پیر، 9 مارچ، 2015

لائینز ایریا میں ایک ٹائٹ رات

[۹۰ کی دہائی میں کراچی آپریشن کے پس منظر میں لکھا گیا افسانہ]


اس روز شام چھ بجے سے مورچہ بندیاں شروع ہوگئی تھیں۔ ابھی سورج غروب ہونے میں کوئی آدھا گھنٹہ باقی تھا۔ خبر گرم تھی کہ رات میں محاصرے اور تلاشی کے آڈر جاری کیے جاچکے ہیں۔ میں نمائش چوک کے قریب ایک زیر تعمیر عمارت کی چھت پر تھا۔ میری ۷ایم ایم کی رائفل کی نالی چھت کی منڈیر کے ایک سوراخ سے باہر جھانک رہی تھی اور سامنے کا تقریباً ایک میل تک کا علاقہ اس کی زد میں تھا۔

اس رات محاصرے اور گھر گھر تلاشی کو ہر حال میں روکنا تھا، اس بات کا شاید بہت کم لوگوں کو علم تھا کہ شہر میں پچھلے ماہ بھر کی وارداتوں کا مال آج علاقہ میں موجود تھا اور آج رات اس کے حصہ لگنے تھے۔ اس زیر تعمیر عمارت اور ساتھ کی اونچی چھتوں کے مکانات پر علاقے کے کئی اور لڑکوں نے مورچے سنبھالے ہوئے تھے۔ میرے خیال میں سب کے سب ہی اپنے تحفظ یا جوش و غصہ کی وجہ سے وہاں موجود تھے، شاید ان میں سے کسی کو بھی اس مال کے بارے میں علم نہیں تھا۔ کیا پتا کہ محاصرہ کیے جانے کی خبر صرف اس واسطے پھیلائی گئی تھی کہ آج کی رات تھوڑی ایکسٹرا چوکیداری ہوجائے اور تمام مال بحفاظت ٹھکانے لگ جائے۔ لیکن یہ محض میرا اندیشہ تھا مجھے اس زمانے میں اس بات پر یقین ہوگیا تھا کہ کسی بات پر مکمل یقین نہیں کرنا چاہیے۔

سورج غروب ہونے کے تھوڑی دیر بعد سامنے بندر روڈ پر مکمل سناٹا چھا چکاتھا۔ نمائش کی چورنگی کے اس پار پولیس چوکی کے ساتھ پیلی اسٹریٹ لائیٹ کے نیچے رینجرز کا ایک ٹرک کھڑا تھا اور ٹرک کے اوپر نصب مشین گن پر کھڑا سپاہی بھی کسی مشین کی طرح سرد اور سفاک نظر آرہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد میرے اندر ایک بے چینی اٹھنے لگی۔ کیا پتا مال کا بٹوارا کس وقت شروع ہوجائے اور میں تقسیم کرنے والوں کا دفاع کرتا رہ جائوں۔

میں نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ چھت پر کوئی اور نظر نہیں آیا میں خاموشی سے اپنی جگہ سے اٹھا اور زینے کی طرف بڑھنے لگا۔ ابھی زینے سے دو تین قدم ہی نیچے لیے ہوں گے کہ ایک سایہ اوپر کی طرف آتا ہوا نظر آیا۔ ہم دونوں ساکت ہوگئے، پھر یکایک اس نے اپنے دونوں ہاتھ سامنے کی طرف بلند کیے ان میں اس نے ایک مائوزر پکڑا ہوا تھا۔
’’رائفل گرا دے… نہیں تو بھیجا اڑا دوں گا…‘‘ وہ غرایا۔
باہر کی صورت حال، زینے کے اندھیرے، اس کے غرانے کے انداز اور کرتے کی سفید آستینوں نے کچھ ایسا ماحول بنا دیا کہ میں تھر تھر کانپ گیا۔ میری رائفل دھیرے سے زمین پر آرہی۔ اس نے ہاتھ سے مجھے پیچھے ہونے کا اشارہ کیا اور میں دو قدم الٹے لے کر واپس چھت پر آگیا۔

اوپر چھت پر آدھے چاند کی روشنی میں ہم دونوں ایک دوسرے کو ذرا ٹھیک سے دیکھ پائے۔ شکل اور حلیے سے وہ اپنا ہی آدمی معلوم ہورہا تھا میرا خوف کئی درجے کم ہوگیا۔ اس نے بھی چاروں طرف نظریں گھمائیں ’’یہاں چھت پر کوئی اور نہیں کیا؟‘‘ اس نے پوچھا۔ اب اس نے ایک ہاتھ مائوزر پر سے ہٹا لیا۔ پھر اس کی نال بھی آہستہ سے نیچے کی طرف آنے لگی۔
’’نہیں۔‘‘ میں نے نفی میں سر ہلایا۔ میری بھی اب کچھ جان میں جان آئی تھی اور میں نے اوپر کیے ہوئے ہاتھوں کو ڈھیلا چھوڑ دیا تھا۔
’’اگر اکیلے تھے تو مورچہ چھوڑ کر کیوں جارہے تھے۔‘‘ اس کے لہجے میں ابھی تک غراہٹ موجود تھی۔
’’ایک دو کو آواز دینے…‘‘ میرے اس جواب میں جان نہیں تھی لیکن اس نے کوئی تفتیش نہیں کی۔ ’’واپس جا کر بیٹھ جائو…‘‘ اس نے اس ہی کونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آرڈر دیا جہاں میں اس سے پہلے بیٹھا ہوا تھا۔ پھر وہ چھت کے دوسرے کونے کی طرف چلا گیا۔

میں نے واپس جا کر مورچہ سنبھال لیا اور کچھ دیر رائفل کی مکھی میں سے اپنی نظر کو رینجرز کے ٹرک کے مختلف حصوں پر اڑاتا رہا پھر اسے مشین گن پر کھڑے ہوئے سپاہی کی ناک پر بٹھا دیا۔ جس نے اسے اڑانے کی کوشش نہیں کی۔

تھوڑی دیر بعد میں نے پلٹ کر دیکھا تو اس شخص نے چھت کے دوسرے حصہ پر مورچہ بنایا ہوا تھا اور اس کی پیٹھ میری طرف تھی میں خاموشی سے اٹھا اور نیچے چلا گیا۔ نیچے جاتے ہوئے مجھے زینے پر کوئی شخص نہیں ملا۔ نہیں تو اس بار میں بھی اپنی رائفل بلند کرنے پر تیار تھا۔

گلیاں سنسان پڑیں تھیں۔ لڑکوں نے زیادہ تر گھروں کی چھتوں پر پوزیشنیں سنبھالی ہوئی تھیں۔ ایسے میں سنسان گلیوں سے گزرنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ میرے قدم سرعت کے ساتھ چاچا کے مکان کی طرف اٹھ رہے تھے۔ مجھے معلوم تھا کہ مال کا بٹوارہ وہاں نہیں ہوگا۔ لیکن اصل جگہ کا سراغ لگانے کے لیے وہاں جانا ضروری تھا۔

حسب معمول ان کے گھر کے دروازے کا ایک پٹ کھلا اور دوسرا بند تھا۔ اندر صحن میں کسی کی ویسپا کھڑی تھی۔ برآمدے میں ایک میز اور چند کرسیاں پڑیں ہوئیں تھیں۔ میز پر ایک کلاشن اور ٹی ٹی رکھی تھی اور ساتھ ہی راشد پدّا اور قادر کانٹا اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے صحن میں کھڑی ویسپا کے اوپر خلا میں تک رہے تھے۔ پدّے کے ہاتھ میں سگریٹ تھی جس کو جلا کر شاید وہ بھول چکا تھا۔
میں نے برآمدے میں جا کر پدّے کے ہاتھ سے سگریٹ مانگی۔ ’’پی رہا ہوں…‘‘ اس نے اپنے ہاتھ کو روک کر اعتراضاً مجھ سے کہا مگر پھر کچھ سوچتے ہوئے سگریٹ بڑھا دی۔ میں نے ایک کش لے کر اندر کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔ ’’کہاں ہیں؟…‘‘
دونوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پدے نے گردن سے باہر کے دروازے کی طرف اشارہ کیا۔ جس کا شاید مطلب تھا… ابھی باہر گئے ہیں آتے ہی ہوں گے۔ میں نے اپنی رائفل برآمدے کے ایک پلر کے ساتھ کھڑی کردی اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔
تھوڑی دیر میں قادر نے پوچھا ’’اور پیٹر سے مل لیے؟…‘‘ ۔
’’پیٹر کون؟…‘‘ میں نے پوچھا۔

لیکن ایکدم ان دونوں کی توجہ دروازے کی طرف مبذول ہو گئی۔ باہر سے کسی نے دروازے کا دوسرا پٹ بھی کھولا اور چاچا اندر داخل ہوئے اور ان کے پیچھے کوئی نوجوان بھی تھا۔ چاچا نے حسب معمول سفید ململ کا کرتا اور پاجامہ پہنا ہوا تھا۔ کرتے کے نیچے ان کی بنیان بھی نظر آرہی تھی جس کے سوراخ بھی ہمیشہ کی طرح کافی نمایاں تھے۔
ہم سب بنیان کے سوراخوں کو دیکھتے ہوئے شاید تعظیماً کھڑے ہوگئے۔ لیکن برآمدے میں آکر انھوں نے ہمیںبیٹھنے کو کہا۔ ان کے ساتھ جو نوجوان تھا، اس کو اب میں نے پہچانا اور ایک لمحے کے لیے دم بخود رہ گیا۔ یہ وہی تھا جس نے کچھ دیر پہلے مجھ پر مائوزر تانا تھا۔

سب کے ساتھ میں نے بھی اس سے ہاتھ ملایا اور پھر خاموش ہو کر سوچنے لگا کہ کیا پتا یہ مجھے پہچان پائے گا یا نہیں۔ پھر چاچا نے متعارف کرایا۔ ’’اس سے ملو… ا س کا نام پیٹر ہے…‘‘۔

نام سن کر میں چونکا، اور پھر میرے منھ سے سلام کی جگہ ’’ہیلو‘‘ نکل گیا۔ ’’وعلیکم ہیلو‘‘ اس نے نہیں کہا، خاموشی سے اس نے مجھے گھورا۔ ’’تو ڈیوٹی چھوڑ کر پھر بھاگ آیا۔۔۔۔‘‘۔ اب اس نے غرانا شروع کیا۔

لیکن یہاں صورت حال مختلف تھی۔ میرے چہرے پر اس طرح کی مسکراہٹ پھیل گئی جس میں بالکل بھی گہرائی نہیں ہوتی۔ میں ہنسا۔ ’’میں ایک پیٹر ۔۔۔۔اوہ!۔۔۔۔۔ ٹامی کتے کو رکھوالی کے لئے چھوڑ کر آیا ہوں۔‘‘

پیچھے میں نے راشد اور قادر کو مسکراتے ہوئے دیکھا۔ لیکن چاچا کا چہرا بالکل نہیں بدلا۔ ’’اندر آجائو…‘‘ انھوں نے کہا اور وہ اندر کمرے میں چلے گئے۔ ہم سب ان کے پیچھے آئے۔ اس کے بعد اس عمارت کی چھت والے واقعہ کی طرف پیٹر نے اشارہ نہیں کیا۔

اندر جا کر چاچا اپنے مخصوص صوفے پر بیٹھ گئے جس کے لکڑی کے ہتھوں پر لال مخمل کے کور چڑھے ہوئے تھے ، مخمل کے کپڑے پر اپنی انگلیاں آہستہ آہستہ پھیرتے ہوئے کہنے لگے ’’اچھا تو پھر آج حساب کتاب یہاں ہی کرلیتے ہیں۔‘‘ انھوں نے کہا۔ پھر مجھ سے مخاطب ہوئے۔ ’’واجد تمھارے ساتھ چار لڑکے ہیں؟‘‘ انھوں نے پوچھا۔
’’تین…‘‘ میں نے جواب دیا۔
اس پر وہ آہستہ سے مسکرائے۔ ’’موسیٰ کو نہیں…‘‘
میں نے نفی میں گردن ہلائی۔ پھر وہ خاموش ہوگئے۔ ’’پیٹر تمھارے…‘‘ انھوں نے اس سے مخاطب ہو کر کہا۔ پیٹر مسکرا دیا۔ انھوں نے خفیف سا سر کو جھٹکا دیا جیسے کہ خود ہی سمجھ گئے ہوں۔

پھر وہ خاموش ہو کر رک گئے۔ آج چاچا کے انداز میں ایک خاص مصنوعی بات تھی جو عام طور پر نہیں ہوتی تھی۔ اب انھوں نے ایک بہت ہموار آواز میں بولنا شروع کیا۔ ’’ایک بات شاید تم سب کو نہیں معلوم… مال کا بٹوارا کرنے کے لیے پالیسی بدل دی گئی ہے… اب بٹوارا اس طرح سے نہیں ہوگا جیسے ہوتا تھا…‘‘

ہم سب خاموش رہے۔
’’تمام سامان میں سے ایک رقم مقرر کردی گئی ہے جو کہ بانٹی جائے گی‘‘
’’کتنی ہے؟…‘‘ میرے منھ سے آپ ہی آپ آہستہ سے نکلا۔
’’پانچ لاکھ…‘‘ بالکل ہموار آواز میں جواب ملا۔
میں چپ ہوگیا اور کوشش کرکہ اپنے جذبات کے تمام آثار چہرے سے ہٹانے لگا۔ سامنے صوفے پر پیٹر خاموش بیٹھا تھا۔
چاچا لمحے بھر کے لیے خاموش ہوئے اور ایک تیز نگاہ ہم سب پر ڈالی جیسے کہ ہمارے ارادے بھانپنے کی کوشش کررہے ہوں۔ ’’کوئی سوال تو نہیں؟…‘‘ انھوں نے پوچھا۔
پیٹر پھر مسکرا رہا تھا۔

راشد کا منھ کھلا کا کھلا تھا۔ ’’تو کیا سب میں سے صرف پانچ لاکھ بٹیں گے؟‘‘
’’نہیں… پانچ صرف تم لوگوں کے لیے ہیں…‘‘ چاچا نے جواب دیا۔
’’تو کل کتنے بٹ رہے ہیں؟‘‘ راشد نے پوچھا۔
’’یہ میں نہیں بتا سکتا… اور یہ بھی سن لو اس پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی… یہ فیصلہ اٹل ہے… کمیٹی نے ڈیسائیڈ کیا ہے… اور میرے ہاتھ میں نہیں ہے ‘‘۔
’’لیکن کمیٹی نے ہمارے سامنے تو ڈیسائیڈ نہیں کیا…‘‘۔ پیٹر کے چہرے پر مسکراہٹ ابھی تک قائم تھی۔
چاچا نے کوئی جواب نہیں دیا۔
سب خاموش تھے۔ راشد نے بھی اپنے سوال روک دیے اور جیسے ہم سب ہی کسی واقعے کا انتظار کررہے ہوں۔ پیٹر ہنسنے لگا۔
’’تو پھر کچھ دنوں میں ایک ایک کلاشنکوف دو گے اور تین ہزار میں نوکری…‘‘ وہ اور زور سے ہنسا۔
ہم میں سے کوئی بھی اتنی ہمت نہیں کرسکتا تھا۔ چاچا نے اسے گھور کر دیکھا۔ پیٹر مسکرا رہا تھا اور اس کی مسکراہٹ میں بالکل بھی مصنوعی پن نہیں تھا۔ پھر کچھ دیر یوں ہی گزر گئی ۔

پھرچاچا صوفے پر بیٹھے بیٹھے کچھ ہلے۔ جیسا کہ وہ ہمیشہ ہلتے تھے۔ اور انھوں نے اپنا انداز کچھ نرم کردیا۔

’’تو پھر کس طرح ۔ــ‘‘ وہ اب اپنے معمول کے انداز کی طرف آتے جارہے تھے۔ ’’…یار مجھے خود بھی نہیں معلوم کہ صرف رقم کس طرح تقسیم کروں… اچھا تو پھر ایسا کرو تم لوگ خود بتائو۔‘‘ انھوں نے مذاق کیا۔

ہم سب خاموش رہے۔
’’اچھا رکو…‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ اٹھے اور اندر کی طرف گئے۔ جب واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک بڑا سا لفافہ تھا جس کا منھ کھلا ہوا تھا اور یوں لگتا تھا کہ جیسے اس کے اندر کچھ چھوٹے چھوٹے بنڈل پڑے ہوئے ہیں۔

اپنے صوفے پر بیٹھتے ہوئے انھوں نے کہا۔ ’’چلو بھئی ابھی کرے دیتے ہیں حساب کتاب۔‘‘ اور لفافے میں ہاتھ ڈال کر ایک اور بھورے رنگ کا لفافا نکالا جس میں شاید نوٹ تھے اور راشد اور قادر کی طرف اچھال دیا۔ لگتا تھا کہ چاچا پہلے سے اپنا حساب کتاب کرکے بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کے بعد اس طرح انھوں نے ایک گڈّی مجھے دے دی اور ایک پیٹر کو۔ لیکن اس کے باوجود لفافے میں کچھ بچ گیا۔ انھوں نے لفافے کے منھ کو سیدھا کرکہ پلٹ دیا اور اس بنڈل کو صوفے کے ہتھے پر اپنے ہاتھ کے نیچے رکھ لیا۔

لگ رہا تھا کہ ابھی جتنا مال انھوں نے ہمیں بانٹا ہے شاید اس سے زیادہ لفافے میں بچا ہوا ہے۔ ہم سب کی نظریں اس پر تھیں۔
پھر مجھے آواز آئی کہ جیسے کسی نے پستول لوڈ کیا ہو اور میں نے دیکھا کہ پیٹر کے ہاتھ میں اس کا مائوزر تھا۔ اس کی نال چاچا کی کھوپڑی کی طرف تھی۔ چاچا کچھ کہتے کہتے رک گئے۔ ہم تینوں کو سانپ سونگھ گیا۔

پیٹر بڑے اسٹائل میں بولا ’’میاں یہ تین ہزار والی نوکری ان لڑکوں سے کرواناجو ابھی پہرہ دے رہے ہیں… ہم کو کیا سمجھ بیٹھے ہو؟…‘‘

ابھی چاچا کوئی جواب ہی دینے والا تھا کہ پیٹر زور سے گرجا۔ ’’خبردار جو مجھے جواب دینے کی کوشش کی…‘‘ اور وہ کھڑا ہوگیا۔ یکایک وہ بے انتہا غصے میں آچکا تھا۔

’’چلو آگے… دیوارکے ساتھ…‘‘ اس نے قادر اور راشد کی طرف دیکھ کر کہا۔ ’’چلو!…‘‘ وہ چیخا۔
قادر اور راشد لڑ کھڑاتے ہوئے اٹھے۔ ان کے دونوں ہاتھ خود بخود ہی بلند ہوگئے تھے اور آہستہ آہستہ دیوار کی طرف بڑھے۔ میں اپنے واسطے حکم کا منتظر تھا۔

’’اس کا لفافہ اٹھا کر مجھے دو…‘‘ وہ اب مجھ سے بولا۔ میں نے چاچا کے ہاتھ کے نیچے سے وہ لفافا نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔ راشد اور قادر دیوار کی طرف پیٹھ کیے دونوں ہاتھ ہوا میں اٹھائے کھڑے تھے۔ اس کو لفافہ پکڑاتے ہوئے میرا خوف قدرے کم ہوگیا۔ اس کا انداز میری طرف اتنا کڑوا نہیں تھا۔ ’’اپنا منھ دیوار کی طرف کرو…‘‘ وہ ان دونوں سے بولا…‘‘ اور مرغا بن جائو…‘‘

چاچا ابھی تک اپنے صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ’’ان کو باندھنے کا بندوبست کرو۔‘‘ وہ مجھ سے بولا۔ میں نے کسی رسی یا ڈوری کے لیے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں۔

’’مُرغا بنو…‘‘ وہ قادر اور راشد پر چیخا۔

اس وقت مجھے اس بات پر حیرت تھی کہ پیٹر نے مجھ پر کیسے بھروسا کرلیا تھا۔

میں ڈوری یا رسی ڈھونڈنے کے لیے باہر صحن میں چلا گیا۔ اب مجھے اس بات کا اندازہ ہورہا تھا کہ اگر اس وقت باہر سے کوئی لڑکا اچانک کسی کام سے آگیا تو بازی منٹوں میں پلٹ جائے گی۔ دل ہی دل میں میں پیٹر کی ہمت کی داد بھی دے رہا تھا۔ ہمت یا حماقت ان دونوں میں فرق مجھے اس وقت نہیں محسوس ہورہا تھا۔

برآمدے میں میری رائفل ابھی تک پلر سے ٹکی ہوئی کھڑی تھی۔ میں نے سب سے پہلے اسے اٹھایا۔ قریب ہی رکھے ہوئے ایک بکسے میں نائیلون کی ڈوری مل گئی۔ اندر جا کر میں نے جلدی جلدی ارشد اور قادر کو زمین پر اوندھا لٹا کر ان کے ہاتھ پائوں باندھے۔ چاچا اس وقت تک اپنے صوفے پر دونوں ہاتھ اوپر کیے ہوئے بیٹھے تھے۔ ان کے چہرے سے اس وقت کوئی تاثر عیاں نہیں ہورہا تھا۔

پیٹر نے اپنی جیب سے نکال کر مجھے ایک چابی دی اور کہا کہ ’’ویسپا کو باہر گلی میں نکالو۔ میں نے باہر نکلتے ہوئے برآمدے سے قادر کی کلاشن بھی اٹھا لی۔

باہر نکل کر میں نے ویسپا کو اسٹارٹ کیا اور پیٹر کا انتظار کرنے لگا۔ ابھی چند سیکنڈ ہی گزرے ہوں گے کہ مجھے اندر کمرے سے ایک زور دار فائر کی آواز آئی۔ میں بری طرح چونک گیا۔ کچھ دیر بعد پیٹر باہر آ کے دروازے کی کنڈی لگا کر آرہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا۔ ’’کیا ہوا؟…‘‘ ’’کچھ نہیں…‘‘ اس نے جواب دیا۔ وہ ویسپا کی پیچھے والی سیٹ پر آکر بیٹھ گیا اور اس نے کہا۔ ’’چلو…‘‘
قادر کی کلاشن پیٹر نے اٹھائی ہوئی تھی۔ میں نے اپنی 7mm کی رائفل ویسپا کی آگے والی جالی میں اڑائی ہوئی تھی۔ گلی کے نکڑ پر پہنچ کر میں نے اس سے پوچھا۔ ’’ہم کہاں جارہے ہیں…‘‘

اس نے دائیں طرف اشارہ کردیا۔ اس وقت وہ قدرے سکون میں لگ رہا تھا۔حالاںکہ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا ہورہا ہے۔ سب سے بڑا خطرہ مجھے اس بات کا تھا کہ اگر کسی کو اب بھی خبر ہوگئی تو ہم لائنز ایریا سے زندہ نہیں نکل سکتے تھے۔ اور پھر وہ کمرے میں فائر کیوں ہوا تھا۔ کوئی مرا تھا یا محض ڈرانے کے لیے پیٹر نے کیا تھا۔ویسے ایک بات یقینی تھی کہ اگر چاچا زندہ رہ گئے تو یا تو ہم دونوں کو شہر چھوڑنا پڑے گا یا بھیس بدل کر کوئی شرافت کی نوکری کرنی پڑ جائے گی۔ پیٹر سے پوچھنا تو بے کار تھا کیوںکہ وہ کچھ نہیں بتاتا اور میں اس کو اتنا جانتا بھی نہیں تھا۔ وہ تو نجانے کیوں اس نے مجھے اپنے ساتھ ملا لیا تھا نہیں تو میں بھی اس کمرے میں بندھا پڑا ہوتا۔

پیٹر کے اشاروں پر میں اسکوٹر کو دائیں بائیں گلیوں میں موڑتا رہا۔ لائنز ایریا سے میں اچھا خاصا واقف تھا۔ لیکن لگتا تھا کہ پیٹر نے کسی شکاری کتے کی طرح ان راستوں کو سونگھا ہوا تھا۔ اس نے مجھے ایسی ایسی گلیوں سے نکلوایا جن کے بارے میں گمان بھی نہیں کرسکتا تھا کہ ان کا آخری سرا کہاں پہنچتا ہے۔ ہم لوگ آہستہ آہستہ گورا قبرستان والے سرے کی طرف بڑھ رہے تھے۔

اب لگتا تھا کہ علاقہ میں ٹینشن تھوڑا کم ہوگیا ہے کچھ لڑکے چھتوں سے نیچے اتر آئے تھے اور گلی کے کونوں پر کھڑے تھے اور آپس میں باتیں یا مذاق کررہے تھے۔اور ابھی تک انھوں نے اسلحہ اٹھایا ہوا تھا اور ایسے میں ویسپا کی اگلی جالی میں سیون ایم ایم کی رائفل اڑس کر گزرنا خاصا معمول پر تھا۔ اس واسطے اب میں نسبتاً سکون سے اسکوٹر چلا رہا تھا۔

مین روڈ سے چند گلیاں پہلے اس نے اسکوٹر کو ایک ۸۰ گز کے خالی پلاٹ کے سامنے رکوایا جس کے برابر ایک چار منزلہ عمارت کھڑی تھی۔ اس عمارت کے پچھلے حصہ سے ایک دروازہ اس پلاٹ میں کھلتا تھا۔ یہ دروازہ دو سیڑھیاں اوپر چڑھ کر تھا اور ان کے بیچ میں موٹر سائیکل یا اسکوٹر وغیرہ چڑھانے کے لیے ایک چڑھائی بنی ہوئی تھی۔ اس نے چڑھ کر چابی سے وہ دروازہ کھولا۔ اس کے بعد مجھے اشارہ کیا کہ میں اسکوٹر اوپر چڑھا لوں اور ایک طرف ہٹ کر کھڑا ہوگیا، اسکوٹر اوپر چڑھانے میں اس نے میری کوئی مدد نہیں کی۔

میرے اوپر آجانے کے بعد اس نے پیچھے سے دروازہ بند کیا۔ دروازے کے برابر سے ایک تاریک زینہ اوپر کی طرف چڑھتا تھا۔ زینے پر قدم رکھتے ہوئے مجھے پیچھے آنے کو کہا۔ وہ زینہ خاصا تنگ اور تاریک تھا اور اس پر چڑھنا کافی مشکل۔ شاید دوسری یا تیسری منزل پر ایک بند و تاریک دروازے کے سامنے وہ رک گیا اور اس پر آہستہ سے دستک دی۔ کچھ دیر تک کوئی جواب نہیں آیا۔ اس نے پھر سے ذرا زور سے دروازہ کھٹکھٹایا۔ اندر سے کسی عورت کی دبی دبی سی آواز آئی جیسے کہ نیند جاگی ہو۔ یہ سن کر پیٹر نے پھر دروازہ پیٹا۔

’’کون…‘‘ اس بار آواز اونچی تھی، لیکن لگتا تھا کہ اپنے خوف کو چھپانے کے لیے ذرا زور سے بولی ہو۔ پیٹر خاموش رہا۔ تھوڑی دیر میں اندر کے کمرے میں بتّی روشن ہوئی۔ ’’کون ہے…‘‘ اس بار اس عورت نے ذرا پختہ لہجے میں پوچھا۔

’’دروازہ کھولو…‘‘ پیٹر نے آہستہ سے جواب دیا۔

اب اندر سے چٹخنی کی آواز آئی اور کسی نے دروازے میں سے باہر جھانکا اور پھر پیٹر کو سامنے کھڑا دیکھ کر دروازے کا پورا پٹ کھول دیا۔ پیٹر اندر داخل ہوا اور مجھے اندر آنے کا اشارہ کیا۔ لگتا تھا کہ وہ عورت گہری نیند سے اٹھ کر ابھی آئی ہے۔ بال کھلے ہوئے شانوں پر بکھرے تھے اور شاید گرمی کی وجہ سے اس نے کھلے گلے کا جمپر پہنا ہوا تھا۔ پیٹر کے پیچھے اس نے شاید مجھے نہیں دیکھا تھا۔ مجھے دیکھ کر وہ ذرا چونکی اور اپنے کھلے گلے کو محسوس کرتے ہوئے اس کے چہرے سے ایک بے چینی کی جھلک گزری۔ پھر وہ دو قدم پیچھے ہٹی اور اندر کمرے میں چلی گئی۔ باہر آئی تو اس نے اپنا سر اور بدن ایک چادر میں ڈھانپا ہوا تھا۔

اس کی نظر مجھ پر دوبارہ پڑی اور وہ پیٹر سے کچھ کہتے کہتے رہ گئی۔

پیٹر نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’یہ میرا دوست ہے…‘‘ اور پھر وہ رکا۔
’’واجد…‘‘ میں نے خود اپنا نام بتا دیا۔ کیوںکہ مجھے یقین نہیں تھا کہ اسے میرا نام بھی معلوم تھا یا نہیں۔
’’ہم لوگ ایک ایسی صورت حال میں پھنس گئے کہ ادھر ہی آنا پڑا… تمھاری چابی کام آگئی۔ وہ بات کرنے میں تھوڑا ہچکچا رہا تھا۔ ’’مجھے معلوم ہے تمھاری صورت حال… لیکن اصل میں…‘‘

پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوا۔ ’’یہ… یہ یاسمین ہیں… یہ میری… ایک جاننے والی ہیں۔‘‘ اور اب وہ یاسمین کی طرف پلٹا۔
’’ اچھا یہ بتائو… اگر صبح تک ہم رک جائیں تو کوئی پرابلم تو نہیں ہوگی…‘‘
میں پیٹر کی ہچکچاہٹ پر حیران تھا۔

یاسمین نے آہستہ سے سر ہلایا۔ اس کی شروع کی پریشانی اب کچھ قابو میں آئی جارہی تھی۔ ’’ایک منٹ رکو…‘‘ اس نے کہا۔ اور مڑ کر اپنے کمرے کے دروازے کے برابر ایک بند دروازہ کھولنے لگی۔ اندر ایک چھوٹا سا ڈرانگ روم تھا۔ بیچ میں ایک لکڑی کی میز، ایک طرف ایک بڑا صوفا اور میز کے اس طرف دو چھوٹے صوفے رکھے تھے جن کے ہتھے لکڑی کے تھے۔ سامنے کی طرف ایک دروازہ اور کھڑکی تھی جو لگتا تھا کہ کسی بالکنی میں کھلتے ہوں گے۔ کھڑکی کے آگے میز پر ایک ٹی وی رکھا ہوا تھا۔

’’… بیٹھو…‘‘ اس نے کہا۔ اس کے لہجے میں روانی آتی جارہی تھی۔ میں اندر جا کر ایک چھوٹے صوفے پر بیٹھ گیا اور پیٹر سامنے والے لمبے صوفے پر۔ یاسمین باورچی خانے میں چلی گئی، جو کہ برابر میں تھا۔ کچھ دیر پیٹر خاموش رہا۔ اس کے بعد وہ اٹھ کر بالکنی والا دروازہ کھول کر باہر کی طرف چلا گیا۔

اب میں کمرے میں اکیلا بیٹھا ہوا تھا۔ ایک لمحے کے لیے آج کے تمام واقعات میری آنکھوں کے سامنے سے گزرنے لگے۔ کہاں میں شام کو اس بلڈنگ کی چھت پر مورچہ سنبھالے بیٹھا تھا۔ تھوڑی دیر بعد مال کے بٹوارے کا حصہ ملنے والا تھا، کہاں اب نجانے کس کے فلیٹ کے ڈرائنگ روم میں تھا، اور اس بارے میں بالکل علم نہیں رکھتا تھا کہ صبح تک میرا کیا حشر ہوجائے لیکن ایک بات کے بارے میں تو مجھے یقین تھا… وہ یہ کہ اب چاچا ہمارا جینا مشکل کردے گا۔

تھوڑی دیر بعد پیٹر کمرے میں آیا۔ اس کے چہرے پر تھوڑی بے چینی تھی۔ ’’ابھی تک بہت خاموشی ہے…کچھ ہوا نہیں۔۔‘‘ اس نے کھڑے رہ کر مجھ سے کہا۔ پھر وہ دوبارہ بالکنی میں جھانکنے لگا۔

تھوڑی دیر بعد یاسمین کمرے میں داخل ہوئی۔ اس کے ہاتھ میں ایک ٹرے تھی، جو اس نے لا کر میز پر رکھ دی۔ اس میں ایک پلیٹ میں کچھ نمکین بسکٹ تھے اور دوسری میں چیوڑہ۔ اس نے پیٹر سے پوچھا۔ ’’کیا کھانا کھالیا ہے تم لوگوں نے…‘‘

میں دل ہی دل میں اس کی مہمان نوازی پر بہت ممنون ہوا۔ آج کی تمام گرما گرمی میں مجھے بالکل یاد نہیں رہا تھا کہ میں نے کھانا کب کھایا تھا۔
’’کچھ ہے تو لے آئو نہیں تو اس سے کام چلا لیں گے…‘‘ پیٹر بولا۔ پھر وہ کچھ رکا۔ ’’اچھا اور وہ چیزیں ہیں؟…‘‘

اس نے سر کو ہلکے سے جھٹکا دیا اور واپس چلی گئی۔ ایک منٹ کچھ سوچنے کے بعد پیٹر بھی اس کے پیچھے چلا گیا۔ کچھ دیر تک ان کی آپس میں بات کرنے کی آواز آتی رہی۔ اس کے بعد پیٹر نے آکر مجھ سے پوچھا ’’سفید… یا رنگین؟‘‘

’’کیا…‘‘ میرے منھ سے آپ ہی آپ نکلا۔
’’سفید پیتے ہو… یا رنگین؟‘‘
’’اوہ… کوئی بھی۔‘‘ اس وقت شراب شاید آخری چیز تھی جس کی طرف میرا دھیان جاتا۔ میں نے سوچا۔
کچھ کہے بغیر وہ چلا گیا۔ جب واپس آیا تو اس کے ہاتھوں میں ایک لنڈن جن اور ٹھنڈے پانی کی بوتلیں تھیں۔ ’’برف؟‘‘ اس نے مجھ سے پوچھا۔
’’نہیں، ٹھیک ہے…‘‘ میں نے اپنے طور پر کچھ تکلف کرتے ہوئے کہا۔ وہ پھر چلا گیا۔ اب کے واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں دو گلاس تھے۔
’’برف ویسے تھی بھی نہیں۔‘‘ اس نے بیٹھتے ہوئے مسکرا کر کہا… اور یہاں پر صرف سفید مال ہی تھا…‘‘
میں جواب میں تھوڑا مسکرایا۔ کیا شخص ہے یہ بھی، میں نے اپنے دل میں سوچا۔

’’بوتل دیکھنا…‘‘ یہ کہہ کر اس نے جن کی بوتل اٹھائی اور میرے قریب رکھے ہوئے گلاس میں آہستہ آہستہ انڈیلنے لگا… اور رکا نہیں… ’’بس بس…‘‘ میں نے جیسے کہ نیند میں سے جاگ کر کہا جب وہ میرا گلاس تقریباً آدھا بھر چکا تھا۔

’’پانی؟…‘‘ اس نے پوچھا۔
میں نے مسکر ا کر گھبراتے ہوئے گردن ہلائی۔ اس نے میرا گلاس پانی سے بھر دیا۔ اس کے بعد اس نے اپنا گلاس بھی تقریباً آدھا جن سے بھر دیا اور پھر گلاس ہاتھ میں اوپر اٹھاتے ہوئے کہا ’’السلام علیکم…‘‘ اور پھر وہ رک گیا جیسے کہ میرا انتظار کررہا ہو۔

مجھے ایک لمحے کے بعد سمجھ میں آیا کہ اس کا کیا مطلب تھا۔ مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ یہ شخص واقعی مسلمان نہیں ہے۔ حالاںکہ میں شراب پیتا تھا لیکن مجھے لگا کہ اس نے میرے مذہب کا مذاق اڑایا ہے۔ لیکن وہ مذہبی بحث کا وقت نہیں تھا۔ میں نے اپنے گلاس کو آہستہ سے اٹھایا۔ گردن کو خفیف سا جھٹکا دیا اور پہلا گھونٹ لے لیا۔ اس نے ایک لمبے گھونٹ میں اپنا گلاس تقریباً آدھا کردیا۔ کچھ دیر رکنے کے بعد میں نے اس سے پوچھا۔ ’’تمھارا تعلق کہاں سے ہے؟‘‘

مجھے دیکھ کر وہ مسکرایا اور اس نے ایک چھوٹا گھونٹ لیا۔ ’’یہیں کہیں، اسی کسی گلی کوچے، شہر سے‘‘۔ میری طرف دیکھ کر اس نے جواب دیا اور پھر منھ پھیر کر باہر گیلری کی طرف دیکھنے لگا۔ ایک لمحے بعد وہ پلٹا اور پورا گلاس غڑپ کرگیا۔ مجھے لگا کہ اس کو شاید میرا یہ سوال پسند نہیں آیا تھا۔ پھر اس نے جن کی بوتل دوبارہ اٹھائی اور اپنا گلاس بھرا۔ پھر میرے گلاس کی طرف بوتل کا رخ کرکہ پوچھا…’’ اور نکال دوں…؟‘‘

میں نے اپنے گلاس سے اس وقت تک صرف ایک گھونٹ پیا تھا۔ وہ تقریباً بھرا ہوا ہی تھا۔ میں مسکرایا اور ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا۔ لگ رہا تھا کہ اسے ابھی سے چڑھنے لگی ہے۔

پھر جیسے کہ ایک دم سے خیال آیا ہو۔ وہ اٹھ کر باورچی خانے کی طرف چلا گیا۔ جب واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک گلاس تھا جس میں برف تھی۔ اس گلاس کو میز پر رکھ کر اس نے پھر اپنا گلاس اٹھا لیا اور مجھے اشارے سے کہا ’’پیو…‘‘

مجھے خیال آیا کہ تھوڑی دیر پہلے تو اس نے مجھ سے کہا تھا کہ برف نہیں ہے۔ اب یہ برف کہاں سے آگئی؟ لیکن اس بات کو میں نے نظر انداز کردیا۔

۔تھوڑی دیر ہم دونوں خاموش بیٹھے رہے پھر وہ بولا۔ ’’تمھیں کتنا حصہ چاہیے…‘‘
’’کیا…؟‘‘ مجھے اس کا سوال سمجھ میں نہیں آیا۔
لیکن ایک لمحے بعد مجھے خیال آیا کہ اس کا اشارہ آج کے مال کی طرف ہے۔ میں خاموش ہو کر سوچ میں پڑ گیا۔
اس نے زیادہ انتظار نہیں کیا۔ مذاق کے انداز میں اس نے پوچھا ’’کیا کچھ نہیں چاہیے…؟‘‘ ۔
’’تمھارے حصے میں کتنے پیسے تھے‘‘ پھر اس نے آہستہ سے سوال کیا۔
مجھے خیال آیا کہ ابھی تک اپنے مال کو گننے کی طرف میرا دھیان نہیں گیا تھا اور یہ بات شاید میری شکل سے بھی عیاں ہوگئی۔
’’باہر جا کر گن لو…‘‘ میں اس کی بات مانتا ہوا اٹھ کر باہر چلا گیا اور لفافے میں سے پیسے نکال کر انھیں گننے لگا۔ ساتھ ہی مجھے اس بات پر حیرت بھی تھی کہ اس نے کس طرح مجھ پر بھروسا کرکہ مجھے باہر جانے کو کہہ دیا۔

جب میں واپس آیا تو خاصا مایوس تھا۔ صوفے پر بیٹھنے کے بعد میں نے اسے جواب دیا ’’ستر…‘‘ مجھے خود یقین نہیں آرہا تھا کہ چاچا نے اتنے کم پیسے دیے تھے۔ ’’مجھے سوا تین ملے…‘‘ اس نے خاموش لہجے میں جواب دیا۔

مجھ میں اس وقت اتنی ہمت نہیں تھی کہ اس سے پوچھوں کہ یہ تمام پیسے وہ تھے جو اسے ملے تھے یا اس نے چاچا سے چھینے تھے یا یہ کہ اس نے قادر اور راشد کا مال بھی کھینچا تھا۔ ’’سوا میں تم کو دے دوں گا…‘‘ اس نے اتنے ہی خاموش لہجے میں کہا۔

ہم دونوں کچھ دیر خاموش بیٹھے رہے۔ پھر یاسمین کمرے میں آگئی اور پیٹر سے کچھ دور لمبے صوفے پر بیٹھ گئی۔ برف والا گلاس اس کے تقریباً سامنے رکھا ہوا تھا۔ پیٹر نے اس میں جن انڈیلنا شروع کی اور ابھی تھوڑی ہی ڈالی ہوگی کہ یاسمین نے ہاتھ سے اشارہ کیا ’’…بس بس…‘‘

اب ہم تینوں کچھ دیر خاموش بیٹھے رہے۔ یاسمین نے اپنے گلاس سے ہلکی سی چسکی لی۔ اس کی آنکھیں ابھی تک بوجھل اور تھکی ہوئی تھیں۔
مجھے یہ صورت حال بہت عجیب لگ رہی تھی۔ اس بات سے میں ضرور خوش تھا کہ مجھے سوا لاکھ اور مل جائیں گے۔ لیکن آپ ہی آپ اس شخص نے کس طرح مجھے پیسے دینے کا اظہار کردیا؟ اور پھر یہ عورت کون تھی جو کہ رات گئے بن بلائے نوواردوں کے ساتھ بیٹھ کر شراب پی رہی تھی۔
کچھ دیر میں اس نے پیٹر سے کہا۔ ’’آج دن میں محلے سے حلیم آیا تھا… ابھی گرم ہورہا ہے…‘‘
’’حلیم؟… واہ‘‘ میں نے دل میں سوچا۔ پیٹر نے کوئی جواب دیا۔
’’وہیں جارہی ہو اب بھی… طارق روڈ پر جو بیوٹی سینٹر تھا…‘‘
’’ہاں…‘‘ یاسمین نے خفیف سا سر ہلایا۔
’’کچھ… بات بنی یا ابھی تک وہی صورت چل رہی ہے…‘‘
’’وہی…‘‘ یاسمین نے پھر خاموش لہجے میں جواب دیا۔
’’ویسے میں نے کاظم سے بات کرلی ہے… پچھلے ہفتے… ٹائم نہیں ملا نہیں تو تمھیں ایک آدھ دن میں کونٹیکٹ کرتا…‘‘

یاسمین کی خاموشی ہلکے غصے میں بدلی ۔ ’’ایک آدھ دن میں؟ ۔۔۔۔۔ دو مہینے سے خبر نہیں کہ تم زندہ ہو یا مر گئے۔۔۔۔۔۔۔ اور مجھ سے کہتے ہو کہ ایک آدھ دن میں کونٹیکٹ کرتے ۔۔۔۔۔۔۔‘‘۔

’’ارے تم کو معلوم ہے کہ میرا زندہ رہنا… موت سے کوئی زیادہ بڑھ کر نہیں ہے…‘‘ اس کا یہ جواب تھوڑا ڈرامائی تھا۔ پھر اس نے ایک لمبا گھونٹ لیا اور آہستہ سے مسکرایا۔’’ تمھیں معلوم ہے کہ خدا پر مجھے اس لیے یقین نہیں ہے۔ کیوںکہ میں مرتا نہیں ہوں…‘‘

مجھے پھر اس کی یہ بات تھوڑی بے تکی محسوس ہوئی۔ لیکن میں خاموش رہا اور یاسمین کی طرف سے کسی جواب کا انتظار کرنے لگا۔ وہ تھوڑی سی اور آزردہ نظر آئی، مجھے لگا کہ اس کی تھکی آنکھوں میں ایک آنسو ہلکے سے تیرا ہو۔ لیکن وہ خاموش رہی اور اس نے بھی اپنا گلاس اٹھا کر ایک گھونٹ لیا۔ کچھ دیر وہ بیٹھی رہی پھر اٹھ کر اندر باورچی خانے میں چلی گئی۔

واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں ایک اور ٹرے تھی جس میں دو خالی پلیٹیں، ایک چھوٹی پلیٹ میں نیبو، ہری مرچیں اور پودینہ اور ایک چینی کے برتن میں حلیم تھا۔ یہ ٹرے اس نے لاکر ہمارے سامنے رکھ دی اور خود صوفے پر اپنی جگہ بیٹھ گئی۔

پیٹر نے وہ ٹرے میری طرف بڑھا دی تاکہ پہلے میں نکالنا شروع کروں۔ میں نے ایک پلیٹ اٹھا کر اس میں تھوڑا حلیم نکالا۔
’’کیا بات ہوئی؟… کاظم سے؟‘‘ یاسمین نے پیٹر سے پھر پوچھا۔
’’اس نے کہہ دیا ہے کہ کوئی مسئلہ نہیں… زمزمہ پر جو اس کا پارلر ہے وہاں چلی جائو… اور شاید اس کے فلیٹ میں جگہ بھی ہو۔
’’فلیٹ کہاں ہے اس کا۔‘‘
’’تین تلوار کی طرف…‘‘
’’اور پیسے کتنے دے گا؟‘‘
’’یہاں سے بہتر ہی مل جائیں گے… اور پھر اس کے جاننے والے اتنے لوگ ہیں شاید کوئی مال دار پارٹی پھنس جائے۔‘‘

یاسمین نے مزید کوئی سوال نہیں پوچھا۔ ہم لوگ خاموشی سے حلیم کھاتے رہے۔ کھانے کے درمیان میں بہ مشکل اپنا گلاس آدھا کرپایا، میں کبھی بھی پینے پلانے میں ماہر نہیں رہا ہوں۔ پیٹر نے اپنا دوسرا گلاس بھی ختم کردیا۔ یاسمین بھی آہستہ آہستہ پیتی رہی۔ بیچ میں اٹھ کر وہ ایک پانی کی بوتل اور گلاس اور لے آئی تھی۔

کھانے کے دوران پیٹر حلیم کی تعریفیں کرتا گیا جو اتنا برا نہیں تھا۔ لیکن میرے حساب سے مرچیں زیادہ تھیں۔ کھانا ختم کرکہ پیٹر نے ڈھیر سارا …کم از کم تین گلاس پانی پیا۔ اتنی مرچوں کے بعد پیاس مجھے بھی لگ گئی تھی۔ یاسمین نے پلیٹیں سمیٹ کر ایک طرف کردیں لیکن اٹھائی نہیں۔

کچھ دیر پیٹر باہر گیلری کی طرف دیکھتا رہا، پھر یاسمین سے مخاطب ہوا ’’… اور کیا ہورہا ہے یار۔‘‘ یاسمین کا گلاس تقریباً ختم ہوچکا تھا پیٹر نے جن کی بوتل اٹھائی اور اس کے گلاس میں تھوڑی انڈیلی۔ گلاس میں ابھی بھی برف کی کچھ ڈلیان باقی تھیں۔ گلاس آدھا لبریز ہونے کے بعد پیٹر رک گیا اور پانی کی بوتل کی طرف ہاتھ بڑھانے لگا لیکن یاسمین نے اشارے سے روک دیا۔

’’تم اب بھی اکیلے نہیں پیتیں؟‘‘ اس نے یاسمین سے مسکرا کر پوچھا۔
یاسمین نے خاموشی سے گردن ہلائی۔ میرے دماغ میں حیرت کی بتیاں ایک بار پھر جل گئیں کہ یہ عورت نیٹ شراب بھی پیتی ہے۔ لیکن پیٹرنے اپنے اسٹائل کے مطابق اس بات کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔

’’ویسے ابھی تمھارے پاس مال تو بچا ہوا ہے… میں راجا سے کہہ دوں گا کہ کچھ اور اسٹاک ڈال دے…‘‘
یاسمین خاموش رہی۔ ہم لوگ خاموش بیٹھے رہے۔ میرا گلاس ختم ہوگیا۔ میں نے خود بھر لیا۔ پیٹر نے ایک اور پیگ بھی ختم کرلیا۔ یاسمین اپنے دوسرے کے اختتام پر پہنچی۔ ’’اور تمھارے ساتھ کیا چل رہا ہے؟‘‘ اس نے اب پیٹر سے پوچھا۔ اس کے انداز میں نشہ اترتا آرہا تھا۔ نیٹ جن نے اپنا کام تیزی سے دکھایا تھا۔

’’کچھ نہیں… وہی…‘‘ وہ دونوں مجھے اب خاصے نشے میں آتے ہوئے لگ رہے تھی۔ کچھ دیر دونوں خاموش رہے پھر پیٹر نے بات کا رخ ایک دم موڑ دیا۔ ’’چاچا سالے کا دماغ خراب ہوگیا… کہتا تھا سالا کہ ہم اب اس کی تین ہزار روپیہ جیسی نوکری پر آجائیں…‘‘
’’اچا!… تو پھر… تو پھر کیا ہوا…‘‘ یاسمین نے تھوڑے دھیان سے پوچھا۔
’’کچھ نہیں… سالے کو ٹائٹ کردیا…‘‘
’’کیا؟… کیا کردیا؟‘‘ یاسمین نے اس بار پریشانی سے پوچھا۔
’’ارے یار کچھ نیا نہیں کیا! … سالے کو اس بار ٹائٹ کردیا… آگے دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔‘‘

یاسمین خاموش ہوگئی، جیسے کہ وہ بات سمجھ گئی ہو۔ اس کی آنکھوں میں ایک افسردگی آگئی۔ میری موجودگی سے اب وہ بالکل بے پرواہ لگ رہی تھی۔ ’’تم کیوں اس طرح ہوگئے ہو…‘‘ پھر اس نے پیٹر سے کہا۔ ’’منّور کی موت کے بدلے تم کب تک لو گے؟…‘‘ وہ تقریباً روہانسی تھی۔ اس نے بات کا رخ ماضی کے واقعات کی طرف موڑ دیا تھا، جن کے بارے میں مجھے کوئی علم نہ تھا۔

’’منّور کو مارنے والے کب کے مرچکے ہیں… لیکن اس کو ان چند لوگوں نے نہیں مارا، بلکہ ایک زمانے نے مارا ہے۔۔۔۔ پورے زمانے نے ۔۔۔۔‘‘ اس نے ہنس کر کہا۔ مجھے لگا کہ اب پیٹر کے شراب کا پیمانہ اتنا ہوچکا ہے کہ وہ اب سوائے مسکرانے کے اور کچھ نہیں کرسکتا ہے۔

یاسمین اس کا جواب سن کر خاموش رہی۔ جیسے کہ اس بار وہ اپنے جذبات کو اپنے پر حاوی نہیں ہونے دینا چاہتی تھی۔’’ تمھارا دماغ چل گیا ہے…‘‘ اس نے اتنا جواب دیا۔

’’اتنا تو نہیں چلا ہے جتنا تمھارا چلاہے۔‘‘ پیٹر نے ترنت جواب دیا۔ ’’چلو میرے پاس تو یہ سب کچھ کرنے کا بہانہ ہے… تمھارے پاس کیا ہے… تم نے کس واسطے اپنا دھندا چلایا ہوا ہے؟…‘‘

میں پیٹر کی اس بات پر چونکا۔ میرا خیال تھاکہ یاسمین کسی سخت ردعمل کا اظہار کرے گی۔ لیکن اس نے نہیں کیا۔ بلکہ بہت ہموار لہجے میں بولی۔ ’’میرے پیشے پر یوں طعنے نہ کسو… یاد ہے۔ اس کی وجہ سے پہلی بار تمھاری جان بچی تھی…‘‘ پھر وہ سکون میں آگئی۔ جیسے کہ پیٹر کے ساتھ اس کا تمام جھگڑا ختم ہوگیا ہے۔

پیٹر بھی خاموش رہا۔ مجھے ان دونوں کے درمیان بیٹھ کر خاصا عجیب لگ رہا تھا۔ لیکن یہ آج کے دن میں ہونے والی پہلی عجیب بات نہیں تھی۔ یاسمین کا گلاس ختم ہوگیا تھا۔ اس نے اس بار اپنے لیے خود پیگ بنایا اور اس میں تھوڑا پانی بھی ڈالا۔ پھر اس نے پیٹر کے لیے بھی پیگ بنایا۔
پیٹر باہر گیلری کی طرف دیکھنے لگا۔ ’’بڑی دیر ہوگئی… ابھی تک کچھ نہیں ہوا۔‘‘ اس نے باہر دیکھتے دیکھتے کہا۔
میرا خیال تھا کہ آج رات کے چھاپے کی خبر ہم لوگوں نے خود پھیلائی تھی تاکہ تھوڑی حفاظت میں ہمارا کام ہوجائے۔
’’کیا رینجرز والے اندر علاقے میں آنے والے ہیں۔‘‘ میں نے ذرا مذاق کے انداز میں پوچھا۔
’’رینجرز…؟‘‘ اس نے یوں کہا کہ جیسے وہ کسی اور بات کے بارے میں سوچ رہا ہو۔ ’’ہاں ہوسکتا ہے، بعد میں ان کو بھی آنا پڑے۔‘‘
اب شراب کا اثر میرے دماغ میں سرایت کرچکا تھا اور شروع کی پریشانی اور خوف اب تحلیل ہوچکے تھے۔
’’تم نے تنظیم کب جوائن کی…‘‘ میں نے اس سے اب پوچھا۔
’’ابے یہ تو میرا دھندا ہے… تنظیم کہاں سے آئی…‘‘
’’تو دھندے میں تنظیم نہیں ہوسکتی…‘‘ میں نے مسکرا کر اسے جواب دیا۔
’’ہاں وہ تو ہوسکتی ہے…‘‘ وہ بھی ہنسا۔

پھر ہم یوں ہی تھوڑا مذاق کرتے رہے۔ میرا پیگ ختم ہوگیا۔ یاسمین کا بھی اختتام کے قریب آیا۔ ہماری باتوں میں اس نے حصہ تو نہیں لیا، لیکن اس کا دل تھوڑا بہل گیا۔ پیٹر تقریباً دو اور پی گیا۔ اب وہ پورے موڈ میں آگیا تھا اور بہت زور زور سے ہنس رہا تھا۔ لیکن اس کی زبان خاصی صاف تھی، نہیں تو میرا خیال تھا کہ اب تک اس کو مغلّظات پر اتر آنا چاہیے تھا۔

کچھ دیر بعد یاسمین اٹھنے گی۔ اس نے پیٹر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’تو پھر تمھارا کیا پروگرام ہے… مجھے بہت نیند آرہی ہے۔ میں سونے جارہی ہوں…‘‘
کیوں؟ اور نہیں پیو گی…‘‘ اس کے گلاس کی طرف پیٹر نے ہاتھ بڑھایا۔
’’نہیں… میں جارہی ہوں… تم آئو گے؟‘‘
’’نہیں… ابھی تو میں بیٹھا ہوں…‘‘ پیٹر نے بغیر کسی ردعمل کے کہا۔‘‘ تھوڑی دیر میں دیکھتا ہوں۔ ویسے بھی صبح تک مجھے جانا ہے…‘‘
یاسمین خاموش ہو کر چلی گئی۔ پیٹر نے اس کے جانے کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ ہم لوگ پھر باتوں میں لگ گئے۔ بیچ میں ایک آدھ بار پیٹر نے اپنی حیرت کا اظہار کیا کہ ابھی تک کوئی شور ہنگامہ کیوں نہیں شروع ہوا۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ کیوں یہ توقع کررہا ہے۔

رات کے تقریباً تین بج چکے تھے۔ پیٹر کا شراب کا پیمانہ کافی دیر پہلے لبریز ہوچکا تھا۔ اس لیے اس نے کافی دیر سے اپنا گلاس نہیں بھرا تھا۔ میں پینے پلانے میں اتنا ماہر نہیں تھا اس لیے مجھے اپنے پیمانے کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا۔ میرے گلاس آہستہ آہستہ آگے بڑھے جارہے تھے۔ لیکن پیٹر سے ابھی بھی میں کوسوں دور تھا۔

پھر یکایک باہر کے سناٹے کو پھاڑتی ہوئی کلاشن کوف کے ایک برسٹ کی آواز بلند ہوئی اور کچھ دیر تک جاری رہی۔ پھر وقفے وقفے سے اور برسٹ چلے، یہ لڑکوں کے لیے اشارے تھے۔ پھر جیسے پورا علاقہ فائرنگ کی آوازوں سے گونج اٹھا۔

پیٹر خوشی سے اچھل پڑا اور میں حیرت سے ۔ کیوںکہ میرا خیال تھا پیٹر یوں ہی تفریح میں کسی ہنگامے کا انتظار کررہا تھا۔ اب پتا چلا کہ یہ ذرا سیریس قسم کی تفریح تھی۔ ہم لوگ باہر گیلری میں چلے گئے۔ پیٹر نے چاچا کے مکان کی سمت اشارہ کیا زیادہ تر آواز ادھر سے آرہی تھی۔ یا تو ہماری واردات کی خبر اب محلے میں پھیلی تھی یا پیٹر کو معلوم تھاکہ وہاں کیا ہورہا ہے، یا ان لڑکوں کو جو فائرنگ کررہے تھے۔ پیٹر کچھ نہیں بول رہا تھا اور اس صورت حال میں، میں لڑکوں سے معلوم نہیں کرسکتا تھا۔

اب لگ رہا تھا کہ علاقے کے باہر سے رینجرز نے بھی فائرنگ شروع کردی تھی۔

ہم لوگ اندر آگئے۔ ابھی تک میں اسی کے احکام پر چل رہا تھا جیسے کہ میں نے اس کو اپنا لیڈر مان لیا ہے۔ پیٹر اب بہت خوش تھا۔ اس نے اپنے لیے ایک اور پیگ بنایا۔ میرا پیگ ابھی آدھا بھرا ہوا تھا۔ اس کی خوشی کی وجہ میری سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ ا اس نے جیسے اس وجہ کو سمجھانے کی خاطر بولنا شروع کیا۔

’’جب میں پہلی بار جیل گیا تھا… اس سے زیادہ برا وقت مجھ پر نہیں گزرا…‘‘ اس کا لہجہ ایک دم بہت سنجیدہ اور تکلیف بھرا ہوگیا۔ انھوں نے ہمارے اوپر کوئی لمبا چوڑا سازش اور بغاوت کا کیس بنایا تھا… ہماری پوری تنظیم ہی جیسے ایک دم اندر ہوگئی تھی…‘‘ تنظیم کا لفظ کہتے ہوئے وہ ہلکے سے مسکرایا بھی۔ ’’میں بھی ان میں شامل تھا… انھوں نے سب کو ایک ساتھ پکڑ لیا تھا۔ نہ ایک لڑکا زیادہ تھا، نہ ایک کم۔ جیسے کہ پوری نفری کا انھیں پہلے سے علم تھا۔

… پہلے دو ہفتے جب تک وہ میری انٹروگیشن کرتے رہے۔ انھوں نے مجھے سونے نہیں دیا۔ باقی خوف و ہراس ڈرانا دھمکانا اپنی جگہ مگر رات کو اکثر وہ مجھے اٹھا دیا کرتے تھے۔ آنکھوں میں تیز ٹارچیں ڈال کر منھ پر ٹھنڈا پانی چھڑک کر میرا نام لے کر پوچھتے تھے اعجاز… بتا… بتا… تیری بہن کا نام کیا ہے… بہن کا نام بتا…‘‘ مجھ سے وہ میری بہن کا نام پوچھتے تھے۔ سوچو تو ذرا۔ نہ جانے وہ کیا کرتے اس کے ساتھ… یقین کرو، میں رو دیتا تھا اور کہتا تھا… مجھے نہیں معلوم۔ مجھے نہں معلوم… میں نے اس کو ہمیشہ آپا کہا ہے… مجھے نہیں معلوم آپا کا اصل نام کیا ہے…‘‘ یہ کہہ کر پیٹر سسکیاں لے کر رونے لگا۔ چند منٹ تک اس کی آنکھوں سے آنسو آتے رہے۔

میں اس کو دم بخود دیکھتا رہا۔ تھوڑی دیر میں اس کی حالت بہتر ہوئی اور اس نے اپنا پیگ ختم کیا۔ ’’چلیں اب…‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ اٹھ گیا۔
میں بھی اس کے ساتھ اٹھا۔ ’’تمھارا نام پہلے اعجاز تھا…‘‘ میں نے اس سے پوچھا۔
’’میرا نام اب پیٹر ہے… اور بس۔‘‘ اس نے ذرا زور سے جواب دیا۔

باہر آکر اس نے یاسمین کے کمرے کے دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’اوہو مجھے اس کو چند نمبر وغیرہ دینے تھے… چلو بعد میں دے دوں گا…‘‘۔ پھر ہم لوگ سیڑھیوں سے نیچے اترے۔ میں ویسپا کی طرف بڑھا۔مگر اس نے روک دیا۔ ’’اسے چھوڑ دو۔ اس کو لے جا کر پھنس جائیں گے … میں بعد میں آکر اس کو اٹھا لوں گا…‘‘

باہر نکل کر وہ کہنے لگا ’’ آج میں نے چاچا سے بھی اس کی بہن کا نام پوچھا تھا… چاچا کی دو بہنیں ہیں… اس نے دونوں کے نام بتا دیے…‘‘ یہ کہہ کر پیٹر نے قہقہہ لگایا۔

علاقہ میں اب عجیب صورت حال تھی۔ فائرنگ رک گئی تھی۔ لڑکے گلیوں میں کھڑے ہوئے تھے اور ایک عجیب پریشانی اور گہماگہمی تھی۔ ہم لوگوں نے اپنی کلاشن اور سیون ایم ایم اٹھائی ہوئیں تھیں۔ لیکن لڑکے عموماً خالی ہاتھ تھے۔ پھر ایک بھگدڑ سی مچی اور لڑکے گھروں میں جانے اور ادھر ادھر ہونے لگے۔ ہم ایک کھڑی ہوئی ویگن کے پیچھے چھپ گئے۔ ایک دو منٹ میں رینجرز کے دو ٹرک تیزی کے ساتھ وہاں سے گزرے۔ یہ محاصرے اور تلاشی کا انداز نہیں تھا لگتا تھا انھیں کہیں پہنچنے کی جلدی ہے۔ ان کے جانے کے بعد پیٹر کہنے لگا

’’چلو اچھا ہے… اس کنفیوژن میں یہاں سے باہر نکلنا اتنا مشکل نہیں ہوگا… تمھارا اب کیا پروگرام ہے…‘‘ اس نے مجھ سے پوچھا۔

’’کچھ نہیں…‘‘

’’ٹھیک ہے پھر میں نکلتا ہوں…‘‘ یہ کہہ کر اس نے ہاتھ ڈال کر اپنے کرتے کے نیچے سے ایک لفافا نکال کر مجھے دیا۔ اس میں شاید آج کے پیسے تھے۔ میں جن کے بارے میں تقریباً بھول ہی چکا تھا۔ اس وقت میں نے انھیں نہیں گنا۔ گلی کے کونے پر پہنچ کر ہم دونوں اپنے اپنے راستے پر ہولیے۔

پیٹر نے ٹھیک اندازہ لگایا تھا۔ اس وقت ہمیں وہاں سے نکلنے میں زیادہ مشکل نہیں پیش آئی۔

اگلے روز میں نے اخبار دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس رات واقعی چاچا کو کسی نے ٹائٹ کردیا تھا۔ اتنا ٹائٹ کہ مجھے دو تین ماہ کے لیے بالکل انڈر گرائونڈ جانا پڑا۔ لیکن پھر حالات بدلے اور جو لوگ مجھ پر شک کرسکتے تھے وہ منظر پر نہیں رہے۔ میں پھر منظر پر آگیا۔ لیکن پیٹر کی مجھے پھر کوئی خبر نہیں ملی۔ میں یاسمین کے فلیٹ پر بھی گیالیکن وہاں اب کوئی اور رہتا تھا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں