڈ لگے گا۔ صدیق نے ابھی تک کسی سے کوئی ذکر نہیں کیا تھا۔ اس پر مجھے حیرت تھی اور دل ہی دل میں اس کا شکریہ بھی ادا کرتا تھا۔ اپنا ریکارڈ لگائے جانے کے تصور سے میں اتنا خائف تھا کہ چچا کی غیر موجودگی میں بھی ان کے متعلق کوئی ذکر نہیں کرتا۔ نہ معلوم کہیں بات سے بات نہ نکل جائے۔ اس صورت میں جیسے جیسے وقت گزرتا گیا چچا کے نام کے راز کے متعلق میری جستجو بڑھتی گئی اور میں طرح طرح کی فرضی وجوہات کا تصور کرتا چلا گیا۔ ‘‘

============


مجھے اپنی بیوی کی عادت اوررویے کے بارے میں کوئی فرضی وجوہات تصور کرنے کی ضرورت نہیں۔ میں اس کے ظاہر اور باطن دونوں سے یکساں واقف ہوں۔ کبھی سوچتا ہوں کہ اگر میں اس کو اتنے قریب سے نہیں جانتا تو ہوسکتا ہے کہ ہمارے درمیان محبت زیادہ ہوتی ، کبھی سوچتا ہوں کہ کسی اور عورت پر ڈورے ڈالنا شروع کردینا چاہئے۔ لیکن اس بار کوشش کروں کہ اس عورت کے بارے میں سب کچھ پتہ نہیں چل پائے۔ ہوسکتا ہے کہ اس طرح ہمارے درمیان محبت برقرار رہے۔

لوگ انسانی نفسیات کے بارے میں اتناشور مچاتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ چند بہت عام اور سادہ باتوں کا ایک مشکل سا نام ہے۔ مسئلہ دراصل یہ ہے کہ انسان ایک دوسرے کو جانتے ہوئے بھی انجان بنے رہتے ہیں۔ کبھی تو میں سوچتا ہوں کہ یہ انسانوں کے مغرور ہونے کی وجہ سے ہے۔ لیکن کبھی سوچتا ہوں کہ اس سے انسانوں کے درمیان محبت بڑھتی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ جن لوگوں کو میں جانتا ہوں ان کو جاننا چھوڑ دوں ہوسکتا ہے کہ اس طرح وہ میرے زیادہ قریب ہوجائیں۔

لائٹ کوئی ساڑھے پانچ بجے آگئی۔ گھر میں واپس آکر دو گھنٹے تک ایک کونے میں قلم پکڑے بیٹھا رہا۔ تین بار مجھ سے کہا گیا کہ ٹی وی پر کوئی پروگرام آرہا ہے، آکر دیکھوں لیکن میں نہیں گیا۔ گھر والوں کو کچھ برا بھی لگا کہ میں ان کے ساتھ کسی تفریح میں حصہ نہیں لیتا ، لیکن میں اس طرح کے بچوں جیسے جذبات کی فکر نہیں کرتا ہوں۔

اس طرح سے قلم پکڑ کر بیٹھنا اور افسانہ لکھنے کے بارے میں سوچنا بہت مشکل کام ہے۔ مجھے اپنا ذہن ایک دم خالی محسوس ہوتا ہے۔ میں کیا لکھوں ؟ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ سامنے والی کھڑکی کو تک رہا ہوں جس کے کونے میں مکڑی نے ایک جالا بنایا ہوا ہے۔ مجھے اپنے ذہن سے سائیں سائیں کی آوازیں آتی سنائی دی ہیں۔ گھبرا کر قلم پھینک دیتا ہوں۔ آوازیں مدھم ہوجاتی ہیں جیسے کہ وولٹیج کم ہو گیا ہو۔ اب میری توجہ ٹی وی کی طرف مبذول ہوگئی ہے کوئی اسٹیج شو آرہا ہے۔ میزبان کسی فلمی ہیروئن سے مخاطب ہے۔ اور پوچھ رہا ہے کہ قوم کی اخلاقی بلندی اور اصلاح کے واسطے فلموں میں کیا کیا چیزیں شامل کرناہمارا فرض بنتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ میرے خالی ذہن کی سائیں سائیں ان آوازوں سے کہیں زیادہ بھلی تھی ، میں دوبارہ قلم اٹھا لیتا ہوں۔

چچا عاشق حسین کون ہے ؟ میں بالکل نہیں جانتا۔ اس کا یہ نام کیوں پڑا ؟ میرے فرشتوں کو بھی خبرنہیں۔ وہ کہاں رہتا ہے ، شاید ایسے ہی محلے میں جہاں میں رہتا ہوں۔ اس محلے کے باقی لوگ کیسے ہیں ؟ شاید ایسے ہی جیسے اس محلے کے ہیں۔ ہاں البتہ یہاں مجھے آزادی ہے کہ اپنی من مانی کرتے ہوئے افسانے میں ایسے کردار شامل کروں جو اصلی نہ ہوں ، نہ سہی، لیکن قاری کے واسطے اسی محلے سے ملتا جلتا اور کہیں زیادہ دلچسپ سماں پیدا کردیں۔ چچا عاشق حسین کے کردار سے قاری کی کبھی ملاقات نہیں ہوئی شاید اسی لئے وہ یہ افسانہ پڑھ رہا ہے۔
اب میری بیوی مجھے کچھ سودا سلف لینے کے لئے بھیج رہی ہے۔ کیونکہ میں گھر کا واحد شخص ہوں جو ٹی وی دیکھ کر اپنا قیمتی وقت استعمال نہیں کررہا۔ اس منطق کے بوجھ تلے مجھے جاناہی پڑے گا اور میں بھی چاہتا ہوں کہ میرا وقت سود مند کاموں میں استعمال ہو۔ کاش پرچون کی دکان پر ایسا شخص مل جائے جو سننا چاہتا ہو کہ میں بیٹھ کے انڈے کیوں دیتا ہوں۔

============


’’ چچا عاشق حسین سے میں ڈرتا ہی رہا۔ حالانکہ کوئی ایسی بات نہیں ہوئی تھی۔ اس روز انہوں نے مجھ پر صرف میری اوقات واضح کی تھی۔ نہ کوئی تحقیر کی اور نہ غصے سے مجھ پر برسے تھے، نہ اس کے بعد انہوں نے کبھی کوئی ذکر کیا۔ اور نہ ہی کوئی بیر رکھا۔ صدیق دکاندار نے بھی کسی سے ذکر نہیں کیا۔ ورنہ آج محلے سے انڈے دینے کی کئی فرمائشیں آرہی ہوتیں۔ میں خود نہیں سمجھ پایا تھا کہ میرے اتنے زیادہ خوفزدہ ہونے کی وجہ کیا تھی۔

پھر رفتہ رفتہ میں اس واقعہ کو بھولتا گیا اور محلے کی دیگر دلچسپیوں نے مجھے اپنی طرف کھینچنا شروع کردیا۔ یا یوں کہوں کہ میں کوشش میں لگ گیا کہ یہ دلچسپیاں مجھے اپنی طرف کھینچیں۔ محلے کی مختلف کھڑکیوں کوتکنا ، معاملے کی مناسبت سے ان میں چھوٹے کاغذوں یا لمبے لمبے صحیفوں پر پیغام لکھ کر اچھالنا ، ان کوششوں میں شامل تھے۔ ان کاموں کے لئے سب سے موزوں وقت بھری دوپہر کا ہوتا تھا۔ اس وقت یہ لوگ اپنے اپنے اسکول یا کالج سے لوٹتے تھے۔ گھر والے سو رہے ہوتے تھے اور گلیاں سنسان ہوتی تھیں۔ ایسے میں گلی کے نکّڑ پر کھڑے ہو کر یا چوراہے سے دھوپ میں دوپٹے یا چادر سے لپٹے ہوئے ان کے تمتاتے ہوئے چہرے کو دیکھنا۔ پھر نظر جھکا کر انہیں سلام کرنا۔ اگر وہ سہم جائیں تو آنکھوں کے اشارے سے باور کرانا کہ ہم دیکھ رہے ہیں ، اپنے گھر کے دروازے تک وہ باحفاظت اور بے خطر ہو کر جاسکتی ہیں۔ پھر اس بات کو یقینی بنانا کہ وہ گیٹ میں داخل ہوتے ہوئے ایک بار پلٹ کر ہماری طرف دیکھیں ، اور ہم آنکھوں ہی آنکھوں میں ان سے کہیں ’’ اس میں شکریے کی کیا بات ہے ؟ ‘‘

لیکن بات اس آخری مرحلے تک کئی مشکلوں اور ناکامیوں کا سامنا کرنے کے بعد پہنچتی تھی۔ اور ایک دفعہ یہاں تک معاملہ پہنچ جائے تو اس کے بعد بھی کئی کٹھن اور دشوار منزلیں طے کرنی ہوتی تھیں۔ میں آج تک اس بساط کے آخری خانے تک ایک بار بھی پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوپایا تھا۔

یہ کھیل مجھے ایک دم سانپ اور سیڑھی کے کھیل کی طرح لگتا تھا۔ جس میں خانہ خانہ کرکے آپ اپنی گوٹ کو آگے بڑھائیں لیکن راستے میں کوئی اژدھا بیٹھا ہو جو یکبارگی میں آپ کی گوٹ کو نگل جائے اور آپ پھر جیتی ہوئی بازی کو ازسر نو شروع کریں۔ چچا عاشق حسین کی دوستی میں اس لئے چاہتا تھا کہ وہ اس کھیل میں ایک سیڑھی کی طرح نظر آتے تھے ، جو گوٹ کوایک ہی جست میں ۱۰۰ (سو ) نمبر والے خانے تک پہنچا دے۔ لیکن میری قسمت کہاں کہ ایسی سیڑھیوں کا سہارا ملتا۔ میں نے آج تک جس سیڑھی پر بھی قدم رکھا تھا وہ کمبخت اژدھا ہی نکلی تھی۔

اس کھیل کے ان اصولوں کے ساتھ ساتھ پانسا پھینکنے اور چال چلنے کے اوقات بھی وابستہ تھے۔ دوپہر یا سہ پہر کو جو چال چلی جاتی اس کا نتیجہ عام طور پر شام کو دیکھنے کو ملتا۔ جب وہ لوگ اپنے گھر والوں کے ساتھ ہوا کھانے چھت پر آتے یا گلی کے طول و عرض کو عبور کرکے کسی سہیلی کے گھر کے گیٹ میں داخل ہوتے۔ اس وقت میں دھڑکتے دل کے ساتھ اس بات کا اندازہ لگانے کے درپے ہوتا کہ میری گوٹ کو کوئی اژدھا نگل گیا ہے یا وہ کسی سیڑھی پر سے ہوتی ہوئی کئی منزل اوپر پہنچ گئی ہے۔ لیکن اصل آزمائش تو میرے اندازے کی ہوتی تھی ایک راہ شناس دوست کی طرح صحیح اندازہ ، بیڑے کو پار لگا دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اب آپ اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ گوٹ کو اژدھا نگل گیا ہو اور میں اس بارے میں غلط اندازہ لگائے بیٹھا ہوں تو ایسے کھلاڑی کا کیا بنے گا؟

یہ تھے اس کھیل کے اصول۔ ان کے سامنے میں عاجز تھا۔ میری تمام قوت ان اصولوں میں ہلکا سا خم بھی پیدا نہیں کرسکتی تھی ، چنانچہ عموماً ناکامی ہی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ لیکن یہ ناکامی کبھی ناامیدی کا باعث نہیں بن پائی تھی۔ جہاں میں ان اصولوں میں ردوبدل پیدا نہیں کرسکتا تھا وہاں دنیا کی کوئی طاقت مجھے ایک وقت میں کئی گوٹیں کھیلنے سے بھی نہیں روک سکتی تھی۔ یوں ان گوٹوں کے مدوجزر میں میرا دل بہلا رہتا۔ چچا عاشق حسین میرے لئے کوئی حقیقی تعبیر نہیں بن پائے تھے۔ اس لئے میں بیک وقت اتنے خواب دیکھتا تھا کہ حقیقی نہ سہی ، فرضی چچا ہی سے کام بنتا رہے۔

پھر ایک شام میں فٹبال کا میچ کھیل کر گھر لوٹ رہا تھا ۔ اور صحیح اندازہ کرنے کی مشق میں مصروف تھا کہ مجھے چچا نظر آئے۔ میں چونک سا گیا۔ میں نے آج تک انہیں ایسی حالت میں نہیں دیکھا تھا ، آنکھیں لال ، چہرہ سوجا ہوا ، اور حواس باختہ ، میری سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کہیں سے رو کر آرہے ہیں، یا انہیں کیا ہوا ہے ؟‘‘

============


اب اس کے آگے کیا لکھوں ؟ چچا عاشق حسین کا کردار قاری کے واسطے تو ایک معمہ ہے ہی میرے لئے بھی ایک مشکل گرہ بن گیا ہے۔ اس گرہ کو میں کس طرح سلجھاؤں ؟ اس کو کھول کر کن نتائج تک راہیں ہموار کروں ؟ میرے وہم و گمان میں بھی ان سوالات کا جواب نہیں۔ ایسے کردار سے نہ میں پہلے کبھی ملا ہوں اور نہ کبھی کسی کتاب میں اس سے مشابہت رکھنے والے کسی اور کردار کا مطالعہ کیا ہے۔ ہاں البتہ گلی کوچوں میں اس سے ملتے جلتے لوگوں کا ذکر ضرور سنا ہے۔ لیکن ایک بازاری زبان میں جہاں ا یسے کیریکٹر کا ذکر کرنے کا مقصد فحش نگاری کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا۔ ایک ایسا منظر کھینچا جاتا جہاں ایسے شخص کا نہ کوئی گھر ہوتا ہے نہ کوئی رشہ ناتہ، نہ محلے میں اس کی کوئی عزت ہوتی ہے نہ معاشرے میں کوئی رتبہ۔ اس کی فحش اورمہمل حرکات پر قصیدے باندھے جاتے ہیں۔ اور یوں بیان کیا جاتا ہے کہ عاشق مزاجی اور شوخی نے آج تک اس سے بلند چوٹی نہیں چھوئی اور یہ کہ ایسا کردار ہمارے معاشرے کی عین حقیقت ہے۔ اس زبان کو میں کس طرح اپنے افسانے میں استعمال کروں اور ایسے کردار کو کیونکر جگہ دوں۔

کھانا کھا کر میں چھت پر ٹہلتا رہا اور ان ہی خیالات میں الجھا رہا۔ اس رات آسمان پر تارے خاصے نظر آرہے تھے۔ میں ان میں سے ایک ایسے تارے کو ڈھونڈ رہا تھا جو سب سے زیادہ روشن تو نہ ہو لیکن آسمان سے نظریں ہٹا لینے کے بعد صرف وہی ایک ستارا تخیل کے پردے پر جھلملاتا رہے۔

دو مکان چھوڑ کر ضمیر صاحب کی لڑکیاں بھی چھت پر موجود تھیں۔ شہر کی رات کے نیم تاریک اندھیرے میں یوں محسوس ہوتا تھا کہ ہر تھوڑی دیر بعد وہ میری طرف دیکھتی ہیں ، اس احساس سے مجھے بے چینی اور الجھن محسوس ہورہی تھی۔ وہ جانتی ہیں کہ میں شادی شدہ ہوں اور عمر میں ان سے تھوڑا چھوٹا بھی ہوں۔ اس کے باوجود کیوں وہ مجھے اس طرح دیکھے جاتی ہیں ؟

اس رات کئی گھنٹوں تک میں اپنی بیوی کے خراٹوں کی آواز سنتا رہا اور سوچتا رہا کہ میری اس زندگی کا کیا بنے گا۔ مجھے اس زندگی میں کوئی آرام و آسائش کی ضرورت نہیں۔ نہ مجھے صبح اٹھتے ہی چائے کی گرم پیالی چاہئے۔ او ر نہ اگر روٹی تھوڑی سی جل جائے تو مجھے کوئی پرواہ ہوتی ہے، لیکن میں اتنا ضرور چاہتا ہوں کہ کوئی میرے دل کا حال جانے ، مجھے سمجھے، اور میری باتوں میں محو ہوجائے۔ کبھی کبھی مجھے ایسا محسوس ہوتا کہ میری بیوی کسی ہوٹل کی منیجر ہے ، جو صبح سے لے کر رات تک اپنے جاگتے رہنے کا ایک ایک لمحہ اپنے ہوٹل کے مہمانوں کی آسائش پر خر چ کردیتی ہے۔ اوراس مشقت میں اس کو ذرا بھی مہلت نہیں ملتی کہ وہ یہ معلوم کر پائے کہ یہ مہمان کہاں سے آئے ہیں اور ان کے سفر کی آخری منزل کہاں ہے۔ شاید اس کے محبت کرنے کا یہی انداز ہے۔ پھر یوں دن بھر کی محنت کے بعد رات کو تھک ہار کر نہ جانے کن خوابوں میں گھر کر سو جاتی ہے۔ دنیا سے غفلت کے خواب خراٹوں کی صورت میں اس کے ہونٹوں سے نشر ہوتے رہتے ہیں۔ اور مہمانوں کے واسطے ان کی آسائش رات میں اک عذاب بن جاتی ہے۔ کاش میری بیوی کے اس ہوٹل میں کوئی چچا عاشق حسین آکر رہیں۔ اور اس کے سونے اور جاگنے، دونوں پر عاشق ہوجائیں۔

پھر میرا خیال لوٹ کر آسمان کے اس ستارے کی طرف چلا گیا جو تھوڑا مدھم ہونے کے باوجود چشم خیال پر سب سے زیادہ دیرپا عکس چھوڑتا ہے۔ اور یہ چچا عاشق حسین کس قسم کا کیریکٹر ہے ؟ کس وجہ سے محلے والوں نے اس کو یہ نام دیا اور اس نام کے باوجود اس کی عزت کرتے ہیں۔

اگلی صبح بیوی کے کئی بار آوازیں دینے کے بعد میں بمشکل نیند سے بیدار ہوا اور پھر خاصی دیر تک تکیے اوراس کے اطراف اپنے سر سے گرے بالوں کو دیکھتا رہا۔ پھر غسل خانے میں جاکر آئینے میں اپنی شکل کو تکتا رہا۔ آنکھیں نیند سے بوجھل ہورہی تھیں ، گال لٹکے ہوئے اور ہونٹ تھوڑے سے سوجے ہوئے تھے۔ لگتا تھا نہ جانے کتنے عرصے سے خاموشی اور غم میں ڈوبا ہوا ہوں۔ میں نے اپنے گال پکڑ کر اوپر کو کھینچے ، ہونٹ تن گئے ، میرا چہرہ سرکس کے جوکر کی طرح مسکرانے لگا۔ مجھے یہ دیکھ کر واقعی ہنسی آگئی۔ پھر میں نے گال نیچے کی طرف کھینچے ، اب میرا چہرہ پہلے سے بھی زیادہ لٹک گیا اور ہونٹ بطخ کی چونچ کی طرح آگے کو نکل آئے۔ پھر میں نے ایک گال اوپر کی طرف کھینچا اور دوسرا نیچے کی طرف۔ عجیب مخنچو سی شکل بن گئی۔ پانچ منٹ تک یوں میں اپنے چہرے کو بناتا بگاڑتا رہا اور ہر شکل پر ہنستا رہا۔ انسانی چہرہ بگڑ کر اور زیادہ دل بہلاتا ہے میں سوچتا رہا۔ گھر والے اگر مجھ کو یوں دیکھ لیتے تو ضرورکہتے کہ پاگل ہوگیا ہوں۔ انہوں نے شاید کبھی اپنا چہرہ بگاڑ کر نہیں دیکھا، نہیں تو انہیں بھی بہت مزا آتا۔

غسل خانے سے نکل کر میں جلدی جلدی تیار ہوا اور بغیر ناشتہ کئے دفتر چلا گیا۔ شام کو میں اپنی موٹر سائیکل پر گھر لوٹ رہا تھا۔ ٹریفک کے نیم جلے پیٹرول کا دھواں میرے پھیپھڑوں اور دماغ میں جا رہا تھا۔ جو پیٹرول کاروں کے انجن میں نہیں جلا تھا اب میرے تن بدن میں آگ لگارہا تھا۔ گرو مندر سے تھوڑا آگے جاکر ٹریفک رک گیا۔ میرے آگے ایک بس جارہی تھی۔ ساتھ چلنے والی کئی موٹر سائیکلوں نے بس کے بائیں طرف سے نکلنے کی کوشش کی لیکن آگے شاید کوئی رکاوٹ تھی وہ زیادہ آگے نہیں جا پائیں۔ بائیں جانب بس اور سڑک کے ڈوائیڈر (Divider) کے درمیان کوئی فٹ بھر کا فاصلہ ہوگا ، میں وہاں سے نہیں گزر سکتا تھا۔ پھر میرے پیچھے ایک اور بس آکر رکی اور میں ان دونوں کے درمیان پھنس گیا۔
اب میں نہ آگے جاسکتا تھا نہ پیچھے۔ پچھلی بس کے انجن کی گرمی میرے جسم کو جھلسا رہی تھی ، اگلی بس کے ادھ جلے ڈیزل کا دھواں میری شریانوں کو اندر سے کالا کررہا تھا۔ کہیں سے تیز بجتے ہوئے فحش اور چھچھورے گانوں کی آواز بھی آرہی تھی۔

مجھ سے یہ سب ایک لمحہ بھی برداشت نہ ہوا۔ میں نے موٹر سائیکل کے اگلے پہیے کو اٹھا کر سڑک کے ڈوائیڈر پر رکھا۔ پھر کسی طرح پچھلے پہیے کو اٹھایا۔ کچھ دیر بعد میری موٹر سائیکل ڈوائیڈر کے اس پار تھی۔ اور میں سڑک پر رانگ سائیڈ (Wrong side) اپنی گاڑی چلا رہا تھا۔ شروع میں کچھ خوف تھا پھر یہ خوف آہستہ آہستہ ایک غصے میں تبدیل ہوتا چلا گیا۔ میں نے آگے جاکر دیکھا دوسری جانب مزار پر آج ایک ہجوم لگا تھا اس کی وجہ سے پیچھے تمام ٹریفک بلاک ہوگئی تھی۔

اب مجھے سامنے سے آتی ہوئی کسی گاڑی کا ڈر نہیں تھا ، سڑک کی غلط سمت موٹرسائیکل چلانے پر پہلے جو ایک شرمندگی محسوس کررہا تھا اب میں اس پر شرمندہ نہ تھا ، میرا دل چاہتا تھا کہ سامنے سے آتی ہوئی ہر موٹر سائیکل ، کار اور بس کو اپنے نیچے روندتا چلا جاؤں اور اگر کوئی دیوار راستے میں آجائے تو موٹر سائیکل کو بے تحاشا بھگاتے ہوئے اس سے ٹکرا جاؤں تاکہ میرابھی ایک مزار بنے پھر میں اس مزار میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سوؤں اور زور دار خراٹے لوں۔

============


’’اس شام عاشق حسین میرے خیالات پر بھاری رہے۔ میں سوچتا رہا کہ ان کا یہ نام کیوں پڑا ؟ کیا انہوں نے اپنے محلے میں عشق و محبت کے کئی چکر چلا رکھے ہیں یا دوسرے اور کئی محلّوں میں بھی ان کے معاشقے ہیں ؟ مجھے حیرت تھی کہ عمر کے اس مرحلے میں آنے کے باوجود بھی کسی شخص نے اس قسم کے سلسلے جاری رکھے ہوئے ہیں؟یا ہوسکتا ہے کہ یہ باتیں اس کی طبیعت کا بنیادی حصہ ہوں اور اس کا زندہ رہنا ، ان محبتوں کو جاری رکھنے کے مترادف ہو۔

میرے خیالات اس نکتے پر گرد ش کررہے تھے۔ اس قسم کی عشق و محبت کس طرح ایک شخص کی شخصیت کا اتنا کلیدی حصہ ہوسکتی ہے۔ بظاہر تو یہ آدمی اتنا سادہ طبیعت شریف اور ذہین ہو۔ لیکن عمر کے اس حصے میں پہنچ جانے کے باوجود عورتوں کی محبت میں اس بری طرح پڑتا ہو۔ اور پھر جس بات پر مجھے سب سے زیادہ حیرت تھی وہ یہ کہ اس عمر میں آجانے کے باوجود بھی وہ اس بات کی صلاحیت رکھتے تھے کہ عورتوں کی دلچسپی اپنے اندر پیدا کرا لیں۔ کیا راز مضمر ہے اس ہنر میں؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لئے میں سب سے زیادہ بے چین تھا۔
پھر میں نے سوچا کہ ہوسکتا ہے کہ چچا عاشق حسین کے متعلق یہ تمام باتیں محض میرا وہم ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ ان میں کوئی بھی حقیقت کے قریب نہ ہو۔ کیا پتہ کہ ان کا یہ نام کسی حادثے کی بنا پر پڑا ہو اور گلی کے لڑکوں کی شوخی نے اس کو اب تک زندہ رکھا ہو۔

خاصی دیر تک ممکنات کی یوں جانچ پڑتال کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے اس دن کے انڈے دینے والے واقعہ کو بھول جانا چاہئے اور چچا کے ماضی اور ان کی شخصیت کے بارے میں معلومات حاصل کرنی چاہئے۔

اس رات کو میں منیر کے ساتھ بیکری کے کونے پر کھڑا تھا ، کہ میں نے اس سے پوچھا ’’ یار یہ بتاؤ کہ یہ چچا عاشق حسین کا نام کب پڑا ؟ ‘‘ منیر کے گھر والے ایک عرصے سے اس محلے میں رہتے تھے۔ میرا خیال تھا کہ اس کو کچھ نہ کچھ تو ضرور پتہ ہوگا۔ لیکن اس نے جواب دیا۔

’’ پتہ نہیں یار ...... میں تو ایک عرصے سے ان کا یہ نام سنتا چلا آرہاہوں۔ ‘‘ اس جواب پر مجھے کچھ حیرت ہوئی۔
’’ تو پھر ان کو چچا عاشق حسین کہتے کیوں ہیں ؟ ...... کیا ہر کسی کو دیکھ کر عاشق ہوجاتے ہیں ؟ ‘‘ میں نے فوراً دوسرا سوال جڑ دیا۔
منیر ایک شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ کچھ دیر مجھے دیکھتا رہا ، پھر ہنس کر کہنے لگا ’’پتہ نہیں یار ہوسکتا ہے ...... اس عمر میں بھی نہ چھوڑتے ہوں ...... لیکن تم کیوں پوچھ رہے ہو آج اتنا؟‘‘
’’ کچھ نہیں ...... کچھ نہیں ...... ایسے ہی ان کے نام کی طرف میرا خیال چلا گیا تھا ...... ‘‘ میں نے بات بناتے ہوئے کہا اور پھر بہتر سمجھا کہ اس گفتگو کو وہیں روک دیا جائے۔
اس کے بعد میں نے موقع کی مناسبت سے کئی لڑکوں سے چچا کے بارے میں دریافت کرنے کی کوشش کی۔ لیکن کہیں سے کوئی اطمینان بخش جواب نہیں مل سکا۔
مگر میں نے ہار تسلیم نہیں کی اور اپنی کھوج میں لگا رہا۔ ایک دن میں صدیق پرچون والے سے سودا لے رہا تھا کہ میں نے چچا کا ذکر چھیڑ دیا، صدیق کے چہرے پر ایک دبی دبی سے مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ ’’ کیوں آج چچا کیسے یا دآگئے۔ ‘‘
’’ بس ایسے ہی ...... میں سوچ رہا تھا ...... اس دن بڑا ذلیل ہوا تھا یہاں پر ...... ‘‘
’’ اوہ ...... اس دن ...... ‘‘ صدیق تھوڑا ہنسا۔ ’’ ہاں واقعی ، ویسے وہ عموماً خاموش رہتے ہیں زیادہ بولتے نہیں لیکن اس دن تمہاری بات کا ایسا جواب دیا ...... اب بھی سوچتا ہوں تو ہنسی آتی ہے۔ ‘‘
صدیق کے اس جواب پر میں تھوڑا حیران ہوا۔ لیکن میں نے اپنا سوال جاری رکھا۔ ’’ لیکن ان کا یہ نام کیسے پڑا ؟ ‘‘
’’ کیسے پڑا ؟...... ‘‘ صدیق رکتے ہوئے بولا ’’ اس لئے کہ انہوں نے عشق اتنے کئے ہیں۔ ‘‘
میں ہنسا۔ ’’ لیکن میں نے تو ان کا صرف نام سنا ہے چچا عاشق حسین ...... اس کے علاوہ تو کچھ نہیں جانتا ان کی عاشقی کے بارے میں ...... نہ کسی نے کچھ بتایا۔ ‘‘
’’ ارے یہ گلی کے چھوکرے کیا جانیں عشق ، محبت کیا ہوتا ہے ‘‘ صدیق نے کچھ بھڑک کر کہا۔ ’’ ان کے لئے تو ذرا سی آنکھ مار دینا یا پیغام پہنچا دینا عاشقی ہوتی ہے۔ ‘‘ اس کے لہجے میں تحقیر بھی تھی۔
مجھے تھوڑا برا لگا۔ ’’ تو پھر یہ چچا عاشق حسین کیا کرتے ہیں۔ ‘‘
’’ ارے میاں تم کیا جانو ...... ‘‘ اس نے روکھا سا جواب دیا۔ ’ ’ عشق دل سے ہوتا ہے ، دل سے ...... آج کل کی اولاد تو عشق و محبت کے بارے میں بھی اندھی ہے۔ ‘‘

============


یہاں میں لکھتے لکھتے رک گیا اور سوچنے لگاکہ میں یہ کس راہ پر چل نکلا ہوں۔

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ میں کیوں لکھتا ہوں ، قلم اٹھا کر بیٹھ جاتا ہوں اور جس ناممکن سے ناممکن کردار کی طرف گمان جائے اس کیریکٹر کو آج کل کی روز مرہ زندگی کے اعتبار سے برتنا شروع کردیتا ہوں۔ ایسا میں کیوں کرتا ہوں۔ چچا عاشق حسین اس معاشرے میں زندہ نہیں۔ لیکن میں نے اس کردار کو گھڑا ہے اور اس طرح سے اس کے بارے میں لکھ رہا ہوں جیسے وہ عین حقیقت ہے۔ اگر میں آج کل کی حقیقتوں کے بارے میں لکھوں تو کیا وہ زیادہ گہرااور پر اثر نہیں ہوگا ؟ پھر کیوں ایسی مہمل منظر کشی میں اپنے آپ کو محو پاتا ہوں ؟ کافی دیر سوچنے کے باوجود مجھے ان سوالوں کا جواب نہیں ملا۔ اور میں نے اپنے قلم کو دوبارہ آزاد چھوڑ دیا۔

============


’’ تو پھر یہ صرف دل لگا لیتے ہیں ...... اور باقی سب کچھ اللہ پر چھوڑ دیتے ہیں کیا ‘‘ اب میں بھی تھوڑا جوش میں آرہا تھا۔ کہ یہ بڈھے ٹھڈے نا جانے اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں۔
’’ میاں کسی کی کھڑکی میں رقعہ اچھالنے کے بعد تم بڑے وثوق کے ساتھ کہتے ہو کہ اب چڑیا پنجرے میں ہے ‘‘ اس نے ذرا طنزیہ لہجے میں کہا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ جیسے اب وہ مجھ سے ڈائریکٹ بات کررہا ہے۔ ’’یہ بتاؤ کہ اب تک کا تمہارا اسکور کیا ہے۔ ‘‘
’’ میرا اسکور کیا ہے ...... چچا کا کیا اسکور ہے۔ ‘‘
’’ چھوڑو چچا کو ...... اپنی بات کرو ...... تم نے اب تک کیا کیا ہے ...... کتنے رقعے اچھالے ہیں اور کیا پایا ہے ؟ ‘‘
میں کچھ دیر خاموش رہا۔ ایک لمحے کے لئے مجھے لگا کہ صدیق کا پلہ بھاری ہے۔ لیکن پھر میں نے بات بنائی اور پہلو تبدیل کیا۔ ’’لیکن یہ بات بتاؤ کہ چچا کا یہ نام آخر پڑا کس مرحلے پر آکر۔ اور پھر کس نے ڈالا......آخر اس کی بھی تو کوئی وجہ ہوگی ؟ ‘‘
’’ کس نے ڈالا ؟ وہی ڈال سکتا ہے جو جانتا ہے کہ عشق و محبت کیا ہوتی ہے ...... اور کیسی کہانی سننا چاہتے ہو تم ...... تم لوگوں کو ان کہانیوں میں کوئی مزا نہیں آئے گا۔ ‘‘
میں چپ ہوگیا۔ لگتا تھا کہ صدیق دل و جان کے ساتھ چچا کا دفاع کرنے پر تلا ہوا تھا۔ اس کے بعد کئی روز تک اس دن کی تکرار پر غور و فکر کرتا رہا۔ کہیں صدیق نے خود تو چچا کا یہ نام نہیں ڈالا ؟ عمر میں وہ تقریباً چچا کے ہی برابر تھا۔ ہوسکتا ہے کہ دونوں جوانی میں ساتھ ہی اس محلے میں پلے بڑھے ہوں۔ اور ایک دوسرے کے تمام معاملات مہر و محبت سے اچھی طرح واقف ہوں۔ اور ایسے ہی کسی معاملے میں چچا کا یہ نام پڑ گیا ہو۔

لیکن اب لگتا تھا کہ صدیق دکاندار چچا کے بارے میں مزید کوئی معلومات فراہم نہیں کرے گا۔ اس سے پہلے چچا کے بارے میں میرے جتنے خدشات تھے ، وہ سب کے سب ایک ساتھ جھوٹ بھی ثابت ہوئے تھے اور سچ بھی۔ میں ایک عجیب شش و پنج میں پڑ گیا تھا کہ یا اللہ یہ ماجرا کیا ہے۔ آخر چچا کی ہستی کے پیچھے کون سے راز پوشیدہ ہیں۔

اب کوئی چارہ باقی نہیں بچا تھا سوائے اس کے کہ چچا سے براہ راست دوستی کی جائے اور خود ان کے ساتھ وقت گزار کر اس بات کا اندازہ لگایا جائے کہ وہ کیسی ہستی کے مالک ہیں۔ چنانچہ میں نے ایسے ہی کیا۔

شروع میں چچا کے ساتھ گھلنے ملنے میں کچھ دقت پیش آئی۔ لیکن بعد میں یہ کام آسان ہوگیا اور آہستہ آہستہ چچا نے اپنے رازآپ ہی آپ مجھ پر آشکار کرنا شروع کئے۔

پہلے پہل میں نے کوشش کی کہ جہاں چچا موجود ہوں وہاں پہنچ جاؤں ان کی باتیں سنوں اور کسی قسم کا مکالمہ شروع کرنے کی کوشش کروں۔ آہستہ آہستہ کچھ کامیابی بھی نصیب ہوئی۔ ہماری باتیں کرکٹ اور ہاکی کے میچوں پر تبصرے سے شروع ہوتیں اور پھر یہ تبصرے آہستہ آہستہ طول پکڑ کردیگر موضوعات میں تبدیل ہوجاتے۔ میں نے دریافت کیا کہ چچا ایک عام سی شخصیت کے مالک ہیں کسی بینک میں نوکری کرتے ہیں گھر کا خرچ نسبتاً آسانی سے چل جاتا ہے ذہانت کے اعتبار سے قابل ذکر نہیں۔ عام سے شوق رکھتے ہیں ، ٹی وی زیادہ شوق سے نہیں دیکھتے ، یہی وجہ تھی کہ رات کے ڈرامے کے وقت باہر گلی میں آجاتے۔ اورہم دنوں کھڑے گپ شپ کرتے رہتے۔


لیکن ایک بات چچا کے بارے میں قابل ذکر تھی۔ وہ یہ کہ ان روز مرہ کی عام سی باتوں کے دوران لگتا کہ وہ کسی اور چیز کے بارے میں متفکر ہیں۔ یا یہ کہ کسی معاملہ نے انہیں چوکنا کر رکھا ہے۔ لیکن وہ بات کیا تھی؟ اس کی نشاندہی میں کئی دنوں تک کرنے سے قاصر رہا۔

بات کرتے ہوئے وہ یوں خاموش ہوجاتے کہ جیسے کچھ سوچ رہے ہوں۔ ان کی یہ سوچ ضرور کسی اوربارے میں ہوتی تھی کیونکہ کبھی کوئی ایسی گفتگو نہیں ہورہی ہوتی جس کے بارے میں رک کر سوچا جائے۔ یا کھڑے کھڑے ایک جانب گھور کر دیکھنے لگتے اور جب میں اس طرف پلٹتا تو وہاں کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اگر کسی کو ان کی اصلیت نہیں پتہ ہوتی تو ضرور کہتا کہ عجیب خبطی شخص ہے لیکن یہ چچا عاشق حسین تھے ان کی اصلیت تو مجھے بھی نہیں معلوم تھی۔

اس محلے میں وہ کوئی بتیس سال سے رہ رہے تھے ، وہ اس زمانے کا ذکر کرتے تھے جب یہاں کھلے میدان تھے ، اور میدانوں کی حد مقرر کرنے کے لئے کہیں کوئی اکا دکا مکان تھے۔
اس زمانے سے لے کر اب تک انہوں نے ایک جنگل کو بستی بنتے اور بستی کو ایک گنجان آباد شہر میں تبدیل ہوتے دیکھا تھا۔ بستی کیسی تھی اس میں رہنے والے لوگ کس طرح ایک بڑے کنبے کے فرد تھے، ان کے درمیان رشتوں میں کتنی قربت تھی، اور پھر شہر بنتے بنتے یہ رشتے کیسے تبدیل ہو تے گئے۔

لیکن عاشق حسین ...... عاشق حسین ...... ان کا نام عاشق حسین کیوں پڑا ؟ ان کی ان باتوں کے درمیان مجھے اپنے سر میں ایک آواز چیختی ہوئی سنائی دیتی۔

پھر آہستہ آہستہ مجھ پر عیاں ہوتا گیا کہ ایسا کیوں ہے۔ میں نے نوٹ کرنا شروع کیا کہ اکثر وبیشتر چچا کسی بھی گھرانے کو اس کی عورتوں کے حوالے سے یاد رکھتے تھے۔ فلاں جب اس محلے میں آکر رہا تھا تو اس کے گھر میں اتنی لڑکیاں تھیں۔ سب کی سب ماشاء اللہ حسین اور دلربا یا فلاں کے گھر کی عورتیں یوں تھیں کہ ان کے حسن و جمال کے چرچوں کی وجہ سے تمام محلے والے اپنی گردن اکڑا کر چلتے۔

میں نے آج تک ان کے منہ سے کسی عورت کے بارے میں برے الفاظ نہیں سنے تھے۔ ہر عورت میں انہیں خوبصورتی کا نیا عنصر نظر آتا۔ جس کو وہ بڑی نفاست سے بیان کرتے ، لیکن پھربھی ان کی زبان سے کسی عورت کو پھانسنے یا اس پر ڈورے ڈالنے کے واقعات نہیں سنے تھے جس پر میں تھوڑا حیران تھا۔ پھر یہ عاشق کس قسم کے ہیں ؟ میں اس بات پر غور کرتا۔
کبھی کبھی میرا خیال اپنے گھر والو ں کی طرف چلا جاتا اور میں سوچا کہ نا جانے چچا ان کے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے۔ ایسے میں ، میں چچا پر خاصا شک کرنے لگتا کہ کہیں مجھے سہانی باتوں میں الجھا کر خود میرے گھر والوں پر تو ہاتھ صاف نہیں کررہے۔

اور کبھی مجھ میں یہ بے قابو خواہش اٹھتی کہ چچا سے پوچھ ہی بیٹھوں کہ لڑکی کو کس طرح پھانسا جاتا ہے۔ اس فن میں کامل ہونے کے راز کیا ہیں۔ لیکن یہ پوچھتے بھی نہیں بنتی۔ ایک زمانے میں مجھے یقین ہوگیا تھا کہ چچا عاشق واشق کچھ نہیں بس لوگوں نے ان کے بارے میں ایسے ہی اڑائی ہے۔ کچھ عرصے بعد مجھے اس یقین پر بھی شک ہونے لگا۔

آخر ایک روز ادھر ادھر کی باتیں کرتے ہوئے چچا نے مجھ سے پوچھا ’’ میاں تم نے کبھی عشق کیا ہے ؟‘‘ ان کے اس غیر متوقع سوال پر میں کچھ پریشان سا ہوگیا۔ نہ نا کہتے بنی اورکسی گلی کوچے کے چکر کو عشق کہتے بنی۔ جب کچھ دیر تک چچا نے کوئی جواب نہیں پایا تو مایوس ہو کر بولے ’’میاں یہ آج کل کے لونڈے کیا جانیں کہ عاشقی کیا ہوتی ہے...... پھر انہوں نے کہا ’’ میں اگلے ہفتے ملتان جارہاہوں۔ ‘‘

’’ملتان کیوں؟ ...... ‘‘ میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔
چچا نے ایک آہ کے ساتھ ’’ ارے میاں کیا بتاؤں ،زمانہ گزر گیا، میرا ایک عشق تھا، ایک عورت سے ... اب وہ ملتان میں چلی گئی ہے ...‘‘
میرا منہ حیرت کے مارے کھلے کا کھلا رہ گیا۔ لیکن یہ ہمت نہیں کر پایا کہ ان سے پوری کہانی پوچھوں۔ ‘‘

============


چچا عاشق حسین ایک فرضی کیریکٹر ہے۔ اس کو میں نے کیوں گھڑا میں وثوق کے ساتھ کوئی وجہ بیان نہیں کرسکتا۔ اور پھر اس سے عشق و محبت کے بارے میں سوال کرنے سے میں کیوں ڈرتا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ میرے لا شعور کی خواہش ہو کہ میں چچا عاشق حسین ہوتا۔ یا کاش مجھے بھی عشق ہوا کرتا۔

کبھی میں اپنے گھر کی چھت پر کھڑا سڑک کا منظر دیکھ رہا ہوتا ہوں تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اگلے ہی لمحے کوئی گولی آئے گی اور میرے سر کے پرخچے اڑاتے ہوئے نکل جائے گی۔ میں سہم جاتاہوں اور سوچتا ہوں کہ آنکھوں تک کو جنبش نہیں دوں کہ کہیں گولی مارنے والا دیکھ نہ لے کہ مجھے احساس ہوگیا ہے اور گولی جلدی چلا دے۔ کبھی ارادہ باندھتا ہوں کہ گولی چلانے والے کو مہلت دیئے بغیر بے تحاشا بھاگوں اور زینے سے نیچے چلا جاؤں، لیکن ہمیشہ میں نے اپنے آپ کو یوں ہی کھڑا خلا میں ادھر ادھر تکتا پایا ہے کہ جیسے گولی چلانے والے کے وجود سے انکار کررہا ہوں۔ تاکہ وہ شخص میری اس غیر دلچسپی کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنا ارادہ تبدیل کردے۔ پھر جب کچھ دیر تک گولی نہیں آتی تو اک مایوسی بھی محسوس کرتا ہوں۔

میں اکثر قلم اٹھا کر سوچتا ہوں کہ لکھوں کہ سچ کیا ہے ، میرے اطراف میں کیسے لوگ رہ رہے ہیں ، اس کے بارے میں لکھوں۔ میرے دل میں کیا خواہشات ہیں یہ بیان کروں ، لیکن ہمیشہ سچ ،پردہ خیال پر یوں بے صورت و رنگ اترتا محسوس ہوتا ہے کہ دل ہر بار یہی کہتا ہے۔ کہ لکھوں، ایسے جھوٹ ہی لکھوں۔


جمعہ، 17 اپریل، 2015

کرسٹی کے ساتھ چند راتیں


یہ لوئر ایسٹ سائیڈ (Lower East side) کا علاقہ تھا۔ نیو یارک شہر کا اس زمانے کا ایک اور خطرناک محلہ۔ گلیوں کے کونوں پر سیاہ فاموں کے گروہ کھڑے منشیات فروخت کررہے تھے۔ ان کے ہیبت ناک حلیے اور مہیب نگاہیں رگوں میں خون خشک کئے دیتی تھیں۔ سڑک پر ادھر ادھر چمکیلے لباس میں عورتیں گھوم رہی تھیں جن کے ہاتھوں میں چھوٹے چھوٹے کالے یا لال رنگ کے پرس لٹک رہے تھے۔ ایک دو جگہ انہوں نے مجھے بھی ہاتھ دے کر روکنے کی کوشش کی۔

اور پھر پنکس (Punks)تھے۔ کچھ کے بال اودے اور کچھ کے نیلے یا ہرے ، کچھ نے ہونٹوں میں چھلے ّ ڈالے ہوئے ، کچھ نے آنکھ کے اوپر بھنوؤں پر۔ عجیب وحشت کا سماں تھا۔ ایک کونے میں ایک طوائف اونچی آواز میں ہنس رہی تھی۔اس کی زبان میں چھلا ّ پڑا ہوا تھا۔ تکلیف کے تصور سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔

یہ نیو یارک شہر کی ایک کلب ڈسٹرکٹ (Club district)تھی۔ یہاں نوجوان مردوں اور عورتو ں کے ہجوم کلبوں میں ایک دوسرے سے چمٹ کر رقص کرتے اور شراب سے زیادہ ہیروئن اور کوکین کے نشے میں وقتی نروان پاتے۔ اور جب یہ رہائی ان کی برداشت سے باہر ہوجاتی تو باہر نکل کر ایسی بدروحوں کی طرح پھرتے جو اپنی قبروں میں پلٹ کر واپس نہیں جاسکتیں اور قیامت تک زمین پر یونہی گھومیں گی۔

خاصا عرصہ ہوا میں نے اپنی قسمت کو کوسنا چھوڑ دیا تھا۔ اب صرف اپنی عقل و فہم ہی کو کوسا کرتا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ عقل پر پتھر پڑ گئے تھے جو اس علاقے سے سواری اٹھانے آیا تھا؟

مگر ان دنوں حالات ایسے تھے کہ بیچ سمندر سے بھی کسی سواری کو اٹھانا ہوتا تو چلا جاتا۔ اب میں سوچ رہا تھا کہ اس علاقے سے نکل جاناچاہئے۔ رات بہت ہوچکی ہے۔ فرسٹ ایونیو پر بائیں ہاتھ مڑا تو میں نے دیکھا کہ ایک عورت نسبتاً معقول لباس اور حلیے میں بیچ سڑک پر دوڑی چلی جارہی ہے۔ اس سے تقریباً سو گز پیچھے عمارت کے ساتھ ساتھ ایک سایہ تیزی سے حرکت کررہا تھا۔ ’’ ہیلپ ...‘‘ اس عورت نے زور سے چیخ کر مجھے ہاتھ دیا۔ دھڑکتے دل کے ساتھ میں نے ٹیکسی اس کے قریب لا کر روک دی۔ وہ اندر آ بیٹھی اور میں نے ایکسلریٹر پر پاؤں کا دباؤ بڑھا دیا۔ وہ سایہ ہم تک نہیں پہنچ پایا۔

ہم اس علاقے سے نکل گئے۔ میرا دل اب بھی زور سے حرکت کررہا تھا۔ میں نے شیشے میں پچھلی سیٹ پر دیکھا تو وہ عورت ایسے گہرے سکون کے ساتھ بیٹھی تھی کہ جیسے اب دنیا میں ہر طرف امن و شانتی ہو۔ اس کی عمرتیس بتیس سال کے لگ بھگ تھی۔ جسم متناسب تھا ، نسل کے اعتبار سے گوری تھی۔ شکل و صورت کوئی خاص نہیں تھی لیکن ان دنوں میں تقریباً ہر گوری عورت پر مرمٹتاتھا۔ اس نے مجھے شیشے میں پیچھے دیکھتے ہوئے دیکھ لیا اور بولی۔

’’ شکریہ ... تمہارا ... بہت بہت شکریہ۔‘‘ وہ اب بھی ہلکا سا ہانپ رہی تھی۔
میں نے شکریئے کے جواب میں سر کو خفیف سا جھٹکا دیا۔
’’ نہیں تو کل میری خبر آتی ... شکریہ تمہارا۔ بہت ٹھیک وقت پر پہنچے تم ... کہاں سے تعلق ہے تمہارا ؟‘‘
’’ پاکستان سے ...‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’ اتنا تو میں بھی بتا سکتی ہوں۔ میرا مطلب ہے پاکستان میں کہاں سے تعلق ہے۔‘‘ اس سوال پر مجھے خاصی حیرت ہوئی۔ کیونکہ میرے اکثر پسنجر پاکستان کے نام سے ناواقف ہوا کرتے تھے۔ یہ مجھ سے پاکستان کے علاقے کا پوچھ رہی ہے۔
’’ لاہور‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’ تم کو پاکستان کے بارے میں اتنا پتہ ہے کیا ؟‘‘ لوئر ایسٹ سائیڈ کے اس منظر کو ایک دم بھول کر میں نے سوال کیا۔
’’ ہاں ...‘‘ وہ مسکرائی۔ ’’ ایک زمانے میں میراایک دوست ہوا کرتا تھا جس کا تعلق پاکستان سے تھا ... اس نے مجھے پاکستان کے مختلف علاقوں اور لوگوں کے بارے میں بہت کچھ بتایا تھا ...‘‘ یہ عورت ابھی ایک جان لیوا صورتحال سے نکل کر آئی تھی اور اب لمحے بھر میں اس کا انداز بالکل بدل چکا تھا۔ اتنی تیز تبدیلی پر مجھے حیرت تھی۔
’’ اچھا ... کہاں سے تعلق ہے تمہارے دوست کا‘‘
’’ ہے نہیں تھا ... اس کا تعلق کراچی سے تھا‘‘
یہ سن کر میں چپ ہوگیا۔ امریکا آنے کے بعد یہ پہلا موقعہ تھا کہ کوئی گوری عورت مجھ سے زیادہ بات کرے ، اس لئے میں نے کچھ دیر بعد پھر سوال کیا ’’ تو کیا تم کبھی پاکستان گئی تھیں ؟‘‘
اس پر وہ کچھ خاموش ہوگئی ’’ نہیں ... لیکن اب میرا دل چاہتا ہے وہاں جانے کو۔‘‘
’’ تمہارا دوست واپس چلا گیا ؟‘‘
’’ ہاں ...‘‘

وہ خاموش ہوگئی۔ اس کے چہرے کا گہرا سکوت گہری فکر میں تبدیل ہوچکا تھا۔ کچھ دیر میں بھی خاموش رہا پھر میں نے دوبارہ گفتگو کا آغاز کیا۔ اب میں اس سے پاکستان کے متعلق باتیں کررہا تھا۔ کیسا ملک ہے ، یہاں کے لوگوں کے طور طریقے اور رہن سہن کیا ہیں۔ لیکن مجھے حیرت تھی کہ ان میں سے بیشتر باتیں اسے پتہ تھیں۔ اب ہم دونوں باتوں میں محو تھے اور کچھ دیر پہلے کے واقعہ کو بالکل بھول چکے تھے۔

’’ تم کو اتنی باتیں کیسے معلوم ہیں ؟‘‘ میں نے اس سے پوچھا۔
’’ تم کو بتایا تو تھا میں نے‘‘ اس نے خاموشی سے جواب دیا۔ اور پھر اس کا چہرہ، جو میری اتنی باتوں سے خاصا جاگ اٹھا تھا بجھ سا گیا۔ مجھے افسوس ہوا کہ میں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا اور صورتحال کو سنبھالنے کی کوشش کی۔
’’ تم کو ایکٹنگ کا شوق ہے ؟‘‘ انداز کی کسی ظاہری تبدیلی کے بغیر میں نے اس سے پوچھا۔ مجھ کو اب سے چند سال قبل کا لاہور کا زمانہ یاد آرہا تھا۔میں ان دنوں کالج سے فارغ ہوا تھا اور نوکری ڈھونڈ رہا تھا، لیکن نوکری سے زیادہ میری نظریں اڑوس پڑوس اورجان پہچان کی لڑکیوں پر ہو ہو تی تھیں۔
’’ کیا ...‘‘ اس نے تھوڑی مسکراہٹ اور تھوڑی حیرت سے کھلتے ہوئے ہونٹوں سے پوچھا۔
’’ کیا تم نے کبھی ایکٹنگ کرنے کے بارے میں سوچا ہے ؟‘‘ میں نے اس سے دوبارہ سوال کیا۔ میرا حربہ کامیاب ہوچکا تھا۔ وہ کچھ دیر خاموش رہی پھر پوچھا۔
’’ کیا مطلب ؟ ... تم مجھے کوئی رول دلا سکتے ہو ؟‘‘ اس کے لہجے سے شک عیاں تھا ، لیکن ساتھ ہی ساتھ ناممکن پر یقین لانے والی مسکراہٹ بھی کھیل رہی تھی۔
’’ میرا مطلب ہے کہ اگر تم کو پاکستان کی ثقافت کے بارے میں اتنا پتہ ہے ... اور اگر تم ایکٹنگ کرسکتی ہو ... تو پھر میں تم کو وہاں کے کسی ٹی وی سیریل میں رول دلا سکتا ہوں ...‘‘ میرے جو منہ میں آرہا تھا میں کہہ رہا تھا۔ مجھے اب شبانہ یاد آرہی تھی۔ لاہور میں ہمارے گھر سے دو چھتیں چھوڑ کر اس کی چھت تھی۔ نہ جانے کیا کیا باتیں کیا کرتا تھا میں اس کے ساتھ۔
’’ پتہ نہیں کہ تم میری بات پر یقین کرو یا نہ کرو ... لیکن ایک زمانے میں میری ٹیلی ویژن میں خاصی جان پہچان تھی ... ٹی وی کے سیریل ڈرامے فلمانے کے لئے ان کی ٹیمیں ادھر بھی آتی رہتی ہیں ... کوشش کرکے کوئی چھوٹا موٹا پارٹ تودلوا ہی سکتا ہوں ...‘‘ پھر میں نے سنجیدہ انداز میں آئینے میں اس کی طرف دیکھا۔
وہ میری طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔ صاف نظر آرہا تھا کہ اس نے میری کسی بات پر یقین نہیں کیا ہے۔
لمحے بھر کے لئے میرے دل میں شبانہ کے لئے اک ہلکا سا درد اٹھا ’کتنی بھولی تھی وہ بھی ، میں نے اس کے بارے میں سوچا۔ اور پھر دھیان اس عورت کی طرف آگیا جو میری ٹیکسی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ یقین کرے یا نہ کرے لیکن وہ میری باتوں سے محظوظ ضرور ہورہی تھی۔
میں نے اس سے پوچھا ’’ کیوں کیاہوا ... تمہیں یقین نہیں آرہا میری باتو ں پر ...‘‘
وہ کچھ دیر خاموش رہی پھر مسکرا کر بولی ... ’’ ریاض بھی بالکل تمہاری طرح تھا‘‘۔
ریاض شاید اس کے پرانے دوست کا نام ہوگا۔ میں نے سوچا۔ پھر میں نے اس کی بات مسترد کرتے ہوئے کہا۔ ’’ لیکن اس کا تو تعلق کراچی سے تھا۔‘‘ وہ ہلکا سا ہنس کر چپ ہوگئی۔
’’ تم کو یقین نہیں آرہا میری باتوں پر ...‘‘ میں اپنی بات پر قائم تھا۔ ’’تو موقع دو مجھے ان کو ثابت کرنے کا۔‘‘ وہ خاموش رہی اور میں اس سے بات کرتا چلا گیا۔ ’’ میں ہر کسی کو اس طرح کی آفر نہیں کرتا لیکن میں نے دیکھا کہ تم اتناکچھ جانتی ہو پاکستان کے بارے میں ، وہاں کے لوگوں اور ان کے رہن سہن کے بارے میں ، اور پھر تمہارے بات کرنے کا انداز اتنا دلکش ہے اور جب مسکراتی ہو تو یوں لگتا ہے کہ سورج مکھی کے پھول ہوا میں ڈول رہے ہیں۔‘‘ میں اس سے اس طرح کی باتیں کرتا چلا گیا۔

کچھ دیر بعد میری اس پر نظر پڑی تو وہ میری باتیں اک طرف تو گہرے لگاؤ کے ساتھ سن رہی تھی پھر دوسری طرف اس کے لبوں کی شرارت اورآنکھوں میں تیرتی ہوئی ہوشیاری مجھے اس بات کا پتہ دے رہی تھی کہ وہ میرے بچکانہ سے وار کو اچھی طرح سمجھ رہی ہے ، اور یہ کہ مجھ سے بڑا بے وقوف کوئی نہیں۔
میرے لئے یہ ایک نئی صورتحال تھی جس سے نمٹنے کا مجھے کوئی تجربہ نہیں تھا۔میں لاہور میں لڑکیوں کے معاملے میں خاصا کامیاب ہوا کرتا تھا۔ میرے دوست مجھے خوش قسمت سمجھتے تھے۔ ان کے سامنے اپنا سینہ خوب پھلائے رکھتا تھا لیکن اپنی کامیابی کا رازمیں نے کبھی کسی کو نہیں بتایا تھا۔ وہاں پر لڑکیاں پھنسانا اصل میں خاصا آسان ہوا کرتا تھا۔ لڑکیاں خود ہی بات کرنے کا کسی طرح اشارہ کرتی تھیں۔ پھر اس کے بعد کا کام مختلف انداز سے ان کی تعریفوں کے پل باندھ کر اپنے مطلب پر راضی کرناہوتا تھا۔ اور اس ہی کام میں اصل ہنر درکار ہوتا تھا۔ لڑکی کا مزاج جاننے کے بعد اس بات کا اندازہ لگانا کہ وہ کن باتوں سے رام ہوگی۔ بعض لڑکیاں اپنے حسن و ناز کی تعریفیں چاہتی تھیں کچھ یہ چاہتی تھیں کہ میں ان کے عشق میں گرفتار ہو کر ان کو خدا بنالوں، اور کچھ کو محض شادی کرنے کا یقین دلانا کافی ہوتا تھا۔ ان تمام مرحلوں میں اس بات کا خیال رکھنا ضروری تھا کہ میں خود اپنا دل ان سے نہیں لگا بیٹھوں۔ ورنہ بعد میں چھٹکارا حاصل کرنے میں مجھے بھی اذیتیں اٹھانی پڑتی تھیں۔

اب سوچتا ہوں تو یہ تمام باتیں دیوار پر لکھی ہوئی تحریر کی طرح سادہ و عیاں معلوم ہوتی ہیں۔ مگر اس زمانے میں یہ میرے شعور میں شامل نہیں تھیں۔ میں محض جبلّی خواہشات سے مجبور اک نوجوان تھا جس کی حاجات نے اپنی تکمیل کے لئے آپ ہی راہ نکالی تھی۔ اور معاشرے کا قانون یا ضمیر کی آواز اس راہ میں حائل نہیں ہوپائے تھے۔

لیکن نیویارک آنے کے بعد میری زندگی بالکل بدل گئی تھی۔ امریکا کی زندگی کے بارے میں جتنے خواب دیکھے تھے یا جو عیاشیاں تصور کی تھیں تقریباً سب کے سب ہی غلط ثابت ہوئے تھے۔میں برلکن میں ایک کمرے کے فلیٹ میں رہا کرتا تھا۔ اس فلیٹ میں مجھ جیسے چار لڑکوں کا گزر ہوتا تھا۔ میرے علاوہ ایک اور لڑکا غیر قانونی طور پر مقیم تھا، باقی دو کے پاس ورک پرمٹ تھے جو انہوں نے نہ جانے کن طریقوں سے حاصل کئے تھے۔ ان میں سے ایک لڑکا ٹیکسی چلاتا تھا ، اور اسی کی ٹیکسی رات کو میرے پاس ہوتی تھی۔

میری اس زندگی کو ابھی کوئی دس ماہ ہوئے تھے۔ رات بھر ٹیکسی چلاتا اور دن کو سوتا۔ فلیٹ میں رہنے والے لڑکوں سے میری صرف اس وقت ملاقات ہوتی تھی جب وہ کام سے لوٹتے تھے اور میں کام پر جارہا ہوتا تھا۔ ہفتے میں ساتوں دن کام کیا کرتا تھا۔ ہمارے فلیٹ میں کوئی لڑکا بھی ہفتے یااتوار کی چھٹی نہیں کرتا تھا۔ میرا بھی یہی معمول تھا۔ کام کا ناغہ صرف اسی صورت میں ہوتا جب ٹیکسی خراب ہوجائے، لیکن ایسا صرف دو تین بار ہی ہوا تھا۔

اور جہاں تک سیر و تفریح کا تعلق تھا۔ یہ چیزیں نیویارک کی اس زندگی میں نہیں گنی جاتی تھیں۔ فلیٹ کے لڑکوں کے ساتھ تھوڑا بہت ہنسی مذاق ہوجاتا، یا پھر کبھی کشمیر ہوٹل میں جاکر بیٹھ جایا کرتا جو نیویارک میں پاکستانی ٹیکسی ڈرائیوروں کا اڈہ تھا۔ رات کو وہاں خاصی چہل پہل ہوا کرتی تھی۔ لیکن امریکیوں سے میرابہت کم واسطہ پڑا تھا۔ میری ٹیکسی میں بیٹھنے والے مسافر اکثرامریکی ہی ہوا کرتے تھے ، پر میری آج تک ان سے کم بات چیت ہوئی تھی۔ چونکہ میں رات میں ٹیکسی چلاتا تھا اس لئے شروع رات میں تو بیشتر اوقات آفسوں میں کام کرنے والے لوگ ہوا کرتے تھے جو دن بھر کے کام کے بعد تھکن سے چور جلد از جلد اپنی منزل تک پہنچنا چاہتے تھے۔ یا پھر جب رات تھوڑی بڑھتی تو شراب خانوں یا کلبوں سے نکلنے والے شراب کے نشے میں دھت لوگ ہوا کرتے تھے ان میں سے بعض تو اتنا پیے ہوتے تھے کہ بہ مشکل اپنے گھر کا راستہ بتا پاتے لیکن بعض نشہ میں آنے کے بعد خاصے موڈ میں آجایا کرتے۔ اور زور زور سے باتیں کرتے۔ ان لوگوں سے خاصی دلچسپ باتیں ہوتیں۔ لیکن اس گفتگو میں وہ لوگ زیادہ بولتے تھے، اور مجھے ان کے نشے کے احترام میں زیادہ وقت خاموش رہنا پڑتا تھا۔

مگر آج صورتحال مختلف تھی۔ آج میں بول رہا تھا اور میری مسافر خاموش تھی۔ میں کوشش کررہا تھا کہ وہ میری باتوں پر یقین کرلے لیکن اس کے شکوک و شبہات بڑھتے جارہے تھے۔
امریکا میں عورتوں سے میرا واسطہ بہت کم پڑا تھا۔ عورتیں اکثر میری ٹیکسی میں بیٹھا کرتیں تھیں،لیکن کبھی کسی نے مجھ سے زیادہ بات نہیں کی تھی۔ اکثر کے چہروں سے لگتا کہ جیسے وہ مجھ سے خوف زدہ ہیں اور سفر جلد ختم ہونے کی دعا کررہی ہیں۔ میں اکثر سوچتا کہ اگر میں کسی دفتر یا دکان میں نوکری کررہا ہوتا تو شاید صورتحال مختلف ہوتی وہاں شاید کسی عورت سے واسطہ پڑتا۔ شاید کوئی لڑکی کاؤنٹر پر کام کرتی ہوتی یا شاید کوئی آفس سیکریٹری یا ٹیلی فون آپریٹر ہوتی۔
اس زندگی میں ہر چند روز کے بعدنفس کی طلب میرا جسم جھنجھوڑنے لگتی تھی۔ ان دنوں میں عورت کے لئے زیادہ بے چین ہوجاتا تھا۔ اکثر رات کو ٹائمز اسکوائر کے قریب چکر لگاتا۔ اس علاقے میں چمکیلے اور مختصر کپڑوں میں ملبوس طوائفیں گھومتی رہتی تھیں۔ گاڑی روکو تو خود ہی دوڑی چلی آتی تھیں۔ ان سے میری بات تو ہوتی تھی لیکن آج تک کچھ کرنے کی ہمت نہیں ہو پائی تھی۔ ایک تو ان کی قیمت میری پہنچ سے باہر ہوا کرتی اور پھر ان طوائفوں کو قریب سے دیکھ کر میری تمام خواہشات اورجذبات سرد پڑ جاتے۔ کہاں میں پکے پکائے اور خوبصورت مال کا عادی اور کہاں یہ سڑکوں پر پھرتی طوائفیں۔ ان سے تو بات کرنے میں ہی متلی آنے لگتی۔ یا اگر کوئی دیکھنے میں ٹھیک ہوتی تو دام آسمان پر ...
گزشہ ایک دو ماہ کے دوران میں نے کلبوں کے چکر بھی لگائے تھے، لیکن وہاں کسی نے مجھے گھاس نہیں ڈالی۔ شاید میں شکل سے ہی ٹیکسی ڈرائیور لگتا تھا۔
اور اب معاملہ یوں تھا کہ ٹیکسی کی پچھلی سیٹ پر ایک گوری عورت بیٹھی تھی جو مجھ سے بات کررہی تھی اور جسے میں اپنی باتوں کے فریب میں لانا چاہتا تھا۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ وہ سب کچھ سمجھ رہی تھی اور مجھے خطرہ تھا کہ وہ کسی بھی لمحے مجھ پر ہنسنا شروع کردے گی۔
’’ تمہیں باتیں کرنی خوب آتی ہیں‘‘ اس نے کہا۔ میں جواب میں خاموش ہوگیا۔
’’ کتنا عرصہ ہوا تم کو یہاں رہتے ہوئے ؟‘‘ اس نے سوال کیا۔
’’ دس ماہ‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’ واپس کب جاؤ گے ؟‘‘ یہ عجیب سا سوال تھا۔
’’ واپس ؟ ... پاکستان ...‘‘ میں نے اس طرح جواب دیا کہ گویا میرا واپس جانے کا کوئی ارادہ نہیں۔
’’ یہاں پڑھ رہے ہو ؟‘‘
’’ ہاں‘‘ اچھی باتوں اور عادتوں کے متعلق ہمیشہ ہاں کہنا چاہئے۔

میں نے اس سے اس کے بارے میں پوچھنے کا سوچا لیکن پھر مناسب نہیں سمجھا۔ وہ بھی خاموش ہوگئی، میں بھی خاموش تھا۔
منزل قریب آچکی تھی۔ اس کے اشارے پر میں نے ٹیکسی ایک طرف روک دی۔ وہ پرس سے پیسے نکالنے لگی۔ یہ آخری موقع تھا۔
’’ تمہاری شکل و صورت اور مسکراہٹ کے بارے میں ، میں نے جو کچھ کہا تھا ایک دم سچ تھا۔ یقین جانو بالکل ایسا ہی ہے۔‘‘
وہ اپنے پرس سے پیسے نکالتے نکالتے رک گئی اور چہرہ اٹھا کر مجھے دیکھنے لگی۔ میری بات اس کے دل کو لگی تھی۔ اس کے چہرے پر کچھ حیرت ، کچھ یقین ، کچھ افسردگی اور کچھ مسرت کے آثار تھے۔ ہو بہو شبانہ کی طرح ، یہ محسوس کرکے مجھے عجیب سا لگا۔ کہاں ہماری گھریلو لاہوری لڑکیاں اور کہاں یہ گوری امریکن میم۔ کیا ان کے دیکھنے کا انداز بھی اس قدر دیسی ہوتا ہے۔ مجھے خاصی حیرت تھی۔
’’ ہماری دوبارہ ملاقات کیسے ہوسکتی ہے ؟‘‘ میں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا۔
’’ میرا نمبر لے لو ...‘‘ یہ کہہ کر اس نے پیسوں کے ساتھ ایک کاغذ پر اپنا نمبر لکھ کر دیا۔ دل میں آئی کہ اس کے پیسے واپس کردوں۔ لاہور میں ہوتا تو ایساہی کرتا۔ میں نے چاہا کہ کسی طرح اپنے اوپر جبر کرکے اس کے پیسے واپس کردوں لیکن راضی نہیں ہو پایا۔ بعد میں مجھے اس بات کا افسوس ہوا۔
وہ ٹیکسی سے اتر گئی اور فٹ پاتھ پر کھڑی ہوکر مجھے مد بھری نگاہوں سے دیکھنے لگی۔ میں نے مسکرا کر ہاتھ ہلایا اور ایکسلریٹر پر پاؤں رکھ کر وہاں سے نکل گیا۔ مجھے پھر شبانہ یاد آگئی تھی اور بے تحاشا گھبراہٹ محسو س ہوئی تھی۔

امریکا میں اکیلے رہتے رہتے میں اکثر پرانے خیالوں میں گم ہوجایا کرتاتھا۔ جب کوئی دوست یا کوئی بات کرنے والا نہ ہو تا، تب میں پرانی یادوں کو تفریح کا ذریعہ بنایا تھا۔ کبھی میں اپنے گھر والوں کے بارے میں سوچتا اور پھر جب ان سے جدائی کے احساس سے دل ڈوبنے لگتا تو اپنے کالج کا زمانہ یاد کرنے لگتا۔ وہاں کے مزے ،مذاق ، عیاشیاں۔ پھر مجھے وہ لڑکیاں یاد آتیں جن کے ساتھ میرے تعلقات رہ چکے تھے، لیکن سب سے زیادہ مجھے شبانہ یاد آتی تھی۔ نہ جانے کیوں اس کا بھولا اور معصوم چہرہ اور میری ہر بات پر اس کا اندھا اعتماد۔ میں سوچتا کہ اگر میں اب تک لاہور میں ہوتا تو شاید اس سے شادی کرچکا ہوتا لیکن میں نے امریکا کے نشے میں اس کا دل توڑ دیا تھا۔ اب تقریباً ہر صبح میرا دل اس احساس کے تیز دھار خنجر کے ہاتھوں دو لخت ہوتا تھا۔

میں نے اس لڑکی کا نمبر تو لے لیا تھا لیکن اس کا نام نہیں پوچھا تھا۔ اپنی اس حماقت کا خیال مجھے بعد میں آیا۔ چلو اس بہانے کچھ اور تفریح کا موقع مل سکتا ہے۔ میں نے اپنے دل میں سوچا اور مسکرایا۔

اگلی رات کوتقریباً دس بجے کشمیر ہوٹل میں بیٹھاچائے پی رہا تھا۔ دن میں اپنے ایک روم میٹ سے بات ہوئی تھی اس نے بتایا تھا کہ فلوریڈا میں کوئی وکیل ہے جو کسی طرح سے ورک پرمٹ دلوا دیتا ہے۔ اسی مسئلے پر آج ہمیں کشمیر ہوٹل میں کسی سے ملنا تھا۔ ہم خاصی دیر سے انتظار کررہے تھے وہ شخص ابھی تک نہیں آیا تھا۔

کچھ دیر مزیدانتظار کے بعد وہ شخص آگیا اور ہم اس سے بات کرنے لگے۔ پتہ چلا کہ فلوریڈا میں کوئی وکیل یہ کام کرا رہا ہے۔ اس کام میں وہاں کے دو تین چکر لگانے پڑیں گے اور وکیل کی فیس وغیرہ سمیت کل خرچہ پانچ ہزار ڈالر کے لگ بھگ ہوگا۔ ہم لوگ اپنی باتوں میں مگن ہوگئے اور وقت خاصا نکل گیا۔ بعد میں گھڑی دیکھی تو کوئی سوا گیارہ بج رہے تھے۔ میں نے سوچا کہ اس لڑکی کو فون کروں لیکن پھر خیال آیا کہ شاید اب بہت دیر ہوگئی ہے۔ اور پھر مجھے اس کا نام بھی معلوم نہیں تھا۔

کشمیر ہوٹل سے نکل کر میں نے ٹیکسی کا اسٹیئرنگ سنبھالا۔ اس کا خیال ذہن میں بدستور تھا۔پھر دس منٹ بعد ہی میں نے اس کو فون کرنے کا فیصلہ کیا۔
کسی نے ریسیور اٹھایا تو مجھے لگا کہ جیسے اسی کی آواز ہے۔ اب میں کس طرح پوچھتا۔ پھر میں نے کہا۔
’’ کل میں نے اس پتے پر رات کو ایک بجے ایک خاتون کو ڈراپ کیا تھا‘‘
’’ اوہ تم ہو ...‘‘
’’ ہاں میں ... اچھا یہ بتاؤ‘‘ پھر میں تھوڑا رکا ’’ کل میں نے تم سے تمہارا نام بھی نہیں پوچھا ...‘‘
’’ کرسٹی ... اور تمہارا نام کیا ہے ؟‘‘
’’ جمشید‘‘
’’ جم ...‘‘ اس نے میرا نام لینے کی کوشش کی پہلی دفعہ یہ اس کو بہت مشکل لگ رہا تھا۔
’’ جمشید ... میں نے دھرایا‘‘ لیکن اگر تم چاہو تو مجھے جمی کہہ سکتی ہو ...‘‘
’’ جمشید ... نہیں جمشید زیادہ اچھا ہے۔‘‘

پھر ہماری باتیں شروع ہوگئیں۔ ہلکی پھلکی عام سی باتیں۔ وہ کون ہے کیا کرتی ہے۔ اس کی پسند کیا ہے۔ کیسے لوگ اسے اچھے لگتے ہیں ، اور کیسے برے وغیرہ۔ کل کی ڈرامے میں ایکٹنگ والی بات کا میں نے کوئی ذکر نہیں کیا اور نہ اس نے اس کے بارے میں کچھ پوچھا۔ پاکستان کے بارے میں بھی میں نے کوئی بات نہیں کی اور نہ اس نے۔ وہ بھی مجھ سے ہلکی پھلکی باتیں کرتی رہی۔
پھر آخر میں فون رکھنے سے پہلے میں نے کہا ’’ سنو ... وہ کل جو میں نے آخر میں تم سے کہا تھا ، وہ ایک دم سچ تھا۔ کہو تو دہرا دوں ...‘‘
اس طرف دو لمحے کے لئے خاموشی ہوگئی۔ لیکن اس کے کچھ کہنے سے پہلے میں نے کل کے جملے دھرانے شروع کردیئے۔ بیچ میں ادھر سے مجھے ہلکی سی ہنسی کی آواز بھی آئی۔ پھر میں جملے ختم کرکے رک گیا۔
’’ اتنی جلدی رک گئے ؟‘‘ وہ ذرا مذاق اڑانے والے انداز میں بولی۔
میں بھی ہلکے سے ہنسا ’’ نہیں میں نے سوچا کہ میں تو یوں بولتا جاؤں گا لیکن تمہیں پھر سونا ہوگا۔‘‘
دوبارہ اس کی ہنسی کی آواز آئی۔
’’ اچھا یہ بتاؤ ... ہم کب مل سکتے ہیں۔‘‘
’’ اوں ... سوچنا پڑے گا ...‘‘ اب اس کو میرے لئے کچھ مشکل پیدا کرنے میں مزا آرہا تھا۔ ’’ اگلے دو دن تو میں بہت بزی ہوں ... اس کے بعد فون کرنا ... دیکھیں گے۔‘‘

لڑکی رام ہوگئی تھی۔ فون رکھنے کے بعد میں خوشی سے پھولا نہ سمایا۔ جب میں امریکا آیا تھا تو اوروجہوں کے علاوہ ایک بہت بڑی وجہ یہاں کی عورتوں کے بارے میں میرا تصور تھا۔ ان کی شکل و صورت ، رنگ اور جسم، اس پر کپڑے پہننے کا انداز۔ ایسی کسی عورت کے ساتھ وقت گزارنا میری زندگی کا ایک بہت بڑا خواب تھا۔ وہ رات کامیابی کے احساس کی رات تھی۔ نیو یارک آنے کے بعد اب تک جو دھکے کھائے تھے ان کی تکلیفوں کے بوجھ کو میں نے ہلکا ہوتے ہوئے محسوس کیا۔ مجھے شبانہ کا خیال بھی نہیں آیا ، یہ بات بھی میرے لئے تسکین کا باعث تھی۔

میرے اگلے دو دن بھی خاصے مصروف گزرے۔ ٹیکسی میں چھوٹے موٹے کام کرانا تھے ، فلوریڈا میں وکیل سے رابطہ قائم کرنا تھا،دو دن تک اس لڑکی کا خیال تک نہیں آیا۔ تیسرے روز میں نے رات کے آٹھ بجے اسے فون کیا۔ وہ گھر پر تھی۔ کچھ دیر باتیں ہوتی رہیں ، پھر میں نے اس سے کہا کہیں ملتے ہیں۔ وہ مان گئی ، اگلے روز ہماری ملاقات طے ہوئی۔

اگلے روز آٹھ بجے میں نے اس کو گھر سے پِک کیا ، اور ہم اس کے بتائے ہوئے کسی ریستوران کی طرف چل دیئے۔ آج اس کی بات چیت کا انداز خاصا دوستانہ تھا ، جیسے وہ مجھ کو ایک عرصے سے جانتی ہو۔ کھانے کے درمیان اس نے پاکستان کا ذکر دوبارہ چھیڑ دیا۔ اب وہ مجھ سے پوچھ رہی تھی کہ مجھے وہاں کی کون سی چیزیں پسند ہیں۔ کون سے شہر میں رہنا پسند کروں گا اور کہاں کہاں گھومنے جاؤں گا وغیرہ۔ میں نے اسے پورے ملک کا جغرافیہ سمجھایا اور بتایا کہ کس علاقے میں کیسے لوگ بستے ہیں اور کہاں کون سی زبان بولی جاتی ہے۔ یہ بھی حیرت کی بات تھی کہ جب سے میں امریکا آیا تھا کوئی شخص ایسا نہیں ملا تھا جو پاکستان کے بارے میں زیادہ جانتا ہو یا جاننے کی خواہش رکھتا ہو ، اور ادھر یہ لڑکی تھی جو اتنی معلومات رکھنے کے باوجود سوال پوچھے جارہی تھی۔ آخر اس کو ایسا کون سا تجسس ہے۔ میں سوچ رہا تھا۔

امریکہ آنے کے بعد کسی لڑکی کے ساتھ ڈیٹ پر جانے کا یہ پہلا موقع تھا۔اس وجہ سے میں کچھ بے اطمینانی محسوس کررہا تھا۔مجھے یہاں کے طور طریقے خصوصاً لڑکیوں کو برتنے کے آداب بالکل معلوم نہیں تھے۔ اپنی دانست میں جو مناسب سمجھ میں آرہا تھا وہ کررہا تھا۔ ریستوران میں کھانے کا مینو ہی میرے لئے خاصی الجھن کا باعث ہوا۔ کسی ایک چیز پر انگلی رکھ دی تھی اور اب جو آیا تھا کسی طرح کھا رہا تھا۔

کھانا کھا کر اس کے گھر کا رخ کیا۔ اب میری بے چینی بڑھ گئی۔ ایسی صورتحال سے نمٹنا میرے لئے بالکل اندھیرے میں ٹٹولنے کی طرح تھا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ آگے کیا ہوگا اور کس مرحلے پر مجھے کیا کرنا ہوگا۔ کرسٹی کا انداز بہت دوستانہ تھا۔ ایک طرف تو یہ بات اطمینان کا باعث تھی لیکن دوسری طرف مجھے مزید سوچنے پر مجبور کررہی۔ لاہور میں ، میں کبھی میں اتنی آسان صورتحال سے دو چار نہیں ہوا تھا۔ وہاں پر ہمیشہ یہ ہوتا تھا کہ میں لڑکی کو بہلا پھسلا کر اپنے مطلب پر راضی کرتا اور آخر وقت تک اس کی طرف سے ہلکی سی مخالفت یا احتجاج قائم رہتا تھا۔ اس رویئے میں ایک لذت الگ ہوتی تھی، اور یہ لذت،یہاں ، اس موقع سے غائب تھی۔
لیکن دوسری طرف ایک گوری امریکن کا اتنا زیادہ دوستانہ رویہ میرے لئے باعث فخر بھی تھا ، اور اس خوشی میں میرا دل جوش مار رہا تھا۔ دس ماہ بعد سہی لیکن اب ایک امریکی عورت مجھ کو اپنا ہیرو بنانے جارہی تھی۔
ہم ٹی وی کے سامنے صوفے پر بیٹھ گئے ، اس نے فرج میں سے بیئر کی دو ٹھنڈی بوتلیں نکال لیں۔ کھانے کے درمیان ہم ویسے ہی کافی پی چکے تھے۔ ٹی وی کا ریمورٹ کنٹرول اس کے ہاتھ میں تھا۔ وہ تیزی سے چینل تبدیل کررہی تھی۔ لمحے بھر میں اس کا رویہ تبدیل ہوچکا تھا اب اس کے انداز میں اضطراب تھا۔ پھر وہ رک گئی۔
’’ آخر تم مجھ سے چاہتے کیا ہو ؟ ... اس نے سر کو جھنجلاتے ہوئے کہا۔ اس کے اظہار میں کچھ مجھ سے اور کچھ اپنے آپ سے احتجاج کے آثار نمایاں تھے۔ اس سے پہلے میں جس شک اور خوف میں مبتلا تھا، وہ اب ایک دم ختم ہوگیا۔ نہ جانے کس طرح میری جبلّی صلاحیتیں آپ ہی آپ راستہ دکھانے لگیں، مجھے لگا کہ جیسے اس صورتحال سے میں کئی بار دو چار ہوچکا ہوں۔
میں اس کے قریب سرک آیا اوراس کا ہاتھ تھام لیااور پھر آہستہ سے کہا ’’ میں تمہارے ساتھ وقت گزارنا چاہتا ہوں‘‘
اس کی جھنجلاہٹ اور اضطراب پر سکوت چھا گیا، وہ مجھے ایک دم سپاٹ نظروں سے دیکھنے لگی۔
’’ تم کو نہیں معلوم تم کتنی خوبصورت ہو ... مجھ سے پوچھو۔‘‘
پھر وہ بولی۔ ’’ اس سے پہلے بھی سب نے مجھ سے یہی کہا ہے۔ لیکن آج تک کوئی نہیں ٹھہرا ہے۔‘‘
میں نے اس کو اپنے قریب کیا اور بہت محبت کے ساتھ اسے چوما۔ وہ اپنے جسم کو میرے سپرد کرچکی تھی۔ ہم اس جگہ ٹی وی کے سامنے صوفے پر ایک دوسرے میں ڈوب گئے۔ ٹی وی چلتا رہا۔ اس کا چینل کسی نے تبدیل نہیں کیا۔ ہر مرحلے پر وہ میرے لئے آسانی پیدا کرتی چلی گئی۔ مجھے لگا وہ مجھے پوری طرح سے مطمئن کرناچاہتی تھی۔
تھوڑی دیر کے بعد ہم ایک دوسرے سے الجھے ہوئے اسی صوفے پر لیٹے ہوئے تھے۔ وہ مجھے دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔
’’ تم مجھ سے کہہ رہے تھے کہ مجھے ٹی وی میں پارٹ دلا سکتے ہو ...‘‘ اس کے انداز میں شرارت تھی۔
میں اس کو دیکھ کر مسکرایا ، پھر اس کے ہونٹوں کو چوما۔ ’’ ہاں بالکل ... تم سے زیادہ حسین ایکٹریس بھلا کوئی ہوسکتی ہے۔‘‘
ہم لوگ کچھ دیر یوں پڑے رہے۔ پھر مجھے اپنی ٹیکسی کی فکر ہوئی۔ وہ مجھے جانے نہیں دینا چاہتی تھی۔ لیکن یہ میری روزی کا مسئلہ تھا۔ تقریباً آدھ گھنٹے بعد میں وہاں سے نکل گیا۔

اس وقت میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ کچھ دیر پہلے میں نے امریکن انداز میں، ٹی وی کے سامنے صوفے پر ایک گوری عورت کے ساتھہ سویا تھا۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں نے اپنے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیئے ہیں اور اس ملک کی اصل زندگی میں قدم رکھنے کے لئے دروازہ وا ہو رہا ہے۔ اس زندگی میں ایک نیا مزا تھا۔ لاہور میں کسی لڑکی کے ساتھ پہلی رات کبھی اتنی آسانی سے نہیں گزری تھی۔ لڑکی کو بہلا پھسلا کر تیار کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا تھا۔ ایک آدھ بار تو صورتحال ہاتھ سے نکلتے نکلتے بچی تھی۔ اور پھر بعد میں ہمیشہ دل پر ایک بوجھ رہتا تھا کہ میں نے لڑکی کے ساتھ زبردستی کی۔ شروع میں مجھے کرسٹی کے ساتھ زبردستی نہ کرنے میں ایک کمی محسوس ہورہی تھی۔ جس کی وجہ سے میں کچھ غیر یقینی میں بھی مبتلا تھا۔ لیکن بعد میں احساس ہوا تھا کہ آسان اور کھلے کھیل میں لذت کسی حجاب یا پردے سے کہیں بڑھ کر ہے۔

چند دنوں بعد میں پھر اس کے گھر پہنچا ہوا تھا۔ اور ایک دفعہ پھر ہم ٹی وی کے سامنے صوفے پر ایک دوسرے میں ڈوبے ہوئے تھے۔ پہلی دفعہ کی طرح اب بھی اس کا انداز کھلا ہوا تھا لیکن اس بار وہ مجھ سے زیادہ قسمیں، وعدے اور اپنی تعریفیں چاہتی تھی۔

اس کے بعد چند دنوں تک میں اسے فون کرتا رہا لیکن وہ نہیں ملی۔ ایک بار میں نے اس کے گھر کا چکر بھی لگایا لیکن وہ موجود نہیں تھی۔ آخر کار دس دن کے بعد وہ مجھے فون پر ملی۔ اس کے بات کرنے کا انداز بہت روکھا تھا، صرف میرے سوالوں کا جواب دے رہی تھی۔ میں نے پوچھا تو بتایا کہ چند دنوں کے لئے وہ اپنی ماں کے گھر پنسلوینیا چلی گئی تھی۔ آواز سے وہ خاصی تھکی تھکی بھی لگ رہی تھی۔ میں نے اس کی خیریت دریافت کرنے کی کوشش کی تو اس نے روکھے پن سے جواب دیا ’’ تمہیں کیوں اتنی پروا ہے میری؟ اس کے اس جواب سے میں کچھ شش و پنج میں پڑ گیا۔ میں نے اپنی محبت کا اظہار کیا اور اس کے حسن کی تعریفوں کے پل باندھے تو وہ میری باتوں سے بے زار سی ہونے لگی۔
’’ آخر کب تک تم مجھ سے وہی پرانی باتیں کرو گے۔ مجھے معلوم ہے کہ میں کتنی خوبصورت ہوں ... میری عمر ۳۴ برس ہوگئی ہے ... اور جوانی جاچکی ہے۔ کیوں تم مجھ سے یہ جھوٹ بولتے ہو ...‘‘

میں چونک گیا۔ مجھے اتنے تلخ جواب کی قطعی امیدنہیں تھی۔ لیکن میں نے اپنی عادت کے مطابق رویہ نہ بدلا۔ اور اپنی باتیں کرتا چلا گیا۔ وہ خاموش رہی۔ پھر میں نے اس سے ملنے کی خواہش ظاہر کی لیکن اس نے صاف انکار کردیا کہ وہ کم از کم دس دنوں تک نہیں مل سکتی۔ لیکن میں ناقبول کرنے والا شخص نہیں تھا۔ کچھ دیر بعد میں اس کے فلیٹ پر موجود تھا۔ اس نے اندر سے لگی زنجیر کے ساتھ دروازہ کھول کر جھانکا تو مجھے دیکھ کر چونک گئی۔ میں بھی اس کو دیکھ کر چونک گیا کیونکہ اس کی آنکھ کے نیچے ایک گہرا نیل تھا۔ اس نے دروازہ بند کردیا اور اندر سے بولی کہ میں چلا جاؤں۔ لیکن میں سننے والا کہاں تھا اور خاص طور پر اس کا نیل دیکھنے کے بعد۔ اس نے زیادہ تکرار نہیں کی اور مجھے اندر آنے دیا۔

اندر پہنچ کر میں نے اس کے نیل کی طرف اشارہ کرکے پوچھا ’’ یہ تمہیں کیا ہوا ہے...‘‘
’’ کچھ نہیں ، چوٹ لگ گئی تھی ...‘‘ اس نے ہاتھ سے اپنے نیل کو چھپاتے ہوئے کہا۔
لیکن میں نے آگے بڑھ کر اس کا چہرے اپنے ہاتھوں میں تھام لیا اور نیل کو چوما ’’...نہیں یہ کیا ہوا ہے تمہارے پھول سے چہرے کو‘‘
ایک لمحے کو محسوس ہوا کہ وہ میرے ہاتھوں میں پگھل گئی ہے۔ لیکن جلد اس نے اپنے آپ پر قابو پایا اور وہ مجھ سے دور ہوگئی۔ اس کا چہرہ اندرونی کرب سے چٹخا ہوا سا تھا۔ اس نے اپنے رنج پر قابو پاتے ہوئے تلخ لہجے میں کہا۔
’’ میرے بوائے فرینڈ نے مجھے مارا تھا ...‘‘ یہ کہہ کر وہ مجھ سے دور ہوگئی۔
مجھے جیسے ایک زور دار تھپڑ پڑا۔ ’’ کیا ...‘‘ میرے منہ سے نکلا ... تمہارا بوائے فرینڈ بھی ہے۔‘‘
اس نے سر کو خفیف سا جھٹکا دیا ’’ ...تھا‘‘
’’ لیکن ... تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں۔‘‘

وہ خاموش رہی۔ میری حالت بیان سے باہر تھی، لاہور میں آج تک میرے ساتھ ایسا نہیں ہوا تھا اور نہ کبھی میرے وہم و گمان میں ایسی بات آئی تھی۔ ٹانگوں میں کچھ کمزوری محسوس کرتے ہوئے میں اسی صوفے پر بیٹھ گیا۔

’’ کیوں ... ؟‘‘ میرے منہ سے پھر نکلا۔
’’ کیوں ؟ ...‘‘ اب وہ مجھ سے یہی سوال پوچھ رہی تھی۔ ’’کیوں ... کیا تم سوچ نہیں سکتے کہ کیوں؟‘‘
اس کی باتیں میری سمجھ سے باہر تھیں۔ میں ایک سوال بنا اس کے سامنے بیٹھا رہا۔ اب اس کے انداز میں میری ناسمجھی پر تھوڑا غصہ تھا۔
’’ کیا تم کو نظر نہیں آتا کہ مجھ جیسی عورت کو کس چیز کی ضرورت ہے ...‘‘
بات اب بھی میری سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ لیکن میں اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’ میں نے سچے دل کے ساتھ سب کچھ کیا ... اور تم نے مجھے دھوکے میں رکھا۔‘‘
وہ خاموش رہی۔

اب میں نے کچھ اشارہ کیا کہ جیسے میں وہاں سے جاناچاہتا ہوں۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے ’’ نہیں ... نہیں جاؤ ، ابھی ...‘‘ پھر وہ میرے قریب آتی گئی اور مجھ سے لپٹ گئی۔ اب وہ سسکیاں لے رہی تھی۔ ’’ مت جاؤ اس وقت۔‘‘ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کیا ہورہا ہے۔ لیکن میری حالت ایسی تھی کہ میں وہاں نہیں رک سکتا تھا۔

اگلے چند روز تک میں نے اس سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ پھر میں نے حقیقت کو سامنے رکھ کر سوچا کہ مجھے اس عورت سے اس کے جسم کے علاوہ اور کیا چاہئے تھا۔ مجھے یہ بھی اندازہ تھا کہ کوئی اور لڑکی اتنی آسانی سے دوبارہ نہیں ملے گی۔ تقریباً ایک ہفتے بعد میں اس کے گھر بغیر فون کئے پہنچا۔ وہ گھر پر تھی۔ دروازہ کھول کر وہ مسکرائی اور اندر آنے دیا۔ اس کا انداز نارمل تھا۔

’’ میں کھانا کھا رہی ہوں ... کچھ کھاؤ گے ؟‘‘

میں نے نفی میں سر ہلا دیا۔ وہ صوفے پر بیٹھی کھانا کھا رہی تھی اور ٹی وی دیکھ رہی تھی۔ میں اس کے برابر بیٹھ گیا۔ کھانے کے درمیان وہ ادھر ادھر کی باتیں کرتی رہی۔ اس دن کا واقعہ جیسے وہ بالکل بھول گئی تھی۔ پھر وہ میرے قریب ہوکر مجھ سے لگ کر بیٹھ گئی۔ میں نے کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔ اب وہ کھانا کھا چکی تھی اور اپنا ایک ہاتھ میرے بالوں میں کنگھی کی طرح پھیر رہی تھی جیسے مجھے آرام پہنچانے کی کوشش کررہی ہو۔

لیکن میرا دل کچھ اس سے اوراس کے انداز سے اچاٹ ہوتا چلا جارہا تھا۔ وہ اپنا چہرہ میرے چہرے کے بہت قریب لے آئی اور آہستہ سے بولی۔ ’’ ڈارلنگ ...‘‘
میرے ذہن کی دھند ابھی تک پوری طرح صاف نہیں ہوئی تھی۔ ’’ کیا تم یہ سچ کہہ رہی ہو۔‘‘
’’ ہاں ... تم نہیں جانتے ،لیکن میں سچ کہہ رہی ہوں ...‘‘ پھر وہ رکی۔ ’’مائک کے ساتھ تو میرا تعلق ٹوٹنا ہی تھا ... تم نہیں ہوتے تب بھی ٹوٹتا ... بلکہ تمہاری وجہ سے جلدی ٹوٹ گیا۔ اچھا ہوا‘‘

اب وہ مجھے صوفے پر لٹا کر میرے اوپر آگئی تھی اور میرے چہرے کو اپنی چھاتیوں میں چھپا لیا تھا، جیسے مجھے تمام دنیا سے محفوظ رکھناچاہتی ہو۔ ایک بار مجھے اس کی ہلکی سی سسکی کی آواز بھی آئی۔ وہ اپنا پیٹ میرے پیٹ کے ساتھ آہستہ آہستہ رگڑ رہی تھی۔ پھر اس نے اپنا جسم اٹھا کر میری طرف دیکھا ، اس کی آنکھوں میں آنسو اور لبوں پر ایک التجا ئی مسکراہٹ تھی۔ ’’ تم میرے ساتھ آکر کیوں نہیں رہتے۔ میں تمہیں بہت خوش رکھ سکتی ہوں۔ میں تمہارے کلچر تمہاری ثقافت کو بہت اچھی طرح جانتی ہوں۔ تمہیں کسی چیز کی تکلیف نہیں ہوگی۔‘‘

میں اس کو دیکھ کر مسکر ا رہا تھا۔ اب تمام باتیں میری سمجھ میں آتی جارہی تھیں ، لیکن کسی عورت کے جسم کے لئے یہ قیمت میں نے لاہور میں بھی ادا نہیں کی تھی جو یہاں کرتا۔

پھر اس نے دوسری ترکیب استعمال کی۔ ’’ تم ایک پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور ہو ... تم کو یہاں کوئی کم عمر لڑکی نہیں ملے گی، جو اپنے آپ کو اس طرح تمہارے سپرد کردے۔ ان کے چاہنے والے ہزار ہیں۔ میں تمہیں جانتی ہوں ... تمہارے ساتھ پاکستان بھی جاسکتی ہوں ... کوئی دوسری عورت یہ نہیں کرے گی۔‘‘

وہ رات میں نے اس کے ساتھ ہی گزاری۔ صبح جب میں اٹھ کر جانے لگا تو اس کی آنکھوں میں آنسو تھے جیسے کہ اسکا خیال ہو کہ میں پلٹ کر نہیں آؤں گا۔ میں جب اس کے فلیٹ سے نکلا تو اپنے تجربے پر مسکرا رہا تھا کہ جیسے میں نے دنیا دیکھ لی ہو۔ تمام دنیا کی عورتیں اب مجھے ایک جیسی لگ رہی تھیں۔ کیا نیویارک کی ، کیا لاہور کی ، کیا گوری، کیا کالی۔

لیکن کرسٹی نے ٹھیک ہی کہا تھا۔ اس کے بعد میں نے نیویارک کی سڑکوں پر کئی سال ٹیکسی چلائی پر میرے مطلب کی کوئی جوا ن لڑکی مجھے نہیں ملی۔ انہیں ہمیشہ کسی جوان اور امیر مرد کے ساتھ جاتے دیکھا۔






پیر، 9 مارچ، 2015

لائینز ایریا میں ایک ٹائٹ رات

[۹۰ کی دہائی میں کراچی آپریشن کے پس منظر میں لکھا گیا افسانہ]


اس روز شام چھ بجے سے مورچہ بندیاں شروع ہوگئی تھیں۔ ابھی سورج غروب ہونے میں کوئی آدھا گھنٹہ باقی تھا۔ خبر گرم تھی کہ رات میں محاصرے اور تلاشی کے آڈر جاری کیے جاچکے ہیں۔ میں نمائش چوک کے قریب ایک زیر تعمیر عمارت کی چھت پر تھا۔ میری ۷ایم ایم کی رائفل کی نالی چھت کی منڈیر کے ایک سوراخ سے باہر جھانک رہی تھی اور سامنے کا تقریباً ایک میل تک کا علاقہ اس کی زد میں تھا۔

اس رات محاصرے اور گھر گھر تلاشی کو ہر حال میں روکنا تھا، اس بات کا شاید بہت کم لوگوں کو علم تھا کہ شہر میں پچھلے ماہ بھر کی وارداتوں کا مال آج علاقہ میں موجود تھا اور آج رات اس کے حصہ لگنے تھے۔ اس زیر تعمیر عمارت اور ساتھ کی اونچی چھتوں کے مکانات پر علاقے کے کئی اور لڑکوں نے مورچے سنبھالے ہوئے تھے۔ میرے خیال میں سب کے سب ہی اپنے تحفظ یا جوش و غصہ کی وجہ سے وہاں موجود تھے، شاید ان میں سے کسی کو بھی اس مال کے بارے میں علم نہیں تھا۔ کیا پتا کہ محاصرہ کیے جانے کی خبر صرف اس واسطے پھیلائی گئی تھی کہ آج کی رات تھوڑی ایکسٹرا چوکیداری ہوجائے اور تمام مال بحفاظت ٹھکانے لگ جائے۔ لیکن یہ محض میرا اندیشہ تھا مجھے اس زمانے میں اس بات پر یقین ہوگیا تھا کہ کسی بات پر مکمل یقین نہیں کرنا چاہیے۔

سورج غروب ہونے کے تھوڑی دیر بعد سامنے بندر روڈ پر مکمل سناٹا چھا چکاتھا۔ نمائش کی چورنگی کے اس پار پولیس چوکی کے ساتھ پیلی اسٹریٹ لائیٹ کے نیچے رینجرز کا ایک ٹرک کھڑا تھا اور ٹرک کے اوپر نصب مشین گن پر کھڑا سپاہی بھی کسی مشین کی طرح سرد اور سفاک نظر آرہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد میرے اندر ایک بے چینی اٹھنے لگی۔ کیا پتا مال کا بٹوارا کس وقت شروع ہوجائے اور میں تقسیم کرنے والوں کا دفاع کرتا رہ جائوں۔

میں نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ چھت پر کوئی اور نظر نہیں آیا میں خاموشی سے اپنی جگہ سے اٹھا اور زینے کی طرف بڑھنے لگا۔ ابھی زینے سے دو تین قدم ہی نیچے لیے ہوں گے کہ ایک سایہ اوپر کی طرف آتا ہوا نظر آیا۔ ہم دونوں ساکت ہوگئے، پھر یکایک اس نے اپنے دونوں ہاتھ سامنے کی طرف بلند کیے ان میں اس نے ایک مائوزر پکڑا ہوا تھا۔
’’رائفل گرا دے… نہیں تو بھیجا اڑا دوں گا…‘‘ وہ غرایا۔
باہر کی صورت حال، زینے کے اندھیرے، اس کے غرانے کے انداز اور کرتے کی سفید آستینوں نے کچھ ایسا ماحول بنا دیا کہ میں تھر تھر کانپ گیا۔ میری رائفل دھیرے سے زمین پر آرہی۔ اس نے ہاتھ سے مجھے پیچھے ہونے کا اشارہ کیا اور میں دو قدم الٹے لے کر واپس چھت پر آگیا۔

اوپر چھت پر آدھے چاند کی روشنی میں ہم دونوں ایک دوسرے کو ذرا ٹھیک سے دیکھ پائے۔ شکل اور حلیے سے وہ اپنا ہی آدمی معلوم ہورہا تھا میرا خوف کئی درجے کم ہوگیا۔ اس نے بھی چاروں طرف نظریں گھمائیں ’’یہاں چھت پر کوئی اور نہیں کیا؟‘‘ اس نے پوچھا۔ اب اس نے ایک ہاتھ مائوزر پر سے ہٹا لیا۔ پھر اس کی نال بھی آہستہ سے نیچے کی طرف آنے لگی۔
’’نہیں۔‘‘ میں نے نفی میں سر ہلایا۔ میری بھی اب کچھ جان میں جان آئی تھی اور میں نے اوپر کیے ہوئے ہاتھوں کو ڈھیلا چھوڑ دیا تھا۔
’’اگر اکیلے تھے تو مورچہ چھوڑ کر کیوں جارہے تھے۔‘‘ اس کے لہجے میں ابھی تک غراہٹ موجود تھی۔
’’ایک دو کو آواز دینے…‘‘ میرے اس جواب میں جان نہیں تھی لیکن اس نے کوئی تفتیش نہیں کی۔ ’’واپس جا کر بیٹھ جائو…‘‘ اس نے اس ہی کونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آرڈر دیا جہاں میں اس سے پہلے بیٹھا ہوا تھا۔ پھر وہ چھت کے دوسرے کونے کی طرف چلا گیا۔

میں نے واپس جا کر مورچہ سنبھال لیا اور کچھ دیر رائفل کی مکھی میں سے اپنی نظر کو رینجرز کے ٹرک کے مختلف حصوں پر اڑاتا رہا پھر اسے مشین گن پر کھڑے ہوئے سپاہی کی ناک پر بٹھا دیا۔ جس نے اسے اڑانے کی کوشش نہیں کی۔

تھوڑی دیر بعد میں نے پلٹ کر دیکھا تو اس شخص نے چھت کے دوسرے حصہ پر مورچہ بنایا ہوا تھا اور اس کی پیٹھ میری طرف تھی میں خاموشی سے اٹھا اور نیچے چلا گیا۔ نیچے جاتے ہوئے مجھے زینے پر کوئی شخص نہیں ملا۔ نہیں تو اس بار میں بھی اپنی رائفل بلند کرنے پر تیار تھا۔

گلیاں سنسان پڑیں تھیں۔ لڑکوں نے زیادہ تر گھروں کی چھتوں پر پوزیشنیں سنبھالی ہوئی تھیں۔ ایسے میں سنسان گلیوں سے گزرنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ میرے قدم سرعت کے ساتھ چاچا کے مکان کی طرف اٹھ رہے تھے۔ مجھے معلوم تھا کہ مال کا بٹوارہ وہاں نہیں ہوگا۔ لیکن اصل جگہ کا سراغ لگانے کے لیے وہاں جانا ضروری تھا۔

حسب معمول ان کے گھر کے دروازے کا ایک پٹ کھلا اور دوسرا بند تھا۔ اندر صحن میں کسی کی ویسپا کھڑی تھی۔ برآمدے میں ایک میز اور چند کرسیاں پڑیں ہوئیں تھیں۔ میز پر ایک کلاشن اور ٹی ٹی رکھی تھی اور ساتھ ہی راشد پدّا اور قادر کانٹا اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے صحن میں کھڑی ویسپا کے اوپر خلا میں تک رہے تھے۔ پدّے کے ہاتھ میں سگریٹ تھی جس کو جلا کر شاید وہ بھول چکا تھا۔
میں نے برآمدے میں جا کر پدّے کے ہاتھ سے سگریٹ مانگی۔ ’’پی رہا ہوں…‘‘ اس نے اپنے ہاتھ کو روک کر اعتراضاً مجھ سے کہا مگر پھر کچھ سوچتے ہوئے سگریٹ بڑھا دی۔ میں نے ایک کش لے کر اندر کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔ ’’کہاں ہیں؟…‘‘
دونوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پدے نے گردن سے باہر کے دروازے کی طرف اشارہ کیا۔ جس کا شاید مطلب تھا… ابھی باہر گئے ہیں آتے ہی ہوں گے۔ میں نے اپنی رائفل برآمدے کے ایک پلر کے ساتھ کھڑی کردی اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔
تھوڑی دیر میں قادر نے پوچھا ’’اور پیٹر سے مل لیے؟…‘‘ ۔
’’پیٹر کون؟…‘‘ میں نے پوچھا۔

لیکن ایکدم ان دونوں کی توجہ دروازے کی طرف مبذول ہو گئی۔ باہر سے کسی نے دروازے کا دوسرا پٹ بھی کھولا اور چاچا اندر داخل ہوئے اور ان کے پیچھے کوئی نوجوان بھی تھا۔ چاچا نے حسب معمول سفید ململ کا کرتا اور پاجامہ پہنا ہوا تھا۔ کرتے کے نیچے ان کی بنیان بھی نظر آرہی تھی جس کے سوراخ بھی ہمیشہ کی طرح کافی نمایاں تھے۔
ہم سب بنیان کے سوراخوں کو دیکھتے ہوئے شاید تعظیماً کھڑے ہوگئے۔ لیکن برآمدے میں آکر انھوں نے ہمیںبیٹھنے کو کہا۔ ان کے ساتھ جو نوجوان تھا، اس کو اب میں نے پہچانا اور ایک لمحے کے لیے دم بخود رہ گیا۔ یہ وہی تھا جس نے کچھ دیر پہلے مجھ پر مائوزر تانا تھا۔

سب کے ساتھ میں نے بھی اس سے ہاتھ ملایا اور پھر خاموش ہو کر سوچنے لگا کہ کیا پتا یہ مجھے پہچان پائے گا یا نہیں۔ پھر چاچا نے متعارف کرایا۔ ’’اس سے ملو… ا س کا نام پیٹر ہے…‘‘۔

نام سن کر میں چونکا، اور پھر میرے منھ سے سلام کی جگہ ’’ہیلو‘‘ نکل گیا۔ ’’وعلیکم ہیلو‘‘ اس نے نہیں کہا، خاموشی سے اس نے مجھے گھورا۔ ’’تو ڈیوٹی چھوڑ کر پھر بھاگ آیا۔۔۔۔‘‘۔ اب اس نے غرانا شروع کیا۔

لیکن یہاں صورت حال مختلف تھی۔ میرے چہرے پر اس طرح کی مسکراہٹ پھیل گئی جس میں بالکل بھی گہرائی نہیں ہوتی۔ میں ہنسا۔ ’’میں ایک پیٹر ۔۔۔۔اوہ!۔۔۔۔۔ ٹامی کتے کو رکھوالی کے لئے چھوڑ کر آیا ہوں۔‘‘

پیچھے میں نے راشد اور قادر کو مسکراتے ہوئے دیکھا۔ لیکن چاچا کا چہرا بالکل نہیں بدلا۔ ’’اندر آجائو…‘‘ انھوں نے کہا اور وہ اندر کمرے میں چلے گئے۔ ہم سب ان کے پیچھے آئے۔ اس کے بعد اس عمارت کی چھت والے واقعہ کی طرف پیٹر نے اشارہ نہیں کیا۔

اندر جا کر چاچا اپنے مخصوص صوفے پر بیٹھ گئے جس کے لکڑی کے ہتھوں پر لال مخمل کے کور چڑھے ہوئے تھے ، مخمل کے کپڑے پر اپنی انگلیاں آہستہ آہستہ پھیرتے ہوئے کہنے لگے ’’اچھا تو پھر آج حساب کتاب یہاں ہی کرلیتے ہیں۔‘‘ انھوں نے کہا۔ پھر مجھ سے مخاطب ہوئے۔ ’’واجد تمھارے ساتھ چار لڑکے ہیں؟‘‘ انھوں نے پوچھا۔
’’تین…‘‘ میں نے جواب دیا۔
اس پر وہ آہستہ سے مسکرائے۔ ’’موسیٰ کو نہیں…‘‘
میں نے نفی میں گردن ہلائی۔ پھر وہ خاموش ہوگئے۔ ’’پیٹر تمھارے…‘‘ انھوں نے اس سے مخاطب ہو کر کہا۔ پیٹر مسکرا دیا۔ انھوں نے خفیف سا سر کو جھٹکا دیا جیسے کہ خود ہی سمجھ گئے ہوں۔

پھر وہ خاموش ہو کر رک گئے۔ آج چاچا کے انداز میں ایک خاص مصنوعی بات تھی جو عام طور پر نہیں ہوتی تھی۔ اب انھوں نے ایک بہت ہموار آواز میں بولنا شروع کیا۔ ’’ایک بات شاید تم سب کو نہیں معلوم… مال کا بٹوارا کرنے کے لیے پالیسی بدل دی گئی ہے… اب بٹوارا اس طرح سے نہیں ہوگا جیسے ہوتا تھا…‘‘

ہم سب خاموش رہے۔
’’تمام سامان میں سے ایک رقم مقرر کردی گئی ہے جو کہ بانٹی جائے گی‘‘
’’کتنی ہے؟…‘‘ میرے منھ سے آپ ہی آپ آہستہ سے نکلا۔
’’پانچ لاکھ…‘‘ بالکل ہموار آواز میں جواب ملا۔
میں چپ ہوگیا اور کوشش کرکہ اپنے جذبات کے تمام آثار چہرے سے ہٹانے لگا۔ سامنے صوفے پر پیٹر خاموش بیٹھا تھا۔
چاچا لمحے بھر کے لیے خاموش ہوئے اور ایک تیز نگاہ ہم سب پر ڈالی جیسے کہ ہمارے ارادے بھانپنے کی کوشش کررہے ہوں۔ ’’کوئی سوال تو نہیں؟…‘‘ انھوں نے پوچھا۔
پیٹر پھر مسکرا رہا تھا۔

راشد کا منھ کھلا کا کھلا تھا۔ ’’تو کیا سب میں سے صرف پانچ لاکھ بٹیں گے؟‘‘
’’نہیں… پانچ صرف تم لوگوں کے لیے ہیں…‘‘ چاچا نے جواب دیا۔
’’تو کل کتنے بٹ رہے ہیں؟‘‘ راشد نے پوچھا۔
’’یہ میں نہیں بتا سکتا… اور یہ بھی سن لو اس پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی… یہ فیصلہ اٹل ہے… کمیٹی نے ڈیسائیڈ کیا ہے… اور میرے ہاتھ میں نہیں ہے ‘‘۔
’’لیکن کمیٹی نے ہمارے سامنے تو ڈیسائیڈ نہیں کیا…‘‘۔ پیٹر کے چہرے پر مسکراہٹ ابھی تک قائم تھی۔
چاچا نے کوئی جواب نہیں دیا۔
سب خاموش تھے۔ راشد نے بھی اپنے سوال روک دیے اور جیسے ہم سب ہی کسی واقعے کا انتظار کررہے ہوں۔ پیٹر ہنسنے لگا۔
’’تو پھر کچھ دنوں میں ایک ایک کلاشنکوف دو گے اور تین ہزار میں نوکری…‘‘ وہ اور زور سے ہنسا۔
ہم میں سے کوئی بھی اتنی ہمت نہیں کرسکتا تھا۔ چاچا نے اسے گھور کر دیکھا۔ پیٹر مسکرا رہا تھا اور اس کی مسکراہٹ میں بالکل بھی مصنوعی پن نہیں تھا۔ پھر کچھ دیر یوں ہی گزر گئی ۔

پھرچاچا صوفے پر بیٹھے بیٹھے کچھ ہلے۔ جیسا کہ وہ ہمیشہ ہلتے تھے۔ اور انھوں نے اپنا انداز کچھ نرم کردیا۔

’’تو پھر کس طرح ۔ــ‘‘ وہ اب اپنے معمول کے انداز کی طرف آتے جارہے تھے۔ ’’…یار مجھے خود بھی نہیں معلوم کہ صرف رقم کس طرح تقسیم کروں… اچھا تو پھر ایسا کرو تم لوگ خود بتائو۔‘‘ انھوں نے مذاق کیا۔

ہم سب خاموش رہے۔
’’اچھا رکو…‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ اٹھے اور اندر کی طرف گئے۔ جب واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک بڑا سا لفافہ تھا جس کا منھ کھلا ہوا تھا اور یوں لگتا تھا کہ جیسے اس کے اندر کچھ چھوٹے چھوٹے بنڈل پڑے ہوئے ہیں۔

اپنے صوفے پر بیٹھتے ہوئے انھوں نے کہا۔ ’’چلو بھئی ابھی کرے دیتے ہیں حساب کتاب۔‘‘ اور لفافے میں ہاتھ ڈال کر ایک اور بھورے رنگ کا لفافا نکالا جس میں شاید نوٹ تھے اور راشد اور قادر کی طرف اچھال دیا۔ لگتا تھا کہ چاچا پہلے سے اپنا حساب کتاب کرکے بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کے بعد اس طرح انھوں نے ایک گڈّی مجھے دے دی اور ایک پیٹر کو۔ لیکن اس کے باوجود لفافے میں کچھ بچ گیا۔ انھوں نے لفافے کے منھ کو سیدھا کرکہ پلٹ دیا اور اس بنڈل کو صوفے کے ہتھے پر اپنے ہاتھ کے نیچے رکھ لیا۔

لگ رہا تھا کہ ابھی جتنا مال انھوں نے ہمیں بانٹا ہے شاید اس سے زیادہ لفافے میں بچا ہوا ہے۔ ہم سب کی نظریں اس پر تھیں۔
پھر مجھے آواز آئی کہ جیسے کسی نے پستول لوڈ کیا ہو اور میں نے دیکھا کہ پیٹر کے ہاتھ میں اس کا مائوزر تھا۔ اس کی نال چاچا کی کھوپڑی کی طرف تھی۔ چاچا کچھ کہتے کہتے رک گئے۔ ہم تینوں کو سانپ سونگھ گیا۔

پیٹر بڑے اسٹائل میں بولا ’’میاں یہ تین ہزار والی نوکری ان لڑکوں سے کرواناجو ابھی پہرہ دے رہے ہیں… ہم کو کیا سمجھ بیٹھے ہو؟…‘‘

ابھی چاچا کوئی جواب ہی دینے والا تھا کہ پیٹر زور سے گرجا۔ ’’خبردار جو مجھے جواب دینے کی کوشش کی…‘‘ اور وہ کھڑا ہوگیا۔ یکایک وہ بے انتہا غصے میں آچکا تھا۔

’’چلو آگے… دیوارکے ساتھ…‘‘ اس نے قادر اور راشد کی طرف دیکھ کر کہا۔ ’’چلو!…‘‘ وہ چیخا۔
قادر اور راشد لڑ کھڑاتے ہوئے اٹھے۔ ان کے دونوں ہاتھ خود بخود ہی بلند ہوگئے تھے اور آہستہ آہستہ دیوار کی طرف بڑھے۔ میں اپنے واسطے حکم کا منتظر تھا۔

’’اس کا لفافہ اٹھا کر مجھے دو…‘‘ وہ اب مجھ سے بولا۔ میں نے چاچا کے ہاتھ کے نیچے سے وہ لفافا نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔ راشد اور قادر دیوار کی طرف پیٹھ کیے دونوں ہاتھ ہوا میں اٹھائے کھڑے تھے۔ اس کو لفافہ پکڑاتے ہوئے میرا خوف قدرے کم ہوگیا۔ اس کا انداز میری طرف اتنا کڑوا نہیں تھا۔ ’’اپنا منھ دیوار کی طرف کرو…‘‘ وہ ان دونوں سے بولا…‘‘ اور مرغا بن جائو…‘‘

چاچا ابھی تک اپنے صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ’’ان کو باندھنے کا بندوبست کرو۔‘‘ وہ مجھ سے بولا۔ میں نے کسی رسی یا ڈوری کے لیے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں۔

’’مُرغا بنو…‘‘ وہ قادر اور راشد پر چیخا۔

اس وقت مجھے اس بات پر حیرت تھی کہ پیٹر نے مجھ پر کیسے بھروسا کرلیا تھا۔

میں ڈوری یا رسی ڈھونڈنے کے لیے باہر صحن میں چلا گیا۔ اب مجھے اس بات کا اندازہ ہورہا تھا کہ اگر اس وقت باہر سے کوئی لڑکا اچانک کسی کام سے آگیا تو بازی منٹوں میں پلٹ جائے گی۔ دل ہی دل میں میں پیٹر کی ہمت کی داد بھی دے رہا تھا۔ ہمت یا حماقت ان دونوں میں فرق مجھے اس وقت نہیں محسوس ہورہا تھا۔

برآمدے میں میری رائفل ابھی تک پلر سے ٹکی ہوئی کھڑی تھی۔ میں نے سب سے پہلے اسے اٹھایا۔ قریب ہی رکھے ہوئے ایک بکسے میں نائیلون کی ڈوری مل گئی۔ اندر جا کر میں نے جلدی جلدی ارشد اور قادر کو زمین پر اوندھا لٹا کر ان کے ہاتھ پائوں باندھے۔ چاچا اس وقت تک اپنے صوفے پر دونوں ہاتھ اوپر کیے ہوئے بیٹھے تھے۔ ان کے چہرے سے اس وقت کوئی تاثر عیاں نہیں ہورہا تھا۔

پیٹر نے اپنی جیب سے نکال کر مجھے ایک چابی دی اور کہا کہ ’’ویسپا کو باہر گلی میں نکالو۔ میں نے باہر نکلتے ہوئے برآمدے سے قادر کی کلاشن بھی اٹھا لی۔

باہر نکل کر میں نے ویسپا کو اسٹارٹ کیا اور پیٹر کا انتظار کرنے لگا۔ ابھی چند سیکنڈ ہی گزرے ہوں گے کہ مجھے اندر کمرے سے ایک زور دار فائر کی آواز آئی۔ میں بری طرح چونک گیا۔ کچھ دیر بعد پیٹر باہر آ کے دروازے کی کنڈی لگا کر آرہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا۔ ’’کیا ہوا؟…‘‘ ’’کچھ نہیں…‘‘ اس نے جواب دیا۔ وہ ویسپا کی پیچھے والی سیٹ پر آکر بیٹھ گیا اور اس نے کہا۔ ’’چلو…‘‘
قادر کی کلاشن پیٹر نے اٹھائی ہوئی تھی۔ میں نے اپنی 7mm کی رائفل ویسپا کی آگے والی جالی میں اڑائی ہوئی تھی۔ گلی کے نکڑ پر پہنچ کر میں نے اس سے پوچھا۔ ’’ہم کہاں جارہے ہیں…‘‘

اس نے دائیں طرف اشارہ کردیا۔ اس وقت وہ قدرے سکون میں لگ رہا تھا۔حالاںکہ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا ہورہا ہے۔ سب سے بڑا خطرہ مجھے اس بات کا تھا کہ اگر کسی کو اب بھی خبر ہوگئی تو ہم لائنز ایریا سے زندہ نہیں نکل سکتے تھے۔ اور پھر وہ کمرے میں فائر کیوں ہوا تھا۔ کوئی مرا تھا یا محض ڈرانے کے لیے پیٹر نے کیا تھا۔ویسے ایک بات یقینی تھی کہ اگر چاچا زندہ رہ گئے تو یا تو ہم دونوں کو شہر چھوڑنا پڑے گا یا بھیس بدل کر کوئی شرافت کی نوکری کرنی پڑ جائے گی۔ پیٹر سے پوچھنا تو بے کار تھا کیوںکہ وہ کچھ نہیں بتاتا اور میں اس کو اتنا جانتا بھی نہیں تھا۔ وہ تو نجانے کیوں اس نے مجھے اپنے ساتھ ملا لیا تھا نہیں تو میں بھی اس کمرے میں بندھا پڑا ہوتا۔

پیٹر کے اشاروں پر میں اسکوٹر کو دائیں بائیں گلیوں میں موڑتا رہا۔ لائنز ایریا سے میں اچھا خاصا واقف تھا۔ لیکن لگتا تھا کہ پیٹر نے کسی شکاری کتے کی طرح ان راستوں کو سونگھا ہوا تھا۔ اس نے مجھے ایسی ایسی گلیوں سے نکلوایا جن کے بارے میں گمان بھی نہیں کرسکتا تھا کہ ان کا آخری سرا کہاں پہنچتا ہے۔ ہم لوگ آہستہ آہستہ گورا قبرستان والے سرے کی طرف بڑھ رہے تھے۔

اب لگتا تھا کہ علاقہ میں ٹینشن تھوڑا کم ہوگیا ہے کچھ لڑکے چھتوں سے نیچے اتر آئے تھے اور گلی کے کونوں پر کھڑے تھے اور آپس میں باتیں یا مذاق کررہے تھے۔اور ابھی تک انھوں نے اسلحہ اٹھایا ہوا تھا اور ایسے میں ویسپا کی اگلی جالی میں سیون ایم ایم کی رائفل اڑس کر گزرنا خاصا معمول پر تھا۔ اس واسطے اب میں نسبتاً سکون سے اسکوٹر چلا رہا تھا۔

مین روڈ سے چند گلیاں پہلے اس نے اسکوٹر کو ایک ۸۰ گز کے خالی پلاٹ کے سامنے رکوایا جس کے برابر ایک چار منزلہ عمارت کھڑی تھی۔ اس عمارت کے پچھلے حصہ سے ایک دروازہ اس پلاٹ میں کھلتا تھا۔ یہ دروازہ دو سیڑھیاں اوپر چڑھ کر تھا اور ان کے بیچ میں موٹر سائیکل یا اسکوٹر وغیرہ چڑھانے کے لیے ایک چڑھائی بنی ہوئی تھی۔ اس نے چڑھ کر چابی سے وہ دروازہ کھولا۔ اس کے بعد مجھے اشارہ کیا کہ میں اسکوٹر اوپر چڑھا لوں اور ایک طرف ہٹ کر کھڑا ہوگیا، اسکوٹر اوپر چڑھانے میں اس نے میری کوئی مدد نہیں کی۔

میرے اوپر آجانے کے بعد اس نے پیچھے سے دروازہ بند کیا۔ دروازے کے برابر سے ایک تاریک زینہ اوپر کی طرف چڑھتا تھا۔ زینے پر قدم رکھتے ہوئے مجھے پیچھے آنے کو کہا۔ وہ زینہ خاصا تنگ اور تاریک تھا اور اس پر چڑھنا کافی مشکل۔ شاید دوسری یا تیسری منزل پر ایک بند و تاریک دروازے کے سامنے وہ رک گیا اور اس پر آہستہ سے دستک دی۔ کچھ دیر تک کوئی جواب نہیں آیا۔ اس نے پھر سے ذرا زور سے دروازہ کھٹکھٹایا۔ اندر سے کسی عورت کی دبی دبی سی آواز آئی جیسے کہ نیند جاگی ہو۔ یہ سن کر پیٹر نے پھر دروازہ پیٹا۔

’’کون…‘‘ اس بار آواز اونچی تھی، لیکن لگتا تھا کہ اپنے خوف کو چھپانے کے لیے ذرا زور سے بولی ہو۔ پیٹر خاموش رہا۔ تھوڑی دیر میں اندر کے کمرے میں بتّی روشن ہوئی۔ ’’کون ہے…‘‘ اس بار اس عورت نے ذرا پختہ لہجے میں پوچھا۔

’’دروازہ کھولو…‘‘ پیٹر نے آہستہ سے جواب دیا۔

اب اندر سے چٹخنی کی آواز آئی اور کسی نے دروازے میں سے باہر جھانکا اور پھر پیٹر کو سامنے کھڑا دیکھ کر دروازے کا پورا پٹ کھول دیا۔ پیٹر اندر داخل ہوا اور مجھے اندر آنے کا اشارہ کیا۔ لگتا تھا کہ وہ عورت گہری نیند سے اٹھ کر ابھی آئی ہے۔ بال کھلے ہوئے شانوں پر بکھرے تھے اور شاید گرمی کی وجہ سے اس نے کھلے گلے کا جمپر پہنا ہوا تھا۔ پیٹر کے پیچھے اس نے شاید مجھے نہیں دیکھا تھا۔ مجھے دیکھ کر وہ ذرا چونکی اور اپنے کھلے گلے کو محسوس کرتے ہوئے اس کے چہرے سے ایک بے چینی کی جھلک گزری۔ پھر وہ دو قدم پیچھے ہٹی اور اندر کمرے میں چلی گئی۔ باہر آئی تو اس نے اپنا سر اور بدن ایک چادر میں ڈھانپا ہوا تھا۔

اس کی نظر مجھ پر دوبارہ پڑی اور وہ پیٹر سے کچھ کہتے کہتے رہ گئی۔

پیٹر نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’یہ میرا دوست ہے…‘‘ اور پھر وہ رکا۔
’’واجد…‘‘ میں نے خود اپنا نام بتا دیا۔ کیوںکہ مجھے یقین نہیں تھا کہ اسے میرا نام بھی معلوم تھا یا نہیں۔
’’ہم لوگ ایک ایسی صورت حال میں پھنس گئے کہ ادھر ہی آنا پڑا… تمھاری چابی کام آگئی۔ وہ بات کرنے میں تھوڑا ہچکچا رہا تھا۔ ’’مجھے معلوم ہے تمھاری صورت حال… لیکن اصل میں…‘‘

پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوا۔ ’’یہ… یہ یاسمین ہیں… یہ میری… ایک جاننے والی ہیں۔‘‘ اور اب وہ یاسمین کی طرف پلٹا۔
’’ اچھا یہ بتائو… اگر صبح تک ہم رک جائیں تو کوئی پرابلم تو نہیں ہوگی…‘‘
میں پیٹر کی ہچکچاہٹ پر حیران تھا۔

یاسمین نے آہستہ سے سر ہلایا۔ اس کی شروع کی پریشانی اب کچھ قابو میں آئی جارہی تھی۔ ’’ایک منٹ رکو…‘‘ اس نے کہا۔ اور مڑ کر اپنے کمرے کے دروازے کے برابر ایک بند دروازہ کھولنے لگی۔ اندر ایک چھوٹا سا ڈرانگ روم تھا۔ بیچ میں ایک لکڑی کی میز، ایک طرف ایک بڑا صوفا اور میز کے اس طرف دو چھوٹے صوفے رکھے تھے جن کے ہتھے لکڑی کے تھے۔ سامنے کی طرف ایک دروازہ اور کھڑکی تھی جو لگتا تھا کہ کسی بالکنی میں کھلتے ہوں گے۔ کھڑکی کے آگے میز پر ایک ٹی وی رکھا ہوا تھا۔

’’… بیٹھو…‘‘ اس نے کہا۔ اس کے لہجے میں روانی آتی جارہی تھی۔ میں اندر جا کر ایک چھوٹے صوفے پر بیٹھ گیا اور پیٹر سامنے والے لمبے صوفے پر۔ یاسمین باورچی خانے میں چلی گئی، جو کہ برابر میں تھا۔ کچھ دیر پیٹر خاموش رہا۔ اس کے بعد وہ اٹھ کر بالکنی والا دروازہ کھول کر باہر کی طرف چلا گیا۔

اب میں کمرے میں اکیلا بیٹھا ہوا تھا۔ ایک لمحے کے لیے آج کے تمام واقعات میری آنکھوں کے سامنے سے گزرنے لگے۔ کہاں میں شام کو اس بلڈنگ کی چھت پر مورچہ سنبھالے بیٹھا تھا۔ تھوڑی دیر بعد مال کے بٹوارے کا حصہ ملنے والا تھا، کہاں اب نجانے کس کے فلیٹ کے ڈرائنگ روم میں تھا، اور اس بارے میں بالکل علم نہیں رکھتا تھا کہ صبح تک میرا کیا حشر ہوجائے لیکن ایک بات کے بارے میں تو مجھے یقین تھا… وہ یہ کہ اب چاچا ہمارا جینا مشکل کردے گا۔

تھوڑی دیر بعد پیٹر کمرے میں آیا۔ اس کے چہرے پر تھوڑی بے چینی تھی۔ ’’ابھی تک بہت خاموشی ہے…کچھ ہوا نہیں۔۔‘‘ اس نے کھڑے رہ کر مجھ سے کہا۔ پھر وہ دوبارہ بالکنی میں جھانکنے لگا۔

تھوڑی دیر بعد یاسمین کمرے میں داخل ہوئی۔ اس کے ہاتھ میں ایک ٹرے تھی، جو اس نے لا کر میز پر رکھ دی۔ اس میں ایک پلیٹ میں کچھ نمکین بسکٹ تھے اور دوسری میں چیوڑہ۔ اس نے پیٹر سے پوچھا۔ ’’کیا کھانا کھالیا ہے تم لوگوں نے…‘‘

میں دل ہی دل میں اس کی مہمان نوازی پر بہت ممنون ہوا۔ آج کی تمام گرما گرمی میں مجھے بالکل یاد نہیں رہا تھا کہ میں نے کھانا کب کھایا تھا۔
’’کچھ ہے تو لے آئو نہیں تو اس سے کام چلا لیں گے…‘‘ پیٹر بولا۔ پھر وہ کچھ رکا۔ ’’اچھا اور وہ چیزیں ہیں؟…‘‘

اس نے سر کو ہلکے سے جھٹکا دیا اور واپس چلی گئی۔ ایک منٹ کچھ سوچنے کے بعد پیٹر بھی اس کے پیچھے چلا گیا۔ کچھ دیر تک ان کی آپس میں بات کرنے کی آواز آتی رہی۔ اس کے بعد پیٹر نے آکر مجھ سے پوچھا ’’سفید… یا رنگین؟‘‘

’’کیا…‘‘ میرے منھ سے آپ ہی آپ نکلا۔
’’سفید پیتے ہو… یا رنگین؟‘‘
’’اوہ… کوئی بھی۔‘‘ اس وقت شراب شاید آخری چیز تھی جس کی طرف میرا دھیان جاتا۔ میں نے سوچا۔
کچھ کہے بغیر وہ چلا گیا۔ جب واپس آیا تو اس کے ہاتھوں میں ایک لنڈن جن اور ٹھنڈے پانی کی بوتلیں تھیں۔ ’’برف؟‘‘ اس نے مجھ سے پوچھا۔
’’نہیں، ٹھیک ہے…‘‘ میں نے اپنے طور پر کچھ تکلف کرتے ہوئے کہا۔ وہ پھر چلا گیا۔ اب کے واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں دو گلاس تھے۔
’’برف ویسے تھی بھی نہیں۔‘‘ اس نے بیٹھتے ہوئے مسکرا کر کہا… اور یہاں پر صرف سفید مال ہی تھا…‘‘
میں جواب میں تھوڑا مسکرایا۔ کیا شخص ہے یہ بھی، میں نے اپنے دل میں سوچا۔

’’بوتل دیکھنا…‘‘ یہ کہہ کر اس نے جن کی بوتل اٹھائی اور میرے قریب رکھے ہوئے گلاس میں آہستہ آہستہ انڈیلنے لگا… اور رکا نہیں… ’’بس بس…‘‘ میں نے جیسے کہ نیند میں سے جاگ کر کہا جب وہ میرا گلاس تقریباً آدھا بھر چکا تھا۔

’’پانی؟…‘‘ اس نے پوچھا۔
میں نے مسکر ا کر گھبراتے ہوئے گردن ہلائی۔ اس نے میرا گلاس پانی سے بھر دیا۔ اس کے بعد اس نے اپنا گلاس بھی تقریباً آدھا جن سے بھر دیا اور پھر گلاس ہاتھ میں اوپر اٹھاتے ہوئے کہا ’’السلام علیکم…‘‘ اور پھر وہ رک گیا جیسے کہ میرا انتظار کررہا ہو۔

مجھے ایک لمحے کے بعد سمجھ میں آیا کہ اس کا کیا مطلب تھا۔ مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ یہ شخص واقعی مسلمان نہیں ہے۔ حالاںکہ میں شراب پیتا تھا لیکن مجھے لگا کہ اس نے میرے مذہب کا مذاق اڑایا ہے۔ لیکن وہ مذہبی بحث کا وقت نہیں تھا۔ میں نے اپنے گلاس کو آہستہ سے اٹھایا۔ گردن کو خفیف سا جھٹکا دیا اور پہلا گھونٹ لے لیا۔ اس نے ایک لمبے گھونٹ میں اپنا گلاس تقریباً آدھا کردیا۔ کچھ دیر رکنے کے بعد میں نے اس سے پوچھا۔ ’’تمھارا تعلق کہاں سے ہے؟‘‘

مجھے دیکھ کر وہ مسکرایا اور اس نے ایک چھوٹا گھونٹ لیا۔ ’’یہیں کہیں، اسی کسی گلی کوچے، شہر سے‘‘۔ میری طرف دیکھ کر اس نے جواب دیا اور پھر منھ پھیر کر باہر گیلری کی طرف دیکھنے لگا۔ ایک لمحے بعد وہ پلٹا اور پورا گلاس غڑپ کرگیا۔ مجھے لگا کہ اس کو شاید میرا یہ سوال پسند نہیں آیا تھا۔ پھر اس نے جن کی بوتل دوبارہ اٹھائی اور اپنا گلاس بھرا۔ پھر میرے گلاس کی طرف بوتل کا رخ کرکہ پوچھا…’’ اور نکال دوں…؟‘‘

میں نے اپنے گلاس سے اس وقت تک صرف ایک گھونٹ پیا تھا۔ وہ تقریباً بھرا ہوا ہی تھا۔ میں مسکرایا اور ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا۔ لگ رہا تھا کہ اسے ابھی سے چڑھنے لگی ہے۔

پھر جیسے کہ ایک دم سے خیال آیا ہو۔ وہ اٹھ کر باورچی خانے کی طرف چلا گیا۔ جب واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک گلاس تھا جس میں برف تھی۔ اس گلاس کو میز پر رکھ کر اس نے پھر اپنا گلاس اٹھا لیا اور مجھے اشارے سے کہا ’’پیو…‘‘

مجھے خیال آیا کہ تھوڑی دیر پہلے تو اس نے مجھ سے کہا تھا کہ برف نہیں ہے۔ اب یہ برف کہاں سے آگئی؟ لیکن اس بات کو میں نے نظر انداز کردیا۔

۔تھوڑی دیر ہم دونوں خاموش بیٹھے رہے پھر وہ بولا۔ ’’تمھیں کتنا حصہ چاہیے…‘‘
’’کیا…؟‘‘ مجھے اس کا سوال سمجھ میں نہیں آیا۔
لیکن ایک لمحے بعد مجھے خیال آیا کہ اس کا اشارہ آج کے مال کی طرف ہے۔ میں خاموش ہو کر سوچ میں پڑ گیا۔
اس نے زیادہ انتظار نہیں کیا۔ مذاق کے انداز میں اس نے پوچھا ’’کیا کچھ نہیں چاہیے…؟‘‘ ۔
’’تمھارے حصے میں کتنے پیسے تھے‘‘ پھر اس نے آہستہ سے سوال کیا۔
مجھے خیال آیا کہ ابھی تک اپنے مال کو گننے کی طرف میرا دھیان نہیں گیا تھا اور یہ بات شاید میری شکل سے بھی عیاں ہوگئی۔
’’باہر جا کر گن لو…‘‘ میں اس کی بات مانتا ہوا اٹھ کر باہر چلا گیا اور لفافے میں سے پیسے نکال کر انھیں گننے لگا۔ ساتھ ہی مجھے اس بات پر حیرت بھی تھی کہ اس نے کس طرح مجھ پر بھروسا کرکہ مجھے باہر جانے کو کہہ دیا۔

جب میں واپس آیا تو خاصا مایوس تھا۔ صوفے پر بیٹھنے کے بعد میں نے اسے جواب دیا ’’ستر…‘‘ مجھے خود یقین نہیں آرہا تھا کہ چاچا نے اتنے کم پیسے دیے تھے۔ ’’مجھے سوا تین ملے…‘‘ اس نے خاموش لہجے میں جواب دیا۔

مجھ میں اس وقت اتنی ہمت نہیں تھی کہ اس سے پوچھوں کہ یہ تمام پیسے وہ تھے جو اسے ملے تھے یا اس نے چاچا سے چھینے تھے یا یہ کہ اس نے قادر اور راشد کا مال بھی کھینچا تھا۔ ’’سوا میں تم کو دے دوں گا…‘‘ اس نے اتنے ہی خاموش لہجے میں کہا۔

ہم دونوں کچھ دیر خاموش بیٹھے رہے۔ پھر یاسمین کمرے میں آگئی اور پیٹر سے کچھ دور لمبے صوفے پر بیٹھ گئی۔ برف والا گلاس اس کے تقریباً سامنے رکھا ہوا تھا۔ پیٹر نے اس میں جن انڈیلنا شروع کی اور ابھی تھوڑی ہی ڈالی ہوگی کہ یاسمین نے ہاتھ سے اشارہ کیا ’’…بس بس…‘‘

اب ہم تینوں کچھ دیر خاموش بیٹھے رہے۔ یاسمین نے اپنے گلاس سے ہلکی سی چسکی لی۔ اس کی آنکھیں ابھی تک بوجھل اور تھکی ہوئی تھیں۔
مجھے یہ صورت حال بہت عجیب لگ رہی تھی۔ اس بات سے میں ضرور خوش تھا کہ مجھے سوا لاکھ اور مل جائیں گے۔ لیکن آپ ہی آپ اس شخص نے کس طرح مجھے پیسے دینے کا اظہار کردیا؟ اور پھر یہ عورت کون تھی جو کہ رات گئے بن بلائے نوواردوں کے ساتھ بیٹھ کر شراب پی رہی تھی۔
کچھ دیر میں اس نے پیٹر سے کہا۔ ’’آج دن میں محلے سے حلیم آیا تھا… ابھی گرم ہورہا ہے…‘‘
’’حلیم؟… واہ‘‘ میں نے دل میں سوچا۔ پیٹر نے کوئی جواب دیا۔
’’وہیں جارہی ہو اب بھی… طارق روڈ پر جو بیوٹی سینٹر تھا…‘‘
’’ہاں…‘‘ یاسمین نے خفیف سا سر ہلایا۔
’’کچھ… بات بنی یا ابھی تک وہی صورت چل رہی ہے…‘‘
’’وہی…‘‘ یاسمین نے پھر خاموش لہجے میں جواب دیا۔
’’ویسے میں نے کاظم سے بات کرلی ہے… پچھلے ہفتے… ٹائم نہیں ملا نہیں تو تمھیں ایک آدھ دن میں کونٹیکٹ کرتا…‘‘

یاسمین کی خاموشی ہلکے غصے میں بدلی ۔ ’’ایک آدھ دن میں؟ ۔۔۔۔۔ دو مہینے سے خبر نہیں کہ تم زندہ ہو یا مر گئے۔۔۔۔۔۔۔ اور مجھ سے کہتے ہو کہ ایک آدھ دن میں کونٹیکٹ کرتے ۔۔۔۔۔۔۔‘‘۔

’’ارے تم کو معلوم ہے کہ میرا زندہ رہنا… موت سے کوئی زیادہ بڑھ کر نہیں ہے…‘‘ اس کا یہ جواب تھوڑا ڈرامائی تھا۔ پھر اس نے ایک لمبا گھونٹ لیا اور آہستہ سے مسکرایا۔’’ تمھیں معلوم ہے کہ خدا پر مجھے اس لیے یقین نہیں ہے۔ کیوںکہ میں مرتا نہیں ہوں…‘‘

مجھے پھر اس کی یہ بات تھوڑی بے تکی محسوس ہوئی۔ لیکن میں خاموش رہا اور یاسمین کی طرف سے کسی جواب کا انتظار کرنے لگا۔ وہ تھوڑی سی اور آزردہ نظر آئی، مجھے لگا کہ اس کی تھکی آنکھوں میں ایک آنسو ہلکے سے تیرا ہو۔ لیکن وہ خاموش رہی اور اس نے بھی اپنا گلاس اٹھا کر ایک گھونٹ لیا۔ کچھ دیر وہ بیٹھی رہی پھر اٹھ کر اندر باورچی خانے میں چلی گئی۔

واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں ایک اور ٹرے تھی جس میں دو خالی پلیٹیں، ایک چھوٹی پلیٹ میں نیبو، ہری مرچیں اور پودینہ اور ایک چینی کے برتن میں حلیم تھا۔ یہ ٹرے اس نے لاکر ہمارے سامنے رکھ دی اور خود صوفے پر اپنی جگہ بیٹھ گئی۔

پیٹر نے وہ ٹرے میری طرف بڑھا دی تاکہ پہلے میں نکالنا شروع کروں۔ میں نے ایک پلیٹ اٹھا کر اس میں تھوڑا حلیم نکالا۔
’’کیا بات ہوئی؟… کاظم سے؟‘‘ یاسمین نے پیٹر سے پھر پوچھا۔
’’اس نے کہہ دیا ہے کہ کوئی مسئلہ نہیں… زمزمہ پر جو اس کا پارلر ہے وہاں چلی جائو… اور شاید اس کے فلیٹ میں جگہ بھی ہو۔
’’فلیٹ کہاں ہے اس کا۔‘‘
’’تین تلوار کی طرف…‘‘
’’اور پیسے کتنے دے گا؟‘‘
’’یہاں سے بہتر ہی مل جائیں گے… اور پھر اس کے جاننے والے اتنے لوگ ہیں شاید کوئی مال دار پارٹی پھنس جائے۔‘‘

یاسمین نے مزید کوئی سوال نہیں پوچھا۔ ہم لوگ خاموشی سے حلیم کھاتے رہے۔ کھانے کے درمیان میں بہ مشکل اپنا گلاس آدھا کرپایا، میں کبھی بھی پینے پلانے میں ماہر نہیں رہا ہوں۔ پیٹر نے اپنا دوسرا گلاس بھی ختم کردیا۔ یاسمین بھی آہستہ آہستہ پیتی رہی۔ بیچ میں اٹھ کر وہ ایک پانی کی بوتل اور گلاس اور لے آئی تھی۔

کھانے کے دوران پیٹر حلیم کی تعریفیں کرتا گیا جو اتنا برا نہیں تھا۔ لیکن میرے حساب سے مرچیں زیادہ تھیں۔ کھانا ختم کرکہ پیٹر نے ڈھیر سارا …کم از کم تین گلاس پانی پیا۔ اتنی مرچوں کے بعد پیاس مجھے بھی لگ گئی تھی۔ یاسمین نے پلیٹیں سمیٹ کر ایک طرف کردیں لیکن اٹھائی نہیں۔

کچھ دیر پیٹر باہر گیلری کی طرف دیکھتا رہا، پھر یاسمین سے مخاطب ہوا ’’… اور کیا ہورہا ہے یار۔‘‘ یاسمین کا گلاس تقریباً ختم ہوچکا تھا پیٹر نے جن کی بوتل اٹھائی اور اس کے گلاس میں تھوڑی انڈیلی۔ گلاس میں ابھی بھی برف کی کچھ ڈلیان باقی تھیں۔ گلاس آدھا لبریز ہونے کے بعد پیٹر رک گیا اور پانی کی بوتل کی طرف ہاتھ بڑھانے لگا لیکن یاسمین نے اشارے سے روک دیا۔

’’تم اب بھی اکیلے نہیں پیتیں؟‘‘ اس نے یاسمین سے مسکرا کر پوچھا۔
یاسمین نے خاموشی سے گردن ہلائی۔ میرے دماغ میں حیرت کی بتیاں ایک بار پھر جل گئیں کہ یہ عورت نیٹ شراب بھی پیتی ہے۔ لیکن پیٹرنے اپنے اسٹائل کے مطابق اس بات کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔

’’ویسے ابھی تمھارے پاس مال تو بچا ہوا ہے… میں راجا سے کہہ دوں گا کہ کچھ اور اسٹاک ڈال دے…‘‘
یاسمین خاموش رہی۔ ہم لوگ خاموش بیٹھے رہے۔ میرا گلاس ختم ہوگیا۔ میں نے خود بھر لیا۔ پیٹر نے ایک اور پیگ بھی ختم کرلیا۔ یاسمین اپنے دوسرے کے اختتام پر پہنچی۔ ’’اور تمھارے ساتھ کیا چل رہا ہے؟‘‘ اس نے اب پیٹر سے پوچھا۔ اس کے انداز میں نشہ اترتا آرہا تھا۔ نیٹ جن نے اپنا کام تیزی سے دکھایا تھا۔

’’کچھ نہیں… وہی…‘‘ وہ دونوں مجھے اب خاصے نشے میں آتے ہوئے لگ رہے تھی۔ کچھ دیر دونوں خاموش رہے پھر پیٹر نے بات کا رخ ایک دم موڑ دیا۔ ’’چاچا سالے کا دماغ خراب ہوگیا… کہتا تھا سالا کہ ہم اب اس کی تین ہزار روپیہ جیسی نوکری پر آجائیں…‘‘
’’اچا!… تو پھر… تو پھر کیا ہوا…‘‘ یاسمین نے تھوڑے دھیان سے پوچھا۔
’’کچھ نہیں… سالے کو ٹائٹ کردیا…‘‘
’’کیا؟… کیا کردیا؟‘‘ یاسمین نے اس بار پریشانی سے پوچھا۔
’’ارے یار کچھ نیا نہیں کیا! … سالے کو اس بار ٹائٹ کردیا… آگے دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔‘‘

یاسمین خاموش ہوگئی، جیسے کہ وہ بات سمجھ گئی ہو۔ اس کی آنکھوں میں ایک افسردگی آگئی۔ میری موجودگی سے اب وہ بالکل بے پرواہ لگ رہی تھی۔ ’’تم کیوں اس طرح ہوگئے ہو…‘‘ پھر اس نے پیٹر سے کہا۔ ’’منّور کی موت کے بدلے تم کب تک لو گے؟…‘‘ وہ تقریباً روہانسی تھی۔ اس نے بات کا رخ ماضی کے واقعات کی طرف موڑ دیا تھا، جن کے بارے میں مجھے کوئی علم نہ تھا۔

’’منّور کو مارنے والے کب کے مرچکے ہیں… لیکن اس کو ان چند لوگوں نے نہیں مارا، بلکہ ایک زمانے نے مارا ہے۔۔۔۔ پورے زمانے نے ۔۔۔۔‘‘ اس نے ہنس کر کہا۔ مجھے لگا کہ اب پیٹر کے شراب کا پیمانہ اتنا ہوچکا ہے کہ وہ اب سوائے مسکرانے کے اور کچھ نہیں کرسکتا ہے۔

یاسمین اس کا جواب سن کر خاموش رہی۔ جیسے کہ اس بار وہ اپنے جذبات کو اپنے پر حاوی نہیں ہونے دینا چاہتی تھی۔’’ تمھارا دماغ چل گیا ہے…‘‘ اس نے اتنا جواب دیا۔

’’اتنا تو نہیں چلا ہے جتنا تمھارا چلاہے۔‘‘ پیٹر نے ترنت جواب دیا۔ ’’چلو میرے پاس تو یہ سب کچھ کرنے کا بہانہ ہے… تمھارے پاس کیا ہے… تم نے کس واسطے اپنا دھندا چلایا ہوا ہے؟…‘‘

میں پیٹر کی اس بات پر چونکا۔ میرا خیال تھاکہ یاسمین کسی سخت ردعمل کا اظہار کرے گی۔ لیکن اس نے نہیں کیا۔ بلکہ بہت ہموار لہجے میں بولی۔ ’’میرے پیشے پر یوں طعنے نہ کسو… یاد ہے۔ اس کی وجہ سے پہلی بار تمھاری جان بچی تھی…‘‘ پھر وہ سکون میں آگئی۔ جیسے کہ پیٹر کے ساتھ اس کا تمام جھگڑا ختم ہوگیا ہے۔

پیٹر بھی خاموش رہا۔ مجھے ان دونوں کے درمیان بیٹھ کر خاصا عجیب لگ رہا تھا۔ لیکن یہ آج کے دن میں ہونے والی پہلی عجیب بات نہیں تھی۔ یاسمین کا گلاس ختم ہوگیا تھا۔ اس نے اس بار اپنے لیے خود پیگ بنایا اور اس میں تھوڑا پانی بھی ڈالا۔ پھر اس نے پیٹر کے لیے بھی پیگ بنایا۔
پیٹر باہر گیلری کی طرف دیکھنے لگا۔ ’’بڑی دیر ہوگئی… ابھی تک کچھ نہیں ہوا۔‘‘ اس نے باہر دیکھتے دیکھتے کہا۔
میرا خیال تھا کہ آج رات کے چھاپے کی خبر ہم لوگوں نے خود پھیلائی تھی تاکہ تھوڑی حفاظت میں ہمارا کام ہوجائے۔
’’کیا رینجرز والے اندر علاقے میں آنے والے ہیں۔‘‘ میں نے ذرا مذاق کے انداز میں پوچھا۔
’’رینجرز…؟‘‘ اس نے یوں کہا کہ جیسے وہ کسی اور بات کے بارے میں سوچ رہا ہو۔ ’’ہاں ہوسکتا ہے، بعد میں ان کو بھی آنا پڑے۔‘‘
اب شراب کا اثر میرے دماغ میں سرایت کرچکا تھا اور شروع کی پریشانی اور خوف اب تحلیل ہوچکے تھے۔
’’تم نے تنظیم کب جوائن کی…‘‘ میں نے اس سے اب پوچھا۔
’’ابے یہ تو میرا دھندا ہے… تنظیم کہاں سے آئی…‘‘
’’تو دھندے میں تنظیم نہیں ہوسکتی…‘‘ میں نے مسکرا کر اسے جواب دیا۔
’’ہاں وہ تو ہوسکتی ہے…‘‘ وہ بھی ہنسا۔

پھر ہم یوں ہی تھوڑا مذاق کرتے رہے۔ میرا پیگ ختم ہوگیا۔ یاسمین کا بھی اختتام کے قریب آیا۔ ہماری باتوں میں اس نے حصہ تو نہیں لیا، لیکن اس کا دل تھوڑا بہل گیا۔ پیٹر تقریباً دو اور پی گیا۔ اب وہ پورے موڈ میں آگیا تھا اور بہت زور زور سے ہنس رہا تھا۔ لیکن اس کی زبان خاصی صاف تھی، نہیں تو میرا خیال تھا کہ اب تک اس کو مغلّظات پر اتر آنا چاہیے تھا۔

کچھ دیر بعد یاسمین اٹھنے گی۔ اس نے پیٹر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’تو پھر تمھارا کیا پروگرام ہے… مجھے بہت نیند آرہی ہے۔ میں سونے جارہی ہوں…‘‘
کیوں؟ اور نہیں پیو گی…‘‘ اس کے گلاس کی طرف پیٹر نے ہاتھ بڑھایا۔
’’نہیں… میں جارہی ہوں… تم آئو گے؟‘‘
’’نہیں… ابھی تو میں بیٹھا ہوں…‘‘ پیٹر نے بغیر کسی ردعمل کے کہا۔‘‘ تھوڑی دیر میں دیکھتا ہوں۔ ویسے بھی صبح تک مجھے جانا ہے…‘‘
یاسمین خاموش ہو کر چلی گئی۔ پیٹر نے اس کے جانے کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ ہم لوگ پھر باتوں میں لگ گئے۔ بیچ میں ایک آدھ بار پیٹر نے اپنی حیرت کا اظہار کیا کہ ابھی تک کوئی شور ہنگامہ کیوں نہیں شروع ہوا۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ کیوں یہ توقع کررہا ہے۔

رات کے تقریباً تین بج چکے تھے۔ پیٹر کا شراب کا پیمانہ کافی دیر پہلے لبریز ہوچکا تھا۔ اس لیے اس نے کافی دیر سے اپنا گلاس نہیں بھرا تھا۔ میں پینے پلانے میں اتنا ماہر نہیں تھا اس لیے مجھے اپنے پیمانے کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا۔ میرے گلاس آہستہ آہستہ آگے بڑھے جارہے تھے۔ لیکن پیٹر سے ابھی بھی میں کوسوں دور تھا۔

پھر یکایک باہر کے سناٹے کو پھاڑتی ہوئی کلاشن کوف کے ایک برسٹ کی آواز بلند ہوئی اور کچھ دیر تک جاری رہی۔ پھر وقفے وقفے سے اور برسٹ چلے، یہ لڑکوں کے لیے اشارے تھے۔ پھر جیسے پورا علاقہ فائرنگ کی آوازوں سے گونج اٹھا۔

پیٹر خوشی سے اچھل پڑا اور میں حیرت سے ۔ کیوںکہ میرا خیال تھا پیٹر یوں ہی تفریح میں کسی ہنگامے کا انتظار کررہا تھا۔ اب پتا چلا کہ یہ ذرا سیریس قسم کی تفریح تھی۔ ہم لوگ باہر گیلری میں چلے گئے۔ پیٹر نے چاچا کے مکان کی سمت اشارہ کیا زیادہ تر آواز ادھر سے آرہی تھی۔ یا تو ہماری واردات کی خبر اب محلے میں پھیلی تھی یا پیٹر کو معلوم تھاکہ وہاں کیا ہورہا ہے، یا ان لڑکوں کو جو فائرنگ کررہے تھے۔ پیٹر کچھ نہیں بول رہا تھا اور اس صورت حال میں، میں لڑکوں سے معلوم نہیں کرسکتا تھا۔

اب لگ رہا تھا کہ علاقے کے باہر سے رینجرز نے بھی فائرنگ شروع کردی تھی۔

ہم لوگ اندر آگئے۔ ابھی تک میں اسی کے احکام پر چل رہا تھا جیسے کہ میں نے اس کو اپنا لیڈر مان لیا ہے۔ پیٹر اب بہت خوش تھا۔ اس نے اپنے لیے ایک اور پیگ بنایا۔ میرا پیگ ابھی آدھا بھرا ہوا تھا۔ اس کی خوشی کی وجہ میری سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ ا اس نے جیسے اس وجہ کو سمجھانے کی خاطر بولنا شروع کیا۔

’’جب میں پہلی بار جیل گیا تھا… اس سے زیادہ برا وقت مجھ پر نہیں گزرا…‘‘ اس کا لہجہ ایک دم بہت سنجیدہ اور تکلیف بھرا ہوگیا۔ انھوں نے ہمارے اوپر کوئی لمبا چوڑا سازش اور بغاوت کا کیس بنایا تھا… ہماری پوری تنظیم ہی جیسے ایک دم اندر ہوگئی تھی…‘‘ تنظیم کا لفظ کہتے ہوئے وہ ہلکے سے مسکرایا بھی۔ ’’میں بھی ان میں شامل تھا… انھوں نے سب کو ایک ساتھ پکڑ لیا تھا۔ نہ ایک لڑکا زیادہ تھا، نہ ایک کم۔ جیسے کہ پوری نفری کا انھیں پہلے سے علم تھا۔

… پہلے دو ہفتے جب تک وہ میری انٹروگیشن کرتے رہے۔ انھوں نے مجھے سونے نہیں دیا۔ باقی خوف و ہراس ڈرانا دھمکانا اپنی جگہ مگر رات کو اکثر وہ مجھے اٹھا دیا کرتے تھے۔ آنکھوں میں تیز ٹارچیں ڈال کر منھ پر ٹھنڈا پانی چھڑک کر میرا نام لے کر پوچھتے تھے اعجاز… بتا… بتا… تیری بہن کا نام کیا ہے… بہن کا نام بتا…‘‘ مجھ سے وہ میری بہن کا نام پوچھتے تھے۔ سوچو تو ذرا۔ نہ جانے وہ کیا کرتے اس کے ساتھ… یقین کرو، میں رو دیتا تھا اور کہتا تھا… مجھے نہیں معلوم۔ مجھے نہں معلوم… میں نے اس کو ہمیشہ آپا کہا ہے… مجھے نہیں معلوم آپا کا اصل نام کیا ہے…‘‘ یہ کہہ کر پیٹر سسکیاں لے کر رونے لگا۔ چند منٹ تک اس کی آنکھوں سے آنسو آتے رہے۔

میں اس کو دم بخود دیکھتا رہا۔ تھوڑی دیر میں اس کی حالت بہتر ہوئی اور اس نے اپنا پیگ ختم کیا۔ ’’چلیں اب…‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ اٹھ گیا۔
میں بھی اس کے ساتھ اٹھا۔ ’’تمھارا نام پہلے اعجاز تھا…‘‘ میں نے اس سے پوچھا۔
’’میرا نام اب پیٹر ہے… اور بس۔‘‘ اس نے ذرا زور سے جواب دیا۔

باہر آکر اس نے یاسمین کے کمرے کے دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’اوہو مجھے اس کو چند نمبر وغیرہ دینے تھے… چلو بعد میں دے دوں گا…‘‘۔ پھر ہم لوگ سیڑھیوں سے نیچے اترے۔ میں ویسپا کی طرف بڑھا۔مگر اس نے روک دیا۔ ’’اسے چھوڑ دو۔ اس کو لے جا کر پھنس جائیں گے … میں بعد میں آکر اس کو اٹھا لوں گا…‘‘

باہر نکل کر وہ کہنے لگا ’’ آج میں نے چاچا سے بھی اس کی بہن کا نام پوچھا تھا… چاچا کی دو بہنیں ہیں… اس نے دونوں کے نام بتا دیے…‘‘ یہ کہہ کر پیٹر نے قہقہہ لگایا۔

علاقہ میں اب عجیب صورت حال تھی۔ فائرنگ رک گئی تھی۔ لڑکے گلیوں میں کھڑے ہوئے تھے اور ایک عجیب پریشانی اور گہماگہمی تھی۔ ہم لوگوں نے اپنی کلاشن اور سیون ایم ایم اٹھائی ہوئیں تھیں۔ لیکن لڑکے عموماً خالی ہاتھ تھے۔ پھر ایک بھگدڑ سی مچی اور لڑکے گھروں میں جانے اور ادھر ادھر ہونے لگے۔ ہم ایک کھڑی ہوئی ویگن کے پیچھے چھپ گئے۔ ایک دو منٹ میں رینجرز کے دو ٹرک تیزی کے ساتھ وہاں سے گزرے۔ یہ محاصرے اور تلاشی کا انداز نہیں تھا لگتا تھا انھیں کہیں پہنچنے کی جلدی ہے۔ ان کے جانے کے بعد پیٹر کہنے لگا

’’چلو اچھا ہے… اس کنفیوژن میں یہاں سے باہر نکلنا اتنا مشکل نہیں ہوگا… تمھارا اب کیا پروگرام ہے…‘‘ اس نے مجھ سے پوچھا۔

’’کچھ نہیں…‘‘

’’ٹھیک ہے پھر میں نکلتا ہوں…‘‘ یہ کہہ کر اس نے ہاتھ ڈال کر اپنے کرتے کے نیچے سے ایک لفافا نکال کر مجھے دیا۔ اس میں شاید آج کے پیسے تھے۔ میں جن کے بارے میں تقریباً بھول ہی چکا تھا۔ اس وقت میں نے انھیں نہیں گنا۔ گلی کے کونے پر پہنچ کر ہم دونوں اپنے اپنے راستے پر ہولیے۔

پیٹر نے ٹھیک اندازہ لگایا تھا۔ اس وقت ہمیں وہاں سے نکلنے میں زیادہ مشکل نہیں پیش آئی۔

اگلے روز میں نے اخبار دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس رات واقعی چاچا کو کسی نے ٹائٹ کردیا تھا۔ اتنا ٹائٹ کہ مجھے دو تین ماہ کے لیے بالکل انڈر گرائونڈ جانا پڑا۔ لیکن پھر حالات بدلے اور جو لوگ مجھ پر شک کرسکتے تھے وہ منظر پر نہیں رہے۔ میں پھر منظر پر آگیا۔ لیکن پیٹر کی مجھے پھر کوئی خبر نہیں ملی۔ میں یاسمین کے فلیٹ پر بھی گیالیکن وہاں اب کوئی اور رہتا تھا۔