منگل، 22 جولائی، 2014

ندیم سالا


’’ندیم سالے کو نوکری مل گئی۔۔۔‘‘ اسماعیل نے سگریٹ کا ایک گہرا کش لیتے ہوئے کہا اور دیر تک دھوئیں کو اپنے سینے میں بھینچے رکھا۔ جیسے کہ میرے حیرت سے پھٹ پڑنے کا انتظار کر رہا ہو۔
’’اچھا۔۔۔واقعی۔۔۔‘‘ اور بہت جلد میں حیرت سے پھٹ پڑا۔’’۔۔۔کہاں؟‘‘
’’ریلوے میں ۔۔۔‘‘ اس نے ایک دم کہا۔
اور اس کے پھیپھڑوں میں سمایا ہوا دھواں ناک کے دونوں نتھنوں سے ایک موٹے دھارے کی مانند نکلا اور نیچے کاؤنٹر کے شیشے پر پھیل گیا۔ ’’ریلوے میں؟۔۔۔‘‘ میں نے اس کی بات دہرائی۔
’’ ریلوے میں ۔۔۔‘‘ اسماعیل سر ہلا کر ہلکے سے مسکرایا۔ ظاہر تھا کہ اس کو بھی ابھی تک یقین نہیں آیا تھا۔
’’کیسے،۔۔۔‘‘
’’اُسی نے دلوائی۔۔۔‘‘ اسماعیل نے دوکان کے شیشہ کے باہر اشارہ کیا۔ دوسرے ہاتھ سے رجسٹر اٹھا کر صفحے پلٹنے لگا۔
میرے ہاتھ میں جو وڈیو کیسٹ تھے میں نے کاؤنٹر پر رکھ دے۔
’’کس نے ؟۔۔۔ ‘‘ میں نے دوکان کے شیشے کے بارے سڑک کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
سڑک کے اس پار چوراہے کے قریب پولیس کی ایک موبائل آکر کھڑی ہوگئی تھی، اور پولیس کے دو باوردی سپاہی سڑک کے بیچوں بیچ کلاشنکوف لئے کھڑے تھے۔
میں نے دل ہی دل میں ایک موٹی سی گالی دی۔
’’وہی جونیلی کار میں جو آتی ہے۔۔۔‘‘ اسماعیل نے کہا۔
’’اور بلو فلمیں لے جاتی ہے۔۔۔‘‘ میں نے فقرہ مکمل کرتے ہوئے قہقہہ لگایا۔
’’واہ یار۔۔۔ زبردست۔۔۔ ندیم سالا بھی فنکار ہے۔۔۔ تو کیا۔۔۔ اس لڑکی کے باپ نے لگوائی نوکری؟۔۔۔ ‘‘ میں نے سوال پوچھا، اور پھر خود ہی اپنا جواب دیتے ہوئے بولا۔’’وہ سالا اس کے باپ کے پاس پہنچ گیا ہوگا۔۔۔ کہ تیری لڑکی ایسی فلمیں دیکھتی ہے۔۔۔ لگوا میری نوکری ۔۔۔ورنہ ؟۔۔۔ ہم دونوں مل کر ہنسے۔
اسماعیل نے ایک نظر ان وڈیوکیسٹوں کو دیکھا جو میں نے کاؤنٹر پر رکھے تھے اور اپنے رجسٹر کے کسی صفحے پر ان کی واپسی کا اندراج کرنے لگا۔
’’دکھانا ذرا۔۔۔‘‘ میں نے اس کے رجسٹر کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’دیکھو تو آخری بار وہ کون سی فلم لے کر گئی تھی۔۔۔‘‘
اسماعیل سر اٹھا کر مسکرایا’’دیکھ لو۔۔۔ مگر وہ سالا اس کی فلموں کی انٹری نہیں کرتا۔‘‘
میں نے ہنستے ہوئے سر ہلایا ’’بڑا بدمعاش ہے سالا۔۔۔‘‘ اور ایک نظر چوراہے کی طرف پھر دیکھا۔ پولیس والے کسی اسکوٹر والے کو روک رہے تھے میں نے اپنے دائیں ہاتھ سے کرتے کی جیب ٹٹولی، اپنی موٹر سائیکل کے کاغذات میں گھر بھول آیا تھا۔ مجھے ایک ہلکا سا دھچکا لگا۔
’’یہ۔۔۔ پھر پبلک کو تنگ کرنے آگئے۔‘‘ میں نے ان پولیس والوں کو ایک موٹی سی گالی دتے ہوئے میں نے کہا۔
اسماعیل نے ایک نظر چوراہے کی طرف ڈالی’’۔۔۔کیوں کیا کاغذات نہیں ہیں کیا؟۔۔۔‘‘ وہ دھیمے سے مسکرایا ’’۔۔۔بیٹھ جا اب۔۔۔ جلدی کیا ہے جانے کی ۔۔۔‘‘ اور اس نے ایک اسٹول کی طرف اشارہ کیا۔
بیٹھتے ہوئے میں نے کاؤنٹر پر سے ایک رجسٹر اٹھا لیا اور اس کے صفحے پلٹنے لگا۔ ’’دیکھا یار۔۔۔ کسی ایسی بندی کا پتہ دے جس کا باپ مجھے بھی نوکری دلائے۔۔۔‘‘ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔ اسماعیل اپنی کالی گھنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتا ہوا مسکرا یا۔
’’بیٹا دیکھتا رہے۔۔۔ کچھ نہیں ملے گا۔۔۔‘‘
’’اگر تجھے پتے چاہئے تو دو چار کے میں بھی دے سکتا ہوں لیکن ملے ملائے گا کچھ نہیں، نہ چھوکری ملے گی۔۔۔ اور نوکری؟۔۔۔ ہا ۔۔۔ ہا۔‘‘ وہ ہنسا۔’’بھول جا!۔‘‘
پھر اس کی زبان سے بے ساختہ نکلا۔’’ابے!۔۔۔ ‘‘ وہ شیشے کے باہر چوراہے کی طرف دیکھ رہا تھا۔
باہر پولیس والوں نے ندیم سالے کو روکا ہوا تھا۔ وہ اس کی تلاشی لے رہے تھے۔
’’ابے۔۔۔‘‘ میرے منہ سے بھی بے ساختہ نکلا۔’’۔۔۔ سنا تھا کہ بڑی بات تھی سالے کی ۔۔۔ اب تلاشی دے رہا ہے ۔۔۔اور وہ بھی اپنی ہی گلی میں۔۔۔‘‘ میں نے قہقہہ لگایا۔
’’زمانہ یہ ہی آگیا ہے۔۔۔ بڑے بدمعاشوں کی بھی کوئی عزت نہیں بچی ہے۔۔۔‘‘ اسماعیل بھی ہنسا۔
کچھ دیر بعد ندیم سالا گردن ہلاتا ہوا دوکان میں داخل ہوا۔ اس کی شکل سے اتنی مسکینی ٹپک رہی تھی کہ میری ہنسی چھوٹ گئی۔
مجھے ہنستا دیکھ کر تھوڑا کھسیانا ہوا، پھر میرے ساتھ ہنسنے کی کوشش کی۔ لیکن کچھ بن نہیں پائی۔ ’’اب چھوڑ دے سالے۔۔۔ اپنے ہی محلے میں ذلیل ہوگیا۔۔۔‘‘ اس نے کہا۔
لیکن میں اس موقع کو اتنے آرام سے چھوڑنے والا نہیں تھا۔ ’’ارے اس میں ذلیل ہونے کی کیا بات۔۔۔ وہ تو سب جانتے ہیں کہ تو بہت بڑا بدمعاش ہے۔۔۔ لیکن تیری شکل ایسی ہے کہ بہت ہی چھوٹے لیول کا چور اچکا لگتا ہے۔۔۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔‘‘ ۔۔۔ اس لئے ایک دم معمولی سپاہی بھی تجھے روک کر تیری تلاشی لے لیتا ہے۔
اس پر اسماعیل کو بھی ہنسی آگئی۔
ندیم سالے نے اپنی کالی ٹوپی اتاری، جس کا سامنے کا رخ پیچھے کی طرف کر کے لگایا ہوا تھا۔ ٹوپی کے نیچے اس کے لمبے سیاہ بال، پیچھے کی طرف ہو کر سر سے یوں چپکے ہوئے تھے کہ لگتا تھا جیسے نیچے ایک اور ٹوپی پہنی ہوئی ہے۔ دھوپ کی تپش اور ٹریفک کی دھوئیں کی وجہ سے ماتھا ایک دم کالا تھا اور یہ بتانا مشکل تھا کہ کہاں ماتھا ختم ہوتا ہے اور کدھر سے بال شروع ہوتے ہیں۔
’’ابے سالے یہ اپنے تھانے کے نہیں تھے۔۔۔ ناظم آباد تھانے کی پولیس ہے۔ سالی ہمارے علاقے میں آگئی ہے۔۔۔ اپنے تھانے کے ہوتے تو دیکھ لیتا سالوں کو۔۔۔‘‘ ندیم سالے نے اپنی بات رکھنے کے واسطے جواب دیا۔ ’’۔۔۔ یہ سالے۔۔۔ ان پولیس والوں کی بھی آپس میں بڑی بدمعاشی چلتی ہے۔۔۔ دیکھ لوں گا ان سالوں کو بھی۔۔۔‘‘ اس کے تیوروں سے پتہ چلتا تھا کہ اب وہ مزید ریکارڈ برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں تھا۔ میں نے بھی موضوع تبدیل کیا۔
’’اب چھوڑ یار، ہوجاتا ہے اس طرح ۔بھول جا!۔۔۔ بتاؤ، سنا ہے تمہیں نوکری مل گئی ہے ریلوے میں؟۔۔۔‘‘
’’ہاں۔۔۔‘‘ ندیم نے آہستہ سے سر ہلایا۔
’’مبارک ہو بہت بہت۔۔۔ تو کب سے جوائن کر رہے ہو؟۔۔۔ دوکان پر بیٹھنا چھوڑ دو گے کیا؟۔۔۔‘‘
’’سالا پتہ نہیں۔۔۔‘‘ اس نے جواب دیا’’۔۔۔ ابھی پوسٹنگ کا پتہ نہیں۔۔۔‘‘
’’فکر نہیں کر۔۔۔ ہوجائے گی۔۔۔ مگر یہ بتا ۔۔۔ آج کل حالات اتنے ٹائٹ ہیں تجھے نوکری ملی کیسے؟۔۔۔‘‘
’’بس سالی۔۔۔ لگ گئی۔۔۔ جان پہچان نکل آئی کچھ۔۔۔‘‘ اس نے ذرا دھیمے انداز میں کہا۔
اسماعیل نے آہستہ سے مجھے آنکھ ماری، اور میں فوراً بولا۔
’’سنا ہے تیری کسی گاہک نے لگوائی ہے‘‘۔۔۔اور مسکراہٹ مجھ سے نہیں رکی۔
ندیم سالے نے ایک لمحے کے لئے پریشان ہوکر اسماعیل کی طرف دیکھا۔ اسماعیل خاموشی سے اپنے رجسٹر میں کوئی اینٹری کر رہا تھا۔ پھر میری طرف پلٹتے ہوئے اس نے کہا۔’’۔۔۔ ہنس لے۔۔۔ ہنس لے سالے۔۔۔ لیکن اپنا یہ ہی حساب کتاب ہے۔۔۔ اپنے کام تو چھوکریاں کرتی ہیں۔۔۔‘‘ اس نے اپنے دانت نکالے۔
’’ بہت خوب۔۔۔ بہت خوب۔۔۔ کیا بات ہے استاد تمہاری!۔۔۔‘‘ میرا مذاق اشتیاق میں بدل گیا۔ ’’لیکن یہ کام کرایا تونے کیسے؟۔۔۔‘‘
’’بس چھوڑ سالے ۔۔۔ تیرے بس کی بات نہیں ہے‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’اب یار بتا بھی۔۔۔ کچھ تیرے کارنامے پتہ تو چلیں۔۔۔‘‘ میں بضد رہا۔
لیکن ندیم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے اسماعیل کی طرف دیکھا جیسے کہ مدد طلب کر رہا ہوں۔ لیکن اسماعیل خاموش رہا۔ ندیم سالا کاؤنٹر کے پیچھے ایک اونچے اسٹول پر بیٹھ گیا۔ اور اپنی گہری اُودی رنگ کی قمیض کے اوپر کے دوبٹن کھول کر کالر کو گردن سے دور کرلیا۔ پھر اس نے پتلون کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک رومال نکالا اور اُسے اس طرح تہیں دینے لگا کہ اس کی ایک پٹی بن جائے۔ پھر اپنے رومال کی پٹی کو اس نے قمیص کے کالر کے نیچے رکھ لیا۔
’’تو پوسٹنگ ہوگئی تو دوکان پر بیٹھنا چھوڑ دو گئے؟۔۔۔‘‘ میں نے پھر سوال کیا۔
’’دیکھو یار۔۔۔ سالا اب کیا ہوتا ہے۔‘‘ اس نے جواب دیا۔ اور یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ باہر ایک کار آکر رکی تھی جس کا صرف سفید بونٹ نظر آرہا تھا۔ لیکن ندیم شاید وہ کار پہچان گیا اور باہر جانے کے لئے دروازے کی طرف بڑھا۔
ندیم سالے کے دوکان سے نکلنے کے بعد میں نے ذرا آگے بڑھ کر دیکھا کہ کون ہے۔ تو گاڑی میں کوئی لڑکی بیٹھی ہوئی تھی جس کے بال کٹے ہوئے صرف گردن تک تھے۔ ندیم سالا کھڑا ہوا اس سے بات کر رہا تھا۔ پھر اس لڑکی نے ہاتھ بڑھا کر ندیم کو دو وڈیو کیسٹ دیئے۔ ندیم انہیں لے کر دوکان میں واپس داخل ہوا۔
’’کیوں بھئی!۔۔۔ کون ہے؟۔۔۔ ‘‘ میں نے ذرا مذاق کے انداز میں کہا۔ لیکن اس نے میری بات کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا۔ ان کیسٹوں کو کاؤنٹر پر رکھ کر پیچھے ریک پر لگے کیسٹوں پر اپنی نگاہیں دوڑانے لگا۔ پھر اس نے نیچے کی طرف سے ایک کیسٹ نکالا اور باہر چلا گیا۔ لیکن باہر جاکر بجائے اس کے کہ وہ کیسٹ اس لڑکی کو تھماتا، اس نے گاڑی کی دوسری طرف جاکر پیسنجر سیٹ کا دروازہ کھولا اور اندر بیٹھ گیا۔ اس لڑکی نے گاڑی تھوڑی ریورس کی اور پھر وہ چوراہے کی جانب روانہ ہوگئی۔
’’ابے!۔۔۔‘‘ میں چونک کر تھوڑا زور سے بولا۔ ’’یہ تو سالا اس کے ساتھ چلا گیا!۔۔۔ ابے!۔۔۔ کون ہے بھئی وہ!۔‘‘
اسماعیل نے اپنا ہاتھ اٹھا کر گھمایا اور کندھے اُچکائے۔’’کیا پتہ۔۔۔‘‘ اس نے کہا۔ پھر اس کے چہرے پر ایک شیطانی مسکراہٹ پھیلی، اور ایک دفعہ پھر ہاتھ گھما کر کہا ’’کیا پتہ۔۔۔ کوئی وی سی آر وغیرہ ٹھیک کرنے گیا ہوگا۔‘‘
’’ابے لیکن یہ دیکھنے میں اچھی بھلی لڑکیاں اس کو لے کیسے جاتی ہیں۔‘‘ میں نے استفہام کا اظہار کیا۔
’’ کیا پتہ۔۔۔‘‘ اسماعیل نے وہی جواب دیا۔’’اگر پتہ ہوتا تو میں خود یہ نہیں کرتا۔۔۔‘‘ وہ دانت نکال کر بولا۔
’’ابے لیکن۔۔۔‘‘ بات میری سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔۔۔’’یہ کرتا کیسے ہے یہ سارا۔۔۔‘‘
اسماعیل نے کوئی جواب نہیں دیا۔
چوراہے پر پولیس والے ابھی تک کھڑے ہوئے تھے۔ میں نے ندیم سالے کی طرف سے دھیان ہٹا دیا اور اسماعیل سے پھر مخاطب ہوا۔ ’’تو استاد۔۔۔ کچھ بندوبست وغیرہ ہوا؟۔۔۔ بڑے دن ہوگئے۔۔۔ کچھ گلاسوں میں برف ڈالے ہوئے۔۔۔‘‘
’’ابے مجھ سے کیا کہتا ہے۔۔۔ اس سے پوچھ۔۔۔‘‘ اسماعیل نے باہر کی طرف اشارہ کیا’’۔۔۔ وہ جو ابھی گاڑی میں چلا گیا اس لڑکی کے ساتھ۔۔۔‘‘
’’ابے یار۔۔۔‘‘ میں نے گردن ہلاتے ہوئے کہا۔’’اس سالے ندیم سالے کے پاس بھی دنیا میں ہر دو نمبر کے کام کی جگاڑ موجود ہے۔۔۔ سمجھ میں نہیں آتا یہ آدمی ۔۔۔‘‘
اسماعیل نے اپنا دائیاں ہاتھ پھر ایک سوالیہ انداز میں ہوا میں گھمایا، اور سر کو بائیں جانب ہلکے سے جھکا دیا جیسے دونوں کو آپس میں بیلنس کر رہا ہو۔
’’سالا خود تو پیتا نہیں لیکن بندوبست کرنا خوب جانتا ہے۔۔۔ جس چیز کا بندوبست کرانا ہو ندیم سالے سے کرالو۔۔۔‘‘ میں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا۔
اسماعیل پاکٹ سے سگریٹ نکال کر اسے جلا رہا تھا۔ پھر ہماری گفتگو دوسرے موضوعات کی جانب چلی گئی۔ آدھے گھنٹے بعد میں نے نظر گھمائی تو وہ کمبخت پولیس والے اس وقت تک کھڑے ہوئے تھے۔ میں تنگ سا آگیا، اور لاپروائی کی کیفیت مجھ پر طاری ہوئی۔
’’یار میں چلا۔۔۔ ‘‘ میں نے اسماعیل سے کہا۔’’۔۔۔ اگر ان پولیس والوں نے روکا تو پھر دیکھی جائے گی۔۔۔‘‘
باہر نکل کر میں نے موٹر سائیکل اسٹارٹ کی اور چوراہے کی طرف بڑھ گیا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر میں وہاں سے بخیر و عافیت اور بغیر کسی خرچے کے نکل آیا۔ تھوڑے آگے جاکر مڑ کر میں نے انہیں لعنت دکھائی۔ جو انہوں نے شاید نہیں دیکھی۔
اگلے چند روز تک میری ندیم سالے سے ملاقات نہیں ہوئی اور نہ میں نے اس کا کوئی ذکر سنا۔ پھر ایک روز میں اس کی دوکان میں کھڑا اسماعیل سے بات کر رہا تھا کہ اس کی موٹر سائیکل برابر والی دوکان کے سامنے آکر رکی اور وہ اتر کر دوکان میں داخل ہوا۔ اپنے انداز سے خاصا ہشاش بشاش اور خوش نظر آرہا تھا۔
میں نے اس سے پوچھا۔’’کیا بات ہے بڑے اسٹائیل میں ہو۔۔۔‘‘
’’کچھ نہیں یار۔۔۔ سالا۔۔۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
میں دوبارہ اسماعیل سے بات کرنے کی طرف متوجہ ہوگیا۔ ندیم سالے نے کاؤنٹر کے پیچھے دراز کھولی اور اس میں کچھ تلاش کرنے لگا۔ پھر اندر سے ایک چھوٹی ڈائیری نکال کر ورق پلٹنے لگا۔ ڈائیری سے شاید کوئی فون نمبر اس نے اسماعیل کی سگریٹ کی ایک خالی ڈبیا کے اوپر کے حصہ پر اتارا۔ پھر سگریٹ کی ڈبیا میں سے اتنا حصہ پھاڑ کر ڈائیری سمیت اپنی جیب میں رکھ لیا۔ اور دوکان کے باہر چلا گیا۔
اسماعیل نے کچھ حیرت اور کچھ سوالیہ نظروں سے اُسے باہر جاتے دیکھا۔ میں چونکہ اس بات کے پس منظر سے واقف نہیں تھا، اس لئے خاموش رہا۔ البتہ مجھے احساس تھا کہ کوئی غیر متوقع بات یا تو ابھی ابھی ہوئی ہے۔ یا پھر ہونے جا رہی ہے۔
ہم لوگ پھر اپنی باتوں میں مشغول ہوگئے۔
کچھ دیر بعد ندیم سالا پھر دوکان میں داخل ہوا۔ اس کے چہرے پر ایک اتنا گہرا اطمینان تھا کہ جس میں تمام بلاوجہ کی مسکراہٹیں آپ ہی آپ گھل کر غائب ہوجائیں۔
اسماعیل نے پھر سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ ’’کیا؟۔۔۔ بیچ دیا؟۔۔۔‘‘
ندیم نے سر کو خفیف سا جھٹکا دیا۔
’’کتنے ملے؟۔۔۔’’اسماعیل نے اپنے نچلے ہونٹ کو دانتوں میں دبا کر پوچھا، جیسے اپنے ہونٹوں کو خود سری کی کسی حرکت سے روک کر رکھ رہا ہو۔
’’ڈھائی سو۔۔۔‘‘ ندیم سالے نے نہایت معمولی لہجے میں جواب دیا۔
’’کیا؟۔۔۔ ڈھائی سو!واہ‘‘ اسماعیل سے اب اپنا قہقہہ نہیں رکا اور اپنی گردن ہلا کر زور سے ہنسنے لگا۔
’’کیا بیچا بھئی ۔۔۔ کیا بیچ دیا؟۔۔۔ ’’اب میں نے تیوری پر بل ڈال کر ندیم سالے سے سوال کیا۔ یہ معمہ میری سمجھ سے بالکل باہر ہوگیا تھا۔ اسماعیل اپنی گردن ہلا کر ہنستا رہا۔ ندیم نے بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ مگر میری سوالیہ نظریں اس پر سے نہیں ہٹیں۔ آخر اس نے آہستگی سے کہا۔
’’نمبر۔۔۔‘‘
’’نمبر؟۔۔۔کیسا نمبر؟۔۔۔‘‘
وہ کچھ دیر خاموش رہا۔ ’’سالا فون نمبر۔۔۔‘‘ اس نے یوں کہا جیسے کہ مجھے ہر بات ہجے کر کہ بتانی ضروری ہے۔
’’فون نمبر؟۔۔۔ کس کا فون نمبر؟۔۔۔ بیچ دیا؟۔۔۔ کیا مطلب؟۔ ‘‘ واقعی مجھے ہر بات ہجے کرکہ بتانی ضروری تھی۔
ندیم کے لہجے میں مجھے ایک بے زاری محسوس ہوئی۔ ’’ابے سالے۔۔۔‘‘ اس نے سر کو مختصر طور پر بلاتے ہوئے کہا۔’’فون نمبر میں کس کا بیچوں گا؟۔۔۔ سالا مولوی صاحب کا فون نمبر تو کوئی مجھ سے خریدے گا نہیں۔۔۔‘‘
اسماعیل کی پھر ہنسی چھوٹ گئی۔ اپنے بیوقوف ہونے کا ثبوت دینے کے لئے میں بھی ذرا سا ہنسا۔
’’ابے یار۔۔۔‘‘ میں نے ذرا بات بنانے کی کوشش کی۔ ’’لیکن کون، سی والی کا نمبر بیچا ذرا یہ تو بتا۔۔۔‘‘
’’اب چھوڑ۔۔۔ کیا کرے گا۔ تیرے کو اگر کبھی کسی کا نمبر چاہئے ہو تو بول دینا۔۔۔ تجھے ڈسکاؤنٹ دے دوں گا۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر وہ مسکرایا۔ میں بھی یوں ہنسا کہ جیسے میری تمام مشکلیں آسان ہوگئیں ہوں۔ ’’بہت صحیح۔۔۔‘‘ میں نے کہا۔’’لیکن یار یہ۔۔۔ تم کرتے کیسے ہو۔۔۔ مطلب ۔۔۔ لڑکیوں کے نمبر۔۔۔اور پھر بیچ بھی لیتے ہو۔۔۔‘‘ میں گردن ہلا کر ہلکے سے ہنسا۔ ’’آخر کرتے کیسے ہو؟۔۔۔‘‘ میری ہنسی اب ایک بہت بڑے سوالیہ نشان میں تبدیل ہوگئی تھی۔
ندیم نے گردن گھما کر شیشے کے باہر سڑک کی طرف دیکھا۔ اس کا چہرہ ایک چوڑی مسکراہٹ سے آراستہ تھا۔’’۔۔۔ کچھ نمبر تو میں نے کئی بار بیچے ہیں ۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر اس کی مسکراہٹ ایک اطمینان میں تبدیل ہوگئی۔ باہر سڑک پر خاصا سکون تھا۔ چوراہے کے ساتھ کونے کو مکان میں جو اسکول تھا، وہاں ابھی چھٹی نہیں ہوئی تھی۔ بچوں کو گھر لے جانے والی چندسوزوکی وینیں کھڑی چھٹی ہونے کا انتظار کر رہی تھیں۔ کونے پر پولیس کی موبائل بھی کھڑی تھی۔ یا تو وہ خالی تھی، یا سپاہی اس میں بیٹھ کر چائے وغیرہ پی رہے تھے، اور ابھی تک سڑک پر نہیں اترے تھے۔ ندیم نے پلٹ کر اسماعیل کی طرف دیکھا۔ ’’یار اپنی دوکان میں سالا کوئی اے سی ویسی لگانا چاہئے گرمی بڑی ہوجاتی ہے۔‘‘ اوپر چھت پر پنکھا اک نیم مدھم رفتار میں چل رہا تھا۔ پھر وہ میری طرف پلٹا۔ لیکن اس کے کچھ کہنے سے پہلے میں خود بول پڑا۔
’’تو کیا نمبر بیچ بیچ کر اے سی لگواؤ گے؟‘‘۔۔۔ اس کا مزاق اڑاتے ہوئے میں بولا۔
’’اب سالی کوئی پکی نوکری تونہیں ہے۔۔۔ جو جگاڑ ہوجاتی ہے کرلیتے ہیں۔۔۔‘‘
’’پکی نوکری نہیں تو کیا، پکی سالیساں تو بہت سی ہیں۔۔۔‘‘ میں پھر ہنسا۔ لیکن ندیم نے ایک دم اپنا انداز سنجیدہ کرکے میری ہنسی روک دی۔ ’’ابے سالے تو سمجھتا نہیں ہے۔۔۔ لڑکیاں یا ان کے نمبر مل جانا کون سی بڑی بات ہے۔ لڑکیاں سالیاں بہت ملتی ہیں، ان کے نمبر بھی ملتے ہیں، وہ اچھی بھی ہوتی ہیں۔۔۔ لیکن آج تک کوئی لڑکی بہت زیادہ پسند نہیں آئی۔۔۔ اس لئے ان کے نمبر آگے بڑھا دیتا ہوں۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگیا لیکن اس کی آنکھوں میں ہنسی تھی۔
میں حیرت سے دنگ کھڑا تھا۔
’’لیکن سالے تو کس لئے فکر مند ہوتا ہے۔۔۔ تیری بینک کی نوکری پکی ہے۔۔۔ تیرے کو تھوڑی نمبر آگے پیچھے کرنے پڑتے۔۔۔ موج کر۔۔۔ اور اگر کسی کا نمبر چاہئے تو بتا دیجیو ۔۔۔ تجھے مفت سپلائی کردوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے پنکھے کی رفتار فل کر دی۔
میری سمجھ میں یہ نہیں آرہا تھا کہ وہ مجھ سے سب کچھ سچ کہہ رہا تھا، یا ایسے ہی الّو بنا رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا، اس نے مجھ سے سوال کیا ’’یہ بتا تیری ریلوے میں کوئی لائن ہے؟‘‘
’’ریلوے میں؟۔۔۔ کیوں؟۔۔۔ ‘‘ میرے منہ سے خود بخود نکلا۔
’’ایک پوسٹنگ کرانی ہے۔۔۔‘‘ اس نے کہا۔
’’پوسٹنگ؟۔۔۔‘‘ اور میں نے ایک لمحے رک کر سوچا۔ وہ متواتر میری طرف دیکھ رہا تھا۔ لیکن اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دیتا، باہر ایک کار آکر رکی۔ اس میں تین لڑکے بیٹھے ہوئے تھے۔ ندیم سالے کی توجہ میری طرف سے ہٹ کر اس کار کی طرف مبذول ہوگئی۔ پھر اس نے میری طرف دیکھ کر کہا۔ 
’’ایک منٹ رکو۔۔۔ میں پھر تم سے بعد میں بات کروں گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ دوکان سے باہر چلا گیا۔
اگلے چند روز تک میں گھر کے کچھ کاموں میں مصروف رہا۔ پھر ایک روز بھابی نے چند فلمیں لانے کی فرمائش کی۔
اس روز ویڈیو کی دوکان پر ندیم سالے کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ گاہک خاصے موجود تھے، اور اسماعیل ان سب کے لئے فلمیں ڈھونڈنے اور ان کا اندراج کرنے میں مصروف تھا۔ میں ایک طرف اسٹول پر بیٹھ گیا اور اسماعیل کا تھوڑا فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ پھر میں نے اس سے پوچھا۔ ’’ندیم سالا کدھر ہے آج۔۔۔‘‘ وہ اپنے رجسٹر میں کچھ لکھنے میں مصروف تھا۔ اس نے اپنا بائیاں ہاتھ اٹھا کر یوں اشارا کیا کہ جیسے میں کچھ دیر اور انتظار کروں، وہ بعد میں مجھ سے بات کرے گا۔
کچھ دیر میں جب رش تھوڑا چھٹا، تو وہ مجھ سے کہنے لگا۔ ’’ندیم سالے کی پوسٹنگ ہوگئی ۔۔۔وہ نہیں آئے گا۔‘‘
’’پوسٹنگ ہو گئی؟۔۔۔ کہاں؟۔۔۔ تو کیا دوکان پر نہیں آئے گا۔؟‘‘
اپنے ہونٹوں کے کناروں کو نیچے کی طرف جھکا کر اُس نے ایک لاعلمی کا اظہار کیا۔ لیکن پھر مسکراتا ہوا بولا۔ ’’پھاٹک پر۔۔۔‘‘
’’پھاٹک پر؟۔۔۔ کیا مطلب پھاٹک پر؟۔‘‘ بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔۔۔
’’یونی ورسٹی کے قریب کسی ریلوے پھاٹک پر اس کی پوسٹنگ ہوئی ہے‘‘ ۔۔۔ اس نے جواب دیا۔۔۔
’’کیا مطلب ۔۔۔ کیا پھاٹک پر وہ اب چارپائی ڈال کر بیٹھے گا۔۔۔’’میری بری طرح ہنسی چھوٹ گئی۔ اسماعیل بھی ہنسا اور اس نے اپنا دایاں ہاتھ ہوا میں ایک سوالیہ انداز میں گھمایا۔
’’کیا پتا۔۔۔ لیکن کہہ رہا تھا کہ نوکری تو پکی ہے۔‘‘ اس نے کہا۔
’’لیکن۔۔۔ ‘‘ مجھے ابھی تک ہنسی پر قابو نہیں آیا تھا۔’’ کیا دن بھر صرف پھاٹک کھولے بند کرے گا۔۔۔‘‘
’’۔۔۔ اور رات کو بھی۔۔۔‘‘ اسماعیل نے میرا فقرہ مکمل کیا۔
’’۔۔۔اچھا۔۔۔ کروائی کسی طرح اس نے اپنی پوسٹنگ ۔۔۔‘‘ اسماعیل نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر وہ بولا۔ ’’سالا بڑا فنکار ہے ۔۔۔ کیا پتا وہاں کوئی چارپائیوں کی ہیرا پھیری شروع کر دے۔۔۔ یا اپنی جگہ کسی اور کو بٹھا کر خود کچھ اور شروع کر دے۔۔۔‘‘
کچھ دیر بعد میں ہنستا ہوا دوکان سے نکلا۔ ویڈیو کے دونوں کیسٹوں کو ربربینڈ کے چوڑے اسٹریپ کی نیچے پھنسایا جو میری موٹر سائیکل کی پیٹرول کی ٹنکی پر لگا رہتا تھا۔ پھر کک لگا کر موٹر سائیکل کو اسٹارٹ کیا اور چوراہے کی جانب بڑھ گیا۔ آج وہاں پولیس کی موبائیل موجود نہیں تھی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں