پیر، 15 جون، 2015

چچا عاشق حسین


تمہاری نظریں تو ان اوراق پر ہیں ، لیکن سوچتے میرے بارے میں ہو۔ ’’ افسانہ نگار کے ذہن میں کیا کیا کچھ ہوگا جو اس نے یہ افسانہ لکھا ہے؟ یہ پوری کہانی کیا واقعی اس کے روبرو پیش آئی تھی؟ یا محض اس کے دماغ کی ایجاد ہے۔ ‘‘ کہانی لکھنے والے کے اتنے وسیع تجربے سے تم متحیر ہو۔ اس بات نے تمہیں دنگ کیا ہوا ہے کہ ایک شخص کی زندگی میں اتنے بہت سے اور مختلف واقعات پیش آئے ہیں۔

میرے دوست اگر میں تم سے سچ کہوں تو ایسا کچھ نہیں ہے۔ یہ میرے تخیل کی پرواز نہیں ہے جو تمہیں دنگ کئے رکھتی ہے بلکہ تمہارے اپنے خیالات کا نیرنگ ہے۔ آؤ آج میں تمہاری سوچ کی ان گرہوں کو کچھ سلجھاؤں ، لیکن پہلے اصلی کہانی تو پڑھتے چلو۔

============


’’ نام تو ان کا کاشف حسین تھا ، لیکن گلی کے تمام لڑکے چچا عاشق حسین کہا کرتے تھے۔ نہ جانے یہ نام کب پڑا تھا ، یا کس نے رکھا تھا۔ لیکن جب سے میں اس محلے میں آکر رہ رہا ہوں یہی نام سنتا چلا آرہا تھا۔ ایک مدت تک تو مجھے بھی نہیں معلوم ہوپایا تھا کہ ان کا اصل نام کیا ہے۔ کبھی کبھار مخفف کے طور پر لڑکے صرف ’’چچا‘‘ کا لفظ بھی استعمال کرلیتے تھے۔ لیکن ادائیگی کچھ اس طرح کی ہوتی تھی کہ جیسے اس لفظ میں بھی معنی کی کئی تہیں پوشیدہ ہیں۔

شکل و صورت کے اعتبار سے وہ ذرا بھی ایسے نہیں تھے کہ ان کا شمار خوش شکلوں میں ہوتا۔ نہ ہی حلیہ کسی فلمی ہیرو کی طرح بنا کر رکھتے۔ نہ انداز میں کوئی بانکپن کہ کوئی پلٹ کر ان کے کرتے کے گلے کی طرف دیکھے یا دور سے عطر کی خوشبو آئے۔ عمر کوئی پینتالیس برس کے قریب ہوگی۔ عموماً سفید کرتا پاجامہ پہنتے۔ شلوار قمیض میں کم ہی نظر آتے تھے۔ صبح کام پر جاتے وقت اکثر پتلون قمیض میں ہوتے تھے۔

شروع شروع میں جب میں اس محلے میں آیا تھا، اکثر سوچتا کہ ان کا یہ نام کیوں پڑا۔ عشق و محبت کی ایسی کون سی داستان ان سے وابستہ ہو گی جس نے ان کا نام ہی تبدیل کروا دیا۔ شروع میں ، میں نے سراغ لگانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ ‘‘

============


چلو بھئی لائٹ چلی گئی ...... اب گرمی میں مزید نہیں لکھ رہا ، ویسے تو میرا پروگرام اٹھنے سے پہلے چند پیرا گراف اور لکھنے کا تھا لیکن مجھے معلوم ہے کہ اب ذہن میں کچھ نہیں آئے گا۔ جب لائٹ چلی جائے تو دماغ میں صرف گرمی ہی باقی رہ جاتی ہے۔

اب تمام گھر والے بھی اپنا کام کاج چھوڑ دیں گے ، اورپریشان حال ادھر سے ادھر ٹہلیں گے۔ میراایک کونے میں چین سے بیٹھنا بھی محال ہوجائے گا۔ باہر ابھی تک دھوپ بہت تیز ہے ، چھاؤں کا وقت آنے میں کوئی گھنٹہ بھر باقی ہے۔ اب ایسے میں آدمی کیا کرے۔ یا گھر والوں کے ساتھ ہم زبان ہوکر بجلی کے محکمے کے بارے میں اول فول بکے یا کہیں سے کوئی بات نکال کر سیاست پر بحث شروع کردے۔ یاکوئی خاندانی قصہ لے بیٹھے۔ یا میری طرح کونے میں بیٹھ کر اپنے چہرے پر پنکھا جھلے اور گھر والوں کو یکے بعد دیگرے ان تمام فضولیات میں حصہ لیتے ہوئے دیکھے اور دل ہی دل میں ان احمقوں پر ہنسے۔ خدا یا اگر ایسے گھر والے نہیں ہوتے تو اس تلخ اور بے مصرف زندگی میں میرا دل کیسے بہلتا۔

میری بیوی اب مجھ سے پوچھ رہی ہے کہ اس طرح کونے میں کیوں پڑا ہوں۔ مجھے گرمی نہیں لگ رہی کیا۔ بس ان ہی باتوں کی اسے فکر رہتی ہے۔ بھوک تو نہیں لگ رہی۔ میں نے آپ کے کپڑے استری کردیے ہیں ، آپ کا لنچ بکس تیار ہے ، ایسی ہی باتوں کی اسے فکر رہتی ہے۔ اس کے علاوہ میری ذات سے کوئی سروکار نہیں ہے ، میرے ذہن میں کیا الجھنیں ہیں ، کن خیالات میں سارا وقت ڈوبا رہتا ہوں ، اسے ذرا بھی علم نہیں ہے کہ میں کچھ سوچتا بھی ہوں یا میرا ذہن خالی سائیں سائیں کرتا رہتا ہے۔ اسے یہ معلوم کرنے کی ذرا بھی جستجو نہیں ہے۔رات کو برابر لیٹے دیر تک اس کے خراٹے کی آوازوں سے جاگتا رہتا ہوں ، اور سوچتا ہوں کہ اگر میرا ذہن بھی واقعی سائیں سائیں کی آوازوں سے گونجتا رہتا تو یہ زندگی کتنی شیریں ہوتی۔
اب میں گھر والوں کو مزید برداشت نہیں کرسکتا۔ اٹھ کرباہر جارہا ہوں۔ باہر اوپری منزل کے چھّجے کے نیچے سایہ ہے ، یہاں شاید نسبتا ً سکون ملے۔

گلی میں سناٹا ہے۔ کونے پر دو لڑکے کھڑے باتیں کررہے ہیں ، دونوں کے ہاتھوں میں کتابیں ہیں۔ شاید ٹیوشن پڑھنے جارہے ہوں گے۔ دور سے کسی ٹھیلے والے کی صدا آرہی ہے۔ اس کے علاوہ ہر طرف سکون اور خاموشی ہے۔ یہ میرا محلہ ہے۔ جہاں کچھ نہیں ہوتا۔ یہاں کوئی چچا عاشق حسین نہیں رہتے اور نہ ایسے لوگ بستے ہیں جو کسی عام سے آدمی کو چچا عاشق حسین کا لقب دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔

============


’’ صدیق کی دکان پر پہلی بار ان سے بات کرنے کا موقع ملا۔ کچھ سودا سلف لے رہا تھا کہ چچا آئے اور پوچھنے لگے۔
’’ میاں یہ انڈے کیسے دیئے ؟ ‘‘
میں نے اپنے آپ کو کبھی حاضر جواب نہیں سمجھا ہے لیکن اس وقت نہ جانے گلیوں ، محلّوں کے آداب کا کون سا بھولا سبق یاد آیا اور میں نے جواباً کہا۔ ’’ حضور انڈے تو بیٹھ کر دیتے ہیں۔ ‘‘
میرا اندازہ تھا کہ چچا خاصے متاثر ہوجائیں گے کہ ایک حاضر جواب، رنگین مزاج ، اور کچھ تھوڑا گستاخ لڑکا اس محلے میں منتقل ہوا ہے اور کچھ داد دینے کے اندازمیں ہنسیں گے ، اور پوچھیں گے کہ میں کون ہوں ، کہاں سے آیا ہوں ، یا کم از کم ایسے انداز میں تو جواب دیں گے جس سے ظاہر ہو کہ میں ان کی شاگردی کے لائق ہوں ، لیکن میری توقع کے خلاف چچا نے کسی رد عمل کا اظہارنہیں کیا۔ نہ ان کے چہرے پر کوئی مسکراہٹ پھیلی اور نہ انہوں نے استادانہ شفقت سے مجھے دیکھا۔ شوخی برطرف انہوں نے کسی غصے کا اظہار بھی نہیں کیا ، چہرے کے تاثر میں ذرا سے بھی ردوبدل کے بغیر بولے ’’ میاں میں نے آپ سے نہیں پوچھا۔ میں سمجھ سکتا ہوں کہ آپ بیٹھ کر انڈے دیتے ہیں۔ ‘‘

اس جملے نے مجھے جھنجھوڑ سا دیا ، میری ساری شوخی وہیں دم توڑ گئی ، صدیق دکاندار نے ایک زور دار قہقہہ لگایا۔ میرا دل چاہا کہ وہیں زمین میں گڑ جاؤں ، مزید کسی گستاخی کے لئے میرا حوصلہ جواب دے گیا۔ صدیق دکاندار مجھے ایسے دیکھ رہا تھا کہ گویا کہہ رہا ہو ’’ اور لو چچا عاشق حسین سے پنگا ‘‘ مجھے اپنی شوخی ، یوں قابو میں آتے ہوئے محسوس ہوئی جیسے سزا کے دوران ایک شریر لڑکا عمر بھر کے لئے توبہ کرکے روتا ہے۔

اس کے باوجود چچا کے چہرے پر کسی رد عمل کا اظہارنہیں ہوا۔ صدیق نے ان کو قیمت بتا دی۔ انہوں نے ایک درجن انڈے لئے اور ان کی قیمت ادا کی۔ میں اس دوران یہ سوچتا رہا کہ معافی مانگوں یا پہلو بدل کر کوئی اور شوخی دکھاؤں ، اصل میں ، میں اپنے تعارف کا کوئی بہانہ چاہتا تھا لیکن صورتحال ایسی ہوگئی تھی کہ کچھ کہتے نہیں بن پا رہا تھا۔

جاتے جاتے اسی سادہ سی شکل کے ساتھ جس پر نہ بوریت کے آثار تھے نہ کسی شوخی کے چچا نے کہا ’’ میاں کبھی کھڑے ہوکر انڈے دیجئے گا بھی نہیں ، نیچے گر کر فوراً ٹوٹ جائیں گے۔ تمام محنت اور تکلیف بے فائدہ ہوجائے گی ، انڈے ہمیشہ بیٹھ کر ہی دیجئے۔ ‘‘

صدیق نے ایک اور زور دار قہقہہ لگایا۔ دل تو میرا بھی بے ساختہ ہنسنے کو چاہ رہا تھا لیکن عزت ِنفس نے اس ہنسی کو دبا سا دیا۔ میرا خیال ہے کہ تشنہ سی اس ہنسی نے چہرے کو کھسیانہ بنا دیا ہوگا اور میں پہلے سے بھی زیادہ بے وقوف نظر آیا ہوں گا۔ اب سوچتا ہوں تو پہلے سے بھی زیادہ ہنستی آتی ہے۔

اس واقعہ کے بعد میں چچا عاشق حسین سے خاصا ڈر سا گیا تھا۔ کبھی راستے میں نظر آجائیں تو کوشش کرتا کہ اپنا راستہ بدل لوں یا دوسری طرف دیکھنے لگوں تاکہ ان سے نظریں نہ ملانا پڑیں۔ مجھے نامعلوم کیوں اس بات کا خدشہ لگا رہتا تھا کہ مجھے دیکھ کر وہ پھر انڈے دینے والی بات کا کوئی شوشہ نکالیں گے۔ اور میں محلے کے لڑکوں کے سامنے ذلیل ہوجاؤں گا۔ کبھی وہ رک کر لڑکوں سے باتیں کرتے ہوئے نظر آتے، ایسے میں تو میں اس طرف کا رخ بھی نہیں کرتا۔

میری پوزیشن خاصی عجیب ہوگئی تھی۔ ایک طرف تو میں چچا کے اس دلچسپ نام کے پیچھے چھپی کہانی معلوم کرنا چاہتا تھا اور چاہتا تھا کہ میں ان سے اور ان کی زندگی کے تجربے سے کچھ سیکھ پاؤں ، لیکن دوسری طرف مجبور تھا کہ میں چچا سے دور رہوں، نہیں تو اگر گلی کے لڑکوں کو پتہ چل گیا تو نہ جانے میرا کتنا ریکارڈ لگے گا۔ صدیق نے ابھی تک کسی سے کوئی ذکر نہیں کیا تھا۔ اس پر مجھے حیرت تھی اور دل ہی دل میں اس کا شکریہ بھی ادا کرتا تھا۔ اپنا ریکارڈ لگائے جانے کے تصور سے میں اتنا خائف تھا کہ چچا کی غیر موجودگی میں بھی ان کے متعلق کوئی ذکر نہیں کرتا۔ نہ معلوم کہیں بات سے بات نہ نکل جائے۔ اس صورت میں جیسے جیسے وقت گزرتا گیا چچا کے نام کے راز کے متعلق میری جستجو بڑھتی گئی اور میں طرح طرح کی فرضی وجوہات کا تصور کرتا چلا گیا۔ ‘‘

============


مجھے اپنی بیوی کی عادت اوررویے کے بارے میں کوئی فرضی وجوہات تصور کرنے کی ضرورت نہیں۔ میں اس کے ظاہر اور باطن دونوں سے یکساں واقف ہوں۔ کبھی سوچتا ہوں کہ اگر میں اس کو اتنے قریب سے نہیں جانتا تو ہوسکتا ہے کہ ہمارے درمیان محبت زیادہ ہوتی ، کبھی سوچتا ہوں کہ کسی اور عورت پر ڈورے ڈالنا شروع کردینا چاہئے۔ لیکن اس بار کوشش کروں کہ اس عورت کے بارے میں سب کچھ پتہ نہیں چل پائے۔ ہوسکتا ہے کہ اس طرح ہمارے درمیان محبت برقرار رہے۔

لوگ انسانی نفسیات کے بارے میں اتناشور مچاتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ چند بہت عام اور سادہ باتوں کا ایک مشکل سا نام ہے۔ مسئلہ دراصل یہ ہے کہ انسان ایک دوسرے کو جانتے ہوئے بھی انجان بنے رہتے ہیں۔ کبھی تو میں سوچتا ہوں کہ یہ انسانوں کے مغرور ہونے کی وجہ سے ہے۔ لیکن کبھی سوچتا ہوں کہ اس سے انسانوں کے درمیان محبت بڑھتی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ جن لوگوں کو میں جانتا ہوں ان کو جاننا چھوڑ دوں ہوسکتا ہے کہ اس طرح وہ میرے زیادہ قریب ہوجائیں۔

لائٹ کوئی ساڑھے پانچ بجے آگئی۔ گھر میں واپس آکر دو گھنٹے تک ایک کونے میں قلم پکڑے بیٹھا رہا۔ تین بار مجھ سے کہا گیا کہ ٹی وی پر کوئی پروگرام آرہا ہے، آکر دیکھوں لیکن میں نہیں گیا۔ گھر والوں کو کچھ برا بھی لگا کہ میں ان کے ساتھ کسی تفریح میں حصہ نہیں لیتا ، لیکن میں اس طرح کے بچوں جیسے جذبات کی فکر نہیں کرتا ہوں۔

اس طرح سے قلم پکڑ کر بیٹھنا اور افسانہ لکھنے کے بارے میں سوچنا بہت مشکل کام ہے۔ مجھے اپنا ذہن ایک دم خالی محسوس ہوتا ہے۔ میں کیا لکھوں ؟ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ سامنے والی کھڑکی کو تک رہا ہوں جس کے کونے میں مکڑی نے ایک جالا بنایا ہوا ہے۔ مجھے اپنے ذہن سے سائیں سائیں کی آوازیں آتی سنائی دی ہیں۔ گھبرا کر قلم پھینک دیتا ہوں۔ آوازیں مدھم ہوجاتی ہیں جیسے کہ وولٹیج کم ہو گیا ہو۔ اب میری توجہ ٹی وی کی طرف مبذول ہوگئی ہے کوئی اسٹیج شو آرہا ہے۔ میزبان کسی فلمی ہیروئن سے مخاطب ہے۔ اور پوچھ رہا ہے کہ قوم کی اخلاقی بلندی اور اصلاح کے واسطے فلموں میں کیا کیا چیزیں شامل کرناہمارا فرض بنتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ میرے خالی ذہن کی سائیں سائیں ان آوازوں سے کہیں زیادہ بھلی تھی ، میں دوبارہ قلم اٹھا لیتا ہوں۔

چچا عاشق حسین کون ہے ؟ میں بالکل نہیں جانتا۔ اس کا یہ نام کیوں پڑا ؟ میرے فرشتوں کو بھی خبرنہیں۔ وہ کہاں رہتا ہے ، شاید ایسے ہی محلے میں جہاں میں رہتا ہوں۔ اس محلے کے باقی لوگ کیسے ہیں ؟ شاید ایسے ہی جیسے اس محلے کے ہیں۔ ہاں البتہ یہاں مجھے آزادی ہے کہ اپنی من مانی کرتے ہوئے افسانے میں ایسے کردار شامل کروں جو اصلی نہ ہوں ، نہ سہی، لیکن قاری کے واسطے اسی محلے سے ملتا جلتا اور کہیں زیادہ دلچسپ سماں پیدا کردیں۔ چچا عاشق حسین کے کردار سے قاری کی کبھی ملاقات نہیں ہوئی شاید اسی لئے وہ یہ افسانہ پڑھ رہا ہے۔
اب میری بیوی مجھے کچھ سودا سلف لینے کے لئے بھیج رہی ہے۔ کیونکہ میں گھر کا واحد شخص ہوں جو ٹی وی دیکھ کر اپنا قیمتی وقت استعمال نہیں کررہا۔ اس منطق کے بوجھ تلے مجھے جاناہی پڑے گا اور میں بھی چاہتا ہوں کہ میرا وقت سود مند کاموں میں استعمال ہو۔ کاش پرچون کی دکان پر ایسا شخص مل جائے جو سننا چاہتا ہو کہ میں بیٹھ کے انڈے کیوں دیتا ہوں۔

============


’’ چچا عاشق حسین سے میں ڈرتا ہی رہا۔ حالانکہ کوئی ایسی بات نہیں ہوئی تھی۔ اس روز انہوں نے مجھ پر صرف میری اوقات واضح کی تھی۔ نہ کوئی تحقیر کی اور نہ غصے سے مجھ پر برسے تھے، نہ اس کے بعد انہوں نے کبھی کوئی ذکر کیا۔ اور نہ ہی کوئی بیر رکھا۔ صدیق دکاندار نے بھی کسی سے ذکر نہیں کیا۔ ورنہ آج محلے سے انڈے دینے کی کئی فرمائشیں آرہی ہوتیں۔ میں خود نہیں سمجھ پایا تھا کہ میرے اتنے زیادہ خوفزدہ ہونے کی وجہ کیا تھی۔

پھر رفتہ رفتہ میں اس واقعہ کو بھولتا گیا اور محلے کی دیگر دلچسپیوں نے مجھے اپنی طرف کھینچنا شروع کردیا۔ یا یوں کہوں کہ میں کوشش میں لگ گیا کہ یہ دلچسپیاں مجھے اپنی طرف کھینچیں۔ محلے کی مختلف کھڑکیوں کوتکنا ، معاملے کی مناسبت سے ان میں چھوٹے کاغذوں یا لمبے لمبے صحیفوں پر پیغام لکھ کر اچھالنا ، ان کوششوں میں شامل تھے۔ ان کاموں کے لئے سب سے موزوں وقت بھری دوپہر کا ہوتا تھا۔ اس وقت یہ لوگ اپنے اپنے اسکول یا کالج سے لوٹتے تھے۔ گھر والے سو رہے ہوتے تھے اور گلیاں سنسان ہوتی تھیں۔ ایسے میں گلی کے نکّڑ پر کھڑے ہو کر یا چوراہے سے دھوپ میں دوپٹے یا چادر سے لپٹے ہوئے ان کے تمتاتے ہوئے چہرے کو دیکھنا۔ پھر نظر جھکا کر انہیں سلام کرنا۔ اگر وہ سہم جائیں تو آنکھوں کے اشارے سے باور کرانا کہ ہم دیکھ رہے ہیں ، اپنے گھر کے دروازے تک وہ باحفاظت اور بے خطر ہو کر جاسکتی ہیں۔ پھر اس بات کو یقینی بنانا کہ وہ گیٹ میں داخل ہوتے ہوئے ایک بار پلٹ کر ہماری طرف دیکھیں ، اور ہم آنکھوں ہی آنکھوں میں ان سے کہیں ’’ اس میں شکریے کی کیا بات ہے ؟ ‘‘

لیکن بات اس آخری مرحلے تک کئی مشکلوں اور ناکامیوں کا سامنا کرنے کے بعد پہنچتی تھی۔ اور ایک دفعہ یہاں تک معاملہ پہنچ جائے تو اس کے بعد بھی کئی کٹھن اور دشوار منزلیں طے کرنی ہوتی تھیں۔ میں آج تک اس بساط کے آخری خانے تک ایک بار بھی پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوپایا تھا۔

یہ کھیل مجھے ایک دم سانپ اور سیڑھی کے کھیل کی طرح لگتا تھا۔ جس میں خانہ خانہ کرکے آپ اپنی گوٹ کو آگے بڑھائیں لیکن راستے میں کوئی اژدھا بیٹھا ہو جو یکبارگی میں آپ کی گوٹ کو نگل جائے اور آپ پھر جیتی ہوئی بازی کو ازسر نو شروع کریں۔ چچا عاشق حسین کی دوستی میں اس لئے چاہتا تھا کہ وہ اس کھیل میں ایک سیڑھی کی طرح نظر آتے تھے ، جو گوٹ کوایک ہی جست میں ۱۰۰ (سو ) نمبر والے خانے تک پہنچا دے۔ لیکن میری قسمت کہاں کہ ایسی سیڑھیوں کا سہارا ملتا۔ میں نے آج تک جس سیڑھی پر بھی قدم رکھا تھا وہ کمبخت اژدھا ہی نکلی تھی۔

اس کھیل کے ان اصولوں کے ساتھ ساتھ پانسا پھینکنے اور چال چلنے کے اوقات بھی وابستہ تھے۔ دوپہر یا سہ پہر کو جو چال چلی جاتی اس کا نتیجہ عام طور پر شام کو دیکھنے کو ملتا۔ جب وہ لوگ اپنے گھر والوں کے ساتھ ہوا کھانے چھت پر آتے یا گلی کے طول و عرض کو عبور کرکے کسی سہیلی کے گھر کے گیٹ میں داخل ہوتے۔ اس وقت میں دھڑکتے دل کے ساتھ اس بات کا اندازہ لگانے کے درپے ہوتا کہ میری گوٹ کو کوئی اژدھا نگل گیا ہے یا وہ کسی سیڑھی پر سے ہوتی ہوئی کئی منزل اوپر پہنچ گئی ہے۔ لیکن اصل آزمائش تو میرے اندازے کی ہوتی تھی ایک راہ شناس دوست کی طرح صحیح اندازہ ، بیڑے کو پار لگا دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اب آپ اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ گوٹ کو اژدھا نگل گیا ہو اور میں اس بارے میں غلط اندازہ لگائے بیٹھا ہوں تو ایسے کھلاڑی کا کیا بنے گا؟

یہ تھے اس کھیل کے اصول۔ ان کے سامنے میں عاجز تھا۔ میری تمام قوت ان اصولوں میں ہلکا سا خم بھی پیدا نہیں کرسکتی تھی ، چنانچہ عموماً ناکامی ہی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ لیکن یہ ناکامی کبھی ناامیدی کا باعث نہیں بن پائی تھی۔ جہاں میں ان اصولوں میں ردوبدل پیدا نہیں کرسکتا تھا وہاں دنیا کی کوئی طاقت مجھے ایک وقت میں کئی گوٹیں کھیلنے سے بھی نہیں روک سکتی تھی۔ یوں ان گوٹوں کے مدوجزر میں میرا دل بہلا رہتا۔ چچا عاشق حسین میرے لئے کوئی حقیقی تعبیر نہیں بن پائے تھے۔ اس لئے میں بیک وقت اتنے خواب دیکھتا تھا کہ حقیقی نہ سہی ، فرضی چچا ہی سے کام بنتا رہے۔

پھر ایک شام میں فٹبال کا میچ کھیل کر گھر لوٹ رہا تھا ۔ اور صحیح اندازہ کرنے کی مشق میں مصروف تھا کہ مجھے چچا نظر آئے۔ میں چونک سا گیا۔ میں نے آج تک انہیں ایسی حالت میں نہیں دیکھا تھا ، آنکھیں لال ، چہرہ سوجا ہوا ، اور حواس باختہ ، میری سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کہیں سے رو کر آرہے ہیں، یا انہیں کیا ہوا ہے ؟‘‘

============


اب اس کے آگے کیا لکھوں ؟ چچا عاشق حسین کا کردار قاری کے واسطے تو ایک معمہ ہے ہی میرے لئے بھی ایک مشکل گرہ بن گیا ہے۔ اس گرہ کو میں کس طرح سلجھاؤں ؟ اس کو کھول کر کن نتائج تک راہیں ہموار کروں ؟ میرے وہم و گمان میں بھی ان سوالات کا جواب نہیں۔ ایسے کردار سے نہ میں پہلے کبھی ملا ہوں اور نہ کبھی کسی کتاب میں اس سے مشابہت رکھنے والے کسی اور کردار کا مطالعہ کیا ہے۔ ہاں البتہ گلی کوچوں میں اس سے ملتے جلتے لوگوں کا ذکر ضرور سنا ہے۔ لیکن ایک بازاری زبان میں جہاں ا یسے کیریکٹر کا ذکر کرنے کا مقصد فحش نگاری کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا۔ ایک ایسا منظر کھینچا جاتا جہاں ایسے شخص کا نہ کوئی گھر ہوتا ہے نہ کوئی رشہ ناتہ، نہ محلے میں اس کی کوئی عزت ہوتی ہے نہ معاشرے میں کوئی رتبہ۔ اس کی فحش اورمہمل حرکات پر قصیدے باندھے جاتے ہیں۔ اور یوں بیان کیا جاتا ہے کہ عاشق مزاجی اور شوخی نے آج تک اس سے بلند چوٹی نہیں چھوئی اور یہ کہ ایسا کردار ہمارے معاشرے کی عین حقیقت ہے۔ اس زبان کو میں کس طرح اپنے افسانے میں استعمال کروں اور ایسے کردار کو کیونکر جگہ دوں۔

کھانا کھا کر میں چھت پر ٹہلتا رہا اور ان ہی خیالات میں الجھا رہا۔ اس رات آسمان پر تارے خاصے نظر آرہے تھے۔ میں ان میں سے ایک ایسے تارے کو ڈھونڈ رہا تھا جو سب سے زیادہ روشن تو نہ ہو لیکن آسمان سے نظریں ہٹا لینے کے بعد صرف وہی ایک ستارا تخیل کے پردے پر جھلملاتا رہے۔

دو مکان چھوڑ کر ضمیر صاحب کی لڑکیاں بھی چھت پر موجود تھیں۔ شہر کی رات کے نیم تاریک اندھیرے میں یوں محسوس ہوتا تھا کہ ہر تھوڑی دیر بعد وہ میری طرف دیکھتی ہیں ، اس احساس سے مجھے بے چینی اور الجھن محسوس ہورہی تھی۔ وہ جانتی ہیں کہ میں شادی شدہ ہوں اور عمر میں ان سے تھوڑا چھوٹا بھی ہوں۔ اس کے باوجود کیوں وہ مجھے اس طرح دیکھے جاتی ہیں ؟

اس رات کئی گھنٹوں تک میں اپنی بیوی کے خراٹوں کی آواز سنتا رہا اور سوچتا رہا کہ میری اس زندگی کا کیا بنے گا۔ مجھے اس زندگی میں کوئی آرام و آسائش کی ضرورت نہیں۔ نہ مجھے صبح اٹھتے ہی چائے کی گرم پیالی چاہئے۔ او ر نہ اگر روٹی تھوڑی سی جل جائے تو مجھے کوئی پرواہ ہوتی ہے، لیکن میں اتنا ضرور چاہتا ہوں کہ کوئی میرے دل کا حال جانے ، مجھے سمجھے، اور میری باتوں میں محو ہوجائے۔ کبھی کبھی مجھے ایسا محسوس ہوتا کہ میری بیوی کسی ہوٹل کی منیجر ہے ، جو صبح سے لے کر رات تک اپنے جاگتے رہنے کا ایک ایک لمحہ اپنے ہوٹل کے مہمانوں کی آسائش پر خر چ کردیتی ہے۔ اوراس مشقت میں اس کو ذرا بھی مہلت نہیں ملتی کہ وہ یہ معلوم کر پائے کہ یہ مہمان کہاں سے آئے ہیں اور ان کے سفر کی آخری منزل کہاں ہے۔ شاید اس کے محبت کرنے کا یہی انداز ہے۔ پھر یوں دن بھر کی محنت کے بعد رات کو تھک ہار کر نہ جانے کن خوابوں میں گھر کر سو جاتی ہے۔ دنیا سے غفلت کے خواب خراٹوں کی صورت میں اس کے ہونٹوں سے نشر ہوتے رہتے ہیں۔ اور مہمانوں کے واسطے ان کی آسائش رات میں اک عذاب بن جاتی ہے۔ کاش میری بیوی کے اس ہوٹل میں کوئی چچا عاشق حسین آکر رہیں۔ اور اس کے سونے اور جاگنے، دونوں پر عاشق ہوجائیں۔

پھر میرا خیال لوٹ کر آسمان کے اس ستارے کی طرف چلا گیا جو تھوڑا مدھم ہونے کے باوجود چشم خیال پر سب سے زیادہ دیرپا عکس چھوڑتا ہے۔ اور یہ چچا عاشق حسین کس قسم کا کیریکٹر ہے ؟ کس وجہ سے محلے والوں نے اس کو یہ نام دیا اور اس نام کے باوجود اس کی عزت کرتے ہیں۔

اگلی صبح بیوی کے کئی بار آوازیں دینے کے بعد میں بمشکل نیند سے بیدار ہوا اور پھر خاصی دیر تک تکیے اوراس کے اطراف اپنے سر سے گرے بالوں کو دیکھتا رہا۔ پھر غسل خانے میں جاکر آئینے میں اپنی شکل کو تکتا رہا۔ آنکھیں نیند سے بوجھل ہورہی تھیں ، گال لٹکے ہوئے اور ہونٹ تھوڑے سے سوجے ہوئے تھے۔ لگتا تھا نہ جانے کتنے عرصے سے خاموشی اور غم میں ڈوبا ہوا ہوں۔ میں نے اپنے گال پکڑ کر اوپر کو کھینچے ، ہونٹ تن گئے ، میرا چہرہ سرکس کے جوکر کی طرح مسکرانے لگا۔ مجھے یہ دیکھ کر واقعی ہنسی آگئی۔ پھر میں نے گال نیچے کی طرف کھینچے ، اب میرا چہرہ پہلے سے بھی زیادہ لٹک گیا اور ہونٹ بطخ کی چونچ کی طرح آگے کو نکل آئے۔ پھر میں نے ایک گال اوپر کی طرف کھینچا اور دوسرا نیچے کی طرف۔ عجیب مخنچو سی شکل بن گئی۔ پانچ منٹ تک یوں میں اپنے چہرے کو بناتا بگاڑتا رہا اور ہر شکل پر ہنستا رہا۔ انسانی چہرہ بگڑ کر اور زیادہ دل بہلاتا ہے میں سوچتا رہا۔ گھر والے اگر مجھ کو یوں دیکھ لیتے تو ضرورکہتے کہ پاگل ہوگیا ہوں۔ انہوں نے شاید کبھی اپنا چہرہ بگاڑ کر نہیں دیکھا، نہیں تو انہیں بھی بہت مزا آتا۔

غسل خانے سے نکل کر میں جلدی جلدی تیار ہوا اور بغیر ناشتہ کئے دفتر چلا گیا۔ شام کو میں اپنی موٹر سائیکل پر گھر لوٹ رہا تھا۔ ٹریفک کے نیم جلے پیٹرول کا دھواں میرے پھیپھڑوں اور دماغ میں جا رہا تھا۔ جو پیٹرول کاروں کے انجن میں نہیں جلا تھا اب میرے تن بدن میں آگ لگارہا تھا۔ گرو مندر سے تھوڑا آگے جاکر ٹریفک رک گیا۔ میرے آگے ایک بس جارہی تھی۔ ساتھ چلنے والی کئی موٹر سائیکلوں نے بس کے بائیں طرف سے نکلنے کی کوشش کی لیکن آگے شاید کوئی رکاوٹ تھی وہ زیادہ آگے نہیں جا پائیں۔ بائیں جانب بس اور سڑک کے ڈوائیڈر (Divider) کے درمیان کوئی فٹ بھر کا فاصلہ ہوگا ، میں وہاں سے نہیں گزر سکتا تھا۔ پھر میرے پیچھے ایک اور بس آکر رکی اور میں ان دونوں کے درمیان پھنس گیا۔
اب میں نہ آگے جاسکتا تھا نہ پیچھے۔ پچھلی بس کے انجن کی گرمی میرے جسم کو جھلسا رہی تھی ، اگلی بس کے ادھ جلے ڈیزل کا دھواں میری شریانوں کو اندر سے کالا کررہا تھا۔ کہیں سے تیز بجتے ہوئے فحش اور چھچھورے گانوں کی آواز بھی آرہی تھی۔

مجھ سے یہ سب ایک لمحہ بھی برداشت نہ ہوا۔ میں نے موٹر سائیکل کے اگلے پہیے کو اٹھا کر سڑک کے ڈوائیڈر پر رکھا۔ پھر کسی طرح پچھلے پہیے کو اٹھایا۔ کچھ دیر بعد میری موٹر سائیکل ڈوائیڈر کے اس پار تھی۔ اور میں سڑک پر رانگ سائیڈ (Wrong side) اپنی گاڑی چلا رہا تھا۔ شروع میں کچھ خوف تھا پھر یہ خوف آہستہ آہستہ ایک غصے میں تبدیل ہوتا چلا گیا۔ میں نے آگے جاکر دیکھا دوسری جانب مزار پر آج ایک ہجوم لگا تھا اس کی وجہ سے پیچھے تمام ٹریفک بلاک ہوگئی تھی۔

اب مجھے سامنے سے آتی ہوئی کسی گاڑی کا ڈر نہیں تھا ، سڑک کی غلط سمت موٹرسائیکل چلانے پر پہلے جو ایک شرمندگی محسوس کررہا تھا اب میں اس پر شرمندہ نہ تھا ، میرا دل چاہتا تھا کہ سامنے سے آتی ہوئی ہر موٹر سائیکل ، کار اور بس کو اپنے نیچے روندتا چلا جاؤں اور اگر کوئی دیوار راستے میں آجائے تو موٹر سائیکل کو بے تحاشا بھگاتے ہوئے اس سے ٹکرا جاؤں تاکہ میرابھی ایک مزار بنے پھر میں اس مزار میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سوؤں اور زور دار خراٹے لوں۔

============


’’اس شام عاشق حسین میرے خیالات پر بھاری رہے۔ میں سوچتا رہا کہ ان کا یہ نام کیوں پڑا ؟ کیا انہوں نے اپنے محلے میں عشق و محبت کے کئی چکر چلا رکھے ہیں یا دوسرے اور کئی محلّوں میں بھی ان کے معاشقے ہیں ؟ مجھے حیرت تھی کہ عمر کے اس مرحلے میں آنے کے باوجود بھی کسی شخص نے اس قسم کے سلسلے جاری رکھے ہوئے ہیں؟یا ہوسکتا ہے کہ یہ باتیں اس کی طبیعت کا بنیادی حصہ ہوں اور اس کا زندہ رہنا ، ان محبتوں کو جاری رکھنے کے مترادف ہو۔

میرے خیالات اس نکتے پر گرد ش کررہے تھے۔ اس قسم کی عشق و محبت کس طرح ایک شخص کی شخصیت کا اتنا کلیدی حصہ ہوسکتی ہے۔ بظاہر تو یہ آدمی اتنا سادہ طبیعت شریف اور ذہین ہو۔ لیکن عمر کے اس حصے میں پہنچ جانے کے باوجود عورتوں کی محبت میں اس بری طرح پڑتا ہو۔ اور پھر جس بات پر مجھے سب سے زیادہ حیرت تھی وہ یہ کہ اس عمر میں آجانے کے باوجود بھی وہ اس بات کی صلاحیت رکھتے تھے کہ عورتوں کی دلچسپی اپنے اندر پیدا کرا لیں۔ کیا راز مضمر ہے اس ہنر میں؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لئے میں سب سے زیادہ بے چین تھا۔
پھر میں نے سوچا کہ ہوسکتا ہے کہ چچا عاشق حسین کے متعلق یہ تمام باتیں محض میرا وہم ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ ان میں کوئی بھی حقیقت کے قریب نہ ہو۔ کیا پتہ کہ ان کا یہ نام کسی حادثے کی بنا پر پڑا ہو اور گلی کے لڑکوں کی شوخی نے اس کو اب تک زندہ رکھا ہو۔

خاصی دیر تک ممکنات کی یوں جانچ پڑتال کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے اس دن کے انڈے دینے والے واقعہ کو بھول جانا چاہئے اور چچا کے ماضی اور ان کی شخصیت کے بارے میں معلومات حاصل کرنی چاہئے۔

اس رات کو میں منیر کے ساتھ بیکری کے کونے پر کھڑا تھا ، کہ میں نے اس سے پوچھا ’’ یار یہ بتاؤ کہ یہ چچا عاشق حسین کا نام کب پڑا ؟ ‘‘ منیر کے گھر والے ایک عرصے سے اس محلے میں رہتے تھے۔ میرا خیال تھا کہ اس کو کچھ نہ کچھ تو ضرور پتہ ہوگا۔ لیکن اس نے جواب دیا۔

’’ پتہ نہیں یار ...... میں تو ایک عرصے سے ان کا یہ نام سنتا چلا آرہاہوں۔ ‘‘ اس جواب پر مجھے کچھ حیرت ہوئی۔
’’ تو پھر ان کو چچا عاشق حسین کہتے کیوں ہیں ؟ ...... کیا ہر کسی کو دیکھ کر عاشق ہوجاتے ہیں ؟ ‘‘ میں نے فوراً دوسرا سوال جڑ دیا۔
منیر ایک شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ کچھ دیر مجھے دیکھتا رہا ، پھر ہنس کر کہنے لگا ’’پتہ نہیں یار ہوسکتا ہے ...... اس عمر میں بھی نہ چھوڑتے ہوں ...... لیکن تم کیوں پوچھ رہے ہو آج اتنا؟‘‘
’’ کچھ نہیں ...... کچھ نہیں ...... ایسے ہی ان کے نام کی طرف میرا خیال چلا گیا تھا ...... ‘‘ میں نے بات بناتے ہوئے کہا اور پھر بہتر سمجھا کہ اس گفتگو کو وہیں روک دیا جائے۔
اس کے بعد میں نے موقع کی مناسبت سے کئی لڑکوں سے چچا کے بارے میں دریافت کرنے کی کوشش کی۔ لیکن کہیں سے کوئی اطمینان بخش جواب نہیں مل سکا۔
مگر میں نے ہار تسلیم نہیں کی اور اپنی کھوج میں لگا رہا۔ ایک دن میں صدیق پرچون والے سے سودا لے رہا تھا کہ میں نے چچا کا ذکر چھیڑ دیا، صدیق کے چہرے پر ایک دبی دبی سے مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ ’’ کیوں آج چچا کیسے یا دآگئے۔ ‘‘
’’ بس ایسے ہی ...... میں سوچ رہا تھا ...... اس دن بڑا ذلیل ہوا تھا یہاں پر ...... ‘‘
’’ اوہ ...... اس دن ...... ‘‘ صدیق تھوڑا ہنسا۔ ’’ ہاں واقعی ، ویسے وہ عموماً خاموش رہتے ہیں زیادہ بولتے نہیں لیکن اس دن تمہاری بات کا ایسا جواب دیا ...... اب بھی سوچتا ہوں تو ہنسی آتی ہے۔ ‘‘
صدیق کے اس جواب پر میں تھوڑا حیران ہوا۔ لیکن میں نے اپنا سوال جاری رکھا۔ ’’ لیکن ان کا یہ نام کیسے پڑا ؟ ‘‘
’’ کیسے پڑا ؟...... ‘‘ صدیق رکتے ہوئے بولا ’’ اس لئے کہ انہوں نے عشق اتنے کئے ہیں۔ ‘‘
میں ہنسا۔ ’’ لیکن میں نے تو ان کا صرف نام سنا ہے چچا عاشق حسین ...... اس کے علاوہ تو کچھ نہیں جانتا ان کی عاشقی کے بارے میں ...... نہ کسی نے کچھ بتایا۔ ‘‘
’’ ارے یہ گلی کے چھوکرے کیا جانیں عشق ، محبت کیا ہوتا ہے ‘‘ صدیق نے کچھ بھڑک کر کہا۔ ’’ ان کے لئے تو ذرا سی آنکھ مار دینا یا پیغام پہنچا دینا عاشقی ہوتی ہے۔ ‘‘ اس کے لہجے میں تحقیر بھی تھی۔
مجھے تھوڑا برا لگا۔ ’’ تو پھر یہ چچا عاشق حسین کیا کرتے ہیں۔ ‘‘
’’ ارے میاں تم کیا جانو ...... ‘‘ اس نے روکھا سا جواب دیا۔ ’ ’ عشق دل سے ہوتا ہے ، دل سے ...... آج کل کی اولاد تو عشق و محبت کے بارے میں بھی اندھی ہے۔ ‘‘

============


یہاں میں لکھتے لکھتے رک گیا اور سوچنے لگاکہ میں یہ کس راہ پر چل نکلا ہوں۔

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ میں کیوں لکھتا ہوں ، قلم اٹھا کر بیٹھ جاتا ہوں اور جس ناممکن سے ناممکن کردار کی طرف گمان جائے اس کیریکٹر کو آج کل کی روز مرہ زندگی کے اعتبار سے برتنا شروع کردیتا ہوں۔ ایسا میں کیوں کرتا ہوں۔ چچا عاشق حسین اس معاشرے میں زندہ نہیں۔ لیکن میں نے اس کردار کو گھڑا ہے اور اس طرح سے اس کے بارے میں لکھ رہا ہوں جیسے وہ عین حقیقت ہے۔ اگر میں آج کل کی حقیقتوں کے بارے میں لکھوں تو کیا وہ زیادہ گہرااور پر اثر نہیں ہوگا ؟ پھر کیوں ایسی مہمل منظر کشی میں اپنے آپ کو محو پاتا ہوں ؟ کافی دیر سوچنے کے باوجود مجھے ان سوالوں کا جواب نہیں ملا۔ اور میں نے اپنے قلم کو دوبارہ آزاد چھوڑ دیا۔

============


’’ تو پھر یہ صرف دل لگا لیتے ہیں ...... اور باقی سب کچھ اللہ پر چھوڑ دیتے ہیں کیا ‘‘ اب میں بھی تھوڑا جوش میں آرہا تھا۔ کہ یہ بڈھے ٹھڈے نا جانے اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں۔
’’ میاں کسی کی کھڑکی میں رقعہ اچھالنے کے بعد تم بڑے وثوق کے ساتھ کہتے ہو کہ اب چڑیا پنجرے میں ہے ‘‘ اس نے ذرا طنزیہ لہجے میں کہا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ جیسے اب وہ مجھ سے ڈائریکٹ بات کررہا ہے۔ ’’یہ بتاؤ کہ اب تک کا تمہارا اسکور کیا ہے۔ ‘‘
’’ میرا اسکور کیا ہے ...... چچا کا کیا اسکور ہے۔ ‘‘
’’ چھوڑو چچا کو ...... اپنی بات کرو ...... تم نے اب تک کیا کیا ہے ...... کتنے رقعے اچھالے ہیں اور کیا پایا ہے ؟ ‘‘
میں کچھ دیر خاموش رہا۔ ایک لمحے کے لئے مجھے لگا کہ صدیق کا پلہ بھاری ہے۔ لیکن پھر میں نے بات بنائی اور پہلو تبدیل کیا۔ ’’لیکن یہ بات بتاؤ کہ چچا کا یہ نام آخر پڑا کس مرحلے پر آکر۔ اور پھر کس نے ڈالا......آخر اس کی بھی تو کوئی وجہ ہوگی ؟ ‘‘
’’ کس نے ڈالا ؟ وہی ڈال سکتا ہے جو جانتا ہے کہ عشق و محبت کیا ہوتی ہے ...... اور کیسی کہانی سننا چاہتے ہو تم ...... تم لوگوں کو ان کہانیوں میں کوئی مزا نہیں آئے گا۔ ‘‘
میں چپ ہوگیا۔ لگتا تھا کہ صدیق دل و جان کے ساتھ چچا کا دفاع کرنے پر تلا ہوا تھا۔ اس کے بعد کئی روز تک اس دن کی تکرار پر غور و فکر کرتا رہا۔ کہیں صدیق نے خود تو چچا کا یہ نام نہیں ڈالا ؟ عمر میں وہ تقریباً چچا کے ہی برابر تھا۔ ہوسکتا ہے کہ دونوں جوانی میں ساتھ ہی اس محلے میں پلے بڑھے ہوں۔ اور ایک دوسرے کے تمام معاملات مہر و محبت سے اچھی طرح واقف ہوں۔ اور ایسے ہی کسی معاملے میں چچا کا یہ نام پڑ گیا ہو۔

لیکن اب لگتا تھا کہ صدیق دکاندار چچا کے بارے میں مزید کوئی معلومات فراہم نہیں کرے گا۔ اس سے پہلے چچا کے بارے میں میرے جتنے خدشات تھے ، وہ سب کے سب ایک ساتھ جھوٹ بھی ثابت ہوئے تھے اور سچ بھی۔ میں ایک عجیب شش و پنج میں پڑ گیا تھا کہ یا اللہ یہ ماجرا کیا ہے۔ آخر چچا کی ہستی کے پیچھے کون سے راز پوشیدہ ہیں۔

اب کوئی چارہ باقی نہیں بچا تھا سوائے اس کے کہ چچا سے براہ راست دوستی کی جائے اور خود ان کے ساتھ وقت گزار کر اس بات کا اندازہ لگایا جائے کہ وہ کیسی ہستی کے مالک ہیں۔ چنانچہ میں نے ایسے ہی کیا۔

شروع میں چچا کے ساتھ گھلنے ملنے میں کچھ دقت پیش آئی۔ لیکن بعد میں یہ کام آسان ہوگیا اور آہستہ آہستہ چچا نے اپنے رازآپ ہی آپ مجھ پر آشکار کرنا شروع کئے۔

پہلے پہل میں نے کوشش کی کہ جہاں چچا موجود ہوں وہاں پہنچ جاؤں ان کی باتیں سنوں اور کسی قسم کا مکالمہ شروع کرنے کی کوشش کروں۔ آہستہ آہستہ کچھ کامیابی بھی نصیب ہوئی۔ ہماری باتیں کرکٹ اور ہاکی کے میچوں پر تبصرے سے شروع ہوتیں اور پھر یہ تبصرے آہستہ آہستہ طول پکڑ کردیگر موضوعات میں تبدیل ہوجاتے۔ میں نے دریافت کیا کہ چچا ایک عام سی شخصیت کے مالک ہیں کسی بینک میں نوکری کرتے ہیں گھر کا خرچ نسبتاً آسانی سے چل جاتا ہے ذہانت کے اعتبار سے قابل ذکر نہیں۔ عام سے شوق رکھتے ہیں ، ٹی وی زیادہ شوق سے نہیں دیکھتے ، یہی وجہ تھی کہ رات کے ڈرامے کے وقت باہر گلی میں آجاتے۔ اورہم دنوں کھڑے گپ شپ کرتے رہتے۔


لیکن ایک بات چچا کے بارے میں قابل ذکر تھی۔ وہ یہ کہ ان روز مرہ کی عام سی باتوں کے دوران لگتا کہ وہ کسی اور چیز کے بارے میں متفکر ہیں۔ یا یہ کہ کسی معاملہ نے انہیں چوکنا کر رکھا ہے۔ لیکن وہ بات کیا تھی؟ اس کی نشاندہی میں کئی دنوں تک کرنے سے قاصر رہا۔

بات کرتے ہوئے وہ یوں خاموش ہوجاتے کہ جیسے کچھ سوچ رہے ہوں۔ ان کی یہ سوچ ضرور کسی اوربارے میں ہوتی تھی کیونکہ کبھی کوئی ایسی گفتگو نہیں ہورہی ہوتی جس کے بارے میں رک کر سوچا جائے۔ یا کھڑے کھڑے ایک جانب گھور کر دیکھنے لگتے اور جب میں اس طرف پلٹتا تو وہاں کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اگر کسی کو ان کی اصلیت نہیں پتہ ہوتی تو ضرور کہتا کہ عجیب خبطی شخص ہے لیکن یہ چچا عاشق حسین تھے ان کی اصلیت تو مجھے بھی نہیں معلوم تھی۔

اس محلے میں وہ کوئی بتیس سال سے رہ رہے تھے ، وہ اس زمانے کا ذکر کرتے تھے جب یہاں کھلے میدان تھے ، اور میدانوں کی حد مقرر کرنے کے لئے کہیں کوئی اکا دکا مکان تھے۔
اس زمانے سے لے کر اب تک انہوں نے ایک جنگل کو بستی بنتے اور بستی کو ایک گنجان آباد شہر میں تبدیل ہوتے دیکھا تھا۔ بستی کیسی تھی اس میں رہنے والے لوگ کس طرح ایک بڑے کنبے کے فرد تھے، ان کے درمیان رشتوں میں کتنی قربت تھی، اور پھر شہر بنتے بنتے یہ رشتے کیسے تبدیل ہو تے گئے۔

لیکن عاشق حسین ...... عاشق حسین ...... ان کا نام عاشق حسین کیوں پڑا ؟ ان کی ان باتوں کے درمیان مجھے اپنے سر میں ایک آواز چیختی ہوئی سنائی دیتی۔

پھر آہستہ آہستہ مجھ پر عیاں ہوتا گیا کہ ایسا کیوں ہے۔ میں نے نوٹ کرنا شروع کیا کہ اکثر وبیشتر چچا کسی بھی گھرانے کو اس کی عورتوں کے حوالے سے یاد رکھتے تھے۔ فلاں جب اس محلے میں آکر رہا تھا تو اس کے گھر میں اتنی لڑکیاں تھیں۔ سب کی سب ماشاء اللہ حسین اور دلربا یا فلاں کے گھر کی عورتیں یوں تھیں کہ ان کے حسن و جمال کے چرچوں کی وجہ سے تمام محلے والے اپنی گردن اکڑا کر چلتے۔

میں نے آج تک ان کے منہ سے کسی عورت کے بارے میں برے الفاظ نہیں سنے تھے۔ ہر عورت میں انہیں خوبصورتی کا نیا عنصر نظر آتا۔ جس کو وہ بڑی نفاست سے بیان کرتے ، لیکن پھربھی ان کی زبان سے کسی عورت کو پھانسنے یا اس پر ڈورے ڈالنے کے واقعات نہیں سنے تھے جس پر میں تھوڑا حیران تھا۔ پھر یہ عاشق کس قسم کے ہیں ؟ میں اس بات پر غور کرتا۔
کبھی کبھی میرا خیال اپنے گھر والو ں کی طرف چلا جاتا اور میں سوچا کہ نا جانے چچا ان کے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے۔ ایسے میں ، میں چچا پر خاصا شک کرنے لگتا کہ کہیں مجھے سہانی باتوں میں الجھا کر خود میرے گھر والوں پر تو ہاتھ صاف نہیں کررہے۔

اور کبھی مجھ میں یہ بے قابو خواہش اٹھتی کہ چچا سے پوچھ ہی بیٹھوں کہ لڑکی کو کس طرح پھانسا جاتا ہے۔ اس فن میں کامل ہونے کے راز کیا ہیں۔ لیکن یہ پوچھتے بھی نہیں بنتی۔ ایک زمانے میں مجھے یقین ہوگیا تھا کہ چچا عاشق واشق کچھ نہیں بس لوگوں نے ان کے بارے میں ایسے ہی اڑائی ہے۔ کچھ عرصے بعد مجھے اس یقین پر بھی شک ہونے لگا۔

آخر ایک روز ادھر ادھر کی باتیں کرتے ہوئے چچا نے مجھ سے پوچھا ’’ میاں تم نے کبھی عشق کیا ہے ؟‘‘ ان کے اس غیر متوقع سوال پر میں کچھ پریشان سا ہوگیا۔ نہ نا کہتے بنی اورکسی گلی کوچے کے چکر کو عشق کہتے بنی۔ جب کچھ دیر تک چچا نے کوئی جواب نہیں پایا تو مایوس ہو کر بولے ’’میاں یہ آج کل کے لونڈے کیا جانیں کہ عاشقی کیا ہوتی ہے...... پھر انہوں نے کہا ’’ میں اگلے ہفتے ملتان جارہاہوں۔ ‘‘

’’ملتان کیوں؟ ...... ‘‘ میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔
چچا نے ایک آہ کے ساتھ ’’ ارے میاں کیا بتاؤں ،زمانہ گزر گیا، میرا ایک عشق تھا، ایک عورت سے ... اب وہ ملتان میں چلی گئی ہے ...‘‘
میرا منہ حیرت کے مارے کھلے کا کھلا رہ گیا۔ لیکن یہ ہمت نہیں کر پایا کہ ان سے پوری کہانی پوچھوں۔ ‘‘

============


چچا عاشق حسین ایک فرضی کیریکٹر ہے۔ اس کو میں نے کیوں گھڑا میں وثوق کے ساتھ کوئی وجہ بیان نہیں کرسکتا۔ اور پھر اس سے عشق و محبت کے بارے میں سوال کرنے سے میں کیوں ڈرتا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ میرے لا شعور کی خواہش ہو کہ میں چچا عاشق حسین ہوتا۔ یا کاش مجھے بھی عشق ہوا کرتا۔

کبھی میں اپنے گھر کی چھت پر کھڑا سڑک کا منظر دیکھ رہا ہوتا ہوں تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اگلے ہی لمحے کوئی گولی آئے گی اور میرے سر کے پرخچے اڑاتے ہوئے نکل جائے گی۔ میں سہم جاتاہوں اور سوچتا ہوں کہ آنکھوں تک کو جنبش نہیں دوں کہ کہیں گولی مارنے والا دیکھ نہ لے کہ مجھے احساس ہوگیا ہے اور گولی جلدی چلا دے۔ کبھی ارادہ باندھتا ہوں کہ گولی چلانے والے کو مہلت دیئے بغیر بے تحاشا بھاگوں اور زینے سے نیچے چلا جاؤں، لیکن ہمیشہ میں نے اپنے آپ کو یوں ہی کھڑا خلا میں ادھر ادھر تکتا پایا ہے کہ جیسے گولی چلانے والے کے وجود سے انکار کررہا ہوں۔ تاکہ وہ شخص میری اس غیر دلچسپی کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنا ارادہ تبدیل کردے۔ پھر جب کچھ دیر تک گولی نہیں آتی تو اک مایوسی بھی محسوس کرتا ہوں۔

میں اکثر قلم اٹھا کر سوچتا ہوں کہ لکھوں کہ سچ کیا ہے ، میرے اطراف میں کیسے لوگ رہ رہے ہیں ، اس کے بارے میں لکھوں۔ میرے دل میں کیا خواہشات ہیں یہ بیان کروں ، لیکن ہمیشہ سچ ،پردہ خیال پر یوں بے صورت و رنگ اترتا محسوس ہوتا ہے کہ دل ہر بار یہی کہتا ہے۔ کہ لکھوں، ایسے جھوٹ ہی لکھوں۔