بدھ، 24 جون، 2020

ننگی ڈکیت


آصف فرخی کی نذر
جو میری کراچی کے روزمرہ اور انڈرورلڈ کرداروں کی کہانیوں کے خاص مداح تھے۔

[یہ کہانی ایک سچے واقعے پر مبنی ہے، جو کسی نے مجھے سنایا۔ کہانی میں کسی جگہ یا شخص کا نام تبدیل نہیں کیا گیا، کیونکہ اس حمام میں تو سب ہی ننگے ہیں۔]


نشہ زندگی کی ضرورت ہے، میں نے بھی بہت نشے کئے ہیں۔ لیکن جو نشہ دوپہر کی نیند میں ہے، شاید ہی کسی اور چیز میں ہو گا۔ اور اگر اس میں کوئی خلل ڈال دے، تو اُس سے بڑا چراندی کوئی نہیں ہوتا۔

اس روز میں بہت گہری نیند سو رہا تھا۔ کہ اُدھر زور زور سے گھنٹی بجنے لگی۔ کچھ دیر تو بالکل سمجھ نہیں آیا کہ کیا ہو رہا ہے، پھر جیسے تیسے اٹھ کر گیا، اور دروازہ کھولا، تو عابد تھا۔ شکل اسکی بالکل ہونق ہو رہی تھی۔ جیسے کوئی بہت بڑی واردات ہو گئی ہو۔

”کیا ہوا؟… خیریت ہے؟…“، میں نے پوچھا۔ لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ وہ سیدھا اندر گھسا، اور باہر بالکنی کی طرف جا کر نیچے جھانکنے لگا۔ پھر پلٹا اور مجھے بلانے لگا۔ ”جلدی آئیں ڈاکصاحب، جلدی، وہ دیکھیں… وہ دیکھیں…“
بہت جذبات میں آیا ہوا تھا۔

خیر میں کیا کرتا، اپنی درد کرتی ٹانگ کو لے کر، لنگڑاتا ہوا چلا بالکنی کی طرف، اور نیچے جھانکا۔ تو نیچے تو کوئی ایسی خاص بات نہیں تھی، وہ ہی تھا جو
روز ہوتا ہے۔ ادھر میرے برابر عابد کہے جا رہا تھا، ”وہ دیکھئے… وہ دیکھئے، وہ جا رہی ہے…“۔

”کون جا رہی ہے؟… کیا ہے یہاں پر؟“۔ میری کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔

”وہ دیکھئے نا… وہ ہے ڈاکصاحب… ُادھر… وہ جا رہی ہے، رنڈی کی بچی… وہ برقع پہن لیا ہے اس نے، وہ ایڈجسٹ کر رہی ہے اسے اب… بھڑوی“۔ بہت جذبات اور غصے میں تھا۔

میں نے ذرا آگے ہو کر جھانکا۔ تو ایک لڑکی، الٹے ہاتھ پر، ایک بلڈنگ چھوڑ کر مین روڈ کی طرف جا رہی تھی۔ پیٹھ ہماری طرف تھی، اور اپنے برقعے کو کچھ درست کر رہی تھی۔

”اچھا، تو کیا ہوا پھر؟ کیا کیا اس نے؟…“۔

”ارے ڈاکصاحب، ڈکیت ہے وہ ایک نمبر کی، سالی…“

”اچھا؟…“ حیریت کم، اور بےیقینی زیادہ تھی اب مجھے اس کی بات پر۔ میں تھوڑا پیچھے ہٹ گیا۔ وہ لڑکی مین روڈ تک پہنچ گئی تھی۔ اسکو تکتے رہنے کا کیا فائدہ تھا۔ میں واپس اندر کی طرف آنے لگا۔

”آ جاؤ اندر چل کر بیٹھیں“ میں نے اس سے کہا۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں اسکی طرح ایکدم سے جذباتی نہیں ہوا تھا، شاید اس لیے وہ تھوڑا مایوس سا لگ رہا تھا۔ اب میں اس سے کیا کہتا کہ کیسا ٹنُ سو رہا تھا کہ آکر اس نے کباب میں ہڈی ڈالی۔ اور اب لگا تھا کسی رنڈی ڈکیت کے راگ الاپنے۔

میں آکر اندر اپنی گول میز کی کرسی پر بیٹھ گیا، جس جگہ میں ہمیشہ بیٹھا کرتا تھا۔ وہ خاموش کھڑا رہا۔ ”آؤ، بیٹھ جاؤ…“ میں نے آخر کار اس سے کہا۔
”قسم سے ڈاکصاحب، آج ایسا واقعہ ہوا… میں تو ہل گیا بری طرح سے…“ یہ کہتے ہوئے وہ کرسی کھینچ کر بیٹھا، اور جیسے کہ کچھ یاد آیا ہو، اچھل کر ایکدم کھڑا ہوا اور اپنی پتلون کی بیلٹ میں ہاتھ ڈال کر اڑاسی ہوئی بوتل نکالی۔ ”یہ میں نے لی تھی آپ کے لئیے، قسم سے بالکل بھول گیا تھا…“ یہ کہتے ہوئے اس نے ڈرائی جن کا پائینٹ میز پر رکھا اور دوبارہ بیٹھ گیا۔

چلو۔ میں نے سوچا۔ کچھ تو لایا ڈھنگ کی چیز۔ نہیں تو بلا وجہ احمق آدمی نے نیند کے لسن لگا دیے تھے۔ اب وہ میری طرف دیکھ کر گردن ہلا رہا تھا۔ ”قسم سے ڈاکصاحب آج تو مجھے بھی ضرورت ہے…“
”اچھا!…“ اب میں واقعی حیران تھا۔

”ایمان سے ڈاکصاحب… آپ کو تو معلوم ہے، چھوڑ دی ہے میں نے… بالکل بھی ہاتھ نہیں لگاتا ہوں ۔ آپ کو تو معلوم ہے نا… لیکن آج چاہئے مجھے… قسم سے… بال بال بچا ہوں… کیا بتاؤں… بتاتا ہوں ابھی“ یہ کہہ کر وہ تھوڑا رکا، آنکھ بند کر کے سوچا اس نے کچھ، پھر بولا ”اچھا ایک پیگ بنا دو… ایمان سے… بس… اسکے بعد نہیں مانگوں گا۔ صرف ایک چاہیے آج، بس۔ ایمان سے سین ایسا ہوا آج، دماغ بھننوٹ ہوا وا ہے بالکل۔“

اور میں بھی حیران ہوا تھا۔ عابد نے واقعی کئی سال سے چھوڑی ہوئی تھی، یہ مجھے معلوم تھا۔ بیٹھتا تھا ہمارے ساتھ محفل میں۔ اپنے پیسوں سے خرید کر بھی لا دیتا تھا۔ لیکن خود کبھی ہاتھ نہیں لگاتا۔ ”ہاں ہاں، بالکل… پیئو… پیئو۔ لیکن ہوا کیا ہے آج۔ یہ واقعہ تو بہت سنگین معلوم ہوتا ہے۔“

” بتاتا ہوں، بتاتا ہوں…“ یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گیا۔ اسکو اب پیگ کا انتظار تھا۔ میں اٹھا گلاس وغیرہ نکانے۔ مجھے بھی اطمینان سا ہوا تھا، کہ چلو دوسرے نشے کا بندوبست تو ہو گیا، نیند ماری گئی تو کیا۔ چند منٹ میں پیگ بنا کر اسکے سامنے رکھ دیا۔ اور اس نے گہری سوچ میں پیگ اٹھا کر منہ سے لگایا اور ایک کرخت سی شکل بنائی۔ جس سے لگتا تھا کہ واقعی بہت زمانے سے شراب کو منہ نہیں لگایا تھا۔ اب اپنی گردن کو زور سے دو جھٹکے دے کر وہ بولا، ”سچ بول رہا ہوں ڈاکصاحب۔ کتنے سالوں سے اسے منہ نہیں لگایا ہے…“

”ہاں مجھے پتہ ہے۔ تو بتاؤ ، ہوا کیا آج؟“

”بتاتا ہوں…“، اس نے دوسرا گھونٹ لیا ”بتاتا ہوں… دماغ کو ذرا ایک جگہ تو روک پاؤں… ایمان سے ایسا میں آج بچا ہوں… “ اب اس نے گلاس رکھ دیا، ”ایمان سے ڈاکصاحب، اتنے زمانے بعد پی ہے… کمال ہے بالکل۔“ گلاس کی طرف اشارہ کیا ”تو میں آج شیریں جناح کالونی کی طرف گیا تھا، تھوڑا کام تھا ذرا۔ واپسی پر سوچا کہ آپ کی طرف چکر لگا لوں، بہت دن ہو گئے… اور کچھ لے بھی لوں آپ کے لئے، اس کو بھی بہت دن ہو گئے۔ تو میں ادھر، بدر کمرشل والی دکان کی طرف چلا گیا۔ وہاں سے نکلا ہی تھا کہ یہ لڑکی کھڑی تھا… اب آپ کو تو پتہ ہے… یہ تو کمزوری ہے میری۔ شراب تو چھوڑ دی، لیکن اس کام کو کیسے چھوڑ سکتا ہوں۔ یہ تو معلوم ہے نا آپ کو۔ تو روک دی اس سے ذرا آگے جا کر گاڑی۔“ یہ کہہ کر وہ رکا، اور ایک گھونٹ لیا۔

”پیسے شروع میں اس نے زیادہ مانگے… پانچ ہزار، میں نے کہا، دیکھ تو سڑک پر کھڑی ہے، تیرا تو کوئی اوپر کا، یا نیچے کسی بھڑوے کا خرچا تو نہیں ہے نا، پھر بھی اتنے زیادہ پیسے مانگ رہی ہو؟ پھر تھوڑی بات چیت کے بعد میں نے دو ہزار میں راضی کرا لیا اس کو۔ بیٹھ گئی آ کر وہ گاڑی میں…“

اب نشے میں آتا جا رہا تھا کچھ کچھ۔ میں دیکھ رہا تھا اسے کافی غور سے۔

”تو اب میں لے کر اسے نکلا ہوں… بمشکل سو فٹ آگے گیا ہوں گا، کہ کہنے لگی مجھ سے وہ، کہ دیکھو پورے پانچ ہزار دے دو۔ میرے بھائی کا آپریشن ہے، مجھے چاہیے پیسے اسکے لئے۔ تو مطلب کہ سو فٹ بھی آگے نہیں گئے ہوں گے ابھی ہم، اور شروع تھی اپنا ڈاکہ ڈالنے میں…
تو میں بولا اس سے، کہ دیکھ ابھی تو تجھ سے پیسے کی بات ہوئی ہے، اور ابھی تُو پھر گئی اس سے؟ رنڈی تو تھی وہ پہلے سے، تو اور کیا بولتا میں آگے۔“ یہ کہہ کر اس نے ایک اور گھونٹ لیا، اور شروع ہو گیا پھر سے۔

”اصلی رنڈی رونا تھا ڈاکصاحب اسکا۔ بھائی کا آپریشن ہے، اوپر سے اور پیسے دے دو۔ ابے ایدھی سینٹر جا نا پھر، میری گاڑی میں کیوں چڑھی ہے؟

میں اس وقت ۲۶ اسٹریٹ پر پہنچ رہا تھا۔ بولتی ہے… یہ دیکھو نا، کتنے اچھے ہیں، میں کام ڈبل کروں گی، بالکل، بس پیسے دے دینا پورے… میں نے اسکی طرف دیکھا۔ وہ اپنے برقعے کے بٹن کھول رہی تھی… آگے سے بٹنوں والا برقع پہنا ہوا تھا اس نے۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کر رہی ہے۔ اور ایک ہی منٹ لگا ہو گا، اپنا پورا برقع اتار کر سائیڈ میں رکھ دیا اس نے۔

اب میں اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اندر سے تو وہ ٹائٹ تھی ٹھیک ٹھاک۔ ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی، چُست، بدن سے چپکی ہوئی، اور جینز۔ میں دیکھ ہی رہا تھا اُسے ، کہ وہ بولی، دیکھو پیسے مجھ کو چاہیئے فوراً۔
کیا مطلب فوراً؟ ابھی چلو، فلیٹ پر تو چلو، دے دوں گا۔
نہیں پیسے تم مجھے ابھی دو، یہاں پر، چلیں گے اسکے بعد پھر فلیٹ میں۔
اب شروع ہو رہی تھی وہ فل بدمعاشی پر اترنے۔ لیکن اس طرح تو میں اُسے گاڑی میں ایک ٹکا نہیں دینے والا تھا۔
دیکھو پیسے سارے تو نہیں ہیں میرے پاس… تم سے بات جو ہوئی ہے، وہ میں سارے تم کو دے دوں گا، فلیٹ پر پہنچتے ہی۔
پیسے ابھی دو، میں چلوں گی اسکے بعد تمھارے ساتھ… بگڑ رہی تھی اب سالی۔

مجھے لگا کہ وہ پیسے لئے بغیر نہیں چلے گی میرے ساتھ۔ اور پیسے مجھے اس کو دینے نہیں تھے اس طرح۔ شہباز کے سگنل سے پہلے میں نے گاڑی روک دی۔ میرا خیال تھا کہ پیسے اگر نہیں دوں گا تو وہ اتر جائے گی۔
یہ کیا کر رہے ہو، اس نے پوچھا۔
بھئی دیکھو، پیسے نہیں ہیں اس وقت میرے پاس دینے کو۔ فلیٹ پر تم چل نہیں رہی ہو، تو پھر ٹھیک ہے۔
ایک سیکنڈ کے لئے وہ پریشان ہوئی۔ پھر فوراً بولی، لیکن میرے بھائی کا آپریشن ہے آج، مجھے پیسے چاہیے…
اچھا،… کیا آپریشن ہے؟ میں نے اس سے پوچھا۔ یہ بھی اسکا کمال کا رنڈی رونا تھا۔
بولی۔ میرے چھوٹے بھائی کا، بائیک سے ایکسیڈنٹ ہوگیا، کل۔
اوہ ہو، یہ تو بہت برا ہوا۔ لیکن میں کیا کروں اب؟

وہ میری شکل تک رہی تھی، کچھ سہمی ہوئی بھی لگ رہی تھی۔ ڈری نظر سے اس نے اپنے دروازے کی طرف دیکھا۔ میں تاڑ گیا کہ اترنا نہیں چاہ رہی۔ میں نے سوچا کہ کچھ نہ بولوں، انتظار کروں۔ پھر وہ واپس میری طرف پلٹی، اور مجھے لگا کہ جیسے سارا ڈر خوف اتار پھینکا ہے۔ بولی، دیکھو پیسے مجھے پورے چاہئے اور ابھی چاہیے۔ پھر چلوں گی میں تمھارے ساتھ فکر مت کرو، پیسے دو۔
میں خاموش رہا اب بھی۔

اس نے دوبارہ دروازے کی طرف دیکھا، اور پھر پلٹی۔ یہ دیکھو میں سچ بتا رہی ہوں، جھوٹ نہیں بول رہی تم سے… یہ کہہ کر اس نے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اپنی ٹی شرٹ اوپر کی، ایک سیکنڈ کو وہ گردن میں اٹکی، پھر اتر گئی۔

میرا منہ ایکدم حیرت سے کھل گیا۔ یہ کیا کر رہی ہو؟ دماغ صحیح ہے تمھارا؟ ویسے اندر بریزر تو پہنا ہوا تھا اس نے۔ لیکن مجھے بالکل یقین نہیں آرہا تھا جو میں دیکھ رہا تھا۔

ڈاکصاحب، سچ بولوں، پھٹ کر ہاتھ میں آ گئی، یعنی کہ دماغ بالکل شنٹ ہو گیا کہ پتہ نہیں کس قسم کے حرامی پن میں پھنسنے جا رہا ہوں۔ یہ تو کچھ اور ہی کیس لگا اب مجھ کو۔“خاموش ہو گیا اب عابد دو سیکنڈ کے لئے، گھونٹ لیا، اور میری آنکھوں میں گھور کر دیکھا۔

”ڈاکصاحب، بہت دنیا دیکھی ہے میں نے، لیکن قسم سے سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایسا میرے ساتھ کبھی ہو گا۔

پورے پانچ ہزار چاہیے، بولی وہ اب۔ باہر کی طرف دیکھ رہی تھی دوبارہ۔ پھر پلٹی میری طرف۔ یہ دیکھو، یہ دیکھو، پورا کام کروں گی تمھارے ساتھ۔ اور اس بار وہ اپنا بریزر کھول رہی تھی۔

ابے نہیں، ابے نہیں، تو اب یہ نہیں کرے گی۔ میں نے بھی اسکا ہاتھ پکڑ لیا ڈاکصاحب۔ بہت ہو چکا حرامی پن۔ مروا دینا تھا اس بھڑوی نے مجھے۔ اتنے سارے لوگ جانتے ہیں مجھے، کاروبار ہے، عزت ہے۔ دو سیکنڈ میں برباد کر دینا تھا اس رنڈی نے۔ میں نے زور سے ہاتھ دبایا اسکا۔ تاکہ کچھ تکلیف بھی ہو سالی کو۔

اب چیخی۔ چھوڑو ہاتھ، چھوڑو۔ چھوڑ دیا میں نے۔ دیکھ سدھر جا ، سب میری سمجھ میں آ رہا ہے کہ تو کیا کرنا چاہ رہی ہے۔ پہن کپڑے، بن جا انسان۔ ویسے تو میں اگر چاہتا تو دھکا دے کر اسے باہر نکال سکتا تھا۔ لیکن کچھ دل سا آ گیا تھا اس پر، بڑی ہمت تھی سالی میں۔ اور سب سے بڑی غلطی کی میں نے۔ وہ خاموش تھی اب۔ گاڑی بھی رکی ہوئی تھی۔ اسکی گود میں رکھی ٹی شرٹ کی طرف میں نے اشارہ کیا اور بولا، پہن اس کو، انسان بن، ورنہ ابھی دھکا دے کر گاڑی سے باہر کروں گا۔

اثر ہو گیا اس پر، اور خاموشی سے ٹی شرٹ پہنے لگی۔ پھر بولی، اچھا مجھے پیسے ابھی دو سارے، مجھے چاہیے ابھی۔
اچھا ابھی دوں… اور تو چمپت ہو گئی پھر؟
نہیں بھاگوں گی۔ بولتی ہے۔ ٹی شرٹ پہن لی اس نے۔
میں نے گاڑی چلا دی، مگر جواب کوئی نہیں دیا۔ آگے سگنل پر خیابانِ شہباز پر مڑ گیا۔ تھوڑی دور ہی گیا ہوں گا کہ وہ پھر پیسے مانگتی ہے۔ ابے نہیں ہیں میرے پاس، پہنچ کر سب سے پہلا کام یہ ہی کروں گا… تو میری بات مانتی کیوں نہیں؟
ٹریفک تھا روڈ پر ذرا، میرا ایک سیکنڈ کو دھیان بٹا ہو گا، کہ مل گیا اس سالی کو موقع۔ پھر اتار دیا اسنے سب۔
یہ دیکھو نا، کتنے اچھے ہیں یہ…

تب میں نے اسکی طرف دیکھا۔ اس بار بریزر بھی اتار چکی تھی۔ تھے تو واقعی اچھے…“، مسکرا رہا تھا عابد، لیکن رکا نہیں۔ ”مگر میں نے تو اپنا سر پیٹ لیا۔ ابے پاگل ہو گئی ہے۔ مروا دے گی بالکل، یہاں بہت لوگ جانتے ہیں مجھے۔ دیکھ لیا کسی نے مجھے تو؟ اور شاید وہ یہ ہی چاہتی بھی تھی۔ تاکہ نکال دوں میں اسکے لئے پیسے، وہ بھی جتنے مانگے وہ۔ اتنے آرام سے یہ نہیں ہونے دینا تھا میں نے۔ یہ لو، یہ ڈالو اوپر سے۔ میں وہ اسکا برقعہ اٹھا کر اس کے سینے پر رکھنے لگا۔ دیکھ، یاد رکھنا کہ اگر میں تیری وجہ سے کسی مسئلے میں پھنسا، تو خیر نہیں ہو گی تیری پھر۔ بچے گی نہیں میرے ہاتھوں سے تو پھر۔ میری دھمکی کام کر گئی شاید۔ اور اس برقعے کو رکھا رہن دیا اس نے وہاں۔

ارے میں تو دکھا رہی تھی تم کو صرف، کتنے اچھے ہیں یہ، کتنا مزہ آئے گا تمھیں جب… ارے لیکن بھائی تم نے تو خود ، دن دھاڑے مجھے اٹھایا، تو اب یہ کیسے اپنی عزت کی وجہ سے پھٹ رہی ہے تمھاری… پیسے میں تم سے مانگ رہی ہوں زیادہ، اور مجھے واقعی پیسے چاہیے زیادہ، تو اس کے لئے کام بھی تو کر رہی ہوں۔ یہ دیکھو نا… ہنس بھی رہی تھی سالی اب۔

بھڑوی نے پھر سے برقعہ سائڈ پر کر دیا۔اور اب اپنے سینے کو ہلا کر دکھا رہی تھی۔ بائو لی تھی پوری۔ ابے تُو تو بالکل پاگل ہے، تو دیکھ نہیں رہی کہ ہم لوگ سڑک پر جا رہے ہیں، اگر کسی نے دیکھ لیا تو؟

وہ تمھارا مسئلہ ہے… بس پیسے دے دو… مجھے تو ویسے بھی سارے ایک ہی طرح دیکھتے ہیں، چاہے کپڑے پہنوں یا نہیں۔ یہ دیکھو نا، کتنے اچھے ہیں۔

ڈاکصاحب ، اُس کو کوئی فکر نہیں تھی کہ سڑک پر ہی ننگی ہو جائے۔ سچ بتا رہا ہوں۔ ایمان سے میری تو آج ایسی ڈبری ٹائٹ تھی کہ کبھی نہیں ہوئی، بیوی بچے ہیں میرے، خاندان ہے پورا، اس ہی علاقے میں رہتے ہیں۔ کوئی دیکھ لیتا اس ننگی کے ساتھ تو پھر کیا ہوتا؟ “

عابد واقعی ٹینشن میں آیا ہوا تھا۔ اس نے ایک اور گھونٹ لیا۔ اور خاموش رہا کچھ دیر۔ میرے دل میں آیا کہ میں بھی اس سے پوچھوں کہ اگر اتنی ہی اپنی عزت کی فکر تھی تو اٹھایا کیوں تھا لڑکی کو اس علاقے میں۔ لیکن پھر میں نے سوچا کہ میں خود تو اگلے وقتوں کا پروفیسر ہوں، کتابی انداز میں سوچتا ہوں، یہ ہنسے گا مجھ پر، کہ ڈاکٹر صاحب پتہ نہیں کس اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ اپنے انداز سے سوچتا تھا، یہ حرکتیں تو اس کا روز کا معمول تھیں۔ لیکن آج برا پھنسا تھا استاد۔ اب پھر شروع تھا۔

”آگے سگنل بند تھا… قسم سے ڈاکصاحب، ایسی برائی پر برائی آئی تھی آج۔ اگر رکتا سگنل پر، اسکی چمکتی دمکتی چھاتیوں کے ساتھ تو پھر تو نا لگ جاتے لسن…“ ہنس رہا تھا خود بھی۔

” کیا کرتا، پھر منتیں کر رہا تھا اسکی، اور کیا۔ ابے ڈال لے کوئی کپڑا، کیا فائدہ ہو گا اس طرح سے… ہم دونوں پھنسیں گے۔ لیکن اس سالی کو تو پیسے چاہیے تھے، اور مجھ پر پریشر ڈال رہی تھی ہر طرح سے۔ دیکھ سگنل بند ہے آگے۔ رکنا پڑے گا۔ لیکن اس پر کیا اثر ہونا تھا۔

سگنل پر رکنے کا تو اب سوال ہی نہیں تھا۔ وہ تو شکر ہے کہ سامنے سے ٹریفک زیادہ نہیں تھی۔ سگنل توڑا، اور سیدھی ہاتھ کی طرف جو نشاط ایوینیو والی روڈ ترچھی نکل رہی تھی، اس پر لے لیا گاڑی کو۔ نسبتاً کم ٹریفک ہوتا ہے اس پر۔

بلکہ ڈاکصاحب، سنسان ہی پڑی ہوئی تھی اس وقت۔ اب میں نے سوچا کہ چلو گاڑی روکو اور دھکا دو اسکو باہر۔ سالی کا کوئی بھروسہ نہیں تھا کہ کیا کرے گی اگر میں اسکو لے کر چلوں اوپر۔ ابھی میں نے گاڑی ذرا آہستہ ہی کی کہ،… ڈاکصاحب سوچو کیا کہا ہو گا اس نے؟“، مجھے دیکھتا ہوا مسکرایا، کہ جیسے میرے جواب کا منتظر ہو۔

”مجھے کیا معلوم کہ کیا کہا اس نے، تم بتاؤ۔“ رک کر اس نے گھونٹ لیا، پھر سر ہلا کر مسکرانے لگا۔

”کیا بولتی ہے وہ، سوچ سکتے ہو آپ؟… پیسے دے دو، مجھے پیسے چاہیے جلدی سے، بھائی کا آپریشن ہے… یہ جگہ ٹھیک ہے، ادھر ہی کر لو ہیپی اینڈنگ؟ “

" کیا؟ ہیپی اینڈنگ( happy ending)، یہ کیا ہوتا ہے؟ “ اب میں نے اسکو روک کر پوچھا، میری بھی سمجھ میں نہیں آیا۔

وہ شروع تھا۔ "بولتی ہے… ارے اتنا نہیں پتہ… ہیپی اینڈنگ… ارے وہ جو فلم میں ہوتی ہے… تم مجھے فلیٹ میں لے کر جائو گے، پھر کیا کرو گے؟…سالی اب ریکارڈ بھی لگا رہی تھی میرا، بس اس ہی کی کمی تھی۔
یہ دیکھو، بس پیسے دو پورے اور ادھر ہی، ہیپی اینڈنگ کر لو… سڑک بھی یہ کتنی سنسان ہے۔
اب وہ سالی اپنی پتلون اتار رہی تھی۔ پاگل تھی، پوری پاگل، الو کی پٹھی۔ ابے یہ کیا کر رہی ہے پھر سے۔ ادھر کیسے ہو گا یہ۔ ابے تو تو سالی مروائے گی، بلکہ اندر بھی کروا دے گی۔
جینز وہ نیچے گھٹنوں تک کر چکی تھی۔ اب اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنی ران پر دھر دیا۔ ارے…ڈاکصاحب…

دیکھو، پیسے دے دو نا۔ ادھر ہی کام بھی کر لو۔ اب سالی کہہ رہی تھی۔ اور ڈاکصاحب، ایسا میرا دماغ گھوم رہا تھا۔ سوچنے سمجھنے کی ساری طاقت نے جواب دے دیا۔ ہم دونوں ایک ساتھ تھمبو ہونے جا رہے تھے۔ مطلب، رنڈیاں ہوتی ہیں، میں نے بہت دیکھی ہیں۔ لیکن اتنی دلیر آج تک نہیں دیکھی۔ رنڈی تھوڑی تھی، وہ سالی تو ڈکیت تھی۔ پوری ڈکیت۔ بلکہ ننگی ڈکیت۔“

ہنس رہا تھا وہ۔ ایک گھونٹ لیا اس نے چھوٹا سا، ختم ہونے والا تھا اسکا پیگ۔ میں اسے غور سے دیکھ رہا تھا۔ فتح اور شکست، ایک ہی بات کے دو نام لگ رہے تھے مجھے۔

شیطانی مسکراہٹ اسکے چہرے پر اب کھیلنے لگی۔ ”اب دماغ تو میرا نہیں کام کر رہا تھا، لیکن ہاتھ تو کر رہا تھا۔ تو وہ خود سے، اسکی ران پر، اوپر کی طرف سرکنے لگا“ اور ایک زور دار قہقہہ لگایا عابد نے، ”ایسی رنڈی تھی سالی کہ ہاتھ اب روک دیا اس نے۔ بولتی ہے، پہلے پیسے دو۔ اور اب چونکہ دماغ نے کام کرنا بند کر دیا تھا، تو دوسرا ہاتھ پتلوں کی جیب میں گیا، اور اس میں جو نوٹ پڑے تھے وہ نکال کر اسُے دے دیے۔ کوئی دو تین سو روپے ہوں گے۔ وہ پکڑ کر بولی، یہ کیا ہے، اور دو۔

میں بولا، ابے جتنے پیسے پڑے تھے وہ دے دیے تجھے، ابھی اور نہیں ہیں، تو یہ ہی پکڑو۔ بولی، ان میں کام کیسے ہو گا۔ میں نے کہا، میں کونسا پوری ہیپی اینڈنگ کروں گا۔ جتنا مال اتنا سین۔ اور میں نے ہاتھ تو اچھی طرح پھیرا سالی پر۔

اب وہ ایک ٹوٹے ہوئے چہرے سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ بولی، مجھے تو پیسے سارے چاہیے۔ ضرورت ہے اشد مجھے۔

میں نے کہا، دیکھ، میں تجھے کیسے سمجھاؤں، ایک تو تو نے گاڑی میں بیٹھتے ہی پیسے ڈبل کر دیئے، اور کہتی ہو کہ ابھی دو، اور کپڑے اتار رہی ہو۔ نہیں دیئے پیسے تو پھنسوا دو گی مجھے۔ میں نے گاڑی روک دی اب۔ وہ مجھے دیکھتی رہی اور بولی، ادھر ہی کر لو نہ کام۔ مسکین لگنے لگی پھر ایکدم سے۔ ترس سا آ یا پھر مجھے۔ ویسے تو میں اسے وہیں پر گاڑی سے دھکا دے دینے کا سوچ رہا تھا۔ پتلون ابھی تک گھٹنوں پر تھی اسکی، اوپر بھی کچھ نہیں تھا، بس برقعہ پڑا تھا کندھوں سے۔

پیچھے والی سیٹ پر چلو، یا میں آ جاؤں تمھاری سیٹ پر، بولی۔ بالکل پاگل تھی، ذرا بات بھی اسکی سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ نہیں، میں نے اب سیدھا اس کو جواب دیا، یہاں سڑک پر کچھ نہیں ہو گا، چلنا ہے تو فلیٹ پر چل…
ٹائم نہیں ہے میرے پاس اتنا، ٹائم بہت لگ جائے گا اس میں۔

تو ٹھیک ہے، پھر نہیں ہو سکتا، جاؤ تم۔ میں نے اسے بولا اور اشارہ کیا دروازے کی طرف۔ اس نے پھر دروازے کی طرف دیکھا اور پھر سے ڈر اور مسکینی اس کے چہرے پر آ گئے۔

دیکھو، مجھے پیسے چاہیے، میری مدد کر دو، تم جو کہو گے میں کر دوں گی، بس اس وقت ٹائم نہیں ہے میرے پاس۔ پلیز مجھے پیسے دے دو، مجھے اس طرح مت اتارو۔

دیکھ، اور پیسے نہیں ہیں میرے پاس اس وقت، جو تھے تجھے دے دیے۔ میرا اس پر سے اعتماد بالکل اتر گیا تھا۔

تو کہیں سے کر دو۔ دیکھو میں تمہیں واپس بھی کر دوں گی۔ بھروسہ بھی کر لو میری بات کا۔ میں نہیں ہوں اتنی بری، جیسا تم سمجھ رہے ہو۔ اب بات کر رہی تھی وہ بھروسے کی… سالی۔ بس مجھے جان چھڑانی تھی اُس سے، اور وہ بھی اس طرح کہ کسی شور شرابے یا ہڑابڑی کے سین کا موقع نہ مل پائے۔ تو میں نے اس سے کہا، ایسے تو میں کدھر سے پیسے لا کر دوں تجھے۔ میرے پیسے تو فلیٹ میں پڑے ہیں۔ اگر بولتی ہو تو چلیں ادھر۔

ادھر اُدھر دیکھا اس نے تھوڑا پریشان ہو کر۔ بولی، بس پیسے لا دو مجھے، دیر ہو گئی ہے۔ جانا ہے بس اب۔

ٹھیک ہے، تو چلو، اور یہ ذرا اوپر کچھ ڈال لو۔ میں نے اسکے سینے کی طرف اشارہ کیا۔ اُدھر مارکیٹ ہے، لوگ ہوں گے۔ اور پھر مزید راستے میں کوئی ڈرامہ نہیں ہوا، بیٹھی رہی خاموش۔

یہاں پہنچ کر میں نے نیچے گاڑی کھڑی کی، اور بند ہی کرنے والا تھا، کہ اسکا ہاتھ بڑھا اسٹیرنگ کی طرف۔ اور میں پلک جھپکنے سے پہلے سمجھ گیا۔ جھٹ میں نے، اسکا ہاتھ پہنچنے سے پہلے، گاڑی کی چابی پکڑ لی۔ اور دوسرے ہاتھ سے اس کو پکڑ کر پیچھے دھکا دیا۔ سالی، یہ نہ سمجھ، بہت سیانڑی بنتی ہے، اگر میں چاہوں تو دو منٹ لگیں گے تجھے ٹائٹ کرنے میں۔ ابھی مجھے پہلی بار صحیح کا غصہ آیا تھا اس پر۔ لیکن وہ بھی چپ نہیں ہونے والی تھی۔ بولتی ہے، مجھے یہاں بیٹھا کر، اب تو خود شارٹ ہونے جا رہا ہے… چابی ادھر دے، میرے پاس، واپس آئے گا پھر لے لے… دیکھو مجھے چاہئے پیسے اس دقت، ابھی، میرے بھائی کا کیا ہو گا… تیری کنپٹی پر ٹی ٹی رکھ دی ہوتی، تو تیرے لئے بہتر ہوتا۔

ریشان تھی وہ شکل سے۔اور پھر اس نے چابیوں پر ایک اور جھپٹا مارنے کی کوشش کی، لیکن میں ایسا بھی کچا نہیں۔ میں نے اسکے ہاتھ روکے، بولا، ہاں تجھے دے دوں چابی گاڑی کی، تاکہ اگلی واردات تو اس پر کرے۔ اب وہ میرے ہاتھ پکڑ کر مجھے اترنے سے روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔ نہیں، تو نہیں جائے گا… چابی ادھر دے پہلے۔

ویسے ڈاکصاحب، ایک لڑکی کے حساب سے تو اس میں ٹھیک ٹھاک طاقت تھی، لیکن مججھے کیسے روک سکتی تھی۔ تو بیٹھ اب، آیا میں، ایک سیکنڈ میں۔ یہ کہہ کر میں نے ایک چھلانگ لگائی۔ اور اس طرح چلا کہ واقعی دو سیکنڈ میں آوں گا، اور مزید دو چار کو ساتھ لاوں گا۔ اور الٹا اس سالی کو تھمبو کروں گا۔“

اب عابد خاموش ہو گیا۔ میز پر رکھے اپنے گلاس کو دائیں بائیں جھولا دے رہا تھا، اور کچھ سوچ رہا تھا۔
پھر میں نے اس سے کہا، " تو دے دیتے کچھ پیسے اس کو، کیا پتہ کہ سچ بول رہی ہو۔“
خاموش رہا۔ پھر بولا، " ارے نہیں ڈاکصاحب، رنڈی تھی وہ … بلکہ ڈکیت، ننگی ڈکیت۔“

یہ کہتا ہوا وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اور پیگ کو اوپر اٹھا کر اسکی طرف اشارہ کیا ۔ "بس ڈاکصاحب، اﷲ کرے کہ اب کئی سال تک مجھے اسکی ضرورت نہ پڑے“۔

"کیوں ایسا کہہ رہے ہو… پیو… اور پیتے رہو۔ نشے کی تو ہر حساس آدمی کو ضرورت ہوتی ہے… بس کنٹرول میں رکھو… تم تو پورے مولوی بن جاتے ہو…“۔

"ہا ہا…“، ہنسا وہ "ویسے ٹھیک کہہ رہے ہو ڈاکصاحب، اتنی بہت ساری تکلیفوں کو بھلانے کے لئے کچھ نہ کچھ تو چاہئے۔ اور مولوی گیری کا اپنا ایک الگ نشہ ہے… اُن کو بھی دیکھا ہے بہت۔ لیکن مجھ سے یہ سب نہیں چلتا، میں اپنا ایک الگ کرتا ہوں۔ اب دیکھو نہ، کس چکر میں پھنسا آج …“۔ یہ کہتے ہوئے وہ پھر ہنسا اور آخری گھونٹ کو حلق میں انڈیل کر بولا، "ویسے ڈ اکصاحب، وہ ننگی ڈکیت مجھے لوٹنے آئی تھی، لیکن میں نے الٹا اُسے لوٹ لیا۔ صرف دو سو روپے میں پورا ہاتھ پھیرا“۔ اور قہقہ لگاتے ہوئے وہ پلٹا، اور فلیٹ کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔

اب مجھے کسی تیسرے نشے کی ضرورت تھی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں