جمعہ، 17 اپریل، 2015

کرسٹی کے ساتھ چند راتیں


یہ لوئر ایسٹ سائیڈ (Lower East side) کا علاقہ تھا۔ نیو یارک شہر کا اس زمانے کا ایک اور خطرناک محلہ۔ گلیوں کے کونوں پر سیاہ فاموں کے گروہ کھڑے منشیات فروخت کررہے تھے۔ ان کے ہیبت ناک حلیے اور مہیب نگاہیں رگوں میں خون خشک کئے دیتی تھیں۔ سڑک پر ادھر ادھر چمکیلے لباس میں عورتیں گھوم رہی تھیں جن کے ہاتھوں میں چھوٹے چھوٹے کالے یا لال رنگ کے پرس لٹک رہے تھے۔ ایک دو جگہ انہوں نے مجھے بھی ہاتھ دے کر روکنے کی کوشش کی۔

اور پھر پنکس (Punks)تھے۔ کچھ کے بال اودے اور کچھ کے نیلے یا ہرے ، کچھ نے ہونٹوں میں چھلے ّ ڈالے ہوئے ، کچھ نے آنکھ کے اوپر بھنوؤں پر۔ عجیب وحشت کا سماں تھا۔ ایک کونے میں ایک طوائف اونچی آواز میں ہنس رہی تھی۔اس کی زبان میں چھلا ّ پڑا ہوا تھا۔ تکلیف کے تصور سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔

یہ نیو یارک شہر کی ایک کلب ڈسٹرکٹ (Club district)تھی۔ یہاں نوجوان مردوں اور عورتو ں کے ہجوم کلبوں میں ایک دوسرے سے چمٹ کر رقص کرتے اور شراب سے زیادہ ہیروئن اور کوکین کے نشے میں وقتی نروان پاتے۔ اور جب یہ رہائی ان کی برداشت سے باہر ہوجاتی تو باہر نکل کر ایسی بدروحوں کی طرح پھرتے جو اپنی قبروں میں پلٹ کر واپس نہیں جاسکتیں اور قیامت تک زمین پر یونہی گھومیں گی۔

خاصا عرصہ ہوا میں نے اپنی قسمت کو کوسنا چھوڑ دیا تھا۔ اب صرف اپنی عقل و فہم ہی کو کوسا کرتا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ عقل پر پتھر پڑ گئے تھے جو اس علاقے سے سواری اٹھانے آیا تھا؟

مگر ان دنوں حالات ایسے تھے کہ بیچ سمندر سے بھی کسی سواری کو اٹھانا ہوتا تو چلا جاتا۔ اب میں سوچ رہا تھا کہ اس علاقے سے نکل جاناچاہئے۔ رات بہت ہوچکی ہے۔ فرسٹ ایونیو پر بائیں ہاتھ مڑا تو میں نے دیکھا کہ ایک عورت نسبتاً معقول لباس اور حلیے میں بیچ سڑک پر دوڑی چلی جارہی ہے۔ اس سے تقریباً سو گز پیچھے عمارت کے ساتھ ساتھ ایک سایہ تیزی سے حرکت کررہا تھا۔ ’’ ہیلپ ...‘‘ اس عورت نے زور سے چیخ کر مجھے ہاتھ دیا۔ دھڑکتے دل کے ساتھ میں نے ٹیکسی اس کے قریب لا کر روک دی۔ وہ اندر آ بیٹھی اور میں نے ایکسلریٹر پر پاؤں کا دباؤ بڑھا دیا۔ وہ سایہ ہم تک نہیں پہنچ پایا۔

ہم اس علاقے سے نکل گئے۔ میرا دل اب بھی زور سے حرکت کررہا تھا۔ میں نے شیشے میں پچھلی سیٹ پر دیکھا تو وہ عورت ایسے گہرے سکون کے ساتھ بیٹھی تھی کہ جیسے اب دنیا میں ہر طرف امن و شانتی ہو۔ اس کی عمرتیس بتیس سال کے لگ بھگ تھی۔ جسم متناسب تھا ، نسل کے اعتبار سے گوری تھی۔ شکل و صورت کوئی خاص نہیں تھی لیکن ان دنوں میں تقریباً ہر گوری عورت پر مرمٹتاتھا۔ اس نے مجھے شیشے میں پیچھے دیکھتے ہوئے دیکھ لیا اور بولی۔

’’ شکریہ ... تمہارا ... بہت بہت شکریہ۔‘‘ وہ اب بھی ہلکا سا ہانپ رہی تھی۔
میں نے شکریئے کے جواب میں سر کو خفیف سا جھٹکا دیا۔
’’ نہیں تو کل میری خبر آتی ... شکریہ تمہارا۔ بہت ٹھیک وقت پر پہنچے تم ... کہاں سے تعلق ہے تمہارا ؟‘‘
’’ پاکستان سے ...‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’ اتنا تو میں بھی بتا سکتی ہوں۔ میرا مطلب ہے پاکستان میں کہاں سے تعلق ہے۔‘‘ اس سوال پر مجھے خاصی حیرت ہوئی۔ کیونکہ میرے اکثر پسنجر پاکستان کے نام سے ناواقف ہوا کرتے تھے۔ یہ مجھ سے پاکستان کے علاقے کا پوچھ رہی ہے۔
’’ لاہور‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’ تم کو پاکستان کے بارے میں اتنا پتہ ہے کیا ؟‘‘ لوئر ایسٹ سائیڈ کے اس منظر کو ایک دم بھول کر میں نے سوال کیا۔
’’ ہاں ...‘‘ وہ مسکرائی۔ ’’ ایک زمانے میں میراایک دوست ہوا کرتا تھا جس کا تعلق پاکستان سے تھا ... اس نے مجھے پاکستان کے مختلف علاقوں اور لوگوں کے بارے میں بہت کچھ بتایا تھا ...‘‘ یہ عورت ابھی ایک جان لیوا صورتحال سے نکل کر آئی تھی اور اب لمحے بھر میں اس کا انداز بالکل بدل چکا تھا۔ اتنی تیز تبدیلی پر مجھے حیرت تھی۔
’’ اچھا ... کہاں سے تعلق ہے تمہارے دوست کا‘‘
’’ ہے نہیں تھا ... اس کا تعلق کراچی سے تھا‘‘
یہ سن کر میں چپ ہوگیا۔ امریکا آنے کے بعد یہ پہلا موقعہ تھا کہ کوئی گوری عورت مجھ سے زیادہ بات کرے ، اس لئے میں نے کچھ دیر بعد پھر سوال کیا ’’ تو کیا تم کبھی پاکستان گئی تھیں ؟‘‘
اس پر وہ کچھ خاموش ہوگئی ’’ نہیں ... لیکن اب میرا دل چاہتا ہے وہاں جانے کو۔‘‘
’’ تمہارا دوست واپس چلا گیا ؟‘‘
’’ ہاں ...‘‘

وہ خاموش ہوگئی۔ اس کے چہرے کا گہرا سکوت گہری فکر میں تبدیل ہوچکا تھا۔ کچھ دیر میں بھی خاموش رہا پھر میں نے دوبارہ گفتگو کا آغاز کیا۔ اب میں اس سے پاکستان کے متعلق باتیں کررہا تھا۔ کیسا ملک ہے ، یہاں کے لوگوں کے طور طریقے اور رہن سہن کیا ہیں۔ لیکن مجھے حیرت تھی کہ ان میں سے بیشتر باتیں اسے پتہ تھیں۔ اب ہم دونوں باتوں میں محو تھے اور کچھ دیر پہلے کے واقعہ کو بالکل بھول چکے تھے۔

’’ تم کو اتنی باتیں کیسے معلوم ہیں ؟‘‘ میں نے اس سے پوچھا۔
’’ تم کو بتایا تو تھا میں نے‘‘ اس نے خاموشی سے جواب دیا۔ اور پھر اس کا چہرہ، جو میری اتنی باتوں سے خاصا جاگ اٹھا تھا بجھ سا گیا۔ مجھے افسوس ہوا کہ میں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا اور صورتحال کو سنبھالنے کی کوشش کی۔
’’ تم کو ایکٹنگ کا شوق ہے ؟‘‘ انداز کی کسی ظاہری تبدیلی کے بغیر میں نے اس سے پوچھا۔ مجھ کو اب سے چند سال قبل کا لاہور کا زمانہ یاد آرہا تھا۔میں ان دنوں کالج سے فارغ ہوا تھا اور نوکری ڈھونڈ رہا تھا، لیکن نوکری سے زیادہ میری نظریں اڑوس پڑوس اورجان پہچان کی لڑکیوں پر ہو ہو تی تھیں۔
’’ کیا ...‘‘ اس نے تھوڑی مسکراہٹ اور تھوڑی حیرت سے کھلتے ہوئے ہونٹوں سے پوچھا۔
’’ کیا تم نے کبھی ایکٹنگ کرنے کے بارے میں سوچا ہے ؟‘‘ میں نے اس سے دوبارہ سوال کیا۔ میرا حربہ کامیاب ہوچکا تھا۔ وہ کچھ دیر خاموش رہی پھر پوچھا۔
’’ کیا مطلب ؟ ... تم مجھے کوئی رول دلا سکتے ہو ؟‘‘ اس کے لہجے سے شک عیاں تھا ، لیکن ساتھ ہی ساتھ ناممکن پر یقین لانے والی مسکراہٹ بھی کھیل رہی تھی۔
’’ میرا مطلب ہے کہ اگر تم کو پاکستان کی ثقافت کے بارے میں اتنا پتہ ہے ... اور اگر تم ایکٹنگ کرسکتی ہو ... تو پھر میں تم کو وہاں کے کسی ٹی وی سیریل میں رول دلا سکتا ہوں ...‘‘ میرے جو منہ میں آرہا تھا میں کہہ رہا تھا۔ مجھے اب شبانہ یاد آرہی تھی۔ لاہور میں ہمارے گھر سے دو چھتیں چھوڑ کر اس کی چھت تھی۔ نہ جانے کیا کیا باتیں کیا کرتا تھا میں اس کے ساتھ۔
’’ پتہ نہیں کہ تم میری بات پر یقین کرو یا نہ کرو ... لیکن ایک زمانے میں میری ٹیلی ویژن میں خاصی جان پہچان تھی ... ٹی وی کے سیریل ڈرامے فلمانے کے لئے ان کی ٹیمیں ادھر بھی آتی رہتی ہیں ... کوشش کرکے کوئی چھوٹا موٹا پارٹ تودلوا ہی سکتا ہوں ...‘‘ پھر میں نے سنجیدہ انداز میں آئینے میں اس کی طرف دیکھا۔
وہ میری طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔ صاف نظر آرہا تھا کہ اس نے میری کسی بات پر یقین نہیں کیا ہے۔
لمحے بھر کے لئے میرے دل میں شبانہ کے لئے اک ہلکا سا درد اٹھا ’کتنی بھولی تھی وہ بھی ، میں نے اس کے بارے میں سوچا۔ اور پھر دھیان اس عورت کی طرف آگیا جو میری ٹیکسی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ یقین کرے یا نہ کرے لیکن وہ میری باتوں سے محظوظ ضرور ہورہی تھی۔
میں نے اس سے پوچھا ’’ کیوں کیاہوا ... تمہیں یقین نہیں آرہا میری باتو ں پر ...‘‘
وہ کچھ دیر خاموش رہی پھر مسکرا کر بولی ... ’’ ریاض بھی بالکل تمہاری طرح تھا‘‘۔
ریاض شاید اس کے پرانے دوست کا نام ہوگا۔ میں نے سوچا۔ پھر میں نے اس کی بات مسترد کرتے ہوئے کہا۔ ’’ لیکن اس کا تو تعلق کراچی سے تھا۔‘‘ وہ ہلکا سا ہنس کر چپ ہوگئی۔
’’ تم کو یقین نہیں آرہا میری باتوں پر ...‘‘ میں اپنی بات پر قائم تھا۔ ’’تو موقع دو مجھے ان کو ثابت کرنے کا۔‘‘ وہ خاموش رہی اور میں اس سے بات کرتا چلا گیا۔ ’’ میں ہر کسی کو اس طرح کی آفر نہیں کرتا لیکن میں نے دیکھا کہ تم اتناکچھ جانتی ہو پاکستان کے بارے میں ، وہاں کے لوگوں اور ان کے رہن سہن کے بارے میں ، اور پھر تمہارے بات کرنے کا انداز اتنا دلکش ہے اور جب مسکراتی ہو تو یوں لگتا ہے کہ سورج مکھی کے پھول ہوا میں ڈول رہے ہیں۔‘‘ میں اس سے اس طرح کی باتیں کرتا چلا گیا۔

کچھ دیر بعد میری اس پر نظر پڑی تو وہ میری باتیں اک طرف تو گہرے لگاؤ کے ساتھ سن رہی تھی پھر دوسری طرف اس کے لبوں کی شرارت اورآنکھوں میں تیرتی ہوئی ہوشیاری مجھے اس بات کا پتہ دے رہی تھی کہ وہ میرے بچکانہ سے وار کو اچھی طرح سمجھ رہی ہے ، اور یہ کہ مجھ سے بڑا بے وقوف کوئی نہیں۔
میرے لئے یہ ایک نئی صورتحال تھی جس سے نمٹنے کا مجھے کوئی تجربہ نہیں تھا۔میں لاہور میں لڑکیوں کے معاملے میں خاصا کامیاب ہوا کرتا تھا۔ میرے دوست مجھے خوش قسمت سمجھتے تھے۔ ان کے سامنے اپنا سینہ خوب پھلائے رکھتا تھا لیکن اپنی کامیابی کا رازمیں نے کبھی کسی کو نہیں بتایا تھا۔ وہاں پر لڑکیاں پھنسانا اصل میں خاصا آسان ہوا کرتا تھا۔ لڑکیاں خود ہی بات کرنے کا کسی طرح اشارہ کرتی تھیں۔ پھر اس کے بعد کا کام مختلف انداز سے ان کی تعریفوں کے پل باندھ کر اپنے مطلب پر راضی کرناہوتا تھا۔ اور اس ہی کام میں اصل ہنر درکار ہوتا تھا۔ لڑکی کا مزاج جاننے کے بعد اس بات کا اندازہ لگانا کہ وہ کن باتوں سے رام ہوگی۔ بعض لڑکیاں اپنے حسن و ناز کی تعریفیں چاہتی تھیں کچھ یہ چاہتی تھیں کہ میں ان کے عشق میں گرفتار ہو کر ان کو خدا بنالوں، اور کچھ کو محض شادی کرنے کا یقین دلانا کافی ہوتا تھا۔ ان تمام مرحلوں میں اس بات کا خیال رکھنا ضروری تھا کہ میں خود اپنا دل ان سے نہیں لگا بیٹھوں۔ ورنہ بعد میں چھٹکارا حاصل کرنے میں مجھے بھی اذیتیں اٹھانی پڑتی تھیں۔

اب سوچتا ہوں تو یہ تمام باتیں دیوار پر لکھی ہوئی تحریر کی طرح سادہ و عیاں معلوم ہوتی ہیں۔ مگر اس زمانے میں یہ میرے شعور میں شامل نہیں تھیں۔ میں محض جبلّی خواہشات سے مجبور اک نوجوان تھا جس کی حاجات نے اپنی تکمیل کے لئے آپ ہی راہ نکالی تھی۔ اور معاشرے کا قانون یا ضمیر کی آواز اس راہ میں حائل نہیں ہوپائے تھے۔

لیکن نیویارک آنے کے بعد میری زندگی بالکل بدل گئی تھی۔ امریکا کی زندگی کے بارے میں جتنے خواب دیکھے تھے یا جو عیاشیاں تصور کی تھیں تقریباً سب کے سب ہی غلط ثابت ہوئے تھے۔میں برلکن میں ایک کمرے کے فلیٹ میں رہا کرتا تھا۔ اس فلیٹ میں مجھ جیسے چار لڑکوں کا گزر ہوتا تھا۔ میرے علاوہ ایک اور لڑکا غیر قانونی طور پر مقیم تھا، باقی دو کے پاس ورک پرمٹ تھے جو انہوں نے نہ جانے کن طریقوں سے حاصل کئے تھے۔ ان میں سے ایک لڑکا ٹیکسی چلاتا تھا ، اور اسی کی ٹیکسی رات کو میرے پاس ہوتی تھی۔

میری اس زندگی کو ابھی کوئی دس ماہ ہوئے تھے۔ رات بھر ٹیکسی چلاتا اور دن کو سوتا۔ فلیٹ میں رہنے والے لڑکوں سے میری صرف اس وقت ملاقات ہوتی تھی جب وہ کام سے لوٹتے تھے اور میں کام پر جارہا ہوتا تھا۔ ہفتے میں ساتوں دن کام کیا کرتا تھا۔ ہمارے فلیٹ میں کوئی لڑکا بھی ہفتے یااتوار کی چھٹی نہیں کرتا تھا۔ میرا بھی یہی معمول تھا۔ کام کا ناغہ صرف اسی صورت میں ہوتا جب ٹیکسی خراب ہوجائے، لیکن ایسا صرف دو تین بار ہی ہوا تھا۔

اور جہاں تک سیر و تفریح کا تعلق تھا۔ یہ چیزیں نیویارک کی اس زندگی میں نہیں گنی جاتی تھیں۔ فلیٹ کے لڑکوں کے ساتھ تھوڑا بہت ہنسی مذاق ہوجاتا، یا پھر کبھی کشمیر ہوٹل میں جاکر بیٹھ جایا کرتا جو نیویارک میں پاکستانی ٹیکسی ڈرائیوروں کا اڈہ تھا۔ رات کو وہاں خاصی چہل پہل ہوا کرتی تھی۔ لیکن امریکیوں سے میرابہت کم واسطہ پڑا تھا۔ میری ٹیکسی میں بیٹھنے والے مسافر اکثرامریکی ہی ہوا کرتے تھے ، پر میری آج تک ان سے کم بات چیت ہوئی تھی۔ چونکہ میں رات میں ٹیکسی چلاتا تھا اس لئے شروع رات میں تو بیشتر اوقات آفسوں میں کام کرنے والے لوگ ہوا کرتے تھے جو دن بھر کے کام کے بعد تھکن سے چور جلد از جلد اپنی منزل تک پہنچنا چاہتے تھے۔ یا پھر جب رات تھوڑی بڑھتی تو شراب خانوں یا کلبوں سے نکلنے والے شراب کے نشے میں دھت لوگ ہوا کرتے تھے ان میں سے بعض تو اتنا پیے ہوتے تھے کہ بہ مشکل اپنے گھر کا راستہ بتا پاتے لیکن بعض نشہ میں آنے کے بعد خاصے موڈ میں آجایا کرتے۔ اور زور زور سے باتیں کرتے۔ ان لوگوں سے خاصی دلچسپ باتیں ہوتیں۔ لیکن اس گفتگو میں وہ لوگ زیادہ بولتے تھے، اور مجھے ان کے نشے کے احترام میں زیادہ وقت خاموش رہنا پڑتا تھا۔

مگر آج صورتحال مختلف تھی۔ آج میں بول رہا تھا اور میری مسافر خاموش تھی۔ میں کوشش کررہا تھا کہ وہ میری باتوں پر یقین کرلے لیکن اس کے شکوک و شبہات بڑھتے جارہے تھے۔
امریکا میں عورتوں سے میرا واسطہ بہت کم پڑا تھا۔ عورتیں اکثر میری ٹیکسی میں بیٹھا کرتیں تھیں،لیکن کبھی کسی نے مجھ سے زیادہ بات نہیں کی تھی۔ اکثر کے چہروں سے لگتا کہ جیسے وہ مجھ سے خوف زدہ ہیں اور سفر جلد ختم ہونے کی دعا کررہی ہیں۔ میں اکثر سوچتا کہ اگر میں کسی دفتر یا دکان میں نوکری کررہا ہوتا تو شاید صورتحال مختلف ہوتی وہاں شاید کسی عورت سے واسطہ پڑتا۔ شاید کوئی لڑکی کاؤنٹر پر کام کرتی ہوتی یا شاید کوئی آفس سیکریٹری یا ٹیلی فون آپریٹر ہوتی۔
اس زندگی میں ہر چند روز کے بعدنفس کی طلب میرا جسم جھنجھوڑنے لگتی تھی۔ ان دنوں میں عورت کے لئے زیادہ بے چین ہوجاتا تھا۔ اکثر رات کو ٹائمز اسکوائر کے قریب چکر لگاتا۔ اس علاقے میں چمکیلے اور مختصر کپڑوں میں ملبوس طوائفیں گھومتی رہتی تھیں۔ گاڑی روکو تو خود ہی دوڑی چلی آتی تھیں۔ ان سے میری بات تو ہوتی تھی لیکن آج تک کچھ کرنے کی ہمت نہیں ہو پائی تھی۔ ایک تو ان کی قیمت میری پہنچ سے باہر ہوا کرتی اور پھر ان طوائفوں کو قریب سے دیکھ کر میری تمام خواہشات اورجذبات سرد پڑ جاتے۔ کہاں میں پکے پکائے اور خوبصورت مال کا عادی اور کہاں یہ سڑکوں پر پھرتی طوائفیں۔ ان سے تو بات کرنے میں ہی متلی آنے لگتی۔ یا اگر کوئی دیکھنے میں ٹھیک ہوتی تو دام آسمان پر ...
گزشہ ایک دو ماہ کے دوران میں نے کلبوں کے چکر بھی لگائے تھے، لیکن وہاں کسی نے مجھے گھاس نہیں ڈالی۔ شاید میں شکل سے ہی ٹیکسی ڈرائیور لگتا تھا۔
اور اب معاملہ یوں تھا کہ ٹیکسی کی پچھلی سیٹ پر ایک گوری عورت بیٹھی تھی جو مجھ سے بات کررہی تھی اور جسے میں اپنی باتوں کے فریب میں لانا چاہتا تھا۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ وہ سب کچھ سمجھ رہی تھی اور مجھے خطرہ تھا کہ وہ کسی بھی لمحے مجھ پر ہنسنا شروع کردے گی۔
’’ تمہیں باتیں کرنی خوب آتی ہیں‘‘ اس نے کہا۔ میں جواب میں خاموش ہوگیا۔
’’ کتنا عرصہ ہوا تم کو یہاں رہتے ہوئے ؟‘‘ اس نے سوال کیا۔
’’ دس ماہ‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’ واپس کب جاؤ گے ؟‘‘ یہ عجیب سا سوال تھا۔
’’ واپس ؟ ... پاکستان ...‘‘ میں نے اس طرح جواب دیا کہ گویا میرا واپس جانے کا کوئی ارادہ نہیں۔
’’ یہاں پڑھ رہے ہو ؟‘‘
’’ ہاں‘‘ اچھی باتوں اور عادتوں کے متعلق ہمیشہ ہاں کہنا چاہئے۔

میں نے اس سے اس کے بارے میں پوچھنے کا سوچا لیکن پھر مناسب نہیں سمجھا۔ وہ بھی خاموش ہوگئی، میں بھی خاموش تھا۔
منزل قریب آچکی تھی۔ اس کے اشارے پر میں نے ٹیکسی ایک طرف روک دی۔ وہ پرس سے پیسے نکالنے لگی۔ یہ آخری موقع تھا۔
’’ تمہاری شکل و صورت اور مسکراہٹ کے بارے میں ، میں نے جو کچھ کہا تھا ایک دم سچ تھا۔ یقین جانو بالکل ایسا ہی ہے۔‘‘
وہ اپنے پرس سے پیسے نکالتے نکالتے رک گئی اور چہرہ اٹھا کر مجھے دیکھنے لگی۔ میری بات اس کے دل کو لگی تھی۔ اس کے چہرے پر کچھ حیرت ، کچھ یقین ، کچھ افسردگی اور کچھ مسرت کے آثار تھے۔ ہو بہو شبانہ کی طرح ، یہ محسوس کرکے مجھے عجیب سا لگا۔ کہاں ہماری گھریلو لاہوری لڑکیاں اور کہاں یہ گوری امریکن میم۔ کیا ان کے دیکھنے کا انداز بھی اس قدر دیسی ہوتا ہے۔ مجھے خاصی حیرت تھی۔
’’ ہماری دوبارہ ملاقات کیسے ہوسکتی ہے ؟‘‘ میں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا۔
’’ میرا نمبر لے لو ...‘‘ یہ کہہ کر اس نے پیسوں کے ساتھ ایک کاغذ پر اپنا نمبر لکھ کر دیا۔ دل میں آئی کہ اس کے پیسے واپس کردوں۔ لاہور میں ہوتا تو ایساہی کرتا۔ میں نے چاہا کہ کسی طرح اپنے اوپر جبر کرکے اس کے پیسے واپس کردوں لیکن راضی نہیں ہو پایا۔ بعد میں مجھے اس بات کا افسوس ہوا۔
وہ ٹیکسی سے اتر گئی اور فٹ پاتھ پر کھڑی ہوکر مجھے مد بھری نگاہوں سے دیکھنے لگی۔ میں نے مسکرا کر ہاتھ ہلایا اور ایکسلریٹر پر پاؤں رکھ کر وہاں سے نکل گیا۔ مجھے پھر شبانہ یاد آگئی تھی اور بے تحاشا گھبراہٹ محسو س ہوئی تھی۔

امریکا میں اکیلے رہتے رہتے میں اکثر پرانے خیالوں میں گم ہوجایا کرتاتھا۔ جب کوئی دوست یا کوئی بات کرنے والا نہ ہو تا، تب میں پرانی یادوں کو تفریح کا ذریعہ بنایا تھا۔ کبھی میں اپنے گھر والوں کے بارے میں سوچتا اور پھر جب ان سے جدائی کے احساس سے دل ڈوبنے لگتا تو اپنے کالج کا زمانہ یاد کرنے لگتا۔ وہاں کے مزے ،مذاق ، عیاشیاں۔ پھر مجھے وہ لڑکیاں یاد آتیں جن کے ساتھ میرے تعلقات رہ چکے تھے، لیکن سب سے زیادہ مجھے شبانہ یاد آتی تھی۔ نہ جانے کیوں اس کا بھولا اور معصوم چہرہ اور میری ہر بات پر اس کا اندھا اعتماد۔ میں سوچتا کہ اگر میں اب تک لاہور میں ہوتا تو شاید اس سے شادی کرچکا ہوتا لیکن میں نے امریکا کے نشے میں اس کا دل توڑ دیا تھا۔ اب تقریباً ہر صبح میرا دل اس احساس کے تیز دھار خنجر کے ہاتھوں دو لخت ہوتا تھا۔

میں نے اس لڑکی کا نمبر تو لے لیا تھا لیکن اس کا نام نہیں پوچھا تھا۔ اپنی اس حماقت کا خیال مجھے بعد میں آیا۔ چلو اس بہانے کچھ اور تفریح کا موقع مل سکتا ہے۔ میں نے اپنے دل میں سوچا اور مسکرایا۔

اگلی رات کوتقریباً دس بجے کشمیر ہوٹل میں بیٹھاچائے پی رہا تھا۔ دن میں اپنے ایک روم میٹ سے بات ہوئی تھی اس نے بتایا تھا کہ فلوریڈا میں کوئی وکیل ہے جو کسی طرح سے ورک پرمٹ دلوا دیتا ہے۔ اسی مسئلے پر آج ہمیں کشمیر ہوٹل میں کسی سے ملنا تھا۔ ہم خاصی دیر سے انتظار کررہے تھے وہ شخص ابھی تک نہیں آیا تھا۔

کچھ دیر مزیدانتظار کے بعد وہ شخص آگیا اور ہم اس سے بات کرنے لگے۔ پتہ چلا کہ فلوریڈا میں کوئی وکیل یہ کام کرا رہا ہے۔ اس کام میں وہاں کے دو تین چکر لگانے پڑیں گے اور وکیل کی فیس وغیرہ سمیت کل خرچہ پانچ ہزار ڈالر کے لگ بھگ ہوگا۔ ہم لوگ اپنی باتوں میں مگن ہوگئے اور وقت خاصا نکل گیا۔ بعد میں گھڑی دیکھی تو کوئی سوا گیارہ بج رہے تھے۔ میں نے سوچا کہ اس لڑکی کو فون کروں لیکن پھر خیال آیا کہ شاید اب بہت دیر ہوگئی ہے۔ اور پھر مجھے اس کا نام بھی معلوم نہیں تھا۔

کشمیر ہوٹل سے نکل کر میں نے ٹیکسی کا اسٹیئرنگ سنبھالا۔ اس کا خیال ذہن میں بدستور تھا۔پھر دس منٹ بعد ہی میں نے اس کو فون کرنے کا فیصلہ کیا۔
کسی نے ریسیور اٹھایا تو مجھے لگا کہ جیسے اسی کی آواز ہے۔ اب میں کس طرح پوچھتا۔ پھر میں نے کہا۔
’’ کل میں نے اس پتے پر رات کو ایک بجے ایک خاتون کو ڈراپ کیا تھا‘‘
’’ اوہ تم ہو ...‘‘
’’ ہاں میں ... اچھا یہ بتاؤ‘‘ پھر میں تھوڑا رکا ’’ کل میں نے تم سے تمہارا نام بھی نہیں پوچھا ...‘‘
’’ کرسٹی ... اور تمہارا نام کیا ہے ؟‘‘
’’ جمشید‘‘
’’ جم ...‘‘ اس نے میرا نام لینے کی کوشش کی پہلی دفعہ یہ اس کو بہت مشکل لگ رہا تھا۔
’’ جمشید ... میں نے دھرایا‘‘ لیکن اگر تم چاہو تو مجھے جمی کہہ سکتی ہو ...‘‘
’’ جمشید ... نہیں جمشید زیادہ اچھا ہے۔‘‘

پھر ہماری باتیں شروع ہوگئیں۔ ہلکی پھلکی عام سی باتیں۔ وہ کون ہے کیا کرتی ہے۔ اس کی پسند کیا ہے۔ کیسے لوگ اسے اچھے لگتے ہیں ، اور کیسے برے وغیرہ۔ کل کی ڈرامے میں ایکٹنگ والی بات کا میں نے کوئی ذکر نہیں کیا اور نہ اس نے اس کے بارے میں کچھ پوچھا۔ پاکستان کے بارے میں بھی میں نے کوئی بات نہیں کی اور نہ اس نے۔ وہ بھی مجھ سے ہلکی پھلکی باتیں کرتی رہی۔
پھر آخر میں فون رکھنے سے پہلے میں نے کہا ’’ سنو ... وہ کل جو میں نے آخر میں تم سے کہا تھا ، وہ ایک دم سچ تھا۔ کہو تو دہرا دوں ...‘‘
اس طرف دو لمحے کے لئے خاموشی ہوگئی۔ لیکن اس کے کچھ کہنے سے پہلے میں نے کل کے جملے دھرانے شروع کردیئے۔ بیچ میں ادھر سے مجھے ہلکی سی ہنسی کی آواز بھی آئی۔ پھر میں جملے ختم کرکے رک گیا۔
’’ اتنی جلدی رک گئے ؟‘‘ وہ ذرا مذاق اڑانے والے انداز میں بولی۔
میں بھی ہلکے سے ہنسا ’’ نہیں میں نے سوچا کہ میں تو یوں بولتا جاؤں گا لیکن تمہیں پھر سونا ہوگا۔‘‘
دوبارہ اس کی ہنسی کی آواز آئی۔
’’ اچھا یہ بتاؤ ... ہم کب مل سکتے ہیں۔‘‘
’’ اوں ... سوچنا پڑے گا ...‘‘ اب اس کو میرے لئے کچھ مشکل پیدا کرنے میں مزا آرہا تھا۔ ’’ اگلے دو دن تو میں بہت بزی ہوں ... اس کے بعد فون کرنا ... دیکھیں گے۔‘‘

لڑکی رام ہوگئی تھی۔ فون رکھنے کے بعد میں خوشی سے پھولا نہ سمایا۔ جب میں امریکا آیا تھا تو اوروجہوں کے علاوہ ایک بہت بڑی وجہ یہاں کی عورتوں کے بارے میں میرا تصور تھا۔ ان کی شکل و صورت ، رنگ اور جسم، اس پر کپڑے پہننے کا انداز۔ ایسی کسی عورت کے ساتھ وقت گزارنا میری زندگی کا ایک بہت بڑا خواب تھا۔ وہ رات کامیابی کے احساس کی رات تھی۔ نیو یارک آنے کے بعد اب تک جو دھکے کھائے تھے ان کی تکلیفوں کے بوجھ کو میں نے ہلکا ہوتے ہوئے محسوس کیا۔ مجھے شبانہ کا خیال بھی نہیں آیا ، یہ بات بھی میرے لئے تسکین کا باعث تھی۔

میرے اگلے دو دن بھی خاصے مصروف گزرے۔ ٹیکسی میں چھوٹے موٹے کام کرانا تھے ، فلوریڈا میں وکیل سے رابطہ قائم کرنا تھا،دو دن تک اس لڑکی کا خیال تک نہیں آیا۔ تیسرے روز میں نے رات کے آٹھ بجے اسے فون کیا۔ وہ گھر پر تھی۔ کچھ دیر باتیں ہوتی رہیں ، پھر میں نے اس سے کہا کہیں ملتے ہیں۔ وہ مان گئی ، اگلے روز ہماری ملاقات طے ہوئی۔

اگلے روز آٹھ بجے میں نے اس کو گھر سے پِک کیا ، اور ہم اس کے بتائے ہوئے کسی ریستوران کی طرف چل دیئے۔ آج اس کی بات چیت کا انداز خاصا دوستانہ تھا ، جیسے وہ مجھ کو ایک عرصے سے جانتی ہو۔ کھانے کے درمیان اس نے پاکستان کا ذکر دوبارہ چھیڑ دیا۔ اب وہ مجھ سے پوچھ رہی تھی کہ مجھے وہاں کی کون سی چیزیں پسند ہیں۔ کون سے شہر میں رہنا پسند کروں گا اور کہاں کہاں گھومنے جاؤں گا وغیرہ۔ میں نے اسے پورے ملک کا جغرافیہ سمجھایا اور بتایا کہ کس علاقے میں کیسے لوگ بستے ہیں اور کہاں کون سی زبان بولی جاتی ہے۔ یہ بھی حیرت کی بات تھی کہ جب سے میں امریکا آیا تھا کوئی شخص ایسا نہیں ملا تھا جو پاکستان کے بارے میں زیادہ جانتا ہو یا جاننے کی خواہش رکھتا ہو ، اور ادھر یہ لڑکی تھی جو اتنی معلومات رکھنے کے باوجود سوال پوچھے جارہی تھی۔ آخر اس کو ایسا کون سا تجسس ہے۔ میں سوچ رہا تھا۔

امریکہ آنے کے بعد کسی لڑکی کے ساتھ ڈیٹ پر جانے کا یہ پہلا موقع تھا۔اس وجہ سے میں کچھ بے اطمینانی محسوس کررہا تھا۔مجھے یہاں کے طور طریقے خصوصاً لڑکیوں کو برتنے کے آداب بالکل معلوم نہیں تھے۔ اپنی دانست میں جو مناسب سمجھ میں آرہا تھا وہ کررہا تھا۔ ریستوران میں کھانے کا مینو ہی میرے لئے خاصی الجھن کا باعث ہوا۔ کسی ایک چیز پر انگلی رکھ دی تھی اور اب جو آیا تھا کسی طرح کھا رہا تھا۔

کھانا کھا کر اس کے گھر کا رخ کیا۔ اب میری بے چینی بڑھ گئی۔ ایسی صورتحال سے نمٹنا میرے لئے بالکل اندھیرے میں ٹٹولنے کی طرح تھا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ آگے کیا ہوگا اور کس مرحلے پر مجھے کیا کرنا ہوگا۔ کرسٹی کا انداز بہت دوستانہ تھا۔ ایک طرف تو یہ بات اطمینان کا باعث تھی لیکن دوسری طرف مجھے مزید سوچنے پر مجبور کررہی۔ لاہور میں ، میں کبھی میں اتنی آسان صورتحال سے دو چار نہیں ہوا تھا۔ وہاں پر ہمیشہ یہ ہوتا تھا کہ میں لڑکی کو بہلا پھسلا کر اپنے مطلب پر راضی کرتا اور آخر وقت تک اس کی طرف سے ہلکی سی مخالفت یا احتجاج قائم رہتا تھا۔ اس رویئے میں ایک لذت الگ ہوتی تھی، اور یہ لذت،یہاں ، اس موقع سے غائب تھی۔
لیکن دوسری طرف ایک گوری امریکن کا اتنا زیادہ دوستانہ رویہ میرے لئے باعث فخر بھی تھا ، اور اس خوشی میں میرا دل جوش مار رہا تھا۔ دس ماہ بعد سہی لیکن اب ایک امریکی عورت مجھ کو اپنا ہیرو بنانے جارہی تھی۔
ہم ٹی وی کے سامنے صوفے پر بیٹھ گئے ، اس نے فرج میں سے بیئر کی دو ٹھنڈی بوتلیں نکال لیں۔ کھانے کے درمیان ہم ویسے ہی کافی پی چکے تھے۔ ٹی وی کا ریمورٹ کنٹرول اس کے ہاتھ میں تھا۔ وہ تیزی سے چینل تبدیل کررہی تھی۔ لمحے بھر میں اس کا رویہ تبدیل ہوچکا تھا اب اس کے انداز میں اضطراب تھا۔ پھر وہ رک گئی۔
’’ آخر تم مجھ سے چاہتے کیا ہو ؟ ... اس نے سر کو جھنجلاتے ہوئے کہا۔ اس کے اظہار میں کچھ مجھ سے اور کچھ اپنے آپ سے احتجاج کے آثار نمایاں تھے۔ اس سے پہلے میں جس شک اور خوف میں مبتلا تھا، وہ اب ایک دم ختم ہوگیا۔ نہ جانے کس طرح میری جبلّی صلاحیتیں آپ ہی آپ راستہ دکھانے لگیں، مجھے لگا کہ جیسے اس صورتحال سے میں کئی بار دو چار ہوچکا ہوں۔
میں اس کے قریب سرک آیا اوراس کا ہاتھ تھام لیااور پھر آہستہ سے کہا ’’ میں تمہارے ساتھ وقت گزارنا چاہتا ہوں‘‘
اس کی جھنجلاہٹ اور اضطراب پر سکوت چھا گیا، وہ مجھے ایک دم سپاٹ نظروں سے دیکھنے لگی۔
’’ تم کو نہیں معلوم تم کتنی خوبصورت ہو ... مجھ سے پوچھو۔‘‘
پھر وہ بولی۔ ’’ اس سے پہلے بھی سب نے مجھ سے یہی کہا ہے۔ لیکن آج تک کوئی نہیں ٹھہرا ہے۔‘‘
میں نے اس کو اپنے قریب کیا اور بہت محبت کے ساتھ اسے چوما۔ وہ اپنے جسم کو میرے سپرد کرچکی تھی۔ ہم اس جگہ ٹی وی کے سامنے صوفے پر ایک دوسرے میں ڈوب گئے۔ ٹی وی چلتا رہا۔ اس کا چینل کسی نے تبدیل نہیں کیا۔ ہر مرحلے پر وہ میرے لئے آسانی پیدا کرتی چلی گئی۔ مجھے لگا وہ مجھے پوری طرح سے مطمئن کرناچاہتی تھی۔
تھوڑی دیر کے بعد ہم ایک دوسرے سے الجھے ہوئے اسی صوفے پر لیٹے ہوئے تھے۔ وہ مجھے دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔
’’ تم مجھ سے کہہ رہے تھے کہ مجھے ٹی وی میں پارٹ دلا سکتے ہو ...‘‘ اس کے انداز میں شرارت تھی۔
میں اس کو دیکھ کر مسکرایا ، پھر اس کے ہونٹوں کو چوما۔ ’’ ہاں بالکل ... تم سے زیادہ حسین ایکٹریس بھلا کوئی ہوسکتی ہے۔‘‘
ہم لوگ کچھ دیر یوں پڑے رہے۔ پھر مجھے اپنی ٹیکسی کی فکر ہوئی۔ وہ مجھے جانے نہیں دینا چاہتی تھی۔ لیکن یہ میری روزی کا مسئلہ تھا۔ تقریباً آدھ گھنٹے بعد میں وہاں سے نکل گیا۔

اس وقت میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ کچھ دیر پہلے میں نے امریکن انداز میں، ٹی وی کے سامنے صوفے پر ایک گوری عورت کے ساتھہ سویا تھا۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں نے اپنے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیئے ہیں اور اس ملک کی اصل زندگی میں قدم رکھنے کے لئے دروازہ وا ہو رہا ہے۔ اس زندگی میں ایک نیا مزا تھا۔ لاہور میں کسی لڑکی کے ساتھ پہلی رات کبھی اتنی آسانی سے نہیں گزری تھی۔ لڑکی کو بہلا پھسلا کر تیار کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا تھا۔ ایک آدھ بار تو صورتحال ہاتھ سے نکلتے نکلتے بچی تھی۔ اور پھر بعد میں ہمیشہ دل پر ایک بوجھ رہتا تھا کہ میں نے لڑکی کے ساتھ زبردستی کی۔ شروع میں مجھے کرسٹی کے ساتھ زبردستی نہ کرنے میں ایک کمی محسوس ہورہی تھی۔ جس کی وجہ سے میں کچھ غیر یقینی میں بھی مبتلا تھا۔ لیکن بعد میں احساس ہوا تھا کہ آسان اور کھلے کھیل میں لذت کسی حجاب یا پردے سے کہیں بڑھ کر ہے۔

چند دنوں بعد میں پھر اس کے گھر پہنچا ہوا تھا۔ اور ایک دفعہ پھر ہم ٹی وی کے سامنے صوفے پر ایک دوسرے میں ڈوبے ہوئے تھے۔ پہلی دفعہ کی طرح اب بھی اس کا انداز کھلا ہوا تھا لیکن اس بار وہ مجھ سے زیادہ قسمیں، وعدے اور اپنی تعریفیں چاہتی تھی۔

اس کے بعد چند دنوں تک میں اسے فون کرتا رہا لیکن وہ نہیں ملی۔ ایک بار میں نے اس کے گھر کا چکر بھی لگایا لیکن وہ موجود نہیں تھی۔ آخر کار دس دن کے بعد وہ مجھے فون پر ملی۔ اس کے بات کرنے کا انداز بہت روکھا تھا، صرف میرے سوالوں کا جواب دے رہی تھی۔ میں نے پوچھا تو بتایا کہ چند دنوں کے لئے وہ اپنی ماں کے گھر پنسلوینیا چلی گئی تھی۔ آواز سے وہ خاصی تھکی تھکی بھی لگ رہی تھی۔ میں نے اس کی خیریت دریافت کرنے کی کوشش کی تو اس نے روکھے پن سے جواب دیا ’’ تمہیں کیوں اتنی پروا ہے میری؟ اس کے اس جواب سے میں کچھ شش و پنج میں پڑ گیا۔ میں نے اپنی محبت کا اظہار کیا اور اس کے حسن کی تعریفوں کے پل باندھے تو وہ میری باتوں سے بے زار سی ہونے لگی۔
’’ آخر کب تک تم مجھ سے وہی پرانی باتیں کرو گے۔ مجھے معلوم ہے کہ میں کتنی خوبصورت ہوں ... میری عمر ۳۴ برس ہوگئی ہے ... اور جوانی جاچکی ہے۔ کیوں تم مجھ سے یہ جھوٹ بولتے ہو ...‘‘

میں چونک گیا۔ مجھے اتنے تلخ جواب کی قطعی امیدنہیں تھی۔ لیکن میں نے اپنی عادت کے مطابق رویہ نہ بدلا۔ اور اپنی باتیں کرتا چلا گیا۔ وہ خاموش رہی۔ پھر میں نے اس سے ملنے کی خواہش ظاہر کی لیکن اس نے صاف انکار کردیا کہ وہ کم از کم دس دنوں تک نہیں مل سکتی۔ لیکن میں ناقبول کرنے والا شخص نہیں تھا۔ کچھ دیر بعد میں اس کے فلیٹ پر موجود تھا۔ اس نے اندر سے لگی زنجیر کے ساتھ دروازہ کھول کر جھانکا تو مجھے دیکھ کر چونک گئی۔ میں بھی اس کو دیکھ کر چونک گیا کیونکہ اس کی آنکھ کے نیچے ایک گہرا نیل تھا۔ اس نے دروازہ بند کردیا اور اندر سے بولی کہ میں چلا جاؤں۔ لیکن میں سننے والا کہاں تھا اور خاص طور پر اس کا نیل دیکھنے کے بعد۔ اس نے زیادہ تکرار نہیں کی اور مجھے اندر آنے دیا۔

اندر پہنچ کر میں نے اس کے نیل کی طرف اشارہ کرکے پوچھا ’’ یہ تمہیں کیا ہوا ہے...‘‘
’’ کچھ نہیں ، چوٹ لگ گئی تھی ...‘‘ اس نے ہاتھ سے اپنے نیل کو چھپاتے ہوئے کہا۔
لیکن میں نے آگے بڑھ کر اس کا چہرے اپنے ہاتھوں میں تھام لیا اور نیل کو چوما ’’...نہیں یہ کیا ہوا ہے تمہارے پھول سے چہرے کو‘‘
ایک لمحے کو محسوس ہوا کہ وہ میرے ہاتھوں میں پگھل گئی ہے۔ لیکن جلد اس نے اپنے آپ پر قابو پایا اور وہ مجھ سے دور ہوگئی۔ اس کا چہرہ اندرونی کرب سے چٹخا ہوا سا تھا۔ اس نے اپنے رنج پر قابو پاتے ہوئے تلخ لہجے میں کہا۔
’’ میرے بوائے فرینڈ نے مجھے مارا تھا ...‘‘ یہ کہہ کر وہ مجھ سے دور ہوگئی۔
مجھے جیسے ایک زور دار تھپڑ پڑا۔ ’’ کیا ...‘‘ میرے منہ سے نکلا ... تمہارا بوائے فرینڈ بھی ہے۔‘‘
اس نے سر کو خفیف سا جھٹکا دیا ’’ ...تھا‘‘
’’ لیکن ... تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں۔‘‘

وہ خاموش رہی۔ میری حالت بیان سے باہر تھی، لاہور میں آج تک میرے ساتھ ایسا نہیں ہوا تھا اور نہ کبھی میرے وہم و گمان میں ایسی بات آئی تھی۔ ٹانگوں میں کچھ کمزوری محسوس کرتے ہوئے میں اسی صوفے پر بیٹھ گیا۔

’’ کیوں ... ؟‘‘ میرے منہ سے پھر نکلا۔
’’ کیوں ؟ ...‘‘ اب وہ مجھ سے یہی سوال پوچھ رہی تھی۔ ’’کیوں ... کیا تم سوچ نہیں سکتے کہ کیوں؟‘‘
اس کی باتیں میری سمجھ سے باہر تھیں۔ میں ایک سوال بنا اس کے سامنے بیٹھا رہا۔ اب اس کے انداز میں میری ناسمجھی پر تھوڑا غصہ تھا۔
’’ کیا تم کو نظر نہیں آتا کہ مجھ جیسی عورت کو کس چیز کی ضرورت ہے ...‘‘
بات اب بھی میری سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ لیکن میں اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’ میں نے سچے دل کے ساتھ سب کچھ کیا ... اور تم نے مجھے دھوکے میں رکھا۔‘‘
وہ خاموش رہی۔

اب میں نے کچھ اشارہ کیا کہ جیسے میں وہاں سے جاناچاہتا ہوں۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے ’’ نہیں ... نہیں جاؤ ، ابھی ...‘‘ پھر وہ میرے قریب آتی گئی اور مجھ سے لپٹ گئی۔ اب وہ سسکیاں لے رہی تھی۔ ’’ مت جاؤ اس وقت۔‘‘ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کیا ہورہا ہے۔ لیکن میری حالت ایسی تھی کہ میں وہاں نہیں رک سکتا تھا۔

اگلے چند روز تک میں نے اس سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ پھر میں نے حقیقت کو سامنے رکھ کر سوچا کہ مجھے اس عورت سے اس کے جسم کے علاوہ اور کیا چاہئے تھا۔ مجھے یہ بھی اندازہ تھا کہ کوئی اور لڑکی اتنی آسانی سے دوبارہ نہیں ملے گی۔ تقریباً ایک ہفتے بعد میں اس کے گھر بغیر فون کئے پہنچا۔ وہ گھر پر تھی۔ دروازہ کھول کر وہ مسکرائی اور اندر آنے دیا۔ اس کا انداز نارمل تھا۔

’’ میں کھانا کھا رہی ہوں ... کچھ کھاؤ گے ؟‘‘

میں نے نفی میں سر ہلا دیا۔ وہ صوفے پر بیٹھی کھانا کھا رہی تھی اور ٹی وی دیکھ رہی تھی۔ میں اس کے برابر بیٹھ گیا۔ کھانے کے درمیان وہ ادھر ادھر کی باتیں کرتی رہی۔ اس دن کا واقعہ جیسے وہ بالکل بھول گئی تھی۔ پھر وہ میرے قریب ہوکر مجھ سے لگ کر بیٹھ گئی۔ میں نے کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔ اب وہ کھانا کھا چکی تھی اور اپنا ایک ہاتھ میرے بالوں میں کنگھی کی طرح پھیر رہی تھی جیسے مجھے آرام پہنچانے کی کوشش کررہی ہو۔

لیکن میرا دل کچھ اس سے اوراس کے انداز سے اچاٹ ہوتا چلا جارہا تھا۔ وہ اپنا چہرہ میرے چہرے کے بہت قریب لے آئی اور آہستہ سے بولی۔ ’’ ڈارلنگ ...‘‘
میرے ذہن کی دھند ابھی تک پوری طرح صاف نہیں ہوئی تھی۔ ’’ کیا تم یہ سچ کہہ رہی ہو۔‘‘
’’ ہاں ... تم نہیں جانتے ،لیکن میں سچ کہہ رہی ہوں ...‘‘ پھر وہ رکی۔ ’’مائک کے ساتھ تو میرا تعلق ٹوٹنا ہی تھا ... تم نہیں ہوتے تب بھی ٹوٹتا ... بلکہ تمہاری وجہ سے جلدی ٹوٹ گیا۔ اچھا ہوا‘‘

اب وہ مجھے صوفے پر لٹا کر میرے اوپر آگئی تھی اور میرے چہرے کو اپنی چھاتیوں میں چھپا لیا تھا، جیسے مجھے تمام دنیا سے محفوظ رکھناچاہتی ہو۔ ایک بار مجھے اس کی ہلکی سی سسکی کی آواز بھی آئی۔ وہ اپنا پیٹ میرے پیٹ کے ساتھ آہستہ آہستہ رگڑ رہی تھی۔ پھر اس نے اپنا جسم اٹھا کر میری طرف دیکھا ، اس کی آنکھوں میں آنسو اور لبوں پر ایک التجا ئی مسکراہٹ تھی۔ ’’ تم میرے ساتھ آکر کیوں نہیں رہتے۔ میں تمہیں بہت خوش رکھ سکتی ہوں۔ میں تمہارے کلچر تمہاری ثقافت کو بہت اچھی طرح جانتی ہوں۔ تمہیں کسی چیز کی تکلیف نہیں ہوگی۔‘‘

میں اس کو دیکھ کر مسکر ا رہا تھا۔ اب تمام باتیں میری سمجھ میں آتی جارہی تھیں ، لیکن کسی عورت کے جسم کے لئے یہ قیمت میں نے لاہور میں بھی ادا نہیں کی تھی جو یہاں کرتا۔

پھر اس نے دوسری ترکیب استعمال کی۔ ’’ تم ایک پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور ہو ... تم کو یہاں کوئی کم عمر لڑکی نہیں ملے گی، جو اپنے آپ کو اس طرح تمہارے سپرد کردے۔ ان کے چاہنے والے ہزار ہیں۔ میں تمہیں جانتی ہوں ... تمہارے ساتھ پاکستان بھی جاسکتی ہوں ... کوئی دوسری عورت یہ نہیں کرے گی۔‘‘

وہ رات میں نے اس کے ساتھ ہی گزاری۔ صبح جب میں اٹھ کر جانے لگا تو اس کی آنکھوں میں آنسو تھے جیسے کہ اسکا خیال ہو کہ میں پلٹ کر نہیں آؤں گا۔ میں جب اس کے فلیٹ سے نکلا تو اپنے تجربے پر مسکرا رہا تھا کہ جیسے میں نے دنیا دیکھ لی ہو۔ تمام دنیا کی عورتیں اب مجھے ایک جیسی لگ رہی تھیں۔ کیا نیویارک کی ، کیا لاہور کی ، کیا گوری، کیا کالی۔

لیکن کرسٹی نے ٹھیک ہی کہا تھا۔ اس کے بعد میں نے نیویارک کی سڑکوں پر کئی سال ٹیکسی چلائی پر میرے مطلب کی کوئی جوا ن لڑکی مجھے نہیں ملی۔ انہیں ہمیشہ کسی جوان اور امیر مرد کے ساتھ جاتے دیکھا۔