جمعرات، 16 اکتوبر، 2014

جب وقت رک گیا

(۱)

روشن دان سے کچھ نیچے دیوار میں ایک دراڑ ہے۔ یہاں سے یہ چیونٹیاں نکلتی ہیں۔ اور پھر نیچے آکر زمین کے قریب ایک اور سوراخ میں غائب ہوجاتی ہیں۔

میرا قد کوئی پانچ فٹ آٹھ انچ ہے ، ہاتھ اٹھاؤں تو تقریباً پونے سات فٹ کی اونچائی تک پہنچتا ہے ، لیکن یہ دراڑ میری پہنچ سے بھی کوئی فٹ بھر اونچی ہے۔ روشن دان سے کوئی چھ انچ نیچے میں نے حساب لگایا ہے کہ اوپر سے نیچے تک یہ چیونٹیاں کوئی آٹھ فٹ کا سفر طے کرتی ہیں۔

وقت کا اندازہ لگانے کے لئے میرے پاس کوئی چیزنہیں جس سے معلوم ہو پائے کہ ایک چیونٹی کی اوسط رفتار کیاہوتی ہے۔ لیکن میرااندازہ ہے کہ انہیں اوپر سے نیچے تک پہنچنے میں کوئی دس منٹ لگتے ہوں گے۔ پھر سوچتا ہوں کہ ہوسکتا ہے کہ پانچ منٹ ہی لگتے ہوں ، پانچ یا دس کیا فرق پڑتا ہے۔ وقت کی اہمیت کہاں ہے۔

اگر وقت ڈوری کی طرح کی چیزہوتی تو میں اس کولمبا بچھا دیتا اور دوھرا کر کے اس کے کئی حصے کردیتا۔ جو حصے پسند آتے انہیں رکھتا باقی تمام پھینک دیتا۔ لیکن یہاں تو وقت ناپنے کے لئے گھڑی چاہیے یا کوئی ایسا آلہ جو ایک مستقل رفتار کے ساتھ چلے۔ ایسا کوئی آلہ میرے پاس موجود نہیں۔ کبھی کبھی میں اپنا ہاتھ ڈھیلا لٹکاکر گھڑی کے پنڈولم کی طرح ہلانے کی کوشش کرتا ہوں کہ اس سے وقت کا کوئی اندازہ ہوسکے لیکن پھر جلد ہی تھک جاتا ہوں اور وقت کے گزرنے پر اپنے ہاتھ کے پنڈولم کی پابندی ہٹا لیتا ہوں اور اسے آزاد چھوڑ دیتا ہوں۔ ’’میں آزاد نہیں تو کیا ،میں نے وقت کو توآزاد چھوڑا ہوا ہے ‘‘ میں سوچتا ہوں۔

کبھی کبھی اپنے ہاتھ کے پنڈولم کی مدد سے میں نے چیونٹیوں کی رفتار ناپنے کی کوشش کی ہے لیکن ہمیشہ یاتو چیونٹی پر سے نظراٹھ جاتی ہے یا پھر ہاتھ کی گنتی بھول گیا۔ صرف دو دفعہ یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ مکمل کر پایا ہوں۔ ایک بار 745بار میں ایک چیونٹی نیچے تک پہنچی تھی اور دوسری با ر 650 مرتبہ میں۔

اب میں نہیں کہہ سکتا کہ میرے ہاتھ کی رفتار بدل گئی تھی یا چیونٹیوں کی رفتار بدلتی رہتی ہے۔

چیونٹیاں اوپر سے نیچے تک ایک ہی قطار میں آتی ہیں۔ مجال ہے کہ کوئی اس سے نکل کر ادھر ادھر ہوجائے ، ان کو لائن میں رکھنے کے لئے نہ سپاہیوں کی ضرورت ہے اور نہ وارڈن کی کسی دھمکی کی۔ ایک جگہ سے ایک چیونٹی گزر جائے تو لازم ہے کہ باقی بھی ادھر ہی سے گزریں۔ یہ بات میں نے کئی دن کے مشاہدے کے بعد دریافت کی ہے۔

اب میں اس فکر میں لگا ہوں کہ اندازہ کر پاؤں کہ ایک وقت میں اس قطار میں کتنی چیونٹیاں آتی ہیں لیکن یہ بھی آسان کام نہیں۔ میرا خیال ہے کہ ایک انچ میں کوئی دس یا بارہ چیونٹیاں آتی ہیں۔ اس عدد کی بنیاد پر میں صرف اندازہ ہی لگا سکتا ہوں کہ پوری قطار میں کتنی آتی ہوں گی۔

یہ چیونٹیوں کی سائنس بھی کیا خوب علم ہے، اس کا اندازہ مجھے ابھی چند روز پہلے ہی ہوا ہے۔ میں اس علم کی جستجو میں اس کوٹھری کے تمام عذاب بھول گیا ہوں۔ بلکہ اب سوچتا ہوں کہ باقی کی قید بھی اسی کوٹھری میں گزرجائے تو مجھ پہ کتنارحم ہوگا۔

میں قیدی نمبر 1212 ہوں۔ مجھے اس جیل خانے میں اب کوئی بارہ سال ہونے کو آئے ہیں ، تین ہفتے پہلے میری مست آرائیں سے لڑائی ہوگئی تھی اور میں نے اسے چاقو لگا دیا تھا۔ اس کی سزا میں وارڈن نے مجھے چالیس دن کے لئے اس اندھیری کوٹھری میں بند کردیا۔ میرے حساب کے مطابق آج شاید 2 3واں دن ہے۔

ویسے تو میں کب کا دن گننا چھوڑ دیتا لیکن ان چیونٹیوں نے میرے تمام احساسات کو بے حد حساس بنا دیا ہے۔ یہ چیونٹیاں رکتی نہیں۔ یہاں تک کہ رات کے گھپ اندھیرے میں بھی میں نے دیوار پر ہاتھ رکھ کرمحسوس کیا تو یہ چیونٹیاں مجھے اپنی قطار میں چلتی ہوئی محسوس ہوئی ہیں۔ پھر میں اپنے ہاتھ کو وہیں چھوڑ دیتاہوں۔ اندھیرے میں ان کے راستے میں ایک ناگزیر رکاوٹ حائل ہوجاتی ہے۔ پر میں نے محسوس کیا ہے کہ کچھ میرے ہاتھ کے اوپر سے کچھ اطراف سے ہوتی ہوئی نیچے پہنچی ہیں اور ایک قطار کی صورت میں اپناسفر دوبارہ شروع کردیا ہے۔ اس سے مجھے پتہ چلا ہے کہ یہ اندھیرے میں نہ صرف دیکھ سکتی ہیں بلکہ قطار بھی بنا سکتی ہیں۔ ان کی یہ صلاحیت معلوم کرکے میں دنگ رہ گیا ہوں۔

انسانوں میں فوج کے سپاہیوں کے علاوہ شاید ہی کسی اور میں اتنا نظم و ضبط دیکھا گیاہے۔ لیکن فوجیوں میں بھی کیا نظم و ضبط ہوتاہے ان کے ہاتھوں سے بندوقیں لے لو پھر دیکھو کہ کون کس کا کہا مانتا ہے۔

میں نے پچھلے تین ہفتوں میں چیونٹیوں سے جتنا کچھ سیکھا ہے شاید ہی زندگی میں کسی اور چیز سے سیکھا ہوگا۔ جب اس کوٹھری سے باہر نکلوں گا تو ضرور ایک بدلا ہوا انسان ہوں گا۔ دوسرے اس بات کو تسلیم کریں یا نہ کریں لیکن مجھے پکا یقین ہے۔

وقت ناپنے کے لئے ایک مستقل رفتار سے ہلتی ہوئی چیز چاہئے۔ یہ بات میں نے ان چند ہفتوں میں دریافت کی ہے۔ اس کوٹھری میں ایک مستقل رفتار سے چلتی ہوئی چیز صرف یہ چیونٹیوں کی قطار ہے۔ اگر یہ رک گئی تو وقت رک جائے گا۔ پھر اس کوٹھری میں تمام چیزیں ساکت ہوجائیں گی۔ سوائے میرے ، میں وقت کو اپنی مرضی پر چلاؤں گا۔ جب میں ہلوں گا تو وقت چلے گا نہیں تو ساکت ہوجائے گا۔

روشن دان کے قریب سے نیچے آنے والی چیونٹیاں ایک مستقل رفتار کے ساتھ چلتی ہیں ان کی اس رفتار کے ساتھ میری زندگی کا نظم و ضبط وابستہ ہے۔ یہ زندگی کی علامت ہیں۔ جب میں صبح اٹھتا ہوں توکہتا ہوں کہ رات بھر میں اس قطار میں بارہ ہزار چیونٹیاں گزر گئی ہیں۔ کیونکہ میں نے پیمانہ بنایا ہے کہ ایک گھنٹے میں ایک ہزار چیونٹیاں گزرنی چاہئیں۔ جب میں سمجھتا ہوں کہ ایک ہزار چیونٹیاں گزر گئیں ہیں تو کہتا ہوں کہ ایک گھنٹہ گزر گیا۔ یا جب میں سمجھتا ہوں کہ ایک گھنٹہ گزر گیا ہے تو کہتا ہوں کہ دیوار پر ایک ہزار چیونٹیاں گزر گئیں ہیں۔

جب دیوار پر سے بارہ ہزار چیونٹیاں گزر جاتی ہیں تو میری کوٹھری کا دروازہ کھلتا ہے اور مجھے کھانا ڈالا جاتا ہے۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ اسے ان چیونٹیوں نے ہی کھانا لانے کے لئے تعینات کیا ہے۔ کبھی یوں لگتا ہے کہ یہ چیونٹیاں ہی باہر کی دنیا کا نظام چلاتی ہیں اور میں اس کائنات میں ان کا واحد پجاری ہوں اور باقی انسانیت تک پیغام پہنچانے والا ہوں۔

اب میں سوچتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ میں پیدا ہی اس پیغام کو پہنچانے کے لئے ہوا تھا کیونکہ بچپن ہی سے مجھے اپنے زندگی کا کوئی مصرف نظر نہیں آتا تھا۔ کبھی اپنے آپ کو ایک کام میں مگن پاتا تھا کبھی دوسرے۔ اسی طرح ایک بار میں کسی آزادی کے کام میں شامل ہوگیا تھا۔ نا جانے یہ آزادی کیا چیز ہوتی تھی۔ سارے وقت آزادی ، آزادی کہتا رہتا تھا اور چند اور لوگوں کے گروہ کے ساتھ گھوما کرتا تھا۔ آزادی کے علاوہ ہم دو لفظ اور استعمال کیا کرتے تھے...اب میں بھول رہا ہوں انہیں ... ہاں... حقوق اور دوسرا ... ہاں... جمہوریت ... پتہ نہیں کیا مطلب ہوا کرتا تھا ان سب لفظوں کا لیکن اس زمانے میں مجھے خوب یاد تھا اور بڑے زوروں میں ان کے استعمال میں مگن رہتا تھا۔

پھر ایک روز ہم کسی ہوٹل میں چائے پی رہے تھے کہ چند سادہ کپڑے والے لوگوں نے اپنے ساتھ چلنے کو کہا ، اس طرح میں جیل میں پہنچا۔ آج سے پورے بارہ سال پہلے۔ کس مصرف کے لئے یہ میں اس وقت بالکل نہیں جانتا تھا۔

اب جو سوچتا ہوں تو سمجھ میں آتا ہے کہ یہ سب کچھ ان چیونٹیوں نے کروایا۔ وہ سب آزادی ، جمہوریت وغیرہ کی باتیں ... اس لئے کہ میں جیل آؤں اور پھر جیل میں مجھے بارہ سال رکھا گیا تاکہ میں اس عظیم کام کے لئے تیار ہوجاؤں۔ پچھلے بارہ سال مجھے احساس رہتا تھا کہ میں کوئی عظیم کام کرنے والا ہوں ، اب سمجھ میں آیا کہ وہ عظیم کام کیا تھا۔ بارہ سال کی تیاری کے بعد میں اس کوٹھری میں لایا گیا تاکہ باقی انسانیت کے لئے سمجھ پاؤں کہ وقت کی اصل اہمیت کیا ہے اور اس کابہاؤ کن اصولوں پر مبنی ہے۔

اور پھر میں سوچتا ہوں تو لگتا ہے کہ بارہ سال کا عدد بہت مقدس ہے کیونکہ بارہ ہزار چیونٹیاں گزرتی ہیں تو دن سے رات ہوتی ہے اور رات سے دن ، چیونٹیوں کا علم سیکھنے سے پہلے مجھ سے بارہ سال تیاری کرائی گئی ، اور پھر مجھے کیوں چنا گیا اس عظیم کام کے واسطے …… اس لئے کہ میرا نمبر 1212 تھا اور ہاں گھڑی میں بارہ گھنٹے ہوتے ہیں …… یہ کس لئے ؟ اب سوچتا ہوں تو سمجھ میں آتا ہے۔

(۲)

اس رات خبر آئی کہ جیل کا انسپکشن ہونے والا ہے ، وارڈن نے راتوں رات تمام جیل کی صفائی کے آرڈر دیئے ، سپاہی قیدی نمبر 1212 کی کوٹھری میں بھی آئے اور پانی اور لمبے لمبے برشوں کی مدد سے تمام دیواریں اور فرش صاف کردیا۔

اگلے روز قیدی نمبر1212 کی کوٹھری سے آوازیں آئیں۔ ’’ وقت رک گیا ہے۔ ہا ...ہا...ہا... وقت رک گیا ہے... اب میں وقت چلاؤں گا ... اب... میں وقت چلاؤں گا... ہا... ہا ... ہا... یہ دیکھو وقت چلا... چلنا شروع ہوجاؤ... یہ دیکھو رک گیا... رک جاؤ... ‘‘

پھر شام کو دوبارہ آوازیں آئیں۔ ’’اب تک صرف دس ہزار چیونٹیاں گزری ہیں... ابھی دو ہزار باقی ہیں ... ابھی دو ہزار باقی ہیں... یہ چیونٹیاں رک کیسے گئیں ... چیونٹیاں رک کیسے گئیں۔‘‘

پھر اندر سے آوازیں آتی رہیں جیسے کوئی چیز دیوار سے ٹکرا رہی ہو۔ اور قیدی کہہ رہا تھا ’’ وقت چل رہا ہے ... چیونٹیاں چل رہی ہیں ... چیونٹیاں چل رہی ہیں ... وقت چالو ہوگیا ہے ... اب چیونٹیوں کی قطار نہیں ہے دھار ہے ... دھار ہے... ‘‘

رات کو جب سپاہی اس کو کھانا دینے گیا تو قیدی کا مردہ جسم زمین پر پڑا پایا اس کے سر سے بہت سا خون بہہ چکا تھا۔

بعد میں جب قیدی نمبر 1212 کی فائل لائی گئی تو پتہ چلا کہ یہ قیدی آزادی و جمہوریت کی کسی تحریک کے دوران پکڑا گیا تھا، اور تقریباً سولہ سال سے بغیر کسی کیس کے جیل میں قید تھا... قانون کے دفاع میں اخباروں میں کچھ خبریں آئیں کہ یہ وہ بدقسمت شخص تھا جسے وقت بھول گیا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں