منگل، 15 جولائی، 2014

کہانیوں کا ٹھیلا


’’آلو لے لو، بھنڈی لے لو، ٹماٹر لے لو۔۔۔‘‘۔ رحیم خان دن بھر یہ آواز لگاتا، اور کہانیاں سوچتا۔
’’بھنڈی کیا حساب ہے؟‘‘
’’بیس روپے کلو۔۔۔‘‘
’’بیس روپیہ؟ ۔۔۔ یا اللہ کیا مہنگائی کا زمانہ آگیا ہے ۔۔۔‘‘
’’بہن جی۔۔۔ کل بائیس روپے ہونے والی ہے۔۔۔ آج لے لو۔۔۔‘‘
’’ہیں؟۔۔۔ آج لے لو؟۔۔۔‘‘ عورت نے گھبرا کر اک غیر یقینی کی نگاہ اس پر ڈالی۔۔۔ اور رحیم خان نے ایک کہانی شروع کر دی۔

’’باجی، سنتے ہیں کہ پیچھے سے سپلائی ختم ہونے والی ہے۔ سیٹھ عابد کا نام تو سنا ہوگا آپ نے؟۔۔۔ اس کا چھوٹا بھائی۔۔۔ سیٹھ خالق مارکیٹ سے سارا مال اٹھا رہا ہے اور انڈیا بھیج رہا ہے اب ملک میں مہنگائی نہیں ہوگی تو کیا ہوگیا۔۔۔ اسی طرح سے چاول بھی سارا ایکسپورٹ ہوگا ۔۔۔ دالیں بھی سب چلی گئیں۔۔۔ تو اب بتایئے ملک میں کیا بچا؟۔۔۔ دو چیزیں بچی ہیں۔۔۔ ہوا ۔۔۔ اور مٹی۔۔۔ مٹی پر بیٹھو۔۔۔ اور ہوا کھاؤ۔۔۔ باجی ایک بات بتاؤ میں آپ کو ۔۔۔ اس ملک میں ہوا کبھی ختم نہیں ہوگی۔۔۔ اگر یہ ساری ہوا کہیں چلی بھی گئی تو یہاں کے رہنے والے سب مل کر اتنی ہوا چھوڑیں گے کہ کوئی کمی محسوس نہیں ہوگی۔۔۔‘‘

رحیم خان ایک نئی طرح کی کہانی میں مگن ہوگیا۔ اس کی باتیں سن کر وہ عورت ہلکے سے ہنسی۔ اور پھر وہ رحیم کے ذہن میں ابھرنے والی اس نئی کہانی کی تمہید کو کاٹتے ہوئے بولی۔
’’اچھا جلدی سے ایک کلو دینا ۔۔۔ دیکھو ذرا اچھی بھنڈیاں دو۔۔۔ لاؤ میں نکالتی ہوں۔۔۔‘‘
رحیم خان نے ایک تھیلی بڑھا دی۔ لیکن اس کی باتیں نہیں رکیں۔۔۔
’’۔۔۔ اور ہاں تیسری چیز۔۔۔ یہاں کے لوگ، یہ آدمی کہیں نہیں جانے والے۔۔۔ اب دیکھئے پچھلے دنوں ہمارے شہر میں کتنا قتل و خون ہوا۔۔۔ لیکن کوئی ذرا فرق پڑا۔۔۔ یہاں جتنے لوگ مرتے ہیں اس سے دگنے پیدا ہوتے ہیں۔۔۔ خدا نے بھی کیا ملک بنایا ہے۔۔۔

’’یہاں اپنے ملیر میں ایک بزرگ فقیر رہتا ہے۔ وہ سارے دن عبادت کرتا ہے اور رات میں لوگوں سے ملتا ہے۔۔۔ صرف رات میں۔۔۔ وہ کہتا ہے کہ قیامت کی یہ ہی نشانی ہے۔۔۔ قیامت اس وقت آئے گی جب اس دنیا کی آبادی اس قدر بڑھ جائے گی کہ تمام لوگ یا جوج ماجوج کی قوموں کی طرح اس دنیا پر چڑھ دوڑیں گے۔۔۔ وہ دعویٰ کرتا ہے کہ خدا نے اسے اولاد کی پیدائش کے راز بتائیں ہیں اور اولاد کی پیدائش کو روکنے کے بھی، لیکن بی بی لوگ اس سے صرف اولاد کی پیدائش کے واسطے دوا لیتے ہیں۔۔۔ پیدائش کو روکنے کے لئے کوئی بھی نہیں آتا ۔ وہ کہتا ہے کہ خدا نے اس کو جو انصاف کرنے کی ذمہ داری دی ہے اس طرح اس میں حرج ہوتا ہے۔۔۔ اب بتاؤ بی بی اگر ترازو کا ایک ہی پلڑا بھاری ہوگا تو ترازو الٹ نہیں جائے گا کیا؟

وہ عورت خاصا محو ہوکر اس کی باتیں سن رہی تھی۔ اُسے سب سے زیادہ حیرت اس بات پر تھی کہ یہ سبزی والا اتنی دلچسپ باتیں کرتا ہے۔ پر وہ کچھ نہ بولی اور بے خیالی کے انداز میں بیس روپے رحیم خان کو بڑھائے۔

’’لیکن بی بی ایسی بات بھی نہیں۔۔۔ کوئی نہ کوئی عورت تو اس سے پیدائش کی دوا بھی ضرور لے کر جاتی ہوگی۔ ‘‘ رحیم خان نے راز کے انداز میں کہا۔ ’’ نہیں تو اس پیر کی دونوں طرح کی دوائیں کہاں جاتی ۔۔۔ یہ بات وہ پیر بتاتا نہیں ہے۔۔۔ میں نے بہت کوشش کرلی ہے۔۔۔‘‘

رحیم خان کے چہرے پر بہت بڑا سوالیہ نشان تھا۔ لیکن ایک زیر لب مسکراہٹ کے ساتھ اس عورت نے اپنے چہرے سے دلچسپی ہٹائی اور گھر میں چلی گئی۔ رحیم خان کچھ دیر کھڑا اس کو دیکھتا رہا، پھر اپنے قصہ کو بھول کر وہ بھی آگے بڑھ گیا۔

رحیم خان کو اپنے ٹھیلے پر یوں سبزی بیچتے ہوئے کوئی ڈیڑھ سال ہوئے تھے۔ اس سے پہلے وہ ایک بس میں کنڈکٹری کرتا۔ اس کی بس کھوکھرا پار سے لیمارکیٹ کے روٹ پر چلتی تھی۔ اس راستے کا ایک ایک موڑ اور گڈھا اسے آنکھ بند کرکے یاد ہوگیا تھا۔ وہ یہ بھی بتاسکتا تھا کہ کس گڈھے میں سے گزرتے ہوئے اس کی بس کی سسپنشن کی کمانیوں میں سے کیسی آواز آتی ہے اور بس کس طرح جھولتی ہے۔

اور اپنی اس جھولتی ہوئی بس میں کنڈکٹری کرتے ہوئے رحیم خان کے خیالات بھی پینگ لیتے رہتے تھے۔ اس کی بس میں طرح طرح کے لوگ سفر کرتے تھے۔ ان سے ٹکٹ لینے میں اور ان کو اسٹاپوں پر اتارنے اور چڑھانے میں رحیم خان جانے کیا کچھ سوچتا رہتا۔

اس زمانے میں اس کا سب سے دل پسند مشغلہ تھا کہ وہ اپنے پیسنجر کی شکل و صورت اور چال سے اس کا بات کا اندازہ لگائے کہ وہ کون ہے اور اس کے صبح شام کیسے بسر ہوتے ہیں۔ اکثر وہ ان سے یہ بات پوچھ بھی بیٹھتا۔ تاکہ اُسے معلوم رہے کہ اس کا اندازہ عموماً کتنا درست ہوتا ہے۔

پھر ایک روز کراچی کے ہنگاموں میں نوجواں کے ایک گروہ نے اس کی بس کو گھیرے میں لے کر نظر آتش کر دیا۔ اس روز اس کی بس کے ساتھ ساتھ اس کا دلپسند مشغلہ بھی شعلوں کی لپیٹ میں آگیا۔

اپنی بس کے جل جانے کے بعد رحیم خان بے روزگار ہوگیا۔ لیکن اس کو رہ رہ کر اسی گروہ کا خیال آتا جس نے اس کی بس کو آگ لگائی تھی۔ ایک ایک نوجوان کا چہرہ اس کی نظروں کے سامنے سے گزرتا اور وہ غور کرتا رہتا کہ وہ نوجوان کون تھا اور اس کی زندگی کیسے کیسے موڑوں سے گزری ہوگی۔

چند روز بے روزگار رہنے کے بعد وہ اپنے گاؤں واپس چلا گیا۔

گاؤں میں جو بھی اس سے ملتا کراچی کے ہنگاموں کے بارے میں سب سے پہلا سوال کرتا۔ کچھ دنوں تک تو رحیم خان یہ حالات خاصے جوش و خروش اور منظر نگاری کے ساتھ بیان کرتا رہا۔ پھر آہستہ آہستہ اس کا یہ جوش کچھ ماند پڑنے لگا۔ ان نوجوان کا ذکر کرتے ہوئے وہ تھوڑا ہچکچاتا اور سوچتا کہ کیوں نہ وہ ان لڑکوں کا ذکر کرے جنہیں وہ عام طور پر روز مرہ زندگی میں دیکھا کرتا تھا۔ جن کے چہروں پر زندگی ہمیشہ ہنستی کھیلتی رہتی تھی۔

یوں اپنے سامعین کی توجہ کراچی کے ہنگاموں سے ہٹانے کے لئے اس نے طرح طرح کی کہانیاں گڑھنا شروع کر دیں۔ ان کہانیوں میں بس کنڈکٹری کے دوران کے مشاہدات کو بھر پور طور سے استعمال کرتا۔ اس کے سننے والوں کی توجہ ان مختلف مناظر میں محو ہو کر رہ جاتی۔ اور ان کو یوں حیران پاکر رحیم خان کو بڑا مزا آتا۔ ایک دن اپنے دوست اجمل زئی سے باتیں کرتے ہوئے وہ کہنے لگا۔

’’ایک روز اورنگی ٹاؤن میں لڑکوں نے پولیس موبائل کو گھیرے میں لے کر اس پر قبضہ کرلیا۔۔۔ اب اس کے بجائے کہ وہ پولیس والوں کو گولی مارتے یا گاڑی کو آگ لگاتے۔۔۔ بتاؤ کہ انہوں نے کیا کیا؟۔۔۔ انہوں نے پولیس والوں کے سارے کپڑے اتار ڈالے اور ان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر انہیں ننگا سڑک پر ڈال دیا اور خود ان کے کپڑے پہن کر موبائل پر قبضہ کرلیا۔

ا ب وہ جہاں جاتے وہاں خوب کام دکھاتے۔ کے ای ایس سی کے اسٹیشن گئے اور رشوت لینے پر وہاں کے لوگوں کی خوب مار لگائی۔۔۔ وہاں سے نکل کر ایک پیٹرول پمپ میں مفت پیٹرول بھروایا۔ پھر انہیں ایک اور پولیس موبائل نظر آئی۔ اس میں صرف دوسپاہی تھے۔ ان کو جھانسا دے کر اس پر بھی قبضہ کرلیا اور پھر ان دونوں نے مل کر وہ حرکتیں کیں کہ سننے والوں کے ہنستے ہنستے پیٹ میں بل پڑگئے۔

کچھ ماہ بعد رحیم خان کے پاس کہانیوں کا مواد ختم ہونے لگا۔ فصل کٹ جانے کے بعد اس کے پاس کوئی مستقل روزگار بھی نہیں تھا۔ اس لئے اس نے ایک بار پھر کراچی جانے کا فیصلہ کیا۔

کراچی پہنچ کر تھوڑے عرصے تک وہ اپنے ایک دوست محمد ذیشان کی سبزی کی دوکان پر بیٹھا پھر اس نے ایک ٹھیلا لے لیا اور اس پر سبزی فروخت کرنے لگا۔

صبح آٹھ بجے وہ دوکان سے سبزی لے کر نکلتا اور جانے کن کن محلوں کے چکر لگاتا۔ یہ کام رحیم خان کے لئے بالکل نیا تھا اور اس کے دوست محمد ذیشان کو بھی ٹھیلا چلانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ شروع کے چند ہفتے مختلف تجربوں اور اندازوں کی پیمائش میں نکل گئے۔ پھر رفتہ رفتہ وہ یہ کام سیکھتا گیا۔ اسے معلوم ہوگیا کہ صبح کتنی سبزی لے کر نکلنا چاہئے تاکہ شام ہوتے ہوتے تمام فروخت ہوجائے۔ کن علاقوں میں سبزی جلدی بکتی ہے اور کہاں دیر میں۔ کہاں کے لوگ عموماً کیا خریدتے ہیں اور کہاں کیا کیا دام مانگنے چاہئے۔ رفتہ رفتہ وہ یہ تمام گر سیکھتا گیا؟ یہ فکریں اس کے روز مرہ کا حصہ بنتی گئیں۔ اور پس پردہ اس کے خیالات دوبارہ کوئی مشغلہ ڈھونڈنے لگا۔

رحیم خان اب دن بھر اپنے ٹھیلے پر سبزیاں بیچتا اور جانے کیا کیا سوچتا رہتا۔ بسا اوقات یہ باتیں، صرف چند خیالات سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتیں ایک روز برسات کے بعد وہ ایک بڑی بی بی کے واسطے گاجر تول رہا تھا کہ وہ کہنے لگا۔

’’اماں آج کی بارش دیکھی؟۔۔۔ بجلی کسی زبردست تھی۔۔۔ لگتا تھا کہ ایک بہت بڑے فلیش کے ساتھ اللہ میاں فوٹو کھینچ رہے ہیں۔۔۔‘‘

کئی بار وہ اس طرح کی عجیب و غریب تشبیہات دیتا جس سے اس کے سننے والے چونکنے کے ساتھ ساتھ محظوظ بھی ہوجاتے۔ ایک روز ٹماٹر تولتے ہوئے وہ کہنے لگا۔ ’’اب دیکھئے باجی یہ ٹماٹر بھی کیا خدا کی نعمت ہے۔۔۔ میں کہتا ہوں کہ جس گھر میں ٹماٹر کم کھایا جاتا ہے وہاں بہت لڑائی جھگڑاہوتا ہے۔۔۔ اور جہاں عورت نے ٹماٹر بنا کر میز پر رکھے وہیں غصے کی جگہ پیار محبت نے لی۔۔۔‘‘

پھر آہستہ آہستہ اس کے یہ جملے، فقرے اور خیالات چھوٹے موٹے قصوں اور کہانیوں کا روپ لیتے گئے۔ اب وہ یہ کہنے کے بجائے کہ دستر خوان پر ٹماٹر کی موجودگی سے گھر کی فضا میں کیسی چاشنی اور محبت گھل جاتی ہے، وہ ٹماٹر کے بارے میں کوئی کہانی سنا دیتا۔ جیسے کہ ان ٹماٹروں کو کاشت کرنے والا کسان کون تھا اور کیوں وہ اس کسان کو اتنی قریبی طور پر جانتا ہے۔

رفتہ رفتہ اپنے ان قصے کہانیوں کی وجہ سے رحیم خان پہچانا بھی جانے لگا۔ کچھ لوگ اسے باتونی سبزی والا کہنے لگے، کچھ اُسے قصے کہانیوں والا کہنے لگے۔ ایک بڑھیا نے اس کا نام کہانیوں کا ٹھیلا رکھ دیا۔ یہ بڑھیا رحیم خان کی خاص گاہک تھی۔ جس روز اُسے سبزی لینا ہوتی وہ خاص طور پر رحیم خان کا انتظار کرتی اور اس کے سوا کسی اور سے سبزی نہ خریدتی۔ پھر سبزی لینے کے بعد کہتی۔ ’’اور کچھ سناؤ آج تم نے کیا دیکھا۔۔۔‘‘

اور رحیم خان کے جو جی میں آتا اس سے کہہ دیتا ۔۔۔ اس سے قطع نظر کہ وہ بات کتنی سچ ہوتی یا جھوٹ اور وہ بڑھیا رحیم خان کی باتیں سن کر یوں مطمئن ہوجاتی جسے دن بھر کی مشقت کے بعد اُسے اجرت ملی ہو۔ کبھی کبھی تو وہ صرف اس واسطے سبزی خرید لیتی کہ اس کا جی چاہ رہا ہوتا کہ وہ رحیم خان سے باتیں سنے اور اگر کبھی رحیم خان موڈ میں ہوتا تو وہ اس سے پیسے بھی نہیں لیتا۔

اس کے تمام گاہکوں کی طرح اس بڑھیا سے بھی رحیم خان کی باتیں سبزی بیچنے اور کوئی ادھر اُدھر کا قصہ یا کہانی سنانے سے بڑھ کر نہیں ہوتیں تھیں۔ جب وہ سبزی خریدتی رحیم خان کوئی بات شروع کر دیتا۔ سبزی بیچ چکنے کے بعد وہ قصہ ختم کرتا اور اپنی راہ پر ہولیتا۔ رحیم خان زیادہ دیر رک کر اپنا وقت برباد کرنے کا عادی نہیں تھا۔ نا ہی وہ بڑھیا اس کو زیادہ دیر روک کر رکھنے کی کوشش کرتی۔ ان کی یہ شناسائی بھی خوب تھی جو اس کے قصوں کے گرد گھومتی تھی۔ ویسے تو رحیم خان اپنے تمام گاہکوں سے ادھر اُدھر کی خوب باتیں کرتا تھا۔ لیکن اس بڑھیا کو اس کی باتوں سے خاص لگاؤ ہوگیا تھا۔

ایک روز وہ کہنے لگا ’’اماں ہمارے علاقے میں ایک زمیندار ہے اس کی صرف دو لڑکیاں ہیں۔۔۔ اس نے اپنی بڑی لڑکی کو لندن بھیجا پڑھائی کی واسطے، جب اس کی لڑکی پڑھ لکھ کر لندن سے واپس آئی۔ تو اس نے اپنی چھوٹی لڑکی کو بھیج دیا، پڑھنے کے واسطے، اور تو اور۔ ساتھ میں اس کی ماں کو بھی بھیج دیا۔ اب وہاں پر اس کی لڑکی بھی پڑھتی اور اس کی ماں بھی پڑھتی ہے۔۔۔ دیکھ اماں یہ بھی کیا خوب ہے ۔۔۔ اب سوچ اگر تو جائے لندن پڑھنے کے واسطے۔۔۔ تیری بھی جوانی واپس آجائے۔۔۔ یہ کہہ کر ہنستا ہوا وہ آگے بڑھ گیا۔

اس بڑھیا کا نام کوثر تھا۔ اس کا لڑکا چند ماہ پہلے کراچی کے فسادات میں کسی بھٹکی ہوئی گولی کی زد میں آکر اپاہج ہوگیا تھا اور اب اس کی زندگی کا زیادہ حصہ بستر پر گزرتا تھا۔ وہ بڑھیا اپنے لڑکے سمیت اب اپنی لڑکی کے گھر پر رہتی تھی۔ اور جس روز وہ رحیم خان سے سبزی خریدتی گھر میں آکر اپنے لڑکے کو سناتی کہ آج رحیم خان نے کیا کہا۔ اس کا لڑکا رحیم خان کی باتیں سن کر خاصا حیران ہوتا تھا اور کہتا ’’اماں یہ تمہارا سبزی والا بھی کتنی پاگل پنے کی باتیں کرتا ہے۔۔۔‘‘ لیکن اس کی ماں کہتی۔’’نہیں بیٹا تو نہیں جانتا ۔۔۔ بڑی دنیا دیکھی ہے اس نے۔۔۔‘‘ اور ماں بیٹے کی تکرار چلتی رہتی۔

اس روز رحیم خان کے جانے کے بعد وہ بڑھیا گھر میں آئی اور اس نے خوب مزے لے کر وہ قصہ سنایا۔ پھر کہنے لگی۔ میرے دونوں بچے تو پڑھ گئے اب میں کس کے ساتھ جاؤں گی پڑھنے۔‘‘

اس کا لڑکا بستر میں لیٹا لیٹا مسکرایا۔ ’’ضروری تھوڑی ہے کہ کسی کے ساتھ جانا۔۔۔ اکیلی بھی جاسکتی ہیں۔۔۔‘‘
’’اکیلی؟۔۔۔ کیوں اکیلی یوں؟۔۔۔ اپنے بچوں کو چھوڑ کر؟‘‘

’’ارے اماں! اس سبزی والے کی باتوں پر تم اتنا سیریس کیوں ہوجاتی ہو؟۔۔۔ جس کو جی چاہے لے جانا اپنے ساتھ۔۔۔‘‘ ’’ہاں بیٹا اب تم نے بات ٹھیک کی ہے۔۔۔ میں تجھے اپنے ساتھ لے جاؤں گی۔۔۔جب تو اچھا ہوجائے گا۔‘‘ اس نے امید بھری نگاہوں سے سامنے خلا میں تکتے ہوئے کہا۔

دن بھر سبزی بیچنے میں رحیم خان کا پالہ طرح طرح کے لوگوں سے پڑتا تھا۔ کچھ توایسے ہوتے جو اُسے ایک جملہ بولنے کا بھی موقع نہیں دیتے۔ جھٹ سبزی تلواتے پٹ قیمت ادا کرکے اسے چلاتا کرتے۔ کچھ ایسے ہوتے جو اس کی باتیں خاموشی سے سنتے لیکن بہت جلد ہی ان سے تنگ آجاتے اور کہتے ’’بھئی تم اتنی باتیں کرتے ہو سارے وقت۔۔۔ آخر تمہارا ٹھیلا کیسے چلتا ہے ۔۔۔‘‘

کبھی تو رحیم خان ان کی اس ہی بات سے کوئی بات پیدا کرلیتا۔۔۔ اور پھر ان کو مجبوراً اس کی باتوں پر مسکرانا پڑتا۔ پر کبھی ان کے تیور وہ بھاپ جاتا اور کہتا۔‘‘ میں تو دل کی سچائی سے کہتا ہوں۔۔۔ جو کچھ کہتا ہوں۔۔۔ آپ کو پسند نہیں تو ایسے ہی سہی۔‘‘

رحیم خان کی باتوں میں سچائی تو واقعی ہوتی تھی۔ لیکن اس کا اظہار یوں گھوم پھر کر ہوتا کہ اکثر لوگ اسے پہچان نہیں پاتے تھے۔

ایک روز وہ اس بڑھیا سے کہنے لگا۔۔۔ اماں ہم غریبوں کی زندگی سب سے زیادہ اچھی ہے۔۔۔ تھوڑی سے روٹی کھاؤ، پھر خوب سارا پانی پی کر پیٹ بھرلو۔۔۔ لیکن اب تو پانی بھی نہیں ملتا۔۔۔ سبزیوں پھر چھڑکنے کے لئے جو میں پانی رکھتا تھا اب وہ بھی نہیں ہوتا ہے۔۔۔ لوگ سوکھی سوکھی سبزیاں کھاتے ہیں۔۔۔ اور سوکھا سا منہ بناتے ہیں۔۔۔ اب تم ہی بتاؤ اماں میں تو ایک غریب سبزی والا ہوں۔۔۔ کیا کروں؟‘‘

سنا ہے کہ پانی کو جمع کرنے کے لئے حکومت ایک بہت بڑا ڈیم بنائے گی۔۔۔ اور لوگ ہیں تو اس کی مخالفت کرتے ہیں۔۔۔ میں کہتا ہوں بن جانے دو ڈیم۔۔۔ ایک نہیں حکومت ایسے دس ڈیم بنائے۔۔۔ ہم غریبوں کے حالات نہ اچھے ہونے والے ہیں، نہ برے۔۔۔

اماں تو بہت حیران ہوگی۔۔۔ لیکن میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ جن علاقوں میں ٹینکر سے پانی آتا ہے وہاں میاں بیوی کے یہاں اولاد ہونا کم ہوگئی ہے۔۔۔ سچ کہتا ہوں۔۔۔ قسم۔ میرے برابر والی چھونپڑی میں جو آدمی رہتا ہے اس کی عورت گھر گھر جاکر کام کرتی ہے وہ بھی یہ ہی کہتی ہے۔۔۔ ٹینکر کا پانی۔۔۔ لعنت ہے۔۔۔ بہت بڑی لعنت۔۔۔ اس سے اچھے تو ہم غریب لوگ ہیں۔۔۔ ٹینکر کا پانی نہیں خرید سکتے تو کیا، ۔۔۔ اولاد تو پیدا کرسکتے ہیں۔۔۔‘‘

یہ کہہ کر حیم خان ہنستا ہوا آگے بڑھ گیا۔ وہ بڑھیا، ایک سادہ سی عورت، اسے کھڑی تکتی رہی۔ رحیم خان کی بیشتر باتیں اس کی سمجھ میں نہیں آتی تھیں، لیکن اس کے باوجود وہ اسے بہت دلچسپ معلوم ہوتی تھیں۔

رحیم خان کی باتیں سن کر کچھ لوگ سمجھتے کہ وہ بڑی سیاسی سوجھ بوجھ رکھتا ہے۔ کئی سیاسی کارکنوں نے اس پر کام بھی کیا تھا اور اس کو اپنے اپنے موقف پر قائل بھی کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔

رحیم خان ان کی باتیں تو بہت غور سے سنتا اور ان سے اتفاق بھی کرتا۔ لیکن پھر بہت جلد وہ ان تمام باتوں کو بھول جایا کرتا تھا اور اپنے خیالوں میں گم ہوجاتا ایسے ہی کسی سیاسی کارکن سے بات کرتے ہوئے اس نے کہا۔

’’بھائی ہم غریب لوگ ہیں۔۔۔ اگر ہم غریبوں کی مدد نہیں کریں گے۔۔۔ ان کے کام نہیں آئیں گے۔۔۔ تو کون دوسرا کرے گا۔۔۔ یہ کام ہمارا ہی ہے۔۔۔ بھائی صاحب ہم سب کو مل کر ایک پارٹی بنانی چاہئے۔ اس پارٹی میں صرف غریب ہوں۔ امیر کوئی نہ ہو۔۔۔ پھر ہماری پارٹی والے مل کر خوب محنت کریں اور ہم سب کے سب امیر ہوجائیں۔۔۔‘‘

’’ہاں بالکل صحیح کہہ رہے ہو ۔۔۔ ایسا ہی تو ہم کر رہی ہیں۔۔۔‘‘ اس سیاسی کارکن نے بات کو آگے بڑھانے کی کوشش کی۔ لیکن رحیم خان بولا۔ ’’بھائی صاحب آپ جانتے ہیں۔۔۔ جب میں بس میں کنڈکٹری کرتا تھا تو ہم سب کنڈکٹروں نے مل کر اپنی ایک پارٹی بنانے کی کوشش کی تھی۔۔۔ معلوم ہے اس میں ایک کنڈکٹر تھا ساہیوال کا۔۔۔ جس کی بس کو آگ لگا دی تھی اور وہ اس میں جل کر مرگیا، اس کا کام تھا نعرے لگانا ۔۔۔ ایسے تو ہم سب کے سب کنڈکٹر تھے ہماری سب کی زور دار آوازیں تھیں لیکن جب شبیر نعرے لگاتا تھا تو ہم سب چپ ہوجایا کرتے تھے ۔۔۔ اور سب آس پاس کے لوگ متوجہ ہوجایا کرتے تھے۔۔۔ میں کہتا ہوں کہ اگر وہ ہوتا تو ہماری پارٹی ابھی تک چل رہی ہوتی۔۔۔‘‘

یہ کہہ کر کچھ کہے سنے بغیر رحیم کان نے اپنا ٹھیلا آگے بڑھا دیا۔ وہ سیاسی کارکن وہیں کھڑا سوچتا رہ گیا۔

یوں رحیم خان کبھی ایسے دہشت گرد کا ذکر کرتا جس نے تمام دنیا چھوڑ دی ہے اور اب وہ ایک باغ میں مالی ہے۔ یا کسی ایسے مولوی کا ذکر کرتا جس نے امام ہونے کے ساتھ ساتھ اب اسمگلنگ بھی شروع کر دی ہے۔ طرح طرح کی متضاد چیزوں کو وہ آپس میں ملا کر زندگی کے انتشار میں ایک ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کرتا۔ اور یوں سوچ سوچ کر اسے سب کچھ بہت اچھا بھی لگنے لگتا۔

رفتہ رفتہ وہ بڑھیا اس کی تقریباً روزانہ کی خریدار بن گئی۔ اور رحیم خان کی باتیں صرف سننے کے بجائے اب وہ بھی اس سے باتیں کرنے لگی تھی۔ رحیم خان اسے دنیا جہان کے قصے سناتا، اور وہ جواب میں اپنے بیٹے کی کوئی بات بتائی۔

کبھی وہ اس کے بچپن، کا کوئی قصہ سناتی۔ کبھی بتاتی کہ اس نے اپنے لڑکے کے لئے کیسی کیسی لڑکیوں کے رشتے کو ٹھکرادیا۔ ایک روز وہ کہنے لگی ۔۔۔’’ اب دیکھ لینا تم۔۔۔ میرا لڑکا جلد ٹھیک ہوجائے گا اس کے بعد دیکھنا کیا نوکری ملتی ہے اس کو، ڈھیروں پیسہ نہیں کما لیا تو میرا نام نہیں۔۔۔‘‘

پھر کراچی کے حالات ایک بار پھر خراب ہوگئے اور رحیم خان کئی دن اپنا ٹھیلا نہیں نکال پایا۔ وہ بڑھیا روز اس کی راہ دیکھتی اور دعا کرتی کہ حالات تھوڑے بہتر ہوں تاکہ اس کا سبزی والا آئے اور وہ اسے اپنے لڑکے کے بارے میں وہ ساری باتیں سنا سکے جو حال میں اس نے سوچی تھیں۔

آخر کار جب حالات سدھرے تو رحیم خان نے ایک بار پھر اپنا ٹھلا نکالا۔ وہ بڑھیا اسے دیکھ کر خوشی سے پھولی نہ سمائی۔۔۔ ’’ارے تجھے پتا ہے کیا ہوا؟‘‘۔۔۔ اس نے چھوٹتے ہی کہا’’۔۔۔ پچھلے چار دنوں میں میرے لڑکے کی صحت چار گنا اچھی ہوگی۔۔۔کل تو وہ پورے آدھے گھنٹے تک چلا۔۔۔ ڈاکٹر کو پتا چلے گا تو بہت خوش ہوجائے گا۔۔۔‘‘

لیکن اس روز رحیم خان خاصی جلدی میں تھا۔ کئی دنوں سے اس نے کچھ نہیں کمایا تھا۔ وہ حساب چکا کر جلدی سے آگے بڑھ گیا۔ چند روز تک رحیم خان کا تمام دھیان جلدی جلدی سبزی بیچنے اور آگے بڑھنے کی طرف لگا رہا نہ اس کے ذہن میں کوئی کہانی آئی اور نہ اسے مہلت مل پائی کہ وہ کچھ سوچے۔ بڑھیا سے ہر روز چند منٹ کی ملاقات ہوجاتی لیکن وہ کچھ نہیں بولتا۔

وہ بڑھیا ہی الٹی سیدھی کوئی بات کرتی اور سبزی لے کر اس کو جاتا ہوا دیکھتی رہ جاتی۔ پھر بہت خوش ہوتی۔

کچھ دنوں بعد رحیم خان کا موڈ معمول پر آگیا اور اس نے اپنے گاہکوں کے ساتھ وہ باتیں دوبارہ شروع کر دیں۔ اس بڑھیا کے پاس کھڑا ہوکر بھی وہ دوچار منٹ گزار دیتا۔

ایک روز وہ کہنے لگا

’’اماں میں سوچتا ہوں سبزی کا کام چھوڑ دوں۔۔۔ کوئی بھروسا نہیں اس کام کا۔ پیچھے سے حالات بگڑ جاتے ہیں، منڈی سے سبزی لے کر آدمی نہیں آتے، ہر کسی کو ڈر خطر لگا رہتا ہے، سبزی بہت مہنگی ملتی ہے۔ گاہک خریدتے نہیں ہیں۔ ایک مصیبت ہے۔۔۔ میں سوچتا ہوں مچھلیوں کا کاروبار شروع کردوں۔۔۔ مچھلیوں کا۔۔۔ کھیت میں سبزی اگنا ختم ہوسکتی ہے، شہر میں آدمی سارے مرسکتے ہیں لیکن اماں۔۔۔ سمندر میں مچھلیاں کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔۔۔ اماں سوچتا ہوں کہ مچھلیاں بیچنا شروع کردوں۔۔۔ مچھلیاں۔‘‘

یہ کہتا ہوا وہ آگے بڑھ گیا۔

اس کے چند دنوں کے بعد شہر کے حالات پھر خراب ہوگئے۔ رحیم خان پھر کئی دنوں تک نہیں آ پایا۔ لیکن اس بار اس بڑھیا کا خیال اپنے سبزی والے کی طرف نہیں گیا۔ اس بار اس کے لڑکے کی طبیعت خراب تھی۔ حالات کے خراب ہونے کی وجہ سے صحیح دوا نہیں آرہی تھی، اور روز بہ روز اس کی طبیعت بگڑتی جا رہی تھی۔ یہاں تک کہ پانچ دنوں کے بعد جب علاقہ میں آمدورفت کا سلسلہ دوبارہ جاری ہوا تو اس کے گھر سے اس کے لڑکے کا جنازہ نکلا۔

اس روز جب رحیم خان کا ادھر سے گزر ہوا تو بڑھیا کی گلی میں ایک مجمع دیکھا۔ جب واقعہ معلوم ہوا تو ملنے کے لئے وہ اس کے دروازے پر گیا۔ کچھ دیر بعد وہ بڑھیا گھر سے نکلی۔ وہ غم سے نڈھال تھی۔ تھوڑی دیر وہ دونوں خاموش کھڑے رہے۔ پھر رحیم خان سے صرف اتنا کہا گیا۔ ’’مجھے یہ خبر سن کر جتنا افسوس ہوا ہے۔ تو نہیں جانتی۔‘‘ وہ بڑھیا کچھ دیر خاموش رہی پھر واپس گھر میں چلی گئی۔

رحیم خان اس کے بیٹے سے کبھی نہیں ملا تھا۔ لیکن اس کی موت نے اس کے دل پر بہت گہرا اثر کیا تھا۔ اگلے چند دنوں تک وہ بڑھیا کی گلی کی طرف جانے کی ہمت نہیں کرسکا۔ کئی دنوں کے بعد گیا تو اس بڑھیا کو باہر کھڑے پایا۔ بڑھیا نے اس سے سبزی خریدی۔ رحیم خان نے اُسے سبزی دی لیکن کوئی بات کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔

اگلے روز بھی رحیم خان نے خاموشی کے ساتھ اُسے سبزی دی۔ لیکن پھر کچھ ہمت کرکے کہنے لگا ’’اماں ۔۔۔ تونے تو بہت سے پیروں کے بارے میں سنا ہوگا ۔۔۔ لیکن میں ایک ایسے پیر کو جانتا ہوں۔ جس کا نام لوگوں نے سید ہنستا شاہ رکھ دیا ہے۔۔۔ وہ خود بھی ہنستا ہے اور دوسروں کو بھی ہنساتا ہے۔۔۔‘‘

’’تو پیروں کی بات کرتا ہے۔۔۔‘‘ وہ بڑھیا اس کی بات کاٹ کر بولی۔۔۔’’ جب میرا بیٹا زندہ تھا تو وہ بتاتا تھا کہ وہ ایک ایسے شخص کو جانتا ہے جو کئی پیروں کا مرید ہے۔ یعنی کہ کئی پیروں نے اس کو اپنا مرید بنایا ہوا ہے ۔۔۔ اور نہ صرف یہ۔۔۔ بلکہ سب اس کی بڑی آؤبھگت کرتے ہیں۔۔۔ کس لئے؟۔۔۔ اس لئے کہ سب یہ سمجھتے ہیں کہ اس مرید سے ان کی پیری چمکتی ہے۔۔۔ میں تو کہتی ہوں کہ یہ پیری ویری فضول باتیں ہیں۔۔۔ آدمی کو مرید بنا چاہئے۔۔۔ اور اس طرح کا مرید کہ سب پیر اس کو اپنے پاس بلائیں ۔۔۔ آدمی مرید بنے۔۔۔‘‘

’’ہاں۔۔۔ واقعی۔۔۔‘‘ رحیم خان نے حیران ہوکر سرہلایا۔اسے لگا کہ وہ بڑھیا اصل میں کچھ اور کہنا چاہ رہی ہے، لیکن وہ بات کیا ہے؟ وہ سمجھ نہیں سکا۔ پھر یکایک اسے بے تحاشا خوشی کا احساس ہوا۔ ’’اماں ایسے مریدوں کی وجہ سے تو ہے ورنہ قیامت کب کی آچکی ہوتی ‘‘ یہ کہتا ہوا وہ آگے بڑھ گیا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں