منگل، 16 دسمبر، 2014

ایک کیڑا

ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے نیچے زمین کی طے میں کئی سو فٹ نیچے ایک ٹرین آکر رکتی ہے اور اس میں سے ایک کیڑا باہر نکلتا ہے۔ لوگوں کے ہجوم میں گھرا ہوا۔ بازو سے بازو اور کہنیوں سے کہنیاں ٹکراتی ہیں۔ لیکن تمام کہنیوں پر موٹے کوٹوں کی کئی تہیں چڑھی ہوئی ہیں۔ کیڑا اپنے ساتھ چلتی ہوئی کسی گوری عورت کی نرم اور ملائم جلد کو چھوکر محسوس نہیں کرسکتا۔ اس بات کا اسے افسوس ہے۔

مگر اپنے طور پر کیڑا بہت جوش میں ہے۔ اس سے کہیں بڑی بھیڑ اور ہجوم اس نے اپنی زندگی میں کئی بار دیکھے ہیں۔ ’’یہ تو بچوں کی بات ہے……‘‘ کیڑا سوچتا ہے۔ اور وہ دھکے دیتا ہوا اس ہجوم میں آگے بڑھتا ہے…… اس کے ساتھ چلتے ہوئے لوگ ایسے دھکوں کے عادی نہیں۔ اسے جگہ دے دیتے ہیں یوں وہ آگے بڑھتا جاتا ہے۔ یہ ہی اس کی جیت ہے، یہیں پر اس کی فتح ہے۔ فخر سے اس کا دل اور تیز دھڑکنے لگتا ہے اور کیڑے کو زندگی بھر دھکے کھانے کا پھل ملتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔

کچھ دیر میں وہ عمارت سے باہر آجاتا ہے۔ تیز چلتی ہوئی ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا اسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی خنجر اس کے چہرے کو چیر رہا ہو۔ کیڑے کو ایک لمحے کے لئے تکلیف کا شدید احساس ہوتا ہے۔ وہ اپنے دائیں بائیں دیکھتا ہے۔ اسے عمارت سے باہر نکلتی ہوئی کئی خوبصورت عورتیں نظر آتی ہیں۔ وہ سب تیزی سے اپنی اپنی منزلوں کی طرف جا رہی ہیں۔ کیڑا کچھ دیر انہیں یوں جاتا ہوا دیکھتا ہے،پھر وہ بھی تکلیف کو بھولتا ہوا اپنی راہ پر ہونے لگتا ہے۔

اب اس کا ذہن تمام خیالات سے خالی ہے سوائے خوش قسمتی کے ایک احساس کے کہ وہ وہاں، اس جگہ موجود ہے۔ اس کے اطراف کی دنیا میں کتنی روانی ہے، کتنی ہم آہنگی ہے۔ پھر اس کی توجہ اسٹاک مارکیٹ کی طرف مبذول ہوجاتی ہے، اور وہ راتوں رات کروڑ پتی ہونے کے خواب دیکھنے لگتا ہے۔

نیویارک شہر میں رہنے والا یہ ہے صرف ایک کیڑا۔ جس کے ہونے یا نہ ہونے سے شہر کی آب و تاب پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن اس کیڑے کو ان باتوں کا احساس نہیں۔ دن کے کوئی گیارہ بجے ہیں۔ کیڑا اپنی کرسی پر بیٹھا کام میں بے انتہا مصروف ہے۔ اس کی میز پر رکھے ہوئے کمپیوٹر کے اسکرین پر متعدد اعداد و شمار نظر آرہے ہیں جو لمحے لمحے پر تبدیل ہوتے ہیں۔ کیڑے کو ان پر مستقل نظر رکھنی پڑتی ہے۔ اس کے ڈیسک پر رکھا ہوا ٹیلی فون متواتر بجتا رہتا ہے۔ اکثر اوقات بہ یک وقت اُسے کئی کام کرنے پڑتے ہیں۔ آس پاس کام کرنے والوں کا حال بھی یہ ہی ہے۔ کسی کے پاس رکنے کی مہلت نہیں۔ کام کے بے حد دباؤ کی وجہ سے چہروں پر سنجیدگی اور گہرا تناؤ ہے۔ کیڑے کے چہرے سے بھی یہ ہی تاثرات عیاں ہو رہے ہیں۔ ان کی وجہ سے وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اک برابری محسوس کرتا ہے۔ ایک لمحے کے لئے نظر اٹھا کر اپنے آگے بیٹھی ہوئی لڑکی کو تکتا ہے پھر دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوجاتا ہے۔

کیڑا اپنے کام میں ماہر ہے۔ اس کے ساتھ کام کرنے والے یہ بات جانتے ہیں۔ کچھ دیر میں آگے بیٹھی ہوئی لڑکی پاس آتی ہے اور کوئی سوال پوچھتی ہے۔

اب کیڑا اپنا تما م کام چھوڑ دیتا ہے اور اس کے سوال کا جواب دینے میں مگن ہوجاتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اپنی قابلیت کو استعمال کرتے ہوئے اس پر ڈورے ڈالے۔ لیکن وہ لڑکی سوال کا جواب پاتے ہی اپنے کام کی طرف لوٹ جاتی ہے اور کیڑے کے ذہن میں پیدا ہونے والے کئی سوالات بن کھلے مرجھا جاتے ہیں۔

کچھ دیر بعد کیڑا اٹھتا ہے، کافی کا کپ ہاتھ میں لئے اس لڑکی کی جانب بڑھتا ہے۔ لیکن وہ لڑکی کام میں بے انتہا مشغول ہے۔ وہ اس کی طرف نہیں پلٹتی۔ کچھ دیر انتظار کرکے کیڑا اپنے دل میں اُسے ایک موٹی سی گالی دیتا ہے، اور یہ سوچتا ہوا کہ وہ اس لڑکی سے زیادہ پیسے کماتا ہے دوبارہ کام میں مشغول ہونے کی کوشش کرتا ہے۔

اب لنچ کا وقفہ ہے۔

کیڑا عمارت سے باہر نکلتا ہے۔ سورج نکل آیا ہے لیکن سردی اب بھی خاصی ہے۔ ٹھنڈ کے ایک تندتھپیڑے سے اس کی آنکھیں چمکتی ہیں اور جسم سکڑتا ہے۔ سڑک پر کچھ آگے ایک ریستوران نظر آتا ہے۔ اس میں کام کرنے والے اس ہی کے ملک سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہاں کے متعلق خیال آتے ہی کیڑے کے ذہن میں پرانے احساسات جاگ اٹھتے ہیں۔’’ …… فحش ملک تھا وہ …… اور فحش ہوتے ہیں وہاں کے رہنے والے……‘‘ وہ غصےّ میں سوچتا ہے۔’’…… میں وہاں نہیں جاؤں گا……‘‘ کچھ آگے بڑھ کر وہ ایک سستے سے ٹھیلے سے اپنے واسطے کھانا خریدتا ہے اورتیزی سے اپنی ڈیسک کی طرف پلٹتا ہے۔ ڈیسک پر تنہا بیٹھ کر کھانا کھانے میں اُسے تحفّظ کا احساس ہوتا ہے۔ پھر اپنے وطن کے خیالات اس کے ذہن میں دوبارہ آنے لگتے ہیں۔ وہ ان میں گھر کر کچھ دیر کے لئے بے بس ہوجاتا ہے۔ وہاں کی تنگ اور پتلی گلیاں، چھوٹے چھوٹے کوارٹر، اور ان میں بسنے والے لاتعداد لوگ کچھ دیر تک اس کے تحفظ کے احساس پر تابڑ توڑ حملے کرتے رہتے ہیں۔ اور وہ اپنے آپ کو اس نئی دنیا میں بالکل تنہا اور بے بس محسوس کرتا ہے۔ پھر یکایک اس کے کمپیوٹر کے اسکرین پر بہت ہی غیر متوقع اعداد و شمار نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں اور ایک بار پھر اس کی تمام توجہ ان اعداد و شمار میں واقع ہونے والی تبدیلیوں کی لہروں میں تھپیڑے کھانے لگتی ہے۔

یوں وہ دن تمام ہوتا ہے۔ رات آٹھ بجے کیڑا اپنے کام سے فارغ ہوگیا ہے۔ آج کا دن اچھا گزرا۔ اس نے اپنے مالکوں کے واسطے بہت سود مند بیوپار کیا۔ اس بات کی اسے خوشی ہے۔ یہ سال اب تک اچھا گزر رہا ہے۔ کیڑا بہت اطمینان سے ہے۔ شاید اس سال وہ تھوڑے زیادہ پیسے بنا پائے۔ اس خیال نے تمام دن کی تھکن دور کر دی ہے۔ اب وہ اپنے آپ کو عیش و عشرت میں کھونا چاہتا ہے۔’’…… یہ ہے مزا یہاں کی زندگی کا……‘‘ وہ سوچتا ہے۔

اس رات کلب میں رش خاصا ہے۔ کمر سے کمر اور سینے سے سینہ ٹکراتا ہے۔ کیڑا ڈانس فلور پر رقص کرنے میں مگن ہے۔ کبھی وہ ایک لڑکی کے ساتھ رقص کرتا ہے کبھی دوسری۔ لیکن آج کوئی لڑکی بھی اس کے ساتھ ٹک نہیں رہی۔ ’’کیا آج میں کسی کو اپنے ساتھ لے جانے میں کامیاب ہو پاؤں گا؟…… ‘‘ کیڑا سوچ رہا ہے۔

پھر کوئی اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتا ہے۔ کیڑا پلٹ کر دیکھتا ہے کہ ایک مرد ہے۔ کیڑے کو اس کی حرکت بھلی نہیں محسوس ہوتی۔ وہ اس کا ہاتھ ہٹا کر ڈانس فلور پر اس سے دور ہٹ جاتا ہے۔ مگر کچھ دیر میں وہ شخص پھر اس کے قریب موجود ہوتا ہے۔ کیڑے کو اس سے سخت وحشت ہوئی ہے۔ وہ پھر دور ہٹنے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ شخص پیچھا نہیں چھوڑتا۔ کیڑے نے آج شراب بہت پی ہوئی ہے نشے اور کوفت سے کیڑا اس شخص کو پیچھے دھکا دیتا ہے۔ وہ شخص بھی اُسے دھکا دیتا ہے۔ چند لمحوں میں وہ دونوں ڈانس فلور پر گتھم گتھا ہوئے لڑ رہے ہوتے ہیں۔

فلور پر بھگدڑ مچ جاتی ہے۔ لوگ ادھر اُدھر بھاگتے ہیں۔ کلب کے محافظ ان کو الگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جلد ہی ان پر قابو پالیتے ہیں۔ کیڑے کو دو لحیم شحیم آدمیوں نے جکڑا ہوا ہے۔ وہ اسے کھینچتے ہوئے دروازے کی طرف لے جا رہے ہیں۔ کیڑا چیختا ہے شور مچاتا ہے لیکن وہ اس کی نہیں سنتے۔ تھوڑی دیر بعد وہ اُسے کلب کے دروازے کے باہر دھکا دے دیتے ہیں۔

اب کیڑا باہر سڑک پر اکیلا کھڑا ہے۔ رات کافی گزر چکی ہے۔ جاڑے کی ٹھنڈی ہوا اس کی ہڈیوں کے گودے کو جما رہی ہے۔ لیکن کیڑے کا دماغ ابھی بھی غصے سے گرم ہے۔’’…… بدمعاش کہیں کے……‘‘ وہ سوچ رہا ہے۔ پر دوسری طرف اسے اب بھی ایک اطمینان ہے کہ آج اس نے اپنے مالکوں کے واسطے بہت پیسے بنائے۔ وہ اپنے بھاری قدم اٹھاتا ہوا ایک ٹرین اسٹیشن کی طرف بڑھ رہا ہے۔

آگے سڑک کے کونے پر ایک عورت کھڑی ہے۔ کیڑا جب اس کے قریب پہنچتا ہے تو وہ عورت اسے دیکھ کر مسکراتی ہے اور ہلکے خرام میں اس کی طرف بڑھتی ہے۔ کیڑا ٹہر جاتا ہے۔

تھوڑی دیر میں کیڑا اس عورت کے ساتھ ایک کمرے میں موجود ہوتا ہے۔ اُسے یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے وہ وقت کا بادشاہ ہے، اور کسی وقت بھی بڑی سے بڑی عیاشی کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔’’ اسے کہتے ہیں زندگی…… اور یہ ہے عیاشی…… ‘‘ وہ سوچ رہا ہے۔

وہاں سے فارغ ہوکر وہ گھر کی طرف نکلتا ہے۔

اس وقت وہ ٹرین میں سفر کر رہا ہے۔ رات کی اندھیری گہرائیوں میں اتر چکنے کے بعد اب نہ جانے کہاں گم ہوچکی ہے۔ ٹرین کے ڈبے میں اس کے علاوہ کوئی شخص موجود نہیں۔ ٹرین ایک اسٹیشن پر رکتی ہے، اور ڈبے میں ایک دیوہیکل شخص چڑھتاہے۔ کیڑے کو ڈبے میں اکیلا پاکر اس کی چہرے پر ایک مہیب مسکراہٹ نمودار ہوتی ہے۔کیڑا اُسے دیکھ کر سر سے پیر تک کانپ جاتا ہے۔ اس کی نگاہیں راہِ فرار کی تلاش میں ادھر سے ادھر پھڑ پھڑائی ہیں۔ لیکن کوئی ایسا راستہ اب موجود نہیں۔

نیو یارک شہر کی سطح زمین سے کئی سوفٹ نیچے سفر کرنے والی اس ٹرین میں یہ ہے ایک کیڑا۔ صرف ایک کیڑا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں