منگل، 22 جولائی، 2014

ندیم سالا


’’ندیم سالے کو نوکری مل گئی۔۔۔‘‘ اسماعیل نے سگریٹ کا ایک گہرا کش لیتے ہوئے کہا اور دیر تک دھوئیں کو اپنے سینے میں بھینچے رکھا۔ جیسے کہ میرے حیرت سے پھٹ پڑنے کا انتظار کر رہا ہو۔
’’اچھا۔۔۔واقعی۔۔۔‘‘ اور بہت جلد میں حیرت سے پھٹ پڑا۔’’۔۔۔کہاں؟‘‘
’’ریلوے میں ۔۔۔‘‘ اس نے ایک دم کہا۔
اور اس کے پھیپھڑوں میں سمایا ہوا دھواں ناک کے دونوں نتھنوں سے ایک موٹے دھارے کی مانند نکلا اور نیچے کاؤنٹر کے شیشے پر پھیل گیا۔ ’’ریلوے میں؟۔۔۔‘‘ میں نے اس کی بات دہرائی۔
’’ ریلوے میں ۔۔۔‘‘ اسماعیل سر ہلا کر ہلکے سے مسکرایا۔ ظاہر تھا کہ اس کو بھی ابھی تک یقین نہیں آیا تھا۔
’’کیسے،۔۔۔‘‘
’’اُسی نے دلوائی۔۔۔‘‘ اسماعیل نے دوکان کے شیشہ کے باہر اشارہ کیا۔ دوسرے ہاتھ سے رجسٹر اٹھا کر صفحے پلٹنے لگا۔
میرے ہاتھ میں جو وڈیو کیسٹ تھے میں نے کاؤنٹر پر رکھ دے۔
’’کس نے ؟۔۔۔ ‘‘ میں نے دوکان کے شیشے کے بارے سڑک کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
سڑک کے اس پار چوراہے کے قریب پولیس کی ایک موبائل آکر کھڑی ہوگئی تھی، اور پولیس کے دو باوردی سپاہی سڑک کے بیچوں بیچ کلاشنکوف لئے کھڑے تھے۔
میں نے دل ہی دل میں ایک موٹی سی گالی دی۔
’’وہی جونیلی کار میں جو آتی ہے۔۔۔‘‘ اسماعیل نے کہا۔
’’اور بلو فلمیں لے جاتی ہے۔۔۔‘‘ میں نے فقرہ مکمل کرتے ہوئے قہقہہ لگایا۔
’’واہ یار۔۔۔ زبردست۔۔۔ ندیم سالا بھی فنکار ہے۔۔۔ تو کیا۔۔۔ اس لڑکی کے باپ نے لگوائی نوکری؟۔۔۔ ‘‘ میں نے سوال پوچھا، اور پھر خود ہی اپنا جواب دیتے ہوئے بولا۔’’وہ سالا اس کے باپ کے پاس پہنچ گیا ہوگا۔۔۔ کہ تیری لڑکی ایسی فلمیں دیکھتی ہے۔۔۔ لگوا میری نوکری ۔۔۔ورنہ ؟۔۔۔ ہم دونوں مل کر ہنسے۔
اسماعیل نے ایک نظر ان وڈیوکیسٹوں کو دیکھا جو میں نے کاؤنٹر پر رکھے تھے اور اپنے رجسٹر کے کسی صفحے پر ان کی واپسی کا اندراج کرنے لگا۔
’’دکھانا ذرا۔۔۔‘‘ میں نے اس کے رجسٹر کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’دیکھو تو آخری بار وہ کون سی فلم لے کر گئی تھی۔۔۔‘‘
اسماعیل سر اٹھا کر مسکرایا’’دیکھ لو۔۔۔ مگر وہ سالا اس کی فلموں کی انٹری نہیں کرتا۔‘‘
میں نے ہنستے ہوئے سر ہلایا ’’بڑا بدمعاش ہے سالا۔۔۔‘‘ اور ایک نظر چوراہے کی طرف پھر دیکھا۔ پولیس والے کسی اسکوٹر والے کو روک رہے تھے میں نے اپنے دائیں ہاتھ سے کرتے کی جیب ٹٹولی، اپنی موٹر سائیکل کے کاغذات میں گھر بھول آیا تھا۔ مجھے ایک ہلکا سا دھچکا لگا۔
’’یہ۔۔۔ پھر پبلک کو تنگ کرنے آگئے۔‘‘ میں نے ان پولیس والوں کو ایک موٹی سی گالی دتے ہوئے میں نے کہا۔
اسماعیل نے ایک نظر چوراہے کی طرف ڈالی’’۔۔۔کیوں کیا کاغذات نہیں ہیں کیا؟۔۔۔‘‘ وہ دھیمے سے مسکرایا ’’۔۔۔بیٹھ جا اب۔۔۔ جلدی کیا ہے جانے کی ۔۔۔‘‘ اور اس نے ایک اسٹول کی طرف اشارہ کیا۔
بیٹھتے ہوئے میں نے کاؤنٹر پر سے ایک رجسٹر اٹھا لیا اور اس کے صفحے پلٹنے لگا۔ ’’دیکھا یار۔۔۔ کسی ایسی بندی کا پتہ دے جس کا باپ مجھے بھی نوکری دلائے۔۔۔‘‘ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔ اسماعیل اپنی کالی گھنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتا ہوا مسکرا یا۔
’’بیٹا دیکھتا رہے۔۔۔ کچھ نہیں ملے گا۔۔۔‘‘
’’اگر تجھے پتے چاہئے تو دو چار کے میں بھی دے سکتا ہوں لیکن ملے ملائے گا کچھ نہیں، نہ چھوکری ملے گی۔۔۔ اور نوکری؟۔۔۔ ہا ۔۔۔ ہا۔‘‘ وہ ہنسا۔’’بھول جا!۔‘‘
پھر اس کی زبان سے بے ساختہ نکلا۔’’ابے!۔۔۔ ‘‘ وہ شیشے کے باہر چوراہے کی طرف دیکھ رہا تھا۔
باہر پولیس والوں نے ندیم سالے کو روکا ہوا تھا۔ وہ اس کی تلاشی لے رہے تھے۔
’’ابے۔۔۔‘‘ میرے منہ سے بھی بے ساختہ نکلا۔’’۔۔۔ سنا تھا کہ بڑی بات تھی سالے کی ۔۔۔ اب تلاشی دے رہا ہے ۔۔۔اور وہ بھی اپنی ہی گلی میں۔۔۔‘‘ میں نے قہقہہ لگایا۔
’’زمانہ یہ ہی آگیا ہے۔۔۔ بڑے بدمعاشوں کی بھی کوئی عزت نہیں بچی ہے۔۔۔‘‘ اسماعیل بھی ہنسا۔
کچھ دیر بعد ندیم سالا گردن ہلاتا ہوا دوکان میں داخل ہوا۔ اس کی شکل سے اتنی مسکینی ٹپک رہی تھی کہ میری ہنسی چھوٹ گئی۔
مجھے ہنستا دیکھ کر تھوڑا کھسیانا ہوا، پھر میرے ساتھ ہنسنے کی کوشش کی۔ لیکن کچھ بن نہیں پائی۔ ’’اب چھوڑ دے سالے۔۔۔ اپنے ہی محلے میں ذلیل ہوگیا۔۔۔‘‘ اس نے کہا۔
لیکن میں اس موقع کو اتنے آرام سے چھوڑنے والا نہیں تھا۔ ’’ارے اس میں ذلیل ہونے کی کیا بات۔۔۔ وہ تو سب جانتے ہیں کہ تو بہت بڑا بدمعاش ہے۔۔۔ لیکن تیری شکل ایسی ہے کہ بہت ہی چھوٹے لیول کا چور اچکا لگتا ہے۔۔۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔‘‘ ۔۔۔ اس لئے ایک دم معمولی سپاہی بھی تجھے روک کر تیری تلاشی لے لیتا ہے۔
اس پر اسماعیل کو بھی ہنسی آگئی۔
ندیم سالے نے اپنی کالی ٹوپی اتاری، جس کا سامنے کا رخ پیچھے کی طرف کر کے لگایا ہوا تھا۔ ٹوپی کے نیچے اس کے لمبے سیاہ بال، پیچھے کی طرف ہو کر سر سے یوں چپکے ہوئے تھے کہ لگتا تھا جیسے نیچے ایک اور ٹوپی پہنی ہوئی ہے۔ دھوپ کی تپش اور ٹریفک کی دھوئیں کی وجہ سے ماتھا ایک دم کالا تھا اور یہ بتانا مشکل تھا کہ کہاں ماتھا ختم ہوتا ہے اور کدھر سے بال شروع ہوتے ہیں۔
’’ابے سالے یہ اپنے تھانے کے نہیں تھے۔۔۔ ناظم آباد تھانے کی پولیس ہے۔ سالی ہمارے علاقے میں آگئی ہے۔۔۔ اپنے تھانے کے ہوتے تو دیکھ لیتا سالوں کو۔۔۔‘‘ ندیم سالے نے اپنی بات رکھنے کے واسطے جواب دیا۔ ’’۔۔۔ یہ سالے۔۔۔ ان پولیس والوں کی بھی آپس میں بڑی بدمعاشی چلتی ہے۔۔۔ دیکھ لوں گا ان سالوں کو بھی۔۔۔‘‘ اس کے تیوروں سے پتہ چلتا تھا کہ اب وہ مزید ریکارڈ برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں تھا۔ میں نے بھی موضوع تبدیل کیا۔
’’اب چھوڑ یار، ہوجاتا ہے اس طرح ۔بھول جا!۔۔۔ بتاؤ، سنا ہے تمہیں نوکری مل گئی ہے ریلوے میں؟۔۔۔‘‘
’’ہاں۔۔۔‘‘ ندیم نے آہستہ سے سر ہلایا۔
’’مبارک ہو بہت بہت۔۔۔ تو کب سے جوائن کر رہے ہو؟۔۔۔ دوکان پر بیٹھنا چھوڑ دو گے کیا؟۔۔۔‘‘
’’سالا پتہ نہیں۔۔۔‘‘ اس نے جواب دیا’’۔۔۔ ابھی پوسٹنگ کا پتہ نہیں۔۔۔‘‘
’’فکر نہیں کر۔۔۔ ہوجائے گی۔۔۔ مگر یہ بتا ۔۔۔ آج کل حالات اتنے ٹائٹ ہیں تجھے نوکری ملی کیسے؟۔۔۔‘‘
’’بس سالی۔۔۔ لگ گئی۔۔۔ جان پہچان نکل آئی کچھ۔۔۔‘‘ اس نے ذرا دھیمے انداز میں کہا۔
اسماعیل نے آہستہ سے مجھے آنکھ ماری، اور میں فوراً بولا۔
’’سنا ہے تیری کسی گاہک نے لگوائی ہے‘‘۔۔۔اور مسکراہٹ مجھ سے نہیں رکی۔
ندیم سالے نے ایک لمحے کے لئے پریشان ہوکر اسماعیل کی طرف دیکھا۔ اسماعیل خاموشی سے اپنے رجسٹر میں کوئی اینٹری کر رہا تھا۔ پھر میری طرف پلٹتے ہوئے اس نے کہا۔’’۔۔۔ ہنس لے۔۔۔ ہنس لے سالے۔۔۔ لیکن اپنا یہ ہی حساب کتاب ہے۔۔۔ اپنے کام تو چھوکریاں کرتی ہیں۔۔۔‘‘ اس نے اپنے دانت نکالے۔
’’ بہت خوب۔۔۔ بہت خوب۔۔۔ کیا بات ہے استاد تمہاری!۔۔۔‘‘ میرا مذاق اشتیاق میں بدل گیا۔ ’’لیکن یہ کام کرایا تونے کیسے؟۔۔۔‘‘
’’بس چھوڑ سالے ۔۔۔ تیرے بس کی بات نہیں ہے‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’اب یار بتا بھی۔۔۔ کچھ تیرے کارنامے پتہ تو چلیں۔۔۔‘‘ میں بضد رہا۔
لیکن ندیم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے اسماعیل کی طرف دیکھا جیسے کہ مدد طلب کر رہا ہوں۔ لیکن اسماعیل خاموش رہا۔ ندیم سالا کاؤنٹر کے پیچھے ایک اونچے اسٹول پر بیٹھ گیا۔ اور اپنی گہری اُودی رنگ کی قمیض کے اوپر کے دوبٹن کھول کر کالر کو گردن سے دور کرلیا۔ پھر اس نے پتلون کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک رومال نکالا اور اُسے اس طرح تہیں دینے لگا کہ اس کی ایک پٹی بن جائے۔ پھر اپنے رومال کی پٹی کو اس نے قمیص کے کالر کے نیچے رکھ لیا۔
’’تو پوسٹنگ ہوگئی تو دوکان پر بیٹھنا چھوڑ دو گئے؟۔۔۔‘‘ میں نے پھر سوال کیا۔
’’دیکھو یار۔۔۔ سالا اب کیا ہوتا ہے۔‘‘ اس نے جواب دیا۔ اور یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ باہر ایک کار آکر رکی تھی جس کا صرف سفید بونٹ نظر آرہا تھا۔ لیکن ندیم شاید وہ کار پہچان گیا اور باہر جانے کے لئے دروازے کی طرف بڑھا۔
ندیم سالے کے دوکان سے نکلنے کے بعد میں نے ذرا آگے بڑھ کر دیکھا کہ کون ہے۔ تو گاڑی میں کوئی لڑکی بیٹھی ہوئی تھی جس کے بال کٹے ہوئے صرف گردن تک تھے۔ ندیم سالا کھڑا ہوا اس سے بات کر رہا تھا۔ پھر اس لڑکی نے ہاتھ بڑھا کر ندیم کو دو وڈیو کیسٹ دیئے۔ ندیم انہیں لے کر دوکان میں واپس داخل ہوا۔
’’کیوں بھئی!۔۔۔ کون ہے؟۔۔۔ ‘‘ میں نے ذرا مذاق کے انداز میں کہا۔ لیکن اس نے میری بات کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا۔ ان کیسٹوں کو کاؤنٹر پر رکھ کر پیچھے ریک پر لگے کیسٹوں پر اپنی نگاہیں دوڑانے لگا۔ پھر اس نے نیچے کی طرف سے ایک کیسٹ نکالا اور باہر چلا گیا۔ لیکن باہر جاکر بجائے اس کے کہ وہ کیسٹ اس لڑکی کو تھماتا، اس نے گاڑی کی دوسری طرف جاکر پیسنجر سیٹ کا دروازہ کھولا اور اندر بیٹھ گیا۔ اس لڑکی نے گاڑی تھوڑی ریورس کی اور پھر وہ چوراہے کی جانب روانہ ہوگئی۔
’’ابے!۔۔۔‘‘ میں چونک کر تھوڑا زور سے بولا۔ ’’یہ تو سالا اس کے ساتھ چلا گیا!۔۔۔ ابے!۔۔۔ کون ہے بھئی وہ!۔‘‘
اسماعیل نے اپنا ہاتھ اٹھا کر گھمایا اور کندھے اُچکائے۔’’کیا پتہ۔۔۔‘‘ اس نے کہا۔ پھر اس کے چہرے پر ایک شیطانی مسکراہٹ پھیلی، اور ایک دفعہ پھر ہاتھ گھما کر کہا ’’کیا پتہ۔۔۔ کوئی وی سی آر وغیرہ ٹھیک کرنے گیا ہوگا۔‘‘
’’ابے لیکن یہ دیکھنے میں اچھی بھلی لڑکیاں اس کو لے کیسے جاتی ہیں۔‘‘ میں نے استفہام کا اظہار کیا۔
’’ کیا پتہ۔۔۔‘‘ اسماعیل نے وہی جواب دیا۔’’اگر پتہ ہوتا تو میں خود یہ نہیں کرتا۔۔۔‘‘ وہ دانت نکال کر بولا۔
’’ابے لیکن۔۔۔‘‘ بات میری سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔۔۔’’یہ کرتا کیسے ہے یہ سارا۔۔۔‘‘
اسماعیل نے کوئی جواب نہیں دیا۔
چوراہے پر پولیس والے ابھی تک کھڑے ہوئے تھے۔ میں نے ندیم سالے کی طرف سے دھیان ہٹا دیا اور اسماعیل سے پھر مخاطب ہوا۔ ’’تو استاد۔۔۔ کچھ بندوبست وغیرہ ہوا؟۔۔۔ بڑے دن ہوگئے۔۔۔ کچھ گلاسوں میں برف ڈالے ہوئے۔۔۔‘‘
’’ابے مجھ سے کیا کہتا ہے۔۔۔ اس سے پوچھ۔۔۔‘‘ اسماعیل نے باہر کی طرف اشارہ کیا’’۔۔۔ وہ جو ابھی گاڑی میں چلا گیا اس لڑکی کے ساتھ۔۔۔‘‘
’’ابے یار۔۔۔‘‘ میں نے گردن ہلاتے ہوئے کہا۔’’اس سالے ندیم سالے کے پاس بھی دنیا میں ہر دو نمبر کے کام کی جگاڑ موجود ہے۔۔۔ سمجھ میں نہیں آتا یہ آدمی ۔۔۔‘‘
اسماعیل نے اپنا دائیاں ہاتھ پھر ایک سوالیہ انداز میں ہوا میں گھمایا، اور سر کو بائیں جانب ہلکے سے جھکا دیا جیسے دونوں کو آپس میں بیلنس کر رہا ہو۔
’’سالا خود تو پیتا نہیں لیکن بندوبست کرنا خوب جانتا ہے۔۔۔ جس چیز کا بندوبست کرانا ہو ندیم سالے سے کرالو۔۔۔‘‘ میں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا۔
اسماعیل پاکٹ سے سگریٹ نکال کر اسے جلا رہا تھا۔ پھر ہماری گفتگو دوسرے موضوعات کی جانب چلی گئی۔ آدھے گھنٹے بعد میں نے نظر گھمائی تو وہ کمبخت پولیس والے اس وقت تک کھڑے ہوئے تھے۔ میں تنگ سا آگیا، اور لاپروائی کی کیفیت مجھ پر طاری ہوئی۔
’’یار میں چلا۔۔۔ ‘‘ میں نے اسماعیل سے کہا۔’’۔۔۔ اگر ان پولیس والوں نے روکا تو پھر دیکھی جائے گی۔۔۔‘‘
باہر نکل کر میں نے موٹر سائیکل اسٹارٹ کی اور چوراہے کی طرف بڑھ گیا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر میں وہاں سے بخیر و عافیت اور بغیر کسی خرچے کے نکل آیا۔ تھوڑے آگے جاکر مڑ کر میں نے انہیں لعنت دکھائی۔ جو انہوں نے شاید نہیں دیکھی۔
اگلے چند روز تک میری ندیم سالے سے ملاقات نہیں ہوئی اور نہ میں نے اس کا کوئی ذکر سنا۔ پھر ایک روز میں اس کی دوکان میں کھڑا اسماعیل سے بات کر رہا تھا کہ اس کی موٹر سائیکل برابر والی دوکان کے سامنے آکر رکی اور وہ اتر کر دوکان میں داخل ہوا۔ اپنے انداز سے خاصا ہشاش بشاش اور خوش نظر آرہا تھا۔
میں نے اس سے پوچھا۔’’کیا بات ہے بڑے اسٹائیل میں ہو۔۔۔‘‘
’’کچھ نہیں یار۔۔۔ سالا۔۔۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
میں دوبارہ اسماعیل سے بات کرنے کی طرف متوجہ ہوگیا۔ ندیم سالے نے کاؤنٹر کے پیچھے دراز کھولی اور اس میں کچھ تلاش کرنے لگا۔ پھر اندر سے ایک چھوٹی ڈائیری نکال کر ورق پلٹنے لگا۔ ڈائیری سے شاید کوئی فون نمبر اس نے اسماعیل کی سگریٹ کی ایک خالی ڈبیا کے اوپر کے حصہ پر اتارا۔ پھر سگریٹ کی ڈبیا میں سے اتنا حصہ پھاڑ کر ڈائیری سمیت اپنی جیب میں رکھ لیا۔ اور دوکان کے باہر چلا گیا۔
اسماعیل نے کچھ حیرت اور کچھ سوالیہ نظروں سے اُسے باہر جاتے دیکھا۔ میں چونکہ اس بات کے پس منظر سے واقف نہیں تھا، اس لئے خاموش رہا۔ البتہ مجھے احساس تھا کہ کوئی غیر متوقع بات یا تو ابھی ابھی ہوئی ہے۔ یا پھر ہونے جا رہی ہے۔
ہم لوگ پھر اپنی باتوں میں مشغول ہوگئے۔
کچھ دیر بعد ندیم سالا پھر دوکان میں داخل ہوا۔ اس کے چہرے پر ایک اتنا گہرا اطمینان تھا کہ جس میں تمام بلاوجہ کی مسکراہٹیں آپ ہی آپ گھل کر غائب ہوجائیں۔
اسماعیل نے پھر سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ ’’کیا؟۔۔۔ بیچ دیا؟۔۔۔‘‘
ندیم نے سر کو خفیف سا جھٹکا دیا۔
’’کتنے ملے؟۔۔۔’’اسماعیل نے اپنے نچلے ہونٹ کو دانتوں میں دبا کر پوچھا، جیسے اپنے ہونٹوں کو خود سری کی کسی حرکت سے روک کر رکھ رہا ہو۔
’’ڈھائی سو۔۔۔‘‘ ندیم سالے نے نہایت معمولی لہجے میں جواب دیا۔
’’کیا؟۔۔۔ ڈھائی سو!واہ‘‘ اسماعیل سے اب اپنا قہقہہ نہیں رکا اور اپنی گردن ہلا کر زور سے ہنسنے لگا۔
’’کیا بیچا بھئی ۔۔۔ کیا بیچ دیا؟۔۔۔ ’’اب میں نے تیوری پر بل ڈال کر ندیم سالے سے سوال کیا۔ یہ معمہ میری سمجھ سے بالکل باہر ہوگیا تھا۔ اسماعیل اپنی گردن ہلا کر ہنستا رہا۔ ندیم نے بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ مگر میری سوالیہ نظریں اس پر سے نہیں ہٹیں۔ آخر اس نے آہستگی سے کہا۔
’’نمبر۔۔۔‘‘
’’نمبر؟۔۔۔کیسا نمبر؟۔۔۔‘‘
وہ کچھ دیر خاموش رہا۔ ’’سالا فون نمبر۔۔۔‘‘ اس نے یوں کہا جیسے کہ مجھے ہر بات ہجے کر کہ بتانی ضروری ہے۔
’’فون نمبر؟۔۔۔ کس کا فون نمبر؟۔۔۔ بیچ دیا؟۔۔۔ کیا مطلب؟۔ ‘‘ واقعی مجھے ہر بات ہجے کرکہ بتانی ضروری تھی۔
ندیم کے لہجے میں مجھے ایک بے زاری محسوس ہوئی۔ ’’ابے سالے۔۔۔‘‘ اس نے سر کو مختصر طور پر بلاتے ہوئے کہا۔’’فون نمبر میں کس کا بیچوں گا؟۔۔۔ سالا مولوی صاحب کا فون نمبر تو کوئی مجھ سے خریدے گا نہیں۔۔۔‘‘
اسماعیل کی پھر ہنسی چھوٹ گئی۔ اپنے بیوقوف ہونے کا ثبوت دینے کے لئے میں بھی ذرا سا ہنسا۔
’’ابے یار۔۔۔‘‘ میں نے ذرا بات بنانے کی کوشش کی۔ ’’لیکن کون، سی والی کا نمبر بیچا ذرا یہ تو بتا۔۔۔‘‘
’’اب چھوڑ۔۔۔ کیا کرے گا۔ تیرے کو اگر کبھی کسی کا نمبر چاہئے ہو تو بول دینا۔۔۔ تجھے ڈسکاؤنٹ دے دوں گا۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر وہ مسکرایا۔ میں بھی یوں ہنسا کہ جیسے میری تمام مشکلیں آسان ہوگئیں ہوں۔ ’’بہت صحیح۔۔۔‘‘ میں نے کہا۔’’لیکن یار یہ۔۔۔ تم کرتے کیسے ہو۔۔۔ مطلب ۔۔۔ لڑکیوں کے نمبر۔۔۔اور پھر بیچ بھی لیتے ہو۔۔۔‘‘ میں گردن ہلا کر ہلکے سے ہنسا۔ ’’آخر کرتے کیسے ہو؟۔۔۔‘‘ میری ہنسی اب ایک بہت بڑے سوالیہ نشان میں تبدیل ہوگئی تھی۔
ندیم نے گردن گھما کر شیشے کے باہر سڑک کی طرف دیکھا۔ اس کا چہرہ ایک چوڑی مسکراہٹ سے آراستہ تھا۔’’۔۔۔ کچھ نمبر تو میں نے کئی بار بیچے ہیں ۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر اس کی مسکراہٹ ایک اطمینان میں تبدیل ہوگئی۔ باہر سڑک پر خاصا سکون تھا۔ چوراہے کے ساتھ کونے کو مکان میں جو اسکول تھا، وہاں ابھی چھٹی نہیں ہوئی تھی۔ بچوں کو گھر لے جانے والی چندسوزوکی وینیں کھڑی چھٹی ہونے کا انتظار کر رہی تھیں۔ کونے پر پولیس کی موبائل بھی کھڑی تھی۔ یا تو وہ خالی تھی، یا سپاہی اس میں بیٹھ کر چائے وغیرہ پی رہے تھے، اور ابھی تک سڑک پر نہیں اترے تھے۔ ندیم نے پلٹ کر اسماعیل کی طرف دیکھا۔ ’’یار اپنی دوکان میں سالا کوئی اے سی ویسی لگانا چاہئے گرمی بڑی ہوجاتی ہے۔‘‘ اوپر چھت پر پنکھا اک نیم مدھم رفتار میں چل رہا تھا۔ پھر وہ میری طرف پلٹا۔ لیکن اس کے کچھ کہنے سے پہلے میں خود بول پڑا۔
’’تو کیا نمبر بیچ بیچ کر اے سی لگواؤ گے؟‘‘۔۔۔ اس کا مزاق اڑاتے ہوئے میں بولا۔
’’اب سالی کوئی پکی نوکری تونہیں ہے۔۔۔ جو جگاڑ ہوجاتی ہے کرلیتے ہیں۔۔۔‘‘
’’پکی نوکری نہیں تو کیا، پکی سالیساں تو بہت سی ہیں۔۔۔‘‘ میں پھر ہنسا۔ لیکن ندیم نے ایک دم اپنا انداز سنجیدہ کرکے میری ہنسی روک دی۔ ’’ابے سالے تو سمجھتا نہیں ہے۔۔۔ لڑکیاں یا ان کے نمبر مل جانا کون سی بڑی بات ہے۔ لڑکیاں سالیاں بہت ملتی ہیں، ان کے نمبر بھی ملتے ہیں، وہ اچھی بھی ہوتی ہیں۔۔۔ لیکن آج تک کوئی لڑکی بہت زیادہ پسند نہیں آئی۔۔۔ اس لئے ان کے نمبر آگے بڑھا دیتا ہوں۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگیا لیکن اس کی آنکھوں میں ہنسی تھی۔
میں حیرت سے دنگ کھڑا تھا۔
’’لیکن سالے تو کس لئے فکر مند ہوتا ہے۔۔۔ تیری بینک کی نوکری پکی ہے۔۔۔ تیرے کو تھوڑی نمبر آگے پیچھے کرنے پڑتے۔۔۔ موج کر۔۔۔ اور اگر کسی کا نمبر چاہئے تو بتا دیجیو ۔۔۔ تجھے مفت سپلائی کردوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے پنکھے کی رفتار فل کر دی۔
میری سمجھ میں یہ نہیں آرہا تھا کہ وہ مجھ سے سب کچھ سچ کہہ رہا تھا، یا ایسے ہی الّو بنا رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا، اس نے مجھ سے سوال کیا ’’یہ بتا تیری ریلوے میں کوئی لائن ہے؟‘‘
’’ریلوے میں؟۔۔۔ کیوں؟۔۔۔ ‘‘ میرے منہ سے خود بخود نکلا۔
’’ایک پوسٹنگ کرانی ہے۔۔۔‘‘ اس نے کہا۔
’’پوسٹنگ؟۔۔۔‘‘ اور میں نے ایک لمحے رک کر سوچا۔ وہ متواتر میری طرف دیکھ رہا تھا۔ لیکن اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دیتا، باہر ایک کار آکر رکی۔ اس میں تین لڑکے بیٹھے ہوئے تھے۔ ندیم سالے کی توجہ میری طرف سے ہٹ کر اس کار کی طرف مبذول ہوگئی۔ پھر اس نے میری طرف دیکھ کر کہا۔ 
’’ایک منٹ رکو۔۔۔ میں پھر تم سے بعد میں بات کروں گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ دوکان سے باہر چلا گیا۔
اگلے چند روز تک میں گھر کے کچھ کاموں میں مصروف رہا۔ پھر ایک روز بھابی نے چند فلمیں لانے کی فرمائش کی۔
اس روز ویڈیو کی دوکان پر ندیم سالے کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ گاہک خاصے موجود تھے، اور اسماعیل ان سب کے لئے فلمیں ڈھونڈنے اور ان کا اندراج کرنے میں مصروف تھا۔ میں ایک طرف اسٹول پر بیٹھ گیا اور اسماعیل کا تھوڑا فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ پھر میں نے اس سے پوچھا۔ ’’ندیم سالا کدھر ہے آج۔۔۔‘‘ وہ اپنے رجسٹر میں کچھ لکھنے میں مصروف تھا۔ اس نے اپنا بائیاں ہاتھ اٹھا کر یوں اشارا کیا کہ جیسے میں کچھ دیر اور انتظار کروں، وہ بعد میں مجھ سے بات کرے گا۔
کچھ دیر میں جب رش تھوڑا چھٹا، تو وہ مجھ سے کہنے لگا۔ ’’ندیم سالے کی پوسٹنگ ہوگئی ۔۔۔وہ نہیں آئے گا۔‘‘
’’پوسٹنگ ہو گئی؟۔۔۔ کہاں؟۔۔۔ تو کیا دوکان پر نہیں آئے گا۔؟‘‘
اپنے ہونٹوں کے کناروں کو نیچے کی طرف جھکا کر اُس نے ایک لاعلمی کا اظہار کیا۔ لیکن پھر مسکراتا ہوا بولا۔ ’’پھاٹک پر۔۔۔‘‘
’’پھاٹک پر؟۔۔۔ کیا مطلب پھاٹک پر؟۔‘‘ بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔۔۔
’’یونی ورسٹی کے قریب کسی ریلوے پھاٹک پر اس کی پوسٹنگ ہوئی ہے‘‘ ۔۔۔ اس نے جواب دیا۔۔۔
’’کیا مطلب ۔۔۔ کیا پھاٹک پر وہ اب چارپائی ڈال کر بیٹھے گا۔۔۔’’میری بری طرح ہنسی چھوٹ گئی۔ اسماعیل بھی ہنسا اور اس نے اپنا دایاں ہاتھ ہوا میں ایک سوالیہ انداز میں گھمایا۔
’’کیا پتا۔۔۔ لیکن کہہ رہا تھا کہ نوکری تو پکی ہے۔‘‘ اس نے کہا۔
’’لیکن۔۔۔ ‘‘ مجھے ابھی تک ہنسی پر قابو نہیں آیا تھا۔’’ کیا دن بھر صرف پھاٹک کھولے بند کرے گا۔۔۔‘‘
’’۔۔۔ اور رات کو بھی۔۔۔‘‘ اسماعیل نے میرا فقرہ مکمل کیا۔
’’۔۔۔اچھا۔۔۔ کروائی کسی طرح اس نے اپنی پوسٹنگ ۔۔۔‘‘ اسماعیل نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر وہ بولا۔ ’’سالا بڑا فنکار ہے ۔۔۔ کیا پتا وہاں کوئی چارپائیوں کی ہیرا پھیری شروع کر دے۔۔۔ یا اپنی جگہ کسی اور کو بٹھا کر خود کچھ اور شروع کر دے۔۔۔‘‘
کچھ دیر بعد میں ہنستا ہوا دوکان سے نکلا۔ ویڈیو کے دونوں کیسٹوں کو ربربینڈ کے چوڑے اسٹریپ کی نیچے پھنسایا جو میری موٹر سائیکل کی پیٹرول کی ٹنکی پر لگا رہتا تھا۔ پھر کک لگا کر موٹر سائیکل کو اسٹارٹ کیا اور چوراہے کی جانب بڑھ گیا۔ آج وہاں پولیس کی موبائیل موجود نہیں تھی۔

منگل، 15 جولائی، 2014

کہانیوں کا ٹھیلا


’’آلو لے لو، بھنڈی لے لو، ٹماٹر لے لو۔۔۔‘‘۔ رحیم خان دن بھر یہ آواز لگاتا، اور کہانیاں سوچتا۔
’’بھنڈی کیا حساب ہے؟‘‘
’’بیس روپے کلو۔۔۔‘‘
’’بیس روپیہ؟ ۔۔۔ یا اللہ کیا مہنگائی کا زمانہ آگیا ہے ۔۔۔‘‘
’’بہن جی۔۔۔ کل بائیس روپے ہونے والی ہے۔۔۔ آج لے لو۔۔۔‘‘
’’ہیں؟۔۔۔ آج لے لو؟۔۔۔‘‘ عورت نے گھبرا کر اک غیر یقینی کی نگاہ اس پر ڈالی۔۔۔ اور رحیم خان نے ایک کہانی شروع کر دی۔

’’باجی، سنتے ہیں کہ پیچھے سے سپلائی ختم ہونے والی ہے۔ سیٹھ عابد کا نام تو سنا ہوگا آپ نے؟۔۔۔ اس کا چھوٹا بھائی۔۔۔ سیٹھ خالق مارکیٹ سے سارا مال اٹھا رہا ہے اور انڈیا بھیج رہا ہے اب ملک میں مہنگائی نہیں ہوگی تو کیا ہوگیا۔۔۔ اسی طرح سے چاول بھی سارا ایکسپورٹ ہوگا ۔۔۔ دالیں بھی سب چلی گئیں۔۔۔ تو اب بتایئے ملک میں کیا بچا؟۔۔۔ دو چیزیں بچی ہیں۔۔۔ ہوا ۔۔۔ اور مٹی۔۔۔ مٹی پر بیٹھو۔۔۔ اور ہوا کھاؤ۔۔۔ باجی ایک بات بتاؤ میں آپ کو ۔۔۔ اس ملک میں ہوا کبھی ختم نہیں ہوگی۔۔۔ اگر یہ ساری ہوا کہیں چلی بھی گئی تو یہاں کے رہنے والے سب مل کر اتنی ہوا چھوڑیں گے کہ کوئی کمی محسوس نہیں ہوگی۔۔۔‘‘

رحیم خان ایک نئی طرح کی کہانی میں مگن ہوگیا۔ اس کی باتیں سن کر وہ عورت ہلکے سے ہنسی۔ اور پھر وہ رحیم کے ذہن میں ابھرنے والی اس نئی کہانی کی تمہید کو کاٹتے ہوئے بولی۔
’’اچھا جلدی سے ایک کلو دینا ۔۔۔ دیکھو ذرا اچھی بھنڈیاں دو۔۔۔ لاؤ میں نکالتی ہوں۔۔۔‘‘
رحیم خان نے ایک تھیلی بڑھا دی۔ لیکن اس کی باتیں نہیں رکیں۔۔۔
’’۔۔۔ اور ہاں تیسری چیز۔۔۔ یہاں کے لوگ، یہ آدمی کہیں نہیں جانے والے۔۔۔ اب دیکھئے پچھلے دنوں ہمارے شہر میں کتنا قتل و خون ہوا۔۔۔ لیکن کوئی ذرا فرق پڑا۔۔۔ یہاں جتنے لوگ مرتے ہیں اس سے دگنے پیدا ہوتے ہیں۔۔۔ خدا نے بھی کیا ملک بنایا ہے۔۔۔

’’یہاں اپنے ملیر میں ایک بزرگ فقیر رہتا ہے۔ وہ سارے دن عبادت کرتا ہے اور رات میں لوگوں سے ملتا ہے۔۔۔ صرف رات میں۔۔۔ وہ کہتا ہے کہ قیامت کی یہ ہی نشانی ہے۔۔۔ قیامت اس وقت آئے گی جب اس دنیا کی آبادی اس قدر بڑھ جائے گی کہ تمام لوگ یا جوج ماجوج کی قوموں کی طرح اس دنیا پر چڑھ دوڑیں گے۔۔۔ وہ دعویٰ کرتا ہے کہ خدا نے اسے اولاد کی پیدائش کے راز بتائیں ہیں اور اولاد کی پیدائش کو روکنے کے بھی، لیکن بی بی لوگ اس سے صرف اولاد کی پیدائش کے واسطے دوا لیتے ہیں۔۔۔ پیدائش کو روکنے کے لئے کوئی بھی نہیں آتا ۔ وہ کہتا ہے کہ خدا نے اس کو جو انصاف کرنے کی ذمہ داری دی ہے اس طرح اس میں حرج ہوتا ہے۔۔۔ اب بتاؤ بی بی اگر ترازو کا ایک ہی پلڑا بھاری ہوگا تو ترازو الٹ نہیں جائے گا کیا؟

وہ عورت خاصا محو ہوکر اس کی باتیں سن رہی تھی۔ اُسے سب سے زیادہ حیرت اس بات پر تھی کہ یہ سبزی والا اتنی دلچسپ باتیں کرتا ہے۔ پر وہ کچھ نہ بولی اور بے خیالی کے انداز میں بیس روپے رحیم خان کو بڑھائے۔

’’لیکن بی بی ایسی بات بھی نہیں۔۔۔ کوئی نہ کوئی عورت تو اس سے پیدائش کی دوا بھی ضرور لے کر جاتی ہوگی۔ ‘‘ رحیم خان نے راز کے انداز میں کہا۔ ’’ نہیں تو اس پیر کی دونوں طرح کی دوائیں کہاں جاتی ۔۔۔ یہ بات وہ پیر بتاتا نہیں ہے۔۔۔ میں نے بہت کوشش کرلی ہے۔۔۔‘‘

رحیم خان کے چہرے پر بہت بڑا سوالیہ نشان تھا۔ لیکن ایک زیر لب مسکراہٹ کے ساتھ اس عورت نے اپنے چہرے سے دلچسپی ہٹائی اور گھر میں چلی گئی۔ رحیم خان کچھ دیر کھڑا اس کو دیکھتا رہا، پھر اپنے قصہ کو بھول کر وہ بھی آگے بڑھ گیا۔

رحیم خان کو اپنے ٹھیلے پر یوں سبزی بیچتے ہوئے کوئی ڈیڑھ سال ہوئے تھے۔ اس سے پہلے وہ ایک بس میں کنڈکٹری کرتا۔ اس کی بس کھوکھرا پار سے لیمارکیٹ کے روٹ پر چلتی تھی۔ اس راستے کا ایک ایک موڑ اور گڈھا اسے آنکھ بند کرکے یاد ہوگیا تھا۔ وہ یہ بھی بتاسکتا تھا کہ کس گڈھے میں سے گزرتے ہوئے اس کی بس کی سسپنشن کی کمانیوں میں سے کیسی آواز آتی ہے اور بس کس طرح جھولتی ہے۔

اور اپنی اس جھولتی ہوئی بس میں کنڈکٹری کرتے ہوئے رحیم خان کے خیالات بھی پینگ لیتے رہتے تھے۔ اس کی بس میں طرح طرح کے لوگ سفر کرتے تھے۔ ان سے ٹکٹ لینے میں اور ان کو اسٹاپوں پر اتارنے اور چڑھانے میں رحیم خان جانے کیا کچھ سوچتا رہتا۔

اس زمانے میں اس کا سب سے دل پسند مشغلہ تھا کہ وہ اپنے پیسنجر کی شکل و صورت اور چال سے اس کا بات کا اندازہ لگائے کہ وہ کون ہے اور اس کے صبح شام کیسے بسر ہوتے ہیں۔ اکثر وہ ان سے یہ بات پوچھ بھی بیٹھتا۔ تاکہ اُسے معلوم رہے کہ اس کا اندازہ عموماً کتنا درست ہوتا ہے۔

پھر ایک روز کراچی کے ہنگاموں میں نوجواں کے ایک گروہ نے اس کی بس کو گھیرے میں لے کر نظر آتش کر دیا۔ اس روز اس کی بس کے ساتھ ساتھ اس کا دلپسند مشغلہ بھی شعلوں کی لپیٹ میں آگیا۔

اپنی بس کے جل جانے کے بعد رحیم خان بے روزگار ہوگیا۔ لیکن اس کو رہ رہ کر اسی گروہ کا خیال آتا جس نے اس کی بس کو آگ لگائی تھی۔ ایک ایک نوجوان کا چہرہ اس کی نظروں کے سامنے سے گزرتا اور وہ غور کرتا رہتا کہ وہ نوجوان کون تھا اور اس کی زندگی کیسے کیسے موڑوں سے گزری ہوگی۔

چند روز بے روزگار رہنے کے بعد وہ اپنے گاؤں واپس چلا گیا۔

گاؤں میں جو بھی اس سے ملتا کراچی کے ہنگاموں کے بارے میں سب سے پہلا سوال کرتا۔ کچھ دنوں تک تو رحیم خان یہ حالات خاصے جوش و خروش اور منظر نگاری کے ساتھ بیان کرتا رہا۔ پھر آہستہ آہستہ اس کا یہ جوش کچھ ماند پڑنے لگا۔ ان نوجوان کا ذکر کرتے ہوئے وہ تھوڑا ہچکچاتا اور سوچتا کہ کیوں نہ وہ ان لڑکوں کا ذکر کرے جنہیں وہ عام طور پر روز مرہ زندگی میں دیکھا کرتا تھا۔ جن کے چہروں پر زندگی ہمیشہ ہنستی کھیلتی رہتی تھی۔

یوں اپنے سامعین کی توجہ کراچی کے ہنگاموں سے ہٹانے کے لئے اس نے طرح طرح کی کہانیاں گڑھنا شروع کر دیں۔ ان کہانیوں میں بس کنڈکٹری کے دوران کے مشاہدات کو بھر پور طور سے استعمال کرتا۔ اس کے سننے والوں کی توجہ ان مختلف مناظر میں محو ہو کر رہ جاتی۔ اور ان کو یوں حیران پاکر رحیم خان کو بڑا مزا آتا۔ ایک دن اپنے دوست اجمل زئی سے باتیں کرتے ہوئے وہ کہنے لگا۔

’’ایک روز اورنگی ٹاؤن میں لڑکوں نے پولیس موبائل کو گھیرے میں لے کر اس پر قبضہ کرلیا۔۔۔ اب اس کے بجائے کہ وہ پولیس والوں کو گولی مارتے یا گاڑی کو آگ لگاتے۔۔۔ بتاؤ کہ انہوں نے کیا کیا؟۔۔۔ انہوں نے پولیس والوں کے سارے کپڑے اتار ڈالے اور ان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر انہیں ننگا سڑک پر ڈال دیا اور خود ان کے کپڑے پہن کر موبائل پر قبضہ کرلیا۔

ا ب وہ جہاں جاتے وہاں خوب کام دکھاتے۔ کے ای ایس سی کے اسٹیشن گئے اور رشوت لینے پر وہاں کے لوگوں کی خوب مار لگائی۔۔۔ وہاں سے نکل کر ایک پیٹرول پمپ میں مفت پیٹرول بھروایا۔ پھر انہیں ایک اور پولیس موبائل نظر آئی۔ اس میں صرف دوسپاہی تھے۔ ان کو جھانسا دے کر اس پر بھی قبضہ کرلیا اور پھر ان دونوں نے مل کر وہ حرکتیں کیں کہ سننے والوں کے ہنستے ہنستے پیٹ میں بل پڑگئے۔

کچھ ماہ بعد رحیم خان کے پاس کہانیوں کا مواد ختم ہونے لگا۔ فصل کٹ جانے کے بعد اس کے پاس کوئی مستقل روزگار بھی نہیں تھا۔ اس لئے اس نے ایک بار پھر کراچی جانے کا فیصلہ کیا۔

کراچی پہنچ کر تھوڑے عرصے تک وہ اپنے ایک دوست محمد ذیشان کی سبزی کی دوکان پر بیٹھا پھر اس نے ایک ٹھیلا لے لیا اور اس پر سبزی فروخت کرنے لگا۔

صبح آٹھ بجے وہ دوکان سے سبزی لے کر نکلتا اور جانے کن کن محلوں کے چکر لگاتا۔ یہ کام رحیم خان کے لئے بالکل نیا تھا اور اس کے دوست محمد ذیشان کو بھی ٹھیلا چلانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ شروع کے چند ہفتے مختلف تجربوں اور اندازوں کی پیمائش میں نکل گئے۔ پھر رفتہ رفتہ وہ یہ کام سیکھتا گیا۔ اسے معلوم ہوگیا کہ صبح کتنی سبزی لے کر نکلنا چاہئے تاکہ شام ہوتے ہوتے تمام فروخت ہوجائے۔ کن علاقوں میں سبزی جلدی بکتی ہے اور کہاں دیر میں۔ کہاں کے لوگ عموماً کیا خریدتے ہیں اور کہاں کیا کیا دام مانگنے چاہئے۔ رفتہ رفتہ وہ یہ تمام گر سیکھتا گیا؟ یہ فکریں اس کے روز مرہ کا حصہ بنتی گئیں۔ اور پس پردہ اس کے خیالات دوبارہ کوئی مشغلہ ڈھونڈنے لگا۔

رحیم خان اب دن بھر اپنے ٹھیلے پر سبزیاں بیچتا اور جانے کیا کیا سوچتا رہتا۔ بسا اوقات یہ باتیں، صرف چند خیالات سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتیں ایک روز برسات کے بعد وہ ایک بڑی بی بی کے واسطے گاجر تول رہا تھا کہ وہ کہنے لگا۔

’’اماں آج کی بارش دیکھی؟۔۔۔ بجلی کسی زبردست تھی۔۔۔ لگتا تھا کہ ایک بہت بڑے فلیش کے ساتھ اللہ میاں فوٹو کھینچ رہے ہیں۔۔۔‘‘

کئی بار وہ اس طرح کی عجیب و غریب تشبیہات دیتا جس سے اس کے سننے والے چونکنے کے ساتھ ساتھ محظوظ بھی ہوجاتے۔ ایک روز ٹماٹر تولتے ہوئے وہ کہنے لگا۔ ’’اب دیکھئے باجی یہ ٹماٹر بھی کیا خدا کی نعمت ہے۔۔۔ میں کہتا ہوں کہ جس گھر میں ٹماٹر کم کھایا جاتا ہے وہاں بہت لڑائی جھگڑاہوتا ہے۔۔۔ اور جہاں عورت نے ٹماٹر بنا کر میز پر رکھے وہیں غصے کی جگہ پیار محبت نے لی۔۔۔‘‘

پھر آہستہ آہستہ اس کے یہ جملے، فقرے اور خیالات چھوٹے موٹے قصوں اور کہانیوں کا روپ لیتے گئے۔ اب وہ یہ کہنے کے بجائے کہ دستر خوان پر ٹماٹر کی موجودگی سے گھر کی فضا میں کیسی چاشنی اور محبت گھل جاتی ہے، وہ ٹماٹر کے بارے میں کوئی کہانی سنا دیتا۔ جیسے کہ ان ٹماٹروں کو کاشت کرنے والا کسان کون تھا اور کیوں وہ اس کسان کو اتنی قریبی طور پر جانتا ہے۔

رفتہ رفتہ اپنے ان قصے کہانیوں کی وجہ سے رحیم خان پہچانا بھی جانے لگا۔ کچھ لوگ اسے باتونی سبزی والا کہنے لگے، کچھ اُسے قصے کہانیوں والا کہنے لگے۔ ایک بڑھیا نے اس کا نام کہانیوں کا ٹھیلا رکھ دیا۔ یہ بڑھیا رحیم خان کی خاص گاہک تھی۔ جس روز اُسے سبزی لینا ہوتی وہ خاص طور پر رحیم خان کا انتظار کرتی اور اس کے سوا کسی اور سے سبزی نہ خریدتی۔ پھر سبزی لینے کے بعد کہتی۔ ’’اور کچھ سناؤ آج تم نے کیا دیکھا۔۔۔‘‘

اور رحیم خان کے جو جی میں آتا اس سے کہہ دیتا ۔۔۔ اس سے قطع نظر کہ وہ بات کتنی سچ ہوتی یا جھوٹ اور وہ بڑھیا رحیم خان کی باتیں سن کر یوں مطمئن ہوجاتی جسے دن بھر کی مشقت کے بعد اُسے اجرت ملی ہو۔ کبھی کبھی تو وہ صرف اس واسطے سبزی خرید لیتی کہ اس کا جی چاہ رہا ہوتا کہ وہ رحیم خان سے باتیں سنے اور اگر کبھی رحیم خان موڈ میں ہوتا تو وہ اس سے پیسے بھی نہیں لیتا۔

اس کے تمام گاہکوں کی طرح اس بڑھیا سے بھی رحیم خان کی باتیں سبزی بیچنے اور کوئی ادھر اُدھر کا قصہ یا کہانی سنانے سے بڑھ کر نہیں ہوتیں تھیں۔ جب وہ سبزی خریدتی رحیم خان کوئی بات شروع کر دیتا۔ سبزی بیچ چکنے کے بعد وہ قصہ ختم کرتا اور اپنی راہ پر ہولیتا۔ رحیم خان زیادہ دیر رک کر اپنا وقت برباد کرنے کا عادی نہیں تھا۔ نا ہی وہ بڑھیا اس کو زیادہ دیر روک کر رکھنے کی کوشش کرتی۔ ان کی یہ شناسائی بھی خوب تھی جو اس کے قصوں کے گرد گھومتی تھی۔ ویسے تو رحیم خان اپنے تمام گاہکوں سے ادھر اُدھر کی خوب باتیں کرتا تھا۔ لیکن اس بڑھیا کو اس کی باتوں سے خاص لگاؤ ہوگیا تھا۔

ایک روز وہ کہنے لگا ’’اماں ہمارے علاقے میں ایک زمیندار ہے اس کی صرف دو لڑکیاں ہیں۔۔۔ اس نے اپنی بڑی لڑکی کو لندن بھیجا پڑھائی کی واسطے، جب اس کی لڑکی پڑھ لکھ کر لندن سے واپس آئی۔ تو اس نے اپنی چھوٹی لڑکی کو بھیج دیا، پڑھنے کے واسطے، اور تو اور۔ ساتھ میں اس کی ماں کو بھی بھیج دیا۔ اب وہاں پر اس کی لڑکی بھی پڑھتی اور اس کی ماں بھی پڑھتی ہے۔۔۔ دیکھ اماں یہ بھی کیا خوب ہے ۔۔۔ اب سوچ اگر تو جائے لندن پڑھنے کے واسطے۔۔۔ تیری بھی جوانی واپس آجائے۔۔۔ یہ کہہ کر ہنستا ہوا وہ آگے بڑھ گیا۔

اس بڑھیا کا نام کوثر تھا۔ اس کا لڑکا چند ماہ پہلے کراچی کے فسادات میں کسی بھٹکی ہوئی گولی کی زد میں آکر اپاہج ہوگیا تھا اور اب اس کی زندگی کا زیادہ حصہ بستر پر گزرتا تھا۔ وہ بڑھیا اپنے لڑکے سمیت اب اپنی لڑکی کے گھر پر رہتی تھی۔ اور جس روز وہ رحیم خان سے سبزی خریدتی گھر میں آکر اپنے لڑکے کو سناتی کہ آج رحیم خان نے کیا کہا۔ اس کا لڑکا رحیم خان کی باتیں سن کر خاصا حیران ہوتا تھا اور کہتا ’’اماں یہ تمہارا سبزی والا بھی کتنی پاگل پنے کی باتیں کرتا ہے۔۔۔‘‘ لیکن اس کی ماں کہتی۔’’نہیں بیٹا تو نہیں جانتا ۔۔۔ بڑی دنیا دیکھی ہے اس نے۔۔۔‘‘ اور ماں بیٹے کی تکرار چلتی رہتی۔

اس روز رحیم خان کے جانے کے بعد وہ بڑھیا گھر میں آئی اور اس نے خوب مزے لے کر وہ قصہ سنایا۔ پھر کہنے لگی۔ میرے دونوں بچے تو پڑھ گئے اب میں کس کے ساتھ جاؤں گی پڑھنے۔‘‘

اس کا لڑکا بستر میں لیٹا لیٹا مسکرایا۔ ’’ضروری تھوڑی ہے کہ کسی کے ساتھ جانا۔۔۔ اکیلی بھی جاسکتی ہیں۔۔۔‘‘
’’اکیلی؟۔۔۔ کیوں اکیلی یوں؟۔۔۔ اپنے بچوں کو چھوڑ کر؟‘‘

’’ارے اماں! اس سبزی والے کی باتوں پر تم اتنا سیریس کیوں ہوجاتی ہو؟۔۔۔ جس کو جی چاہے لے جانا اپنے ساتھ۔۔۔‘‘ ’’ہاں بیٹا اب تم نے بات ٹھیک کی ہے۔۔۔ میں تجھے اپنے ساتھ لے جاؤں گی۔۔۔جب تو اچھا ہوجائے گا۔‘‘ اس نے امید بھری نگاہوں سے سامنے خلا میں تکتے ہوئے کہا۔

دن بھر سبزی بیچنے میں رحیم خان کا پالہ طرح طرح کے لوگوں سے پڑتا تھا۔ کچھ توایسے ہوتے جو اُسے ایک جملہ بولنے کا بھی موقع نہیں دیتے۔ جھٹ سبزی تلواتے پٹ قیمت ادا کرکے اسے چلاتا کرتے۔ کچھ ایسے ہوتے جو اس کی باتیں خاموشی سے سنتے لیکن بہت جلد ہی ان سے تنگ آجاتے اور کہتے ’’بھئی تم اتنی باتیں کرتے ہو سارے وقت۔۔۔ آخر تمہارا ٹھیلا کیسے چلتا ہے ۔۔۔‘‘

کبھی تو رحیم خان ان کی اس ہی بات سے کوئی بات پیدا کرلیتا۔۔۔ اور پھر ان کو مجبوراً اس کی باتوں پر مسکرانا پڑتا۔ پر کبھی ان کے تیور وہ بھاپ جاتا اور کہتا۔‘‘ میں تو دل کی سچائی سے کہتا ہوں۔۔۔ جو کچھ کہتا ہوں۔۔۔ آپ کو پسند نہیں تو ایسے ہی سہی۔‘‘

رحیم خان کی باتوں میں سچائی تو واقعی ہوتی تھی۔ لیکن اس کا اظہار یوں گھوم پھر کر ہوتا کہ اکثر لوگ اسے پہچان نہیں پاتے تھے۔

ایک روز وہ اس بڑھیا سے کہنے لگا۔۔۔ اماں ہم غریبوں کی زندگی سب سے زیادہ اچھی ہے۔۔۔ تھوڑی سے روٹی کھاؤ، پھر خوب سارا پانی پی کر پیٹ بھرلو۔۔۔ لیکن اب تو پانی بھی نہیں ملتا۔۔۔ سبزیوں پھر چھڑکنے کے لئے جو میں پانی رکھتا تھا اب وہ بھی نہیں ہوتا ہے۔۔۔ لوگ سوکھی سوکھی سبزیاں کھاتے ہیں۔۔۔ اور سوکھا سا منہ بناتے ہیں۔۔۔ اب تم ہی بتاؤ اماں میں تو ایک غریب سبزی والا ہوں۔۔۔ کیا کروں؟‘‘

سنا ہے کہ پانی کو جمع کرنے کے لئے حکومت ایک بہت بڑا ڈیم بنائے گی۔۔۔ اور لوگ ہیں تو اس کی مخالفت کرتے ہیں۔۔۔ میں کہتا ہوں بن جانے دو ڈیم۔۔۔ ایک نہیں حکومت ایسے دس ڈیم بنائے۔۔۔ ہم غریبوں کے حالات نہ اچھے ہونے والے ہیں، نہ برے۔۔۔

اماں تو بہت حیران ہوگی۔۔۔ لیکن میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ جن علاقوں میں ٹینکر سے پانی آتا ہے وہاں میاں بیوی کے یہاں اولاد ہونا کم ہوگئی ہے۔۔۔ سچ کہتا ہوں۔۔۔ قسم۔ میرے برابر والی چھونپڑی میں جو آدمی رہتا ہے اس کی عورت گھر گھر جاکر کام کرتی ہے وہ بھی یہ ہی کہتی ہے۔۔۔ ٹینکر کا پانی۔۔۔ لعنت ہے۔۔۔ بہت بڑی لعنت۔۔۔ اس سے اچھے تو ہم غریب لوگ ہیں۔۔۔ ٹینکر کا پانی نہیں خرید سکتے تو کیا، ۔۔۔ اولاد تو پیدا کرسکتے ہیں۔۔۔‘‘

یہ کہہ کر حیم خان ہنستا ہوا آگے بڑھ گیا۔ وہ بڑھیا، ایک سادہ سی عورت، اسے کھڑی تکتی رہی۔ رحیم خان کی بیشتر باتیں اس کی سمجھ میں نہیں آتی تھیں، لیکن اس کے باوجود وہ اسے بہت دلچسپ معلوم ہوتی تھیں۔

رحیم خان کی باتیں سن کر کچھ لوگ سمجھتے کہ وہ بڑی سیاسی سوجھ بوجھ رکھتا ہے۔ کئی سیاسی کارکنوں نے اس پر کام بھی کیا تھا اور اس کو اپنے اپنے موقف پر قائل بھی کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔

رحیم خان ان کی باتیں تو بہت غور سے سنتا اور ان سے اتفاق بھی کرتا۔ لیکن پھر بہت جلد وہ ان تمام باتوں کو بھول جایا کرتا تھا اور اپنے خیالوں میں گم ہوجاتا ایسے ہی کسی سیاسی کارکن سے بات کرتے ہوئے اس نے کہا۔

’’بھائی ہم غریب لوگ ہیں۔۔۔ اگر ہم غریبوں کی مدد نہیں کریں گے۔۔۔ ان کے کام نہیں آئیں گے۔۔۔ تو کون دوسرا کرے گا۔۔۔ یہ کام ہمارا ہی ہے۔۔۔ بھائی صاحب ہم سب کو مل کر ایک پارٹی بنانی چاہئے۔ اس پارٹی میں صرف غریب ہوں۔ امیر کوئی نہ ہو۔۔۔ پھر ہماری پارٹی والے مل کر خوب محنت کریں اور ہم سب کے سب امیر ہوجائیں۔۔۔‘‘

’’ہاں بالکل صحیح کہہ رہے ہو ۔۔۔ ایسا ہی تو ہم کر رہی ہیں۔۔۔‘‘ اس سیاسی کارکن نے بات کو آگے بڑھانے کی کوشش کی۔ لیکن رحیم خان بولا۔ ’’بھائی صاحب آپ جانتے ہیں۔۔۔ جب میں بس میں کنڈکٹری کرتا تھا تو ہم سب کنڈکٹروں نے مل کر اپنی ایک پارٹی بنانے کی کوشش کی تھی۔۔۔ معلوم ہے اس میں ایک کنڈکٹر تھا ساہیوال کا۔۔۔ جس کی بس کو آگ لگا دی تھی اور وہ اس میں جل کر مرگیا، اس کا کام تھا نعرے لگانا ۔۔۔ ایسے تو ہم سب کے سب کنڈکٹر تھے ہماری سب کی زور دار آوازیں تھیں لیکن جب شبیر نعرے لگاتا تھا تو ہم سب چپ ہوجایا کرتے تھے ۔۔۔ اور سب آس پاس کے لوگ متوجہ ہوجایا کرتے تھے۔۔۔ میں کہتا ہوں کہ اگر وہ ہوتا تو ہماری پارٹی ابھی تک چل رہی ہوتی۔۔۔‘‘

یہ کہہ کر کچھ کہے سنے بغیر رحیم کان نے اپنا ٹھیلا آگے بڑھا دیا۔ وہ سیاسی کارکن وہیں کھڑا سوچتا رہ گیا۔

یوں رحیم خان کبھی ایسے دہشت گرد کا ذکر کرتا جس نے تمام دنیا چھوڑ دی ہے اور اب وہ ایک باغ میں مالی ہے۔ یا کسی ایسے مولوی کا ذکر کرتا جس نے امام ہونے کے ساتھ ساتھ اب اسمگلنگ بھی شروع کر دی ہے۔ طرح طرح کی متضاد چیزوں کو وہ آپس میں ملا کر زندگی کے انتشار میں ایک ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کرتا۔ اور یوں سوچ سوچ کر اسے سب کچھ بہت اچھا بھی لگنے لگتا۔

رفتہ رفتہ وہ بڑھیا اس کی تقریباً روزانہ کی خریدار بن گئی۔ اور رحیم خان کی باتیں صرف سننے کے بجائے اب وہ بھی اس سے باتیں کرنے لگی تھی۔ رحیم خان اسے دنیا جہان کے قصے سناتا، اور وہ جواب میں اپنے بیٹے کی کوئی بات بتائی۔

کبھی وہ اس کے بچپن، کا کوئی قصہ سناتی۔ کبھی بتاتی کہ اس نے اپنے لڑکے کے لئے کیسی کیسی لڑکیوں کے رشتے کو ٹھکرادیا۔ ایک روز وہ کہنے لگی ۔۔۔’’ اب دیکھ لینا تم۔۔۔ میرا لڑکا جلد ٹھیک ہوجائے گا اس کے بعد دیکھنا کیا نوکری ملتی ہے اس کو، ڈھیروں پیسہ نہیں کما لیا تو میرا نام نہیں۔۔۔‘‘

پھر کراچی کے حالات ایک بار پھر خراب ہوگئے اور رحیم خان کئی دن اپنا ٹھیلا نہیں نکال پایا۔ وہ بڑھیا روز اس کی راہ دیکھتی اور دعا کرتی کہ حالات تھوڑے بہتر ہوں تاکہ اس کا سبزی والا آئے اور وہ اسے اپنے لڑکے کے بارے میں وہ ساری باتیں سنا سکے جو حال میں اس نے سوچی تھیں۔

آخر کار جب حالات سدھرے تو رحیم خان نے ایک بار پھر اپنا ٹھلا نکالا۔ وہ بڑھیا اسے دیکھ کر خوشی سے پھولی نہ سمائی۔۔۔ ’’ارے تجھے پتا ہے کیا ہوا؟‘‘۔۔۔ اس نے چھوٹتے ہی کہا’’۔۔۔ پچھلے چار دنوں میں میرے لڑکے کی صحت چار گنا اچھی ہوگی۔۔۔کل تو وہ پورے آدھے گھنٹے تک چلا۔۔۔ ڈاکٹر کو پتا چلے گا تو بہت خوش ہوجائے گا۔۔۔‘‘

لیکن اس روز رحیم خان خاصی جلدی میں تھا۔ کئی دنوں سے اس نے کچھ نہیں کمایا تھا۔ وہ حساب چکا کر جلدی سے آگے بڑھ گیا۔ چند روز تک رحیم خان کا تمام دھیان جلدی جلدی سبزی بیچنے اور آگے بڑھنے کی طرف لگا رہا نہ اس کے ذہن میں کوئی کہانی آئی اور نہ اسے مہلت مل پائی کہ وہ کچھ سوچے۔ بڑھیا سے ہر روز چند منٹ کی ملاقات ہوجاتی لیکن وہ کچھ نہیں بولتا۔

وہ بڑھیا ہی الٹی سیدھی کوئی بات کرتی اور سبزی لے کر اس کو جاتا ہوا دیکھتی رہ جاتی۔ پھر بہت خوش ہوتی۔

کچھ دنوں بعد رحیم خان کا موڈ معمول پر آگیا اور اس نے اپنے گاہکوں کے ساتھ وہ باتیں دوبارہ شروع کر دیں۔ اس بڑھیا کے پاس کھڑا ہوکر بھی وہ دوچار منٹ گزار دیتا۔

ایک روز وہ کہنے لگا

’’اماں میں سوچتا ہوں سبزی کا کام چھوڑ دوں۔۔۔ کوئی بھروسا نہیں اس کام کا۔ پیچھے سے حالات بگڑ جاتے ہیں، منڈی سے سبزی لے کر آدمی نہیں آتے، ہر کسی کو ڈر خطر لگا رہتا ہے، سبزی بہت مہنگی ملتی ہے۔ گاہک خریدتے نہیں ہیں۔ ایک مصیبت ہے۔۔۔ میں سوچتا ہوں مچھلیوں کا کاروبار شروع کردوں۔۔۔ مچھلیوں کا۔۔۔ کھیت میں سبزی اگنا ختم ہوسکتی ہے، شہر میں آدمی سارے مرسکتے ہیں لیکن اماں۔۔۔ سمندر میں مچھلیاں کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔۔۔ اماں سوچتا ہوں کہ مچھلیاں بیچنا شروع کردوں۔۔۔ مچھلیاں۔‘‘

یہ کہتا ہوا وہ آگے بڑھ گیا۔

اس کے چند دنوں کے بعد شہر کے حالات پھر خراب ہوگئے۔ رحیم خان پھر کئی دنوں تک نہیں آ پایا۔ لیکن اس بار اس بڑھیا کا خیال اپنے سبزی والے کی طرف نہیں گیا۔ اس بار اس کے لڑکے کی طبیعت خراب تھی۔ حالات کے خراب ہونے کی وجہ سے صحیح دوا نہیں آرہی تھی، اور روز بہ روز اس کی طبیعت بگڑتی جا رہی تھی۔ یہاں تک کہ پانچ دنوں کے بعد جب علاقہ میں آمدورفت کا سلسلہ دوبارہ جاری ہوا تو اس کے گھر سے اس کے لڑکے کا جنازہ نکلا۔

اس روز جب رحیم خان کا ادھر سے گزر ہوا تو بڑھیا کی گلی میں ایک مجمع دیکھا۔ جب واقعہ معلوم ہوا تو ملنے کے لئے وہ اس کے دروازے پر گیا۔ کچھ دیر بعد وہ بڑھیا گھر سے نکلی۔ وہ غم سے نڈھال تھی۔ تھوڑی دیر وہ دونوں خاموش کھڑے رہے۔ پھر رحیم خان سے صرف اتنا کہا گیا۔ ’’مجھے یہ خبر سن کر جتنا افسوس ہوا ہے۔ تو نہیں جانتی۔‘‘ وہ بڑھیا کچھ دیر خاموش رہی پھر واپس گھر میں چلی گئی۔

رحیم خان اس کے بیٹے سے کبھی نہیں ملا تھا۔ لیکن اس کی موت نے اس کے دل پر بہت گہرا اثر کیا تھا۔ اگلے چند دنوں تک وہ بڑھیا کی گلی کی طرف جانے کی ہمت نہیں کرسکا۔ کئی دنوں کے بعد گیا تو اس بڑھیا کو باہر کھڑے پایا۔ بڑھیا نے اس سے سبزی خریدی۔ رحیم خان نے اُسے سبزی دی لیکن کوئی بات کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔

اگلے روز بھی رحیم خان نے خاموشی کے ساتھ اُسے سبزی دی۔ لیکن پھر کچھ ہمت کرکے کہنے لگا ’’اماں ۔۔۔ تونے تو بہت سے پیروں کے بارے میں سنا ہوگا ۔۔۔ لیکن میں ایک ایسے پیر کو جانتا ہوں۔ جس کا نام لوگوں نے سید ہنستا شاہ رکھ دیا ہے۔۔۔ وہ خود بھی ہنستا ہے اور دوسروں کو بھی ہنساتا ہے۔۔۔‘‘

’’تو پیروں کی بات کرتا ہے۔۔۔‘‘ وہ بڑھیا اس کی بات کاٹ کر بولی۔۔۔’’ جب میرا بیٹا زندہ تھا تو وہ بتاتا تھا کہ وہ ایک ایسے شخص کو جانتا ہے جو کئی پیروں کا مرید ہے۔ یعنی کہ کئی پیروں نے اس کو اپنا مرید بنایا ہوا ہے ۔۔۔ اور نہ صرف یہ۔۔۔ بلکہ سب اس کی بڑی آؤبھگت کرتے ہیں۔۔۔ کس لئے؟۔۔۔ اس لئے کہ سب یہ سمجھتے ہیں کہ اس مرید سے ان کی پیری چمکتی ہے۔۔۔ میں تو کہتی ہوں کہ یہ پیری ویری فضول باتیں ہیں۔۔۔ آدمی کو مرید بنا چاہئے۔۔۔ اور اس طرح کا مرید کہ سب پیر اس کو اپنے پاس بلائیں ۔۔۔ آدمی مرید بنے۔۔۔‘‘

’’ہاں۔۔۔ واقعی۔۔۔‘‘ رحیم خان نے حیران ہوکر سرہلایا۔اسے لگا کہ وہ بڑھیا اصل میں کچھ اور کہنا چاہ رہی ہے، لیکن وہ بات کیا ہے؟ وہ سمجھ نہیں سکا۔ پھر یکایک اسے بے تحاشا خوشی کا احساس ہوا۔ ’’اماں ایسے مریدوں کی وجہ سے تو ہے ورنہ قیامت کب کی آچکی ہوتی ‘‘ یہ کہتا ہوا وہ آگے بڑھ گیا۔

پیر، 7 جولائی، 2014

تمہارا افسانہ


یہ افسانہ تمہارا ہے ... تم جو اسے پڑھ رہے ہو۔

اس کے کردار ، اس کا پلاٹ اور حاشیے کا تمہاری زندگی سے تو تعلق نہیں، لیکن تم سمجھتے ہو کہ اس میں زندگی کے ایسے حقائق اور انسانی جذبات و نفسیات کے وہ راز پوشیدہ ہیں جن کو پڑھ کر تم ایک گہری سوچ میں ڈوب جاؤ گے۔ اور شاید یہ سوچ تمہاری زندگی میں ایک نئی جہت کا آغاز کرے ...لیکن اس افسانے میں ایساکچھ نہیں ہے۔ ابھی تک تم نے صرف پہلا پیرا گراف پڑھا ہے۔ گاؤں کے اسکول کے ماسٹر کو وڈیرے کی لڑکی سے عشق ہوا ہے۔ ’’ یہ بھی کیا پرانی کہانی ہے ...کوئی نئے پلاٹ نہیں ملتے آج کل لکھنے والوں کو ...‘‘ تم اپنے ذہن میں سوچتے ہو اور کہانی سے نظریں اٹھا لیتے ہو۔ گیلری کے باہر بجلی کا کھمبا ہے جس سے تار گزر رہے ہیں۔ تاروں سے پھٹی پرانی پتنگیں اور پلاسٹک کی تھیلیاں لٹکی ہوئی ہیں۔

تمہاری نظریں واپس کہانی کی طرف آجاتی ہیں۔

لیکن وڈیرے کو اس جوڑی پر کوئی اعتراض نہیں۔ وہ ان کی شادی کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے ، بلکہ شادی کے بعد گھر بسانے میں ماسٹر کی مالی مدد بھی کرنا چاہتا ہے۔ نہ ہی گاؤں میں کوئی ایسا شخص ہے جو فقرے کس رہا ہو یا وڈیرے کی عزت پر کوئی حرف آ رہا ہو کہ اس کی لڑکی ایک ماسٹر سے بیاہی جاتی ہے۔

’’ یہ کیسی کہانی ہے ...یہ کیساافسانوی گاؤں ہے ...‘‘ تم سوچتے ہو۔ آج کل کے لکھنے والے مجھ جیسے عام آدمی کے بارے میں کیوں نہیں لکھتے۔ عام زندگی کے ایسے واقعات کا ذکر کیوں نہیں کرتے جو ایک عام آدمی نظر انداز کرتا ہے۔ ‘‘

تم یہ سب کچھ سوچ رہے ہو۔ لیکن ضروری نہیں کہ لکھنے والا بھی تمہاری طرح سوچے۔ تمہاری زندگی ایک دم سادی اورسپاٹ گزری ہے۔ جہاں کہیں کسی رومان یا مہم جوئی کا موقع آیا تم نے اس سے نظریں چرالیں۔ اب تم چاہتے ہو کہ ایک عام آدمی کی عام زندگی میں طلسم ہوش ربا کی داستان کھل جائے۔ ایسا نہیں ہوسکتا۔ عام آدمی کی عام زندگی میں کوئی ایسی بات نہیں ہوتی جس کے بارے میں کہانی لکھی جاسکے۔ اور اگر تمہیں ایسی ہی ناممکن باتوں پر یقین ہے تو برابر والے کمرے میں چلے جاؤ جہاں ٹی وی پر خبرنامہ آرہا ہے اور دعا کرو کہ ایسی خبریں سنائی جائیں جن کی تمہیں زندگی بھر سے تمنا ہے۔

لیکن اپنے بارے میں یہ تمام خیالات تمہارے ذہن سے نہیں گزرتے۔ تم اب بھی اس افسانے میں ایسے نکتے تلاش کررہے ہو جن کی مدد سے عام زندگی پر کوئی روشنی ڈالی جاسکے۔

افسانہ آگے بڑھتا ہے۔ اگلے چند صفحوں میں اس نئے جوڑے کی زندگی کی رنگین اور دلچسپ مصروفیات پر نظر ڈالی گئی ہے۔ تم کو پڑھنے میں مزا آتا ہے۔ لیکن اس سب میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ایسی بات جو تمہیں چونکا دے۔ صرف ایک دلکش انداز بیان ہے۔ تمہیں اپنا مقصد حاصل ہوتا نظر نہیں آرہا۔ تم تھوڑی سی مایوسی محسوس کرتے ہو اور کچھ دیر کے لئے کہانی نیچے رکھ دیتے ہو۔

گیلری کے باہر کا منظر نہیں بدلاہے ، تم اٹھ کر گیلری میں چلے جاتے ہو اور باہر جھانکنے لگتے ہو۔ تمہارے کرائے کے فلیٹ سے، جو ایک مکان کی دوسری منزل پر واقع ہے ، خاصا علاقہ نظر آتا ہے۔ نیچے گلی میں وہی شور تماشا ہے جو روز ہوتا ہے۔ کونے کے ہوٹل کے تنور پر پٹھان روٹیاں لگا رہا ہے۔ گلی کے بیچ میں گٹر بہہ رہا ہے۔ جس کے پانی سے بچتا ہوا ایک ٹھیلے والا گزر رہا ہے۔ سامنے کے مکان کی چھت پر ایک لڑکی کھڑی ہے جس کی پیٹھ تمہاری طرف ہے اور جو شاید اپنی پچھلی گلی میں کسی سے بات کررہی ہے۔ تم خاصی دیر تک اسے دیکھتے رہتے ہو لیکن وہ نہیں پلٹتی۔ تم نے اکثر اس کو یوں ہی باتیں کرتے دیکھا ہے ، لیکن اس نے آج تک تمہیں نوٹ نہیں کیا۔ تم سوچتے ہو کہ کیا اس لڑکی کو بالکل پرواہ نہیں کہ محلے والے کیا کہتے ہوں گے۔

پھر تم بور ہو کر کمرے میں آجاتے ہو۔ ٹی وی سے ابھی تک خبرنامے کی آواز آرہی ہے تم کہانی دوبارہ اٹھانے کے بارے میں سوچتے ہو لیکن تمہارا موڈ نہیں ہوتا۔ تمہیں خیال آتا ہے کہ تم نے ابھی گلی میں اس کے بالکل برعکس ہوتے ہوئے دیکھا ہے جیسا کہ اس افسانے میں لکھا ہے۔ اگر معاشرے کے قواعد و ضوابط سے ہٹ کر کسی لڑکے اور لڑکی کی دوستی ہوتی ہے تو لوگ اسے آرام سے تسلیم نہیں کرتے۔ تم افسانہ نگار کی حقیقت سے واقفیت اور اس کی بے معنی رومانیت پر نظر ثانی کرتے ہو۔ پھر اپنے نقطہء نظر کو مزید مستحکم بنانے کے لئے خود اپنی زندگی کے بارے میں سوچنے لگتے ہو۔

تمہاری زندگی میں کبھی خوابوں میں دیکھی جانے والی باتیں سچ نہیں ثابت ہوئیں۔ نہ کبھی کسی کو تم سے محبت ہوئی ہے اور نہ کبھی تم کسی کی چاہت کے جال میں گرفتار ہوئے ہو۔ یہ سب باتیں ایک عام آدمی کی زندگی میں نہیں ہوتیں۔ ایک عام آدمی جس کی مالی حالت ایسی ہو کہ بس جیسے تیسے گزارا ہوجائے۔ جو نہ تو زیادہ کند ذہن ہو اور نہ ہی اتنا ذہین کہ اس کی ذہانت مجمع میں اسے نمایاں کرکے شرمندگی کا باعث بنے ۔۔۔ ایسا نہیں کہ کبھی کسی لڑکی کی طرف تم نے پلٹ کرنہیں دیکھا ہو ، یا کسی کو اپنا بنا لینے کے لئے تمہارا دل بے تحاشا نہیں چاہا ہو یہ سب ہوا ہے لیکن تم سمجھتے ہو کہ ان باتوں کی تکمیل ایک عام آدمی کے بس کی بات نہیں جو عزت سے زندگی گزارناچاہتا ہے۔ یہ تو بڑے لوگوں کے کھیل تماشے ہیں یا پھر ان بے وقوفوں کے جو سب کچھ گنوا دینے کے بعد بھی اپنی چھٹی حس پر پکاّ یقین رکھتے ہوں۔ تم سمجھتے ہو کہ تمہارا نقطہء نظر حقیقت کے بہت قریب ہے ...لیکن ایسا نہیں۔

تم کبھی کسی دل کے معاملے یا محبت کے رچاؤ میں اس لئے زیادہ نہیں الجھ پائے ہو کیونکہ تمہاری عجز اور انکساری نے تمہیں ہمیشہ صراط مستقیم پر رکھا ہے۔ اصل میں اس راہ پر تمہیں سکون ملتا ہے اور تمہارے لئے یہ سکون کسی رومان کی دلفریبی یا عام زندگی کی حقارت کے احساس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اللہ تمہیں اپنے اس احساس سکون کی امان میں رکھے۔ اب کہانی پڑھنے کا خیال تمہارے دماغ سے ہٹ جاتا ہے تم برابر والے کمرے میں چلے جاتے ہوجہاں ابھی تک خبرنامہ لگا ہوا ہے، لیکن کمرے میں جتنے لوگ ہیں کسی کی توجہ ٹی وی کی طرف نہیں۔ تمہاری بڑی لڑکی بیٹھی ہوئی کوئی ڈائجسٹ پڑھ رہی ہے۔ تمہاری بڑی بہن کا لڑکا، جو پچھلی گلی میں رہتا ہے ،کرسی پر بیٹھا ہے۔ اس کا سر کرسی کی پشت سے لگا ہوا ہے ، چہرہ چھت کی طرف ہے اور آنکھیں بند ہیں۔ تمہاری ماں بھی تخت پر بیٹھی اخبار پڑھ رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سب خبرنامے کے بعد آنے والے کسی پروگرام کا انتظار کررہے ہیں۔ اس خیال کے آتے ہی تمہارے ذہن میں امید کی ایک کرن چمکتی ہے کہ شاید اس سے اگلا افسانہ زیادہ اچھا ہو۔

باورچی خانے سے تمہاری بیوی کی روٹی پکانے اور چھوٹے لڑکے کو ٹیسٹ کی تیاری کرانے کی آواز آرہی ہے، تمہارا لڑکا زور زور سے کوئی قرآنی آیت یاد کررہا ہے، گھر کے باقی لوگ کہاں ہیں اس کا تمہیں کچھ پتہ نہیں۔

تم بہت جلد اس منظر ، اپنے لڑکے اور خبرنامہ کی آوازوں سے گھبرا جاتے ہو اور کہانی کی طرف پلٹتے ہو۔ کہانی کے ورق پلٹتے ہوئے تم اس کے بارے میں اپنی تمام توقعات بھول چکے ہوئے ہو۔ اب یہ بھی تمہاری عام سی زندگی کا حصہ بن چکی ہے۔ افسانہ نگار جب اپنے دلکش اور رومانی انداز میں منظر کشی کرتا ہے تو تم کو اپنے ٹی وی کے کمرے کا سماں محسوس ہوتا ہے جب وہ اس ماسٹر اور وڈیرے کی لڑکی کے درمیان عشق و محبت کا ذکر کرتا ہے تو تمہیں لگتا ہے کہ تمہاری بیوی باورچی خانے میں بیٹھی روٹیاں پکا رہی ہے اور جب وہ کھیتوں کے لہلہانے اور چڑیوں کے چہچہانے کا ذکر کرتا ہے تو تم کو لگتا ہے کہ تمہارا چھوٹا لڑکا کوئی قرآنی آیت یاد کررہا ہے۔

لیکن تمہاری توقعات کے بر خلاف کہانی کا منظر اوراس کا بہاؤ بدل چکا ہے۔ ماسٹر کے گھر کے حالات بدل رہے ہیں۔ لیکن تم کو اس تبدیلی کا احساس نہیں ہے۔ ماسٹر کو وڈیرے کی لڑکی کے حسن اور معاشرے میں اس کی حیثیت سے عشق ہوا تھا اور وہ وڈیرے کی لڑکی ماسٹر کے متعلق ایک عظیم دانشور اور ایک سچا اور انسانیت سے محبت کرنے والے انسان کے تصورات لے کر آئی تھی۔ پھر ان کے درمیان رومان کا جادو ختم ہوتا چلا گیا تھا ، مگر تم کو اس بات کا احساس نہیں۔

ماسٹر اور اس کی بیوی کے درمیان رشتے کی نوعیت بدلنے کے ساتھ ساتھ کہانی کا منظر بدل جاتا ہے۔ چڑیوں کے گانے میں خوشی کے بجائے غم آجاتا ہے، پر تم کو اب بھی لگتا ہے کہ جیسے تمہارا چھوٹا لڑکا کوئی آیت یاد کررہا ہوگا۔ گاؤں کے لوگوں کا رویہ بھی بدل گیا ہے۔ شروع میں ان کے اظہار اور ملن میں جومسرت تھی وہ اب باقی نہیں رہی۔ لیکن تم کو اب بھی وہ اپنے گھر کے ٹی وی کے ناظرین کی طرح معلوم ہوتے ہیں۔

پھر ایک روز ماسٹر کی بیوی بھاگ جاتی ہے۔ تم اس قصے کو پڑھتے ہو لیکن بات تمہاری سمجھ میں نہیں آتی۔ تم کسی صورت بھی یہ تصور نہیں کرسکتے کہ تمہاری بیوی روٹیاں پکاتے پکاتے گھر چھوڑ کر بھاگ جائے۔ تم کو دو بارہ یہ کہانی فلمی محسوس ہونے لگتی ہے۔ ماسٹر کے دل کے غم اور اس کی ویرانی سے تمہیں کوئی ہمدردی نہیں ہوتی۔ وڈیرے کی لڑکی تم سے اتنی ہی دور ہوتی ہے جتنی تمہارے محلے میں کسی مکان کی چھت پر کھڑی ہوئی لڑکی۔

اب تم کو اس کہانی سے کوئی لگاؤ نہیں۔ تم اسے دوبارہ نیچے رکھ دیتے ہو۔

گیلری کے باہر کا منظر اب تک نہیں بدلا ہے ، تم دوبارہ وہاں جاکر کھڑے ہوجاتے ہو... لیکن یہ کیا... یہ باہر کیاہورہا ہے... تم دیوار کی جالیوں کے نیچے چھپ جاتے ہو۔

سامنے والے مکان کی چھت پر اس لڑکی کے ساتھ تم کو کسی اور کی پرچھائیں بھی نظر آتی ہے۔ تمہارا دل زور زور سے دھڑکنے لگتا ہے۔ اس شخص نے لڑکی کو اپنے آپ سے چپکایا ہوا ہے اور وہ اس کے ہونٹ چوس رہا ہے۔ ’’ یہ کیا فحاشی ہے... ‘‘ گیلری کی جالیوں کے پیچھے چھپے ہوئے تم زور سے اپنا گلا صاف کرتے ہو تا کہ وہ ان حرکتوں کو روکیں۔ لیکن وہ ایک لمحے کے لئے تمہاری گیلری کی طرف دیکھتے ہیں اور پھر دوبارہ ایک دوسرے میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ تم کچھ دیر ان کے ہٹنے کا انتظار کرتے ہو پھر اپنا سا دل لئے کمرے میں واپس آجاتے ہو۔

اس وقت تمہارا دل سخت زخمی ہے۔ تمہیں محسوس ہورہا ہے کہ اب زندگی میں امید کی کوئی کرن باقی نہیں بچی۔ اس کہانی کے بارے میں سوچ کر تمہیں اپنا دل مزید ڈوبتا ہوا محسوس ہوتا ہے تم اسے اور نہیں پڑھ سکتے۔

پھر تم کتاب اٹھا کر اس کے ورق پلٹ کر اگلی کہانی پر پہنچ جاتے ہو اس امید میں کہ شاید وہ تمہارے دل کے ان زخموں پر مرہم پٹی کرسکے۔ یہ کہانی ادھوری چھوڑ دیتے ہو۔