منگل، 16 دسمبر، 2014

وہ لڑکی جو اخبار بیچتی ہے


ایک زمانہ تھا جب میں صبح پانچ بجے اٹھنا تصوّر بھی نہیں کر سکتا تھا، لیکن اب میری آنکھ پانچ بجے سے بھی پہلے کھل جاتی ہے۔ اور میں بستر میں پڑا پانچ بجنے کا انتظار کرتا رہتا ہوں۔ میری کھڑکی کے باہر کالا گھپ اندھیرا ہوتا ہے۔ مجھے اپنے بستر میں لیٹے لیٹے محسوس ہوتا رہتا ہے کہ باہر کا یہ اندھیرا کتنا سرد ہوگا۔ میں اس اندھیرے کو تکتا رہتا ہوں، مجھے اس میں طرح طرح کے کالی لکیروں سے کھینچے ہوے نقش و نگار اُبھرتے مٹتے نظر آتے رہتے ہیں۔ جیسے کوئی کالا جال بنتا ہو، اور پھر اس جال کو کالی انگلیوں سے چھیڑتا ہو۔

یوں کھڑکی سے باہر تکتے تکتے میں بستر سے اٹھ جاتا ہوں، اور دفتر جانے کے لئے تیار ہونے کے غیر دلچسپ کام میں ازخود جُت جاتا ہوں۔ میرا دماغ ایک بار پھر سونے چلا جاتا ہے۔

صبح چھے بجے کے لگ بھگ میں اپنی گاڑی کار پارکنگ میں کھڑی کرتا ہوں جو کہ ٹرین اسٹیشن سے بارہ تیرہ منٹ کے فاصلے پر ہے۔ جہاں سے میں نیویارک شہر جانے والی زمین دوز ٹرین پکڑتا ہوں۔ مجھے صبح سات بجے سے پہلے دفتر پہنچنا ہوتا ہے۔ اپنی کار سے اتر کر پیدل چلتا ہوا میں ٹرین اسٹیشن کی طرف آتا ہوں۔ اس وقت میرے دماغ میں طرح طرح کے خیالات ہوتے ہیں، یہ موسم اور حالات کے حساب سے بدلتے رہتے ہیں۔ میری نگاہیں نیویارک کی اسکائی لائین (skyline) پر ہوتی ہیں۔ اس اسکائی لائین میں کچھ عرصہ پہلے تک ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے جڑواں ٹاور خاصے نمایاں تھے، لیکن ابھی چند ہفتے قبل وہ دونوں منہدم ہو چکے ہیں۔ انکی جگہ پیدا ہونے والا خلا اب خاصا نمایاں ہے، لیکن میری نگاہیں اس خلا پہ نہیں ٹہرتیں۔

ٹرین اسٹیشن کے پاس پہنچ کر مجھے وہ لڑکی نظر آتی ہے جو اخبار بیچ رہی ہوتی ہے۔ وہ مجھے دیکھ کر سر کو ہلکے سے جھٹکا دے کر ہیلو کہتی ہے اور اس کے بعد مسکراتی ہے۔ میں اپنے نرم ترین لہجے میں اُسے جواب دیتا ہوں اور اس سے پہلے کے تمام خیالات بھول جاتا ہوں۔

یہ تقریباً روز صبح کا معمول ہے۔ اس لڑکی کا تعلق جنوبی امریکہ کے کسی ملک سے ہے۔ اور وہ اسپانوی زبان بولتی ہے۔ میں نے ایک آدھ بار رک کر اس سے بات کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن وہ بہت کم انگریزی جانتی ہے۔ بس اتنی کہ اخبار بیچ لے۔ مجبور ہو کر مجھے اسٹیشن کی طرف دوڑنا پڑا ہے، کیونکہ ٹرین چھوٹ جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ ایک دفہ اس نے مجھے روک کر وقت پوچھنے کی کوشش کی، لیکن میں اسُ کو انگریزی میں بہ مشکل وقت بتا سکا، آخر لا چار ہو کر میں نے اپنی کلائی اسکی طرف بڑھا دی۔ اس نے میری کلائی پکڑ کر، اس پر بندھی ہوئی گھڑی سیدھی کی تاکہ وقت دیکھ پائے۔ پھر اس نے اپنی زبان میں کہا۔ ’’گراسیاس․․․‘‘۔

میں نے بھی نہایت میٹھے لہجے میں اسکا شکریہ ادا کرتے ہوئے ’’ تھینک یو ․․․‘‘ کہا۔ اور پھر نیویارک شہر جانے والی ٹرین کے زیرِزمین پلیٹ فارم کی جانب سرعت کے ساتھ بڑھ گیا۔

اب سے کچھ عرصہ پہلے تک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر جانے والی ٹرین لیتا تھا، جو مجھے دس منٹ میں وہاں پہنچا دیا کرتی تھی۔ لیکن اب مجھے 34th اسٹریٹ جانے والی ٹرین پکڑنی پڑتی ہے، جس میں بیس پچیس منٹ لگ جاتے ہیں۔ یہ ٹرین پہلے کی نسبت بہت ذیادہ بھری ہوئی ہوتی ہے، اور یہ مجھ کو اپنے دفتر سے ذیادہ دور بھی اتارتی ہے۔

ٹرین سرنگ میں دوڑتی چلی جاتی ہے، اور میں اس میں کھڑا اپنی بدنصیبی کو کوستا رہتا ہوں، کہ اب میرا سفر ذیادہ لمبا اور دشوار ہو گیا ہے۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ٹاوروں کو گرانے والا جو شخص بھی ہے، چاہے وہ اوسامہ بن لادن ہے یا کوئی اور، یقینً وہ بہت خبیث انسان ہے۔ اور اس کو اپنے کئے کی سزا ملنی چاہئے۔ شروع شروع میں جب وہ ٹاور گرے تھے تو مجھے ان میں مرنے والوں پر بہت افسوس تھا۔ ان کی تعداد کم از کم کئی ہزار ہو گی اور وہ بلا کسی قصور کے مارے گئے۔ ایک لمحے ایک اسٹاک بروکر عمارت کے پچھترویں (75th) منزل پر بیٹھا اپنے اسکرین کو دیکھ رہا ہو گا۔ دوسرے ہی لمحے اس نے حیران ہو کر چاروں طرف آگ دیکھی ہو گی۔ اور پھر وہ مر گیا ہو گا۔ اتنی جلدی کہ اسے تکلیف کا احساس بھی نہیں ہو پایا ہو گا۔ اگر موت کے بعد ذندگی واقعی کوئی چیز ہے تو اسے بڑا عجیب لگا ہو گا کی ایکدم سے مر کے دوبارہ کیسے ذندہ ہو گیا؟

شروع میں مجھے ان لوگوں کا اس طرح مر جانے پر بہت افسوس تھا، اور انکے گھر والوں سے بڑی ہمدردی۔ لیکن اب اس ہمدردی کا دائرہ خاصا وسیع ہو گیا ہے۔

تقریباً پونے سات بجے میں زیر ِزمین اسٹیشن سے باہر آتا ہوں اور اپنے دفتر کی طرف چلنا شروع کرتا ہوں۔ اب سردیاں آ چلی ہیں۔ اس لئے اس وقت پوری روشنی نہیں ہوتی۔ سڑکیں خالی ہوتی ہیں۔ اور اکا دُکا لوگ اپنے اورکوٹوں میں دبکے فٹ پاتھ پر نظر آتے ہیں۔ سڑکوں کے بیچ و بیچ مین ہول کورز (manhole covers) سے نکلتی ہوئی زیر ِزمین بوائیلرز (boilers) کی بھانپ ایک عجیب پراسرار سماں پیدا کرتی ہے۔ کہ جیسے زمین اندر سے سلہگ رہی ہو۔

اس منظر میں ایک ویرانی سی ویرانی ہوتی ہے، اسے محسوس کرنے والا شخص اپنے آپ کو بے انتہا تنہا پاتا ہے۔ میرے لئے یہ روز کی بات ہے۔ صبح کے سایوں میں لپٹی ہوی نیویارک کی عمارتیں باہر سے بے حد سرد نظر آتی ہیں۔ لیکن ان کی اس سردی سے میں پوری طرح آشنا ہوں، اس شہر کی پوری فضا کچھ ایسی ہے۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے سانحے کے بعد میرا خیال تھا کہ یہاں کی فضا میں کچھ گرمی آ جائے گی۔ مگر میرا یہ خیال غلط نکلا، اب یہاں کی فضا تو پہلے سے بھی ذیادہ سرد ہو گئی ہے۔ پھر جب ذیادہ سوچتا ہوں تو لگتا ہے کہ شاید میرا یہ خیال بھی غلط ہو۔

دفتر پہنچ کر میں اپنے کاموں کے ہجوم میں گم ہو جاتا ہوں، اور اپنے آپ کو بھول جاتا ہوں۔ وہاں کا کچھ حساب کتاب ایسا ہے۔ وہاں تمام رشتے کاموں کی بنیاد پر بگڑتے یا سنورتے ہیں، انسانیت کے تقاضوں کی مداخلت خاصی کم ہے۔ یوں سوچتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ وہاں کام کرنے والے انسان کم اور انسان نما مشینیں ذیادہ ہیں۔ جن کو کسی ماہر انجینیر نے بنایا ہے، اور ان کی تمام حرکات و سکنات پہلے سے پروگرام کی جا چکی ہیں۔

یہاں اتنے عرصے سے کام کرتے ہوئے اب مجھے لگتا ہے کہ جیسے کسی غیر مرئی طاقت نے میری بھی پروگرامنگ کر دی ہے۔ کیونکہ مختلف چیزوں کے بارے میں میں اپنا ردِ عمل بھی مشینی پاتا ہوں۔ کام سے فارغ ہو کر جب دفتر سے نکلتا ہوں تو اکثر اس بات پر غور کرتا رہتا ہوں کہ کیا اب میرے اندر کا مشینی آدمی سونے چلا گیا ہے، یا وہ ابھی تک جاگ رہا ہے؟ اور کیا اب بھی میرے جذبات اور خواہشات کسی کمپیوٹر پروگرام کے اختیار میں ہیں؟

ایسے میں مجھے وہ لڑکی یاد آتی ہے۔ جو روز صبح اسٹیشن پر اخبار بیچتی ہے۔ روزآنہ ایک ہی کام کو دہرانا ایک مشینی عمل ہے۔ تو کیا روز صبح اسکا مجھے دیکھ کر مسکرانا بھی ایک مشینی عمل ہے؟ میں نے اس بات پر خاصا غور کیا ہے، مگر مجھے نہیں لگتا کہ ایسا ہے۔ کیونکہ اس کی آنکھوں کی چمک واقعی بہت پرُکشش اور بے ساختہ ہوتی ہے۔ اور کبھی جب وہ گم سم سی کھڑی ہو تو مجھے دیکھ کر مسکرانا بھول بھی جاتی ہے، جو کہ ایک عین انسانی بات ہے۔

یہ سب دیکھ کر مجھے لگتا ہے کہ اس کے وجہ شاید یہ ہے کہ اسکا پیشہ ادنیٰ درجے کا ہے یا شاید وہ بہت کم کماتی ہے۔ کیونکہ وہ نہیں سمجھ سکتی کہ ایک مشینی انداز کام میں کتنا فائدہ مند ہوتا ہے․․․․ لیکن ایسا ضروری بھی نہیں۔ ایک ادنیٰ پیشے کا کم پیسے کمانے والا شخص جو کہ ایک مشینی انداز سے کام کرتا ہو پوری ذندگی ان ہی حالات میں پڑا رہتا ہے۔ اس لئے کوئی ضروری نہیں کے ایسا ہو۔

دفتر سے فارغ ہو کر میں اپنی مخصوص بار میں جا کر دم لیتا ہوں۔ اور بئیر آڈر کرتا ہوں۔ یہاں اینجلینا (Angelina) کام کرتی ہے۔ اس سے میری اچھی خاصی واقفیت ہے۔ اصل میں شروع میں اسکی دوستی میری گرل فرینڈ مونیکا (Monica) سے تھی۔ لیکن آجکل موینکا میرے ساتھ نہیں ہوتی۔ مجھے بار میں اکیلا دیکھ کر اینجلینا ایک ہی سوال کرتی ہے کہ میری گرل فرینڈ کہاں ہے۔ اور میں اسے یہ ہی جواب دیتا ہوں کہ لاٹویا (Latvia) سے اسکی ماں آئی ہوئی ہے۔ اور وہ اپنی ماں کے ساتھ مصروف ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اینجلینا یہ سمجھتی ہے کہ میری مونیکا کے ساتھ کوئی انَ بنَ ہو گئی ہے، یا ہمارا تعلق منقطع ہو گیا ہے۔ لیکن ایسا نہیں۔

مونیکا کی جاب پر آجکل دو تین بڑے بڑے پراجیکٹ آئے ہوئے ہیں۔ شام تک دفتر سے فارغ ہوتے ہوتے اسے دیر بہت ہو جاتی ہے اور تھک بھی بہت جاتی ہے۔ اور پھر اسکی ماں بھی آئی ہوئی ہے۔ اس لئے وہ میرے ساتھ آ کر بار میں نہیں بیٹھتی۔ ہماری ملاقات اب کبھی کبھار کسی ویک اینڈ پر ہوتی ہے۔

اب میں بار میں اکیلا بیٹھ کر بئیر پیتا ہوں۔ یہاں پر آنے والی دوسری لڑکیوں کے ساتھ اپنا دل بہلاتا ہوں۔ میری لڑکیوں سے دوستی بہت جلدی ہو جاتی ہے۔ وہ میرے ساتھ گھل مل جاتی ہیں اور مجھے اپنی ذندگی کے بارے میں بتانے لگتی ہیں۔ میں بھی انھیں اپنے بارے میں بتاتا ہوں۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ میری پانچ بہنیں ہیں، وہ سب یورپ کے مختلف ملکوں میں رہتی ہیں۔ میں اپنی بہنوں کا اکلوتا بھائی ہوں اور وہ مجھے بہت چاہتی ہیں۔ پھر میں انھیں بتانے لگ جاتا ہوں کہ میں نے یورپ میں کہاں کہاں کی سیر کی ہے۔ وہ میری باتوں میں محو ہو کر دلکش انداز میں مسکراتی رہتی ہیں۔

اینجلینا یہ سمجتی ہے کہ مونیکا سے میرا تعلق اب ٹوٹ گیا ہے۔ اور میں ہر آنے جانے والی لڑکی پر ٹرائیاں مارتا رہتا ہوں۔ لیکن یہ بات اینجلینا کی خالی کھوپڑی کی ایک فضول ایجاد ہے۔ شاید وہ یہ چاہتی ہے کہ میں ان لڑکیوں کو چھوڑ کر اسکے ساتھ باتیں کروں۔ لیکن وہ تو میرے بارے میں سب کچھ جانتی ہے، اسکے ساتھ میں کیا خاک باتیں کروں گا۔ اور پھر ان لڑکیوں کے ساتھ گپ شپ تو میں ان دنوں میں بھی کرتا تھا جب مونیکا میرے ساتھ ہوتی تھی۔ میں ان کے ساتھ طرح طرح کی دلچسپ باتیں کرتا ہوں۔ اس طرح وقت بہت اچھا گزر جاتا ہے۔ اسکے آگے میری کوئی مراد نہیں ہوتی۔ نہ میں ان لڑکیوں کے ساتھ سونا چاہتا ہوں نہ ہی دیر تک بستر میں انکے برابر لیٹے رہنا چاہتا ہوں۔ مونیکا میری ان عادات سے اچھی طرح واقف ہے۔

اگر مجھے اسپانوی زبان آتی ہوتی تو میں ٹرین اسٹیشن کے باہر اخبار بیچنے والی لڑکی سے پوچھتا کہ اسکا تعلق کس ملک سے ہے۔ لیکن پھر میں اس سے یہ نہیں کہتا کہ حال ہی میں اسکے ملک کے کسی خوبصورت علاقے میں میری بہہن شفٹ ہو کر گئی ہے۔ بلکہ جو بات بھی کرتا اسکی بنیاد سچ پر ہوتی، یوں اس سے دوستی کا آغاز کرتا۔

نیویارک شہر کی کسی گمنام بار میں بیٹھے لڑکیوں کے ساتھ گپ مارتے مارتے میں اُکتا جاتا ہوں۔ ان لڑکیوں سے میری دوستی جلدی تو ہو جاتی ہے، لیکن انکے ساتھ ذیادہ وقت گزارنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ کہانیاں گڑھ گڑھ کر سناتے سناتے میں خود بور ہو جاتا ہوں۔ اس شہر میں سچ کی بنیاد پر دوستیاں شاز و نادر ہوتی ہیں۔ اس لئے میں ان دوستیوں کو ایسے ہی کسی گمنام مے خانے میں چھوڑ جاتا ہوں۔ یہاں سے باہر مجھے ان کا خیال نہیں آتا۔

میں جب بار سے نکلتا ہوں تو الکوحل کا اثر مجھ پر اتنا ذیادہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ میں عادتاً ذیادہ نہیں پیتا۔ جب مونیکا میرے ساتھ ہوتی تھی تو وہ اکثر اپنے گھر کی راہ پر ہو لیتی تھی۔ اور میں اکیلا نیویارک کی اونچی آسمان سے باتیں کرتی ہوئی عمارتوں کے درمیان بہت دیر تک ٹہلتا رہتا۔ اور تنہائی کا احساس عجیب طرح سے شکل بدل لیتا۔ مجھے لگتا کہ میں تنہا نہیں بلکہ یہ تمام پتھر اور سیمنٹ کی عمارتیں میری ہمراہ ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ میں انسانوں سے باتیں کرتا ہوں، اور یہ آسمانوں سے۔ صبح ہوتے ہی طرح طرح کے انسان ان عمارتوں کے کمروں میں آ وارد ہوتے ہیں، اور دن بھر کے کاموں کے بعد شام کو انہیں خالی چھوڑ کر اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ میرے دن اور رات کی کہانی بھی کچھ ان جیسی ہے۔ فرق اتنا ہے کہ میرے دن کے مکین رات کو جاتے ہیں، اور رات کے مکین صبح سے پہلے چلے جاتے ہیں۔

اکثر رات کو سڑکوں پر آوارہ پھرتے پھرتے میں ان عمارتوں کے چند ایسے کمروں میں پہنچ جاتا ہوں جن کے بارے میں بہت کم لوگوں کو علم ہے۔ یہاں مئیر جولییانی (mayor juliani) کے ریاکارانہ اور غریب دشمن قوانین کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ جب میں کمرے میں داخل ہوتا ہوں تو مجھے بہت سی ایسی عورتیں نظر آتی ہیں جنہیں اس معاشرے نے صرف ایک کام کرنے پر مجبور کیا تھا، اور اب ان سے یہ پیشہ بھی چھینا جا رہا ہے۔

یہاں کی بھی کئی عورتوں سے اب میری دوستی ہو چلی ہے۔ یہ میرے ساتھ لیپ ڈانس (lap dance) کرتی ہیں۔ میں دیوار کے ساتھ لگی کسی کرسی پر بیٹھ جاتا ہوں۔ اور ایک عورت میری گود میں آ کر بیٹھتی ہے۔ دھیرے دھیرے وہ برہنہ ہوتی جاتی ہے۔ اور میں دیر تک اسکے جسم کے مختلف گوشوں سے لظف اندوز ہوتا رہتا ہوں، اور اس سے باتیں کرتا ہوں۔ لیکن یہ باتیں ان باتوں سے مختلف ہوتی ہیں جو میں بار میں لڑکیوں سے کرتا ہوں۔ ان سے میں سیاست پر باتیں کرتا ہوں، تاریخی واقعات، جنگوں یا کبھی کبھار کتابوں اور فلموں پر باتیں کرتا ہوں۔ مگر ان سے یہ دریافت نہیں کرتا کہ وہ یہ کام کیوں کرتی ہیں، یا کن واقعات نے انہیں اس کام پر مجبور کیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مجھے ان میں سے کوئی بھی ذیادہ تعلیم یافتہ یا انٹیلیکچول قسم کی نہیں لگتی، جسے پڑھنے لکھنے سے شغف ہو۔ لیکن اس کے باوجود وہ میری باتیں بڑی دلچسپی سے سنتی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ انکے پیشے نے انھیں سکھایا ہے، انہیں ایک مرد کو وقتی طور پر راحت پہنچانے کے تمام گرُ آتے ہیں۔

لیکن اکثر، یہاں سے باہر نکلنے کے بعد مجھے اسی لڑکی کا خیال آجاتا ہے، وہی جو روز صبح ٹرین اسٹیشن کے باہر اخبار بیچتی ہے۔ اور میں سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ آخر وہ لڑکی مجھے بار بار اس طرح کیوں یاد آتی ہے۔ شاید اس لئے کہ میں اسکی زبان نہیں جانتا ہوں اس لئے اس سے باتیں نہیں کر سکتا ہوں۔ یا شاید اس لئے کہ صبح کے وقت سردی بہت ہوتی ہے اور مستقل باہر کھڑے ہونے کے لئے اسے اپنے جسم کو موٹے موٹے جیکٹوں یا اورکوٹوں میں چھپانا پڑتا ہے۔ اور مجھے صرف اسکی دلکش مسکراہٹ نظر آتی ہے جو تمام وقت میرے خیالوں پر چھائی رہتی ہے۔

یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اپنی دلکش مسکراہٹ اور موٹے اورکوٹ کے پیچھے وہ ایک عام سی محنت کش لڑکی ہو۔ جسکے دو بچے ہوں اور اسکا شوہر صبح سات بجے سے رات گیارہ بجے تک نیویارک سٹی کے کسی رستوران کے کچن میں برتن صاف کرتا ہو۔ میری رنگت دیکھ کر اسے اپنے ہی ملک کا کوئی نوجوان یاد آتا ہو۔ اور شاید وہ اس لئے مسکرا دیتی ہو کہ مجھے اندازہ نہیں ہو پائے کہ ذندہ رہنے کے لئے اسے کتنی جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ شاید اسکی یہ جدوجہد اسکے لباس اور مسکراہٹ دونوں میں عبارت ہو اور مجھ میں اسکی خاطر ایک گہرا احترام پیدا ہو جاتا ہو۔

ُُ’’․․․شاید․․․․․‘‘ میں سوچتے ہوئے مسکراتا ہوں۔

ورلڈ ٹروڈ سینٹر کے ٹاور جب گرے تھے تو وہ مجھے کئی دنوں تک نظر نہیں آئی تھی۔ اسکے بعد جب اسنے آنا شروع کیا تھا تو وہ کئی دنوں تک نہیں مسکرائی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ مرنے والوں میں اس کے جاننے والے ہوں جو کسی رستوران، نیوزاسٹینڈ یا کسی کافی شاپ میں کام کرتے ہوں․․․․․․ ۔


اس حادثے کے بعد جب حالات تھوڑے معمول پر آئے تھے، اور میں نے اپنی معمول کی جگہوں پر دوبارہ جانا شروع کیا تھا تو کئی دنوں تک میری اپنے دوستوں سے کسی اور موضوع پر بات نہیں ہوئی تھی۔ بار میں آنے والی لڑکیاں مجھے بتاتیں کہ وہ اس وقت کہاں تھیں اور ان پر کیا بیتی۔ اور وہ ان لوگوں کا ذکر کرتی تھیں جو اس واقعے کے بعد لاپتہ ہوگئے۔

لیپ ڈانس کے دوراں وہ عورتیں تھوڑی سرد ہوتی تھیں، میں انکے جسموں میں وہ لطافت نہیں پاتا تھا۔ پھر جب افغانستان میں جنگ شروع ہوئی تو ان کی یہ ہچکچاہٹ کم ہونے لگی جیسے کہ دوا نے ان پر اثر دکھانا شروع کر دیا ہو۔ ان کا یہ ردِعمل میں سمجھتا ہوں، وہ اپنے معاشرے اور تجربے کی اسیر ہیں۔


مونیکا سے میرا تعلق ختم ہو جائے تو چند دن کے بعد میں اسے بھول جاؤں گا۔ بار کی وہ لڑکیاں اگر مجھ سے بات کرنا چھوڑ دیں تو میں کسی اور بار میں دوستیاں کر لوں گا۔ کیونکہ یہ ہی اس معاشرے میں جینے کا اصول ہے۔

لیکن اگر اسٹیشن کے باہر اخبار بیچنے والی لڑکی نے آنا چھوڑ دیا تو میرے خیالات کے تسلسل میں ایک خلا پیدا ہو جائے گا۔ بالکل اسی طرح جیسے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ٹاوروں کے گرنے سے نیویارک شہر کے آسمان میں ایک خلا پیدا ہو گیا ہے۔ پھر اس خلا کو پر کرنے کے لئے شاید مجھے بھی کسی سے جنگ چھیڑنے کی ضرورت پڑ جائے ۔



ایک کیڑا

ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے نیچے زمین کی طے میں کئی سو فٹ نیچے ایک ٹرین آکر رکتی ہے اور اس میں سے ایک کیڑا باہر نکلتا ہے۔ لوگوں کے ہجوم میں گھرا ہوا۔ بازو سے بازو اور کہنیوں سے کہنیاں ٹکراتی ہیں۔ لیکن تمام کہنیوں پر موٹے کوٹوں کی کئی تہیں چڑھی ہوئی ہیں۔ کیڑا اپنے ساتھ چلتی ہوئی کسی گوری عورت کی نرم اور ملائم جلد کو چھوکر محسوس نہیں کرسکتا۔ اس بات کا اسے افسوس ہے۔

مگر اپنے طور پر کیڑا بہت جوش میں ہے۔ اس سے کہیں بڑی بھیڑ اور ہجوم اس نے اپنی زندگی میں کئی بار دیکھے ہیں۔ ’’یہ تو بچوں کی بات ہے……‘‘ کیڑا سوچتا ہے۔ اور وہ دھکے دیتا ہوا اس ہجوم میں آگے بڑھتا ہے…… اس کے ساتھ چلتے ہوئے لوگ ایسے دھکوں کے عادی نہیں۔ اسے جگہ دے دیتے ہیں یوں وہ آگے بڑھتا جاتا ہے۔ یہ ہی اس کی جیت ہے، یہیں پر اس کی فتح ہے۔ فخر سے اس کا دل اور تیز دھڑکنے لگتا ہے اور کیڑے کو زندگی بھر دھکے کھانے کا پھل ملتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔

کچھ دیر میں وہ عمارت سے باہر آجاتا ہے۔ تیز چلتی ہوئی ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا اسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی خنجر اس کے چہرے کو چیر رہا ہو۔ کیڑے کو ایک لمحے کے لئے تکلیف کا شدید احساس ہوتا ہے۔ وہ اپنے دائیں بائیں دیکھتا ہے۔ اسے عمارت سے باہر نکلتی ہوئی کئی خوبصورت عورتیں نظر آتی ہیں۔ وہ سب تیزی سے اپنی اپنی منزلوں کی طرف جا رہی ہیں۔ کیڑا کچھ دیر انہیں یوں جاتا ہوا دیکھتا ہے،پھر وہ بھی تکلیف کو بھولتا ہوا اپنی راہ پر ہونے لگتا ہے۔

اب اس کا ذہن تمام خیالات سے خالی ہے سوائے خوش قسمتی کے ایک احساس کے کہ وہ وہاں، اس جگہ موجود ہے۔ اس کے اطراف کی دنیا میں کتنی روانی ہے، کتنی ہم آہنگی ہے۔ پھر اس کی توجہ اسٹاک مارکیٹ کی طرف مبذول ہوجاتی ہے، اور وہ راتوں رات کروڑ پتی ہونے کے خواب دیکھنے لگتا ہے۔

نیویارک شہر میں رہنے والا یہ ہے صرف ایک کیڑا۔ جس کے ہونے یا نہ ہونے سے شہر کی آب و تاب پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن اس کیڑے کو ان باتوں کا احساس نہیں۔ دن کے کوئی گیارہ بجے ہیں۔ کیڑا اپنی کرسی پر بیٹھا کام میں بے انتہا مصروف ہے۔ اس کی میز پر رکھے ہوئے کمپیوٹر کے اسکرین پر متعدد اعداد و شمار نظر آرہے ہیں جو لمحے لمحے پر تبدیل ہوتے ہیں۔ کیڑے کو ان پر مستقل نظر رکھنی پڑتی ہے۔ اس کے ڈیسک پر رکھا ہوا ٹیلی فون متواتر بجتا رہتا ہے۔ اکثر اوقات بہ یک وقت اُسے کئی کام کرنے پڑتے ہیں۔ آس پاس کام کرنے والوں کا حال بھی یہ ہی ہے۔ کسی کے پاس رکنے کی مہلت نہیں۔ کام کے بے حد دباؤ کی وجہ سے چہروں پر سنجیدگی اور گہرا تناؤ ہے۔ کیڑے کے چہرے سے بھی یہ ہی تاثرات عیاں ہو رہے ہیں۔ ان کی وجہ سے وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اک برابری محسوس کرتا ہے۔ ایک لمحے کے لئے نظر اٹھا کر اپنے آگے بیٹھی ہوئی لڑکی کو تکتا ہے پھر دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوجاتا ہے۔

کیڑا اپنے کام میں ماہر ہے۔ اس کے ساتھ کام کرنے والے یہ بات جانتے ہیں۔ کچھ دیر میں آگے بیٹھی ہوئی لڑکی پاس آتی ہے اور کوئی سوال پوچھتی ہے۔

اب کیڑا اپنا تما م کام چھوڑ دیتا ہے اور اس کے سوال کا جواب دینے میں مگن ہوجاتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اپنی قابلیت کو استعمال کرتے ہوئے اس پر ڈورے ڈالے۔ لیکن وہ لڑکی سوال کا جواب پاتے ہی اپنے کام کی طرف لوٹ جاتی ہے اور کیڑے کے ذہن میں پیدا ہونے والے کئی سوالات بن کھلے مرجھا جاتے ہیں۔

کچھ دیر بعد کیڑا اٹھتا ہے، کافی کا کپ ہاتھ میں لئے اس لڑکی کی جانب بڑھتا ہے۔ لیکن وہ لڑکی کام میں بے انتہا مشغول ہے۔ وہ اس کی طرف نہیں پلٹتی۔ کچھ دیر انتظار کرکے کیڑا اپنے دل میں اُسے ایک موٹی سی گالی دیتا ہے، اور یہ سوچتا ہوا کہ وہ اس لڑکی سے زیادہ پیسے کماتا ہے دوبارہ کام میں مشغول ہونے کی کوشش کرتا ہے۔

اب لنچ کا وقفہ ہے۔

کیڑا عمارت سے باہر نکلتا ہے۔ سورج نکل آیا ہے لیکن سردی اب بھی خاصی ہے۔ ٹھنڈ کے ایک تندتھپیڑے سے اس کی آنکھیں چمکتی ہیں اور جسم سکڑتا ہے۔ سڑک پر کچھ آگے ایک ریستوران نظر آتا ہے۔ اس میں کام کرنے والے اس ہی کے ملک سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہاں کے متعلق خیال آتے ہی کیڑے کے ذہن میں پرانے احساسات جاگ اٹھتے ہیں۔’’ …… فحش ملک تھا وہ …… اور فحش ہوتے ہیں وہاں کے رہنے والے……‘‘ وہ غصےّ میں سوچتا ہے۔’’…… میں وہاں نہیں جاؤں گا……‘‘ کچھ آگے بڑھ کر وہ ایک سستے سے ٹھیلے سے اپنے واسطے کھانا خریدتا ہے اورتیزی سے اپنی ڈیسک کی طرف پلٹتا ہے۔ ڈیسک پر تنہا بیٹھ کر کھانا کھانے میں اُسے تحفّظ کا احساس ہوتا ہے۔ پھر اپنے وطن کے خیالات اس کے ذہن میں دوبارہ آنے لگتے ہیں۔ وہ ان میں گھر کر کچھ دیر کے لئے بے بس ہوجاتا ہے۔ وہاں کی تنگ اور پتلی گلیاں، چھوٹے چھوٹے کوارٹر، اور ان میں بسنے والے لاتعداد لوگ کچھ دیر تک اس کے تحفظ کے احساس پر تابڑ توڑ حملے کرتے رہتے ہیں۔ اور وہ اپنے آپ کو اس نئی دنیا میں بالکل تنہا اور بے بس محسوس کرتا ہے۔ پھر یکایک اس کے کمپیوٹر کے اسکرین پر بہت ہی غیر متوقع اعداد و شمار نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں اور ایک بار پھر اس کی تمام توجہ ان اعداد و شمار میں واقع ہونے والی تبدیلیوں کی لہروں میں تھپیڑے کھانے لگتی ہے۔

یوں وہ دن تمام ہوتا ہے۔ رات آٹھ بجے کیڑا اپنے کام سے فارغ ہوگیا ہے۔ آج کا دن اچھا گزرا۔ اس نے اپنے مالکوں کے واسطے بہت سود مند بیوپار کیا۔ اس بات کی اسے خوشی ہے۔ یہ سال اب تک اچھا گزر رہا ہے۔ کیڑا بہت اطمینان سے ہے۔ شاید اس سال وہ تھوڑے زیادہ پیسے بنا پائے۔ اس خیال نے تمام دن کی تھکن دور کر دی ہے۔ اب وہ اپنے آپ کو عیش و عشرت میں کھونا چاہتا ہے۔’’…… یہ ہے مزا یہاں کی زندگی کا……‘‘ وہ سوچتا ہے۔

اس رات کلب میں رش خاصا ہے۔ کمر سے کمر اور سینے سے سینہ ٹکراتا ہے۔ کیڑا ڈانس فلور پر رقص کرنے میں مگن ہے۔ کبھی وہ ایک لڑکی کے ساتھ رقص کرتا ہے کبھی دوسری۔ لیکن آج کوئی لڑکی بھی اس کے ساتھ ٹک نہیں رہی۔ ’’کیا آج میں کسی کو اپنے ساتھ لے جانے میں کامیاب ہو پاؤں گا؟…… ‘‘ کیڑا سوچ رہا ہے۔

پھر کوئی اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتا ہے۔ کیڑا پلٹ کر دیکھتا ہے کہ ایک مرد ہے۔ کیڑے کو اس کی حرکت بھلی نہیں محسوس ہوتی۔ وہ اس کا ہاتھ ہٹا کر ڈانس فلور پر اس سے دور ہٹ جاتا ہے۔ مگر کچھ دیر میں وہ شخص پھر اس کے قریب موجود ہوتا ہے۔ کیڑے کو اس سے سخت وحشت ہوئی ہے۔ وہ پھر دور ہٹنے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ شخص پیچھا نہیں چھوڑتا۔ کیڑے نے آج شراب بہت پی ہوئی ہے نشے اور کوفت سے کیڑا اس شخص کو پیچھے دھکا دیتا ہے۔ وہ شخص بھی اُسے دھکا دیتا ہے۔ چند لمحوں میں وہ دونوں ڈانس فلور پر گتھم گتھا ہوئے لڑ رہے ہوتے ہیں۔

فلور پر بھگدڑ مچ جاتی ہے۔ لوگ ادھر اُدھر بھاگتے ہیں۔ کلب کے محافظ ان کو الگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جلد ہی ان پر قابو پالیتے ہیں۔ کیڑے کو دو لحیم شحیم آدمیوں نے جکڑا ہوا ہے۔ وہ اسے کھینچتے ہوئے دروازے کی طرف لے جا رہے ہیں۔ کیڑا چیختا ہے شور مچاتا ہے لیکن وہ اس کی نہیں سنتے۔ تھوڑی دیر بعد وہ اُسے کلب کے دروازے کے باہر دھکا دے دیتے ہیں۔

اب کیڑا باہر سڑک پر اکیلا کھڑا ہے۔ رات کافی گزر چکی ہے۔ جاڑے کی ٹھنڈی ہوا اس کی ہڈیوں کے گودے کو جما رہی ہے۔ لیکن کیڑے کا دماغ ابھی بھی غصے سے گرم ہے۔’’…… بدمعاش کہیں کے……‘‘ وہ سوچ رہا ہے۔ پر دوسری طرف اسے اب بھی ایک اطمینان ہے کہ آج اس نے اپنے مالکوں کے واسطے بہت پیسے بنائے۔ وہ اپنے بھاری قدم اٹھاتا ہوا ایک ٹرین اسٹیشن کی طرف بڑھ رہا ہے۔

آگے سڑک کے کونے پر ایک عورت کھڑی ہے۔ کیڑا جب اس کے قریب پہنچتا ہے تو وہ عورت اسے دیکھ کر مسکراتی ہے اور ہلکے خرام میں اس کی طرف بڑھتی ہے۔ کیڑا ٹہر جاتا ہے۔

تھوڑی دیر میں کیڑا اس عورت کے ساتھ ایک کمرے میں موجود ہوتا ہے۔ اُسے یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے وہ وقت کا بادشاہ ہے، اور کسی وقت بھی بڑی سے بڑی عیاشی کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔’’ اسے کہتے ہیں زندگی…… اور یہ ہے عیاشی…… ‘‘ وہ سوچ رہا ہے۔

وہاں سے فارغ ہوکر وہ گھر کی طرف نکلتا ہے۔

اس وقت وہ ٹرین میں سفر کر رہا ہے۔ رات کی اندھیری گہرائیوں میں اتر چکنے کے بعد اب نہ جانے کہاں گم ہوچکی ہے۔ ٹرین کے ڈبے میں اس کے علاوہ کوئی شخص موجود نہیں۔ ٹرین ایک اسٹیشن پر رکتی ہے، اور ڈبے میں ایک دیوہیکل شخص چڑھتاہے۔ کیڑے کو ڈبے میں اکیلا پاکر اس کی چہرے پر ایک مہیب مسکراہٹ نمودار ہوتی ہے۔کیڑا اُسے دیکھ کر سر سے پیر تک کانپ جاتا ہے۔ اس کی نگاہیں راہِ فرار کی تلاش میں ادھر سے ادھر پھڑ پھڑائی ہیں۔ لیکن کوئی ایسا راستہ اب موجود نہیں۔

نیو یارک شہر کی سطح زمین سے کئی سوفٹ نیچے سفر کرنے والی اس ٹرین میں یہ ہے ایک کیڑا۔ صرف ایک کیڑا۔