بدھ، 14 جنوری، 2015

پھول پتیوں کی مصور


رخسانہ سوچتی تھی کہ پھول پتیاں اس دنیا کی سب سے دلکش چیزیں ہیں۔ اس لئے وہ ہمیشہ پھول پتیوں کی مصوری کیا کرتی تھی۔ یا کبھی کبھار وہ اپنے پھولوں کے پس منظر میں کوئی تالاب، چند ایک پودے یا کوئی چڑیا بنادیتی لیکن اس کے علاوہ کچھ نہیں۔

سورج مکھی کے پھول وہ عام طور پر بہت بڑے بناتی تھی۔ ضرورت سے زیادہ بڑے۔ اتنے کہ تصویر میں بمشکل کوئی اور چیز نمایاں ہو پاتی۔ ان پھولوں کے نزدیک کوئی ایک کیڑے نماچیز بھی اُڑ رہی ہوتی۔ یہ چیز کسی بھونرے یا شہد کی مکھی سے مشابہت رکھتی۔ لیکن اصل میں یہ کون سا کیڑا ہوتا ،یہ بات صرف رخسانہ کو پتہ تھی۔

مگرسورج مکھی کے پھول وہ اس روز بناتی جس روز وہ صبح صادق کے وقت اٹھ جائے ، یا ساری رات اس نے جاگ کر گزاری ہو اور صبح صبح تازہ ہوا کے لئے کھڑکی کھول دے اور طلوعِ آفتاب کے منظر میں اس کی تمام توجہ جذب ہو جائے۔ اس روز وہ ضرور ایک سورج مکھی کے پھول کی تصویر کا آغاز کر دیتی، چاہے اسے ختم کرتے کرتے کئی ہفتے لگ جائیں یا چاہے بے شمار دوسری تصویروں کی طرح یہ بھی ادھوری پڑی رہ جائے۔

اس نے زندگی میں نہ جانے کتنی تصویروں کا آغاز کیا تھا۔ لیکن ان میں سے بہت کم کسی قابلِ قبول اختتام تک پہنچی تھیں۔ کچھ تو صرف اس کے تصوّر میں رونما ہو کر وہیں محفوظ رہ گئی تھیں۔ کچھ کو وقت ملنے پر اس نے کاغذ پر اتار لیا تھا، لیکن اس کے خیال میں ابھی وہ نا مکمل تھیں اور کچھ تو ضائع بھی ہو گئی تھیں۔ تھوڑے عرصے پہلے تک تو اس کی تمام الماری ایسی تصویروں سے بھری ہوئی تھی، لیکن پھر جعفر کے کئی بار کہنے پر اس نے بیشتر تصویروں کو ایک بکس میں بند کر کے اپنے پلنگ کے نیچے ڈال دیا تھا۔ اس طرح اس کی الماری میں جعفر کے لئے خاصی جگہ نکل آئی تھی ۔لیکن جعفر نے اس میں صرف لکڑی کا ایک چھوٹا سا بکس رکھ چھوڑا تھا اور چند ایک شلوار کرتے اور ایک جینز اور ٹی شرٹ۔لکڑی کے صندوق میں تالا پڑا رہتا تھا اور اس کی چابی صرف جعفر کے پاس رہتی۔ رخسانہ کو اس نے آج تک نہیں بتایا تھا کہ اس بکس میں کیا ہے اور جب وہ پوچھتی تو وہ جواب دیتا،"تجھ کو آم کھانے سے مطلب ہے یا پیڑ گننے سے"۔

رخسانہ کے اس چھوٹے سے فلیٹ کا کرایہ بھی اکثر جعفر ہی دیا کرتا تھا۔ اس نے آج تک اتنے میٹھےآم نہیں کھائے تھے ۔ اس لئے وہ یہ سن کر خاموش ہوجاتی۔

رخسانہ کا فلیٹ بلڈنگ کی چوتھی منزل پر تھا۔ اس کی بالکنی سے بے شمار بدوضع مکانوں اور فلیٹوں کا ایک سوکھا ہوا جنگل نظر آتا۔ فارغ وقت میں اکثر وہ اپنی بالکنی میں آکر کھڑی ہو جاتی اور اس جنگل کو تکتی رہتی۔ اور سوچتی کہ کس قسم کی بارش سے یہ جنگل ہرا ہو پائے گا؟ بالکنی میں کھڑے ہو کر دائیں طرف جھانکنے سے لالوکھیت دس نمبر کی چورنگی نظر آتی تھی جہاں سے شام کے وقت طغیانی میں بہتے ہوئے دریا کی مانند ٹریفک گزرتا تھا۔ رخسانہ اکثر بالکنی میں کھڑے ہو کر اس بہتے ہوئے دریا کو دیکھتی اور تصور کرتی رہتی کہ کیا پہاڑوں میں ندی نالے بھی اس طرح بہتے ہوں گے۔ اس نے آج تک ان نالوں کو صرف تصویروں میں دیکھا تھا، یا کبھی کبھار بنا بھی دیا تھا۔

اپنی تصویروں کو سمیٹنے اور ڈھنگ سے رکھنے کا خیال اسے عام طور پر ان دنوں میں آتا جب ننھی فرح کا اس کے ساتھ آکر رہنے کا زمانہ آتا۔ وہ کوشش کرتی کہ اپنی ڈرائنگ کی کاپیوں اور ادھوری اور مکمل تصویروں اور ان کو بنانے میں درکار رنگوں، روغنوں، برشوں اور پنسلوں کو سمیٹ کر فرح کی پہنچ سے دور کسی شیلف پر ڈال دے تاکہ وہ فرح کے کھیل کود سے بچے رہیں۔لیکن کئی بار ایسا ہوتا کہ فرح کے آجانے کے بعد بھی اس کے رنگ اور برش اور تصویریں یوں ہی اس کے دو کمروں کے فلیٹ میں اِدھراُدھر پڑی رہتیں اور فرح آکر اس کی تصویروں میں یوں رنگ بھرتی کہ رخسانہ انہیں دیکھتی رہ جاتی۔

رخسانہ کو فرح سے بے حد محبت تھی ۔ اپنی شادی ختم ہونے کے بعد جب اس نے فرح کی ماں کے گھر میں اوپر والا کمرہ کرائے پر لیا تھا تو اس وقت فرح صرف چھ ماہ کی تھی۔ شروع کے چند مہینے اس نے ہی فرح کو پالا پوسا تھا اور اس طرح دل بہلا کر اس نے اپنا وہ مشکل زمانہ گزارا تھا۔ بعد میں ان کے درمیان تعلق اور گہرا ہوتا گیا۔ فرح کی ماں رئیسہ اپنے دوسرے بچوں کو پالتی اور فرح کو رخسانہ تھوڑے عرصے بعد رخسانہ نے ایک اسکول میں نوکری بھی کر لی لیکن فرح سے قربت میں کوئی فرق نہیں آیا۔

رخسانہ کو اپنے خیالات کینوس پر اتارنے اور پنکھڑیوں اور پتیوں کو سیدھا اور تر چھا بنانے میں جو سکون ملتا، زندگی کے شاید ہی کسی اور کام میں ملتا ہوگا۔ اس بات کا احساس اسے اس زمانے میں ہوا جب اس نے اسکول میں نوکری کی تھی۔وہاں پر وہ ڈرائنگ ٹیچر مقرر ہوئی اور بچوں کو پڑھانے میں پہلی بار اس نے پھول پتیاں اتنے شوق سے بنانا شروع کیں۔

اپنے پرانے شوہر کے دوست مظہر سے اس کی ملاقات اب کبھی کبھار ہوتی تھی جس کے ساتھ تعلقات کے شک میں اس کی شادی ختم ہوئی تھی ۔لیکن وہ اس کو اپنی شادی کے ٹوٹنے کا سبب نہیں سمجھتی تھی۔ اپنی کلاس میں بچوں کے واسطے پھول اور پتیاں بناتے ہوئے کبھی کبھی اسے مظہر کا خیال آتا اور اس روز وہ اس سے مل آتی۔ کبھی کبھار وہ اس سے پیسے بھی مانگ لیتی ۔ کبھی مظہر دے دیتا، کبھی نہ دیا ۔ جیسے جیسے اسے پھول پتیاں بنانے میں مہارت حاصل ہوتی گئی، ویسے ہی اپنے اِدھراُدھرکے خرچے پورے کرنے کے طریقے بھی سیکھتی گئی۔

اب کبھی اپنی بالکنی سے باہر جھانکتے ہوئے وہ اس زمانے کے بار میں سوچتی تو مسکرا دیتی۔

رخسانہ کو اپنی کوئی تصویر بہت زیادہ اچھی نہیں لگتی تھی۔ اور نہ کوئی بہت زیادہ بری ۔تصویروں میں پھولوں کی ٹہنیاں ایک خاص خم کے ساتھ بنانا اسے اچھا لگتا تھا۔ لیکن اگر کسی کو سیدھا بھی بنا دے تو اس میں اسے ایک ایسی نئی بات نظر آتی تھی جو قدرت میں نہیں ملتی۔

جعفر کو اس کی کچھ تصویریں اچھی لگتیں۔ کچھ کے بارے میں وہ کہتا کہ انہیں نہ بنایا ہوتا تو اچھا ہوتا۔ کبھی وہ اس سے کہتا کہ اس کی تمام تصویریں ایک سی ہوتی ہیں اور اسے آج تک ان کے درمیان کوئی فرق سمجھ میں نہیں آیا۔ رخسانہ کبھی جعفر کی کسی بات کی طرف دھیان نہیں دیتی۔ وہ یہ تصویریں اپنے لئے بناتی تھی کسی کی رائے طلب کرنے کی خاطر نہیں۔ پھر وہ یوں ظاہر کرتی کہ جیسے تصویریں بنانا اس کا اپنا معاملہ ہے۔ اس میں جعفر کو دخل نہیں دینا چاہیئے۔ اس پر جعفر خاموش ہو جاتا۔ پھر عموماً اس کا مذاق اڑا کر بات کو ختم کرتا جو اسے پسند نہیں آتا۔

رخسانہ کبھی کبھی جعفر کے ایسے روکھے پن سے تنگ آجاتی۔ جب وہ آتا تو اس سے کہتی کہ وہ چلا جائے اور ساتھ میں اپنی تمام چیزیں بھی لے جائے۔ خاص طور پر وہ لکڑی کا صدوقچہ جو اس کی الماری میں رکھا رہتا ہے اور جگہ گھیرتا ہے ۔ اس صندوقچے کو کئی بار اس نے اٹھانے کی کوشش کی تھی مگر وہ بہت بھاری تھا ۔ اور جعفر کبھی اسے رخسانہ کی موجودگی میں نہیں کھولتا تھا ۔اس لئے رخسانہ کو ہمیشہ یہ فکر لگی رہتی کہ نہ جانے اس میں کیا چھپا رکھا ہے۔

خاص طور پر اس زمانے میں جب فرح اس کے پاس آکر رہتی۔ رخسانہ جعفر کو سختی سے گھر آنے سے منع کر دیتی۔ اور اس سے کہہہ دیتی کہ اگر کام بھی بھیجنا ہے تو کسی لڑکے کو پتہ، نمبر اور تمام تفصیل بتا کر بھیج دے۔یا اگر خود آنا چاہتا ہے تو زیادہ سے زیادہ دروازے پر آکر یہ تمام باتیں بتا جائے۔ رخسانہ کو لگتا تھا کہ فرح اگر جعفر سے ملے گی تو ملنے کے بعد وہ ضرور یہ سوال کرے گی کہ "خالہ یہ آپ کی اتنے ڈراؤنے آدمی سے دوستی کیوں ہے؟" اس بات کو وہ کیا جواب دے گی؟

جعفر دیکھنے میں واقعی خاصہ خوفناک سا تھا لیکن رخسانہ کو آج تک اس سے کبھی ڈر نہیں لگا تھا ۔ جس رات وہ اس کے ساتھ ہوتا وہ اس کے چہرے کو بہت غور سے دیکھتی اور پھر صبح اٹھ کر طرح طرح کے نئے پھول بنانے کے بارے میں سوچتی۔

رخسانہ کو اب جب بھی مظہر کا خیال آتا تو اسے مظہر کا کالا اور عجیب سا چہرہ یا د آتا ۔ اور یہ یاد کر کے اسے ایک ہلکا سا دکھ ہوتا کہ نہ جانے اب وہ کس حال میں ہوگا۔ لیکن اب وہ واپس نہیں آسکتا تھا۔ اس بات کا رنج اسے سب سے زیادہ رہتا اور اسی لئے جعفر سے کچھ عرصے ناراض رہنے کے بعد وہ اس کو پھر بلا لیتی تاکہ اس کے تخیل کی پھول پتیاں ہری بھری رہیں۔

مظہر کے ساتھ کیا ہوا تھا یہ اسے نہیں معلوم تھا اور نہ جعفر اسے کوئی بات بتاتا تھا۔ ایک زمانے میں جعفر کی مظہر کے ساتھ بہت دوستی تھی۔ بلکہ پہلی بارمظہر ہی نے اس سے تعارف کروایا تھا۔ اسے یاد تھا کہ پہلی بار جعفر کو دیکھنے کے بعد وہ دم بخود رہ گئی تھی۔ اور کئی دنوں تک اس کا چہرہ اس کے خیالات پر چھایا رہا تھا۔ اس کا خوفناک چہرہ جس کو دیکھ کر بچے بچیاں ڈر سکتے تھے ۔ نہ جانے رخسانہ کے لئے اس میں کیا کشش تھی۔

اب مظہر کو یاد کر کے وہ صرف ایسی پھول پتیاں بناتی جو بہت خوبصورت اور لال پیلی اور سبز ہوتیں۔ اور ان کے پس منظر میں کبھی کوئی اجڑا ہوا گاؤں کوئی جلا ہوا درخت یا شکار کی ہوئی کوئی شیرنی بنا دیتی تھی۔ لیکن پھر ان تصویروں کو جعفر سے چھپا لیتی کیونکہ اس کے خیال میں وہ ان کو دیکھ کر مذاق اڑاتا۔ خاص طور پر شیرنی یا کسی اور جنگلی جانور کی تصویر کو دیکھ کر، کیونکہ اس کے خیال میں وہ حیوانوں یا انسانوں کی تصویریں بہت بری بناتی تھی۔

رخسانہ کو معلوم تھا کہ جعفر کی چار نمبر میں اسنوکر کی دو دوکانیں ہیں اور شاید ویڈیو کی دوکان میں بھی اس کا حصہ ہے۔ اور یہ کہ اس کا زیادہ وقت اسی علاقے میں گزرتا ہے لیکن جن لوگوں کے پاس جعفر رخسانہ کو بھجواتا، وہ شہر کے جانے کن کن علاقوں میں رہتے تھے۔ رخسانہ نے کئی بار یہ پوچھا کہ جعفر کو کس طرح اتنے دور دراز کے گاہک ملتے ہیں لیکن اسے کوئی قابل تسلی جواب نہیں مل پایا تھا تقریباً تمام گاہکوں کے ساتھ پیسے کا حساب کتاب پہلے ہو چکا ہوتا تھا۔ رخسانہ کو بہت کم لوگ خوش ہو کر اوپر سے کچھ انعام دیتے اور مانگنے پر اکثر یہ کہتے تھے کہ اتنے پیسے لینے کے بعد اوپر سے اور رقم مانگتی ہے؟ اپنے لئے ادا کی جانے والی رقم کا سننے کے بعد رخسانہ کا جی چاہتا کہ اپنے حیرت سے کھلنے منہ کے اوپر ہاتھ رکھ دے۔ لیکن یہ وہ ان گاہکوں کے سامنے نہیں کر سکتی تھی۔ اپنے کام میں رخسانہ کو خود کبھی اتنی رقم نہیں ملتی اور نہ جعفر کبھی اس کو امیر ہوتا ہوا نظر آتا ۔ تو پھر اتنی ساری رقم کہاں جاتی ہے؟ اس بات کا بھی اسے کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملتا۔

جس زمانے میں رخسانہ جعفر سے ناراض ہوتی، یا جعفر بہت زیادہ مصروف ہوجاتا یا اسے کہیں جانا پڑجاتا، تو اس زمانے میں ایک لڑکے کے ذریعے اس کے پاس پیغام آتا تھا کہ اسے کس جگہ پر کس وقت پہچنا ہے اور کس سے ملنا ہے ۔ رخسانہ کام پر ہمیشہ جاتی تھی، چاہے وہ جعفر سے خوش ہو یا ناراض ۔ کیونکہ وہ اپنے کام کو جعفر کی دوستی سے علیحدہ سمجھتی تھی۔ وہ یہ بھی سمجھتی تھی کہ وہ لڑکا بھی جعفر کے لئے کام کرتا ہے اور یہ کہ جعفر کی جو آمدنی ہوتی ہے اس میں سے خاصہ حصہ وہ بینک میں رکھنے کے بجائے اس لکڑی کے صندوقچے میں رکھتا ہے جو رخسانہ کی الماری کے نچلے حصے میں رکھا رہتا ہے۔

رخسانہ نے کئی بارکوشش کی تھی کہ وہ اس صندوق کو ہلا جلا کر اس بات کا اندازہ لگائے کہ اس میں کیا ہے ۔ لیکن وہ اتنا بھاری تھا کہ اس سے بمشکل سرکتا ۔ پھر اس نے ناامید ہو کر یہ سعی چھوڑ دی تھی۔

پھر یوں ہوا کہ رخسانہ کو لگا کہ جیسے جعفر کہیں چلا گیا ہے، یا وہ لاپتہ ہو گیا ہے۔ دو ماہ تک صرف وہ لڑکا آتا رہا، نام پتے لے کر۔ جب وہ اس لڑکے سے پوچھتی کہ جعفر کہاں ہے تو وہ کوئی جواب نہیں دیتا۔ ایک بار سوال کرنے پر اس نے مسکراتے ہوئے راز کے انداز میں کہا،"پردہ ٔ غیب میں۔۔۔۔۔۔" پھر یوں ہنستا ہوا چلا گیا کہ جیسے اس طرح اس نے رخسانہ کی تذلیل کی ہے۔ رخسانہ کو بہت غصہ آیا اور آئندہ اس سے یہ سوال نہیں کیا۔

رخسانہ کو کبھی کبھی خواب میں نظرآتا کہ جیسے اس کا تن تھوڑا اکڑ کر کسی پودے کا تنا بن گیا ہے اور ہاتھ پاؤں سوکھ کر کالی بل کھاتی ہوئی ٹہنیاں بن گئے ہیں جنہیں دور سے دیکھنے پر لگتا کہ کوئی خوفناک مردانہ چہرہ ہے ،اور اس کی چھاتیوں پر رنگ برنگے خوبصورت پھول پتے نکل آئے ہیں۔ رخسانہ جس روز ایسا خواب دیکھتی، صبح اٹھ کر اسے بڑا عجیب لگتا۔

چند دنوں کے بعد اس لڑکے کا آنا بھی بند ہو گیا۔ اب رخسانہ بہت پریشان رہنے لگی کیونکہ اب پھول پتیاں بنانے کے با وجود اس کے خرچے پورے نہیں ہو پارہے تھے ۔ رخسانہ نے باہر نکل کر خود اپنے واسطے کبھی کام تلاش نہیں کیا تھا۔ اس لئے اب اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کرے۔ کئی باروہ سوچتی کہ کیوں نہ جعفر کے اس بھاری بھرکم صندوقچے کا تالا توڑ کر دیکھے کہ شاید اس میں سے کچھ پیسے وغیرہ نکل آئیں لیکن پھر یہ سوچ کر ہمت نہ کر پاتی کہ جعفر واپس آگیا تو اس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرے گا۔

پھر ایک روز اس کے دروازے پر دستک ہوئی۔ باہر چھ آٹھ پولیس کے وردی والے سپاہی کھڑے ہوئے تھے۔ ابھی وہ ان کو دیکھ کر حیران ہی ہو رہی تھی کہ وہ اندر آ دھمکے۔ ان میں سے ایک نے ،جو ان سب کا افسر لگتا تھا، اونچی آواز میں اس سے پوچھا ۔" جعفر ادھر رہتا ہے؟"

رخسانہ نے گردن کو جھٹا دے کر نفی میں سر ہلادیا۔ پھر ایکدم وہ افسر گر جا۔" جھوٹ مت بول۔۔۔۔بتا جعفر کدھر ہے۔" اس کی گرجدار آواز سے رخسانہ تقریباً اچھل گئی۔ پھر اس نے رک کر ذرا اعتماد کے ساتھ جواب دیا ، "وہ تین مہینوں سے اِدھر نہیں آیا"۔

اس پر وہ پولیس والے اس کے گھر کی تلاشی لینے لگے اور پورے گھر میں اس کی تصویروں کو بکھیر دیا۔ لیکن اتفاقاً ان کی نظر لکڑی کے اس صندوقچے پر نہیں پڑی جو اس کی الماری کے نچلے خانے میں رکھا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ جعفر کی کوئی چیز اس کے فلیٹ میں اس وقت موجود نہیں تھی۔ تھوڑی دیر بعد اس افسر کےایک ماتحت نے، جس کے چہرے پر بہت خطرناک قسم کی موٹی موٹی موچھیں تھیں، رخسانہ کو گردن سے پکڑ لیا اور بے درددی سے اسے ہلاتے ہوئے بولا ، "بتا وہ کہاں ہے؟" رخسانہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

کچھ دیر بعد وہ پولیس والے چلے گئے اور رخسانہ اپنے آنسو پونچھتی اور اپنی تصویریں جمع کرتی رہ گئی۔

چند دنوں بعد اس افسر کا بڑی بڑی مونچھوں والا ماتحت پولیس والا سادہ کپڑوں میں اس کے دروازے پر آیا اور اسے ایک پرچہ دیا ۔"اگر کام کرنا چاہتی ہے تو اس پتے پر چلی جا۔"وہ اپنی موٹی آواز میں غرایا۔

پھر وہی ہوا جس کی رخسانہ سے توقع کی جا سکتی تھی۔ اس کے کالے سے چہرے پر ان بڑی بڑی مونچھوں میں رخسانہ کو ایک پر اسرار خوبصورتی نظر آئی۔ وہ اسے دیکھ کر اپنے تمام غم بھول گئی اور مسکرا کر اسے اندر آنے کو کہا۔ وہ پولیس والا تھوڑا حیران ہوا لیکن اندر آگیا۔ اس کا نام محمد جمیل تھا۔

اس کے بعد جمیل نے مستقل طور پر اس کے پاس کام لانا شروع کر دیا۔ اور کبھی کبھی وہ اس کے پاس یوں ہی وقت گزارنے بھی آجاتا۔ محمد جمیل اس کی تصویروں میں بھی خاصی دلچسپی لینے لگا۔ اس بات سے رخسانہ خوش ہوتی۔

ایک روز اس کی تصویروں کو الماری میں ارینج کرتے ہوئے محمد جمیل نے لکڑی کے اس صندوقچے کی طرف اشارہ کیا جو کہ سب سے نچلے خانے میں رکھا تھا اور پوچھا، "اس میں کیا ہے؟"

اس پر رخسانہ نے ترنت خبر دار کیا،" اس کو کبھی مت چھیڑنا۔۔۔۔ اس میں میری پہلی شادی کا جہیز کا کچھ سامان ہے۔"

محمد جمیل مان گیا۔