اتوار، 14 ستمبر، 2014

الہ دین پارک میں فحاشی


خلق سیر و تفریح کے واسطے اپنی راہ خود نکال لیتی ہے۔ اور اس راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو بخوبی عبور کرلیتی ہے۔ اس بات کا میں قائل ہوگیا ہوں۔ کراچی میں جب الہ دین پارک کھلا تو اس کو صرف ’’ فیملیز ‘‘ کے لئے مخصوص کردیا گیا۔ یعنی صرف فیملی والے اس میں داخل ہوسکتے تھے۔ باقی سب کے لئے داخلہ ممنوع۔ گویا یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ آپ اپنے گھر کی خواتین کو یہاں لا سکتے ہیں کوئی ان کے ساتھ بدتمیزی نہیں کرے گا۔ غالباً یہ اشارہ اس مفروضے پر مبنی تھا کہ جو مرد اپنے گھر کی عورتوں کے ساتھ آئیں گے، کسی دوسرے کی عورتوں کے ساتھ بدتمیزی نہیں کریں گے۔

عورتیں بغیر مردوں کے آسکتی تھیں۔ ان کو ’’فیملی‘‘ تصور کیا جاتا تھا۔ لیکن مرد عورتوں کو ساتھ لئے بغیر اندر داخل نہیں ہوسکتے تھے کیونکہ وہ فیملی نہ تھے۔ لہذا لڑکوں کے گروہ اور ایسے مرد جو دوسروں کی ’’فیملی‘‘ کے ساتھ میل جول قائم کرناچاہتے تھے باہرگیٹ پر کھڑے تماشا دیکھتے رہ جاتے۔ میں بھی ان میں سے ایک تھا۔ میں نے بھی کئی بار تماشا دیکھا تھا اور دل ہار کر اخبار کے دفتر کی راہ لی تھی۔ گیٹ والے کمبخت پریس کارڈ بھی تسلیم نہیں کرتے تھے۔

پھر ہماری قوم کی خواتین نے خوب اختراع نکالی۔ یہ بات مجھے دوستوں نے بتائی کہ وہاں چند لڑکیوں کے گروہ لڑکوں سے پیسے لے کر ان کو اندر لے جانے لگے ہیں۔ میں نے صرف اتنی ہی بات سنی۔ پھر میرے تخیل نے اس پر کام کرنا شروع کیا۔ اور طرح طرح کے مناظر تصور کئے۔ ضرو ر یہ چالو قسم کی لڑکیاں ہوں گی۔ ان خیالات کی روشنی میں میرا تخیل کئی دن تک جاگتا رہا۔ لیکن موقع نہیں مل پایا کہ جاکر خود بھی کچھ دیکھ پاؤں۔ اورنہیں تو اخبار کے لئے اچھی اسٹوری ہی بن سکتی تھی۔

پھر ایک روز شام کو کچھ وقت نکال کر میں نے الہ دین پارک کے گیٹ کا رخ کیا۔ میری نظریں زرا کم یا چست کپڑوں میں ملبوس لڑکیوں کے گروہوں کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ یا ہوسکتا ہے کہ کوئی ایسی لڑکی اکیلی ہی لڑکوں کے کسی گروپ سے بھاؤ تاؤ کرتی نظر آجائے۔ یا پھرطوائفوں کے انداز میں کولہے فحش طرح نکالے کھڑی ہو۔

لیکن ایسا کچھ نظر نہیں آیا۔ جو ایسی چند خواتین نظر بھی آئیں عموماً ان کے ساتھ بچے اور دوسرے گھر والے تھے۔ میرے خیال میں کوئی پیشہ ور عورت اس حد تک نہیں جاتی اس لئے میں نے ان عورتوں کو کسی فیملی کا رکن قرار دے دیا۔ اور مطلوبہ عورتوں یا لڑکیوں کے حلیہ کے متعلق اپنے قیاس پر نظر ثانی کرنے لگا۔

پھر مجھے تین لڑکیاں نظر آئیں۔ شکل و صورت کافی معمولی ، میک اپ بھی کچھ دبا دبا سا۔ عام سے کپڑوں میں ملبوس جن کے اطراف انہوں نے چادریں لپیٹی ہوئی تھیں یہ چادریں اگر ٹائٹ لپیٹی ہوتیں تو کچھ پتہ بھی چلتا، لیکن جس طرح انہوں نے چادریں لپیٹی ہوئی تھیں اس سے ان کے جسم کے خدوخال چھپے ہوئے تھے۔ پر چہروں سے کچھ عیاری اور مکاری ٹپک رہی تھی جس کو یہ چادریں نہیں چھپا پائی تھیں۔ جن چار لڑکوں سے وہ بات کررہی تھیں وہ ان کے تیوروں سے کچھ ڈرے سہمے لگتے تھے۔ انداز ان لڑکوں کا سنجیدہ تھا اور ایک دوسرے کو یوں دیکھتے تھے کہ جیسے بات چیت میں کمزور پڑ رہے ہوں۔ مجھے ان لوگوں کو دیکھ کر شبہ سا ہوا۔ جس چیز کو میں ڈھونڈ رہا تھا یہ لوگ اس سانچے میں تو نہیں بیٹھتے تھے لیکن مجھے تجسس ہوا اور میں ان کے کچھ قریب ہوگیا۔ پر جب ان کی باتیں کانوں میں آئیں تو آنکھیں پھٹی رہ گئیں۔

ایک لڑکی کہہ رہی تھی ’’ ہمارے پاس زیادہ ٹائم نہیں ہے ... اگر چلنا ہے تو ہم سب کا ٹکٹ لینا ہوگا ... سب کو ایک ایک بوتل اور برگر اور دو سو روپے ... چلناہو تو چلو ... نہیں تو اور مل جائیں گے ہمیں لے جانے والے ... وقت برباد نہ کرو ‘‘

وہ لڑکے آپس میں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے ، پھر ایک نے کہا ’’ایک منٹ رکو ... ‘‘ وہ چاروں ایک طرف کو ہوگئے اور آپس میں گفت و شنید کرنے لگے ، پھر ان میں سے ایک پلٹا اورکہنے لگا ’’ دیکھو دو سو روپے لے لو ... لیکن برگر اور پیپسی کا ہم بندوبست نہیں کرسکتے۔ ‘‘

’’ نہیں کرسکتے ... تو ہم بھی تم کو اندر لے کر نہیں چل سکتے ‘‘ ایک سادہ سا جواب ملا۔ اور وہ لڑکیاں پلٹ کر جانے لگیں۔
’’ اچھا ، اچھا ... رکو ‘‘ اس لڑکے کے چہرے پر ایسی لا چاری اور آواز میں وہ مظلومیت تھی کہ مجھے بھی ترس آگیا۔

’ روپیہ یہاں باہر ... پہلے ... دیناہوں گے۔ ‘‘ حکم آیا۔ وہ لڑکیاں لین دین کھرے پیشہ وراندازمیں کررہی تھیں۔ صرف شکل و صورت اور حلیہ ہی پیشہ ور نہیں تھا۔ اس بات پر مجھے کچھ حیرت تھی۔ اور کچھ افسوس بھی تھا کیونکہ مجھے لگا تھا کہ معاشرے کی دوسری اقدار گرنے کے ساتھ ساتھ طوائفوں کے بننے ٹھننے کا رواج بھی گر گیا ہے۔ اس وقت اس بات کا میرے اوپر گہرا اثر ہوا تھا۔

جیسے وہ لوگ آگے بڑھے میں بھی ان کے ساتھ ہولیا ، اس امید پر کہ شاید مجھے بھی اندر گھسنے کا موقع مل جائے۔ لیکن اتنی ہمت نہیں ہو پائی کہ ان لڑکوں سے کہوں کہ میرا بھی ٹکٹ لے لیں کہ میں بھی ان کے خسارے میں شریک ہونا چاہتا ہوں۔ اور نہ ان لڑکیوں میں سے کسی سے کہہ پایا کہ وہ و اپس آکر مجھے بھی اپنے ساتھ لیتی چلیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حسب معمول گیٹ پر روک دیا گیا کیونکہ نہ میرے پاس ٹکٹ تھا اور نہ ساتھ میں ’’ فیملی ‘‘۔ اپنا سا منہ لے کر باہر کھڑا رہا اور ان کو اندر جاتا دیکھتا رہا۔

پھر پلٹ کر سڑک کے قریب آیا اور کھڑے ہوکر سوچنے لگا کہ اب کیا کروں ، دل تو چاہتا تھا کہ کسی طرح اندر پہنچ جاؤں لیکن اس سے زیادہ اب میں لڑکیوں کے کسی گروپ سے بات چیت اور بھاؤ تاؤ کرنے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اس وقت مجھے یہ چیز زیادہ دلچسپ لگ رہی تھی۔ پھر مجھے اپنے پیچھے سے آواز آئی۔ ’’ بھائی صاحب ... کیا اندر جانا ہے ؟ ‘‘ میں چونک کر پلٹا تو دیکھا کہ ایک عورت کھڑی ہے جو حلیہ سے کوئی کام والی یا مانگنے والی لگ رہی تھی۔۔ ’’ کیا ؟ ‘‘ میں نے پوچھا۔

’’ صاحب اگر آپ اندر جانا چاہتے ہوں ... تو میں آپ کو اپنے ساتھ لے جاسکتی ہوں۔‘‘

’’ یہ کون ہے اور اسے کیسے پتہ چلا ‘‘ میرے ذہن میں سب سے پہلے یہ خیال آیا اور مجھے ایک بار پھر احساس ہوا کہ میرے تخیل کی طوائفیں اب ناپید ہوچکی ہیں۔ ان کی جگہ اس باسی سادگی نے لے لی ہے جس کے منہ سے ایسی باتیں سن کر نا تو کسی قسم کی شہوت پیدا ہوتی ہے اورنہ ہی کراہیت آتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ تپتی دوپہر میں میدان میں اڑتی ہوئی خاک کا منظر دیکھ رہا ہوں، مجھ پر ایک بوریت سی طاری ہوئی اور خیالات کے سلسلے میں گم میرے منہ سے خودبخود ہی نکل گیا ’’ تم کو کیسے پتہ چلا ؟ ‘‘

اس نے اپنی تھوڑی کو نیچے کی طرف ہلکا سا جھٹکا دیا جیسے کہ اپنے آپ سے حیرت کا اظہار کررہی ہو۔ ’’ معافی دینا بھائی، میں سمجھی کہ آپ اندر جانا چاہتے ہو ‘‘ اس نے جواباً کہا اور اپنے راستے پر ہونے لگی۔

’’ ایک منٹ ... ‘‘ میں نے اس کو روکتے ہوئے کہا ’’ میرا مطلب یہ نہیں تھا‘‘۔ حلیے سے قطع نظر میں اسے یوں بھی نہیں جانے دینا چاہتا تھا۔ جس طرح سے میرا اپنی پھٹ پھٹی موٹر سائیکل پر گزر تھا اسی طرح اس عورت سے بات کرنے کو بھی گوارا کرلیا۔ ’’مطلب میرا یہ تھا تم مجھے اندر لے جاسکتی ہو ؟ ‘‘ وہ رک گئی۔ لیکن خاموش رہی۔

’’ لیکن تمہارا حلیہ ایسا ہے ... گیٹ والے ہمیں ساتھ جانے دیں گے کیا ؟ ‘‘
’’ میرا گھر قریب ہی ہے۔ میں دس منٹ میں آسکتی ہوں کپڑے بدل کر۔ ‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’ اچھا ‘‘ یہ کہہ کر میں رک گیا۔ جیسے کہ اس کے مزید کچھ کہنے کا انتظار کررہا ہوں۔ لیکن وہ کچھ نہیں بولی۔
’’ پیسے کتنے ہوں گے ؟ ‘‘ میں نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔ میرے لئے یہ کسی طوائف سے بات کرنے کا پہلا موقع تھا۔ کچھ خوف بھی تھا، کچھ شوق بھی تھا، کچھ مزا بھی آرہا تھا اور کچھ افسوس بھی محسوس ہورہا تھا۔ کیونکہ اس کا حلیہ اتناباسی اور غیر جاذب تھا۔
’’چار سو۔ ‘‘، اس نے جواب دیا اور میں چونک کر اپنے خیالات سے نکل آیا۔
’’چار سو! ... زیادہ ہیں یہ تو! ‘‘ میں احتجاج کے انداز میں بولا۔
’’ ایک ہی دام ہے بھائی ‘‘۔ اس نے جواب دیا مجھ کو یہ عورت بہت عجیب لگ رہی تھی۔ یہ کیسی طوائف ہے جو اپنے گاہک سے بھائی کہہ کر مخاطب ہوتی ہے۔ میں سوچ رہا تھا۔

’’ وہ لڑکیاں تو ابھی دو سو روپے لے رہی تھیں۔ ‘‘

’’ آپ کی مرضی ہے بھائی۔ میرا یہ دام ہے۔ وہ کالج کی لڑکیاں ہوں گی ان کے کوئی خرچے نہیں ہیں۔ میرا حساب کتاب الگ ہے۔ ‘‘ اس نے جواب دیا۔ مجھے وہ اپنے کام میں خاصی پکی نظر آئی۔

’’ اچھا ایساکرو دو سو روپے لے لو۔ باقی تم کو اندر برگر اور بوتل کھلا دوں گا۔ ‘‘ میں نے اس انداز میں کہا کہ جیسے مجھے یہ بھاؤ تاؤ آتا ہے۔
وہ ہلکے سے ہنسی۔ ’’ بھائی یہ سب چیزیں تم کالج کی لڑکیوں کے لئے کرو۔ میں کیا کروں گی بوتل اور برگر سے۔ میرا ریٹ تو چار سو روپے ہے۔ ‘‘ میں خاموش ہوکر سوچنے لگا۔

’’ جلدی بولو بھائی۔ ‘‘ وہ تھوڑی دیر میں بولی۔

’’ اچھا ، ٹھیک ہے ‘‘ میرے سامنے اب کوئی چارہ نہیں تھا۔

’’ پھر ٹھہرو۔ میں آتی ہوں دس منٹ میں۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ تیزی سے ایک جانب کو چل دی۔
اس کے جاتے ہی کئی سوالات میرے ذہن میں گردش کرنے لگے اگر یہ پیشہ ور عورت ہے تو زیادہ دیدہ زیب انداز میں کیوں نہیں آئی۔ اور پھر یہ ’’ بھائی ‘‘ کہہ کر کیوں مخاطب ہوتی ہے؟ یہ کیسی عجیب بات ہے ؟ اس سوال پر میرا دماغ سب سے زیادہ سوزش میں تھا۔

کچھ دیر بعد وہ واپس آگئی۔ نسبتاً معقول لباس پہن کر آئی تھی اور اب کراچی کے کسی نیم اوسط گھرانے کی عورت کہلائی جاسکتی تھی۔ واپس آنے کے بعد سب سے پہلے اس نے مجھ سے روپے وصول کئے۔ اس کے بعد ہم آگے بڑھے۔ میں نے گیٹ پر دونوں کے لئے ٹکٹ خریدے اور پھر ہم اتنی آسانی سے اندر داخل ہوگئے کہ میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ میری توقع کے خلاف گیٹ پر کوئی بھی غیر معمولی واقعہ پیش نہیں آیا۔ نہ کسی گارڈ نے اس عورت کو گھور کر دیکھا نا مجھ کو۔نہ ہی اس عورت نے کسی کو کوئی اشارہ کیا۔ ہم پارک میں داخل ہونے والے ایک عام سے جوڑے کی طرح تھے۔

وہ میرے ساتھ ساتھ چل رہی تھی جیسے کوئی بیوی اپنے میاں کے ساتھ چلتی ہو۔ بالکل فطری انداز میں۔ اور پھر اس کے اجلے کپڑے اور باسی سا چہرہ۔ کوئی شک بھی نہیں کرسکتا تھا کہ وہ گھریلو عورت کے سوا کوئی اور ہوسکتی ہے۔ میں اب سوچ رہا تھا کہ اس سے کیا بات کروں۔ اس کے میرے ساتھ چلنے کے انداز میں زرا بھی بناوٹ نہیں تھی۔

گیٹ سے کچھ اندر جانے کے بعد وہ مجھ سے دور ہٹ گئی۔ بالکل اسی فطری انداز میں جیسے اس نے پیسے لینے کے بعد میرے ساتھ چلنا شروع کیا تھا۔ اب کام پورا ہوچکا تھا اور اس کی محنت سوارت ہوچکی تھی۔ لیکن میں اس تجربے کو یوں اتنی جلدی بھی ختم نہیں ہونے دینا چاہتا تھا۔ اس میں ابھی اک تشنگی باقی تھی۔

وہ رک گئی اور اس نے گردن ہلا کر کہا ’’ ٹھیک ہے ... پھر میں چلتی ہوں۔ ‘‘
’’ ابھی کچھ دیر تو ٹھہرو۔ ابھی تو ہم داخل ہوئے ہیں کچھ دیر رک جاؤ۔ ‘‘ میں نے مسکرا کر دوستانہ انداز میں کہا۔ التجا میں اپنے لہجے میں ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔

وہ خاموش ہوگئی اور ساتھ چلنے لگی۔ کوئی دو سو قدم آگے چل کر اس نے پھر کہا۔ ’’ اچھا بھائی ... اب ٹھیک ہے ، تمہارا کام ہوگیا ہے۔ ‘‘
مجھے اس کے بھائی کہنے پر پھر تعجب ہوا۔ اور میں نے سوچا کہ یہ کیوں جانا چاہ رہی ہے۔ آگے مزید کام کی بات میں کیا کوئی دلچسپی نہیں اسے ؟ اس کے چہرے سے باسی پن اتر گیا تھا اور ایک سادہ و سپاٹ تاثر رہ گیا تھا جیسے وہ باسی پن سابقہ مرحلے نے اس کے چہرے پر طاری کیا ہو۔

’’ کچھ بوتل وغیرہ پی لو۔ اس کے بعد چلی جانا ‘‘ میں اس کو تھوڑی دیر ٹھہرا کر کچھ وقت چاہتا تھا۔ تاکہ مزید بات چیت ہوپائے۔ حالانکہ اس کام سے میں یہاں نہیں آیا تھا لیکن اب میرا ذہن اس راہ پر بہہ نکلا تھا۔

مجھے لگا کہ جیسے وہ میری اس تجویز سے تھوڑا سا گھبرائی ہو ’’ آپ کا کام ہوگیا ، بس اب میں چلتی ہوں ‘‘ وہ بولی۔
’’ ہاں میرا کام ہوگیا ، لیکن میں صرف اتنا کہہ رہا ہوں کہ کچھ دیر رک جاؤ ... کچھ ذرا کھا پی لو۔ پھر چلی جانا ، میں روکوں گا نہیں ، صر ف ایک شکریہ کے طور پر کہہ رہا ہوں ‘‘ میرے انداز میں ایک دوستانہ گزارش تھی۔

کچھ دیر کے لئے اس کے چہرے پر غیر یقینی اور غیر ارادگی کی پرچھائیاں گزر یں۔ پھر وہ مان گئی اور ہم کھانے پینے کے علاقے کی طرف چل پڑے۔ اس اثنا میں نہ وہ کچھ بولی اور نہ میری یہ ہمت ہو ئی کہ بات آگے بڑھاؤں۔ پھر مجھے ایسا لگاکہ جیسے وہ صرف برگر اور بوتل کے لالچ میں ٹھہر گئی ہو۔ کچھ دیر بعد ہم بیٹھے برگر کھا رہے تھے۔ ابھی تک اس نے کوئی بات نہیں کی تھی۔ میرا دل زور سے دھڑک رہا تھا۔ پھر ہمت کرکے میں نے آغاز کیا۔ ’’ تم کیا کام کرتی ہو ؟ ‘‘

اس نے ایک لمحے کو مجھے دیکھا اور پھر رکی کہ جیسے منہ کا نوالہ ختم کررہی ہو۔ ’’ بس محنت مزدوری کرتے ہیں۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئی۔
یہ عجیب مرحلہ تھا لیکن اس قسم کا پہلا تجربہ ہونے کے باوجود میں سوچ رہا تھا کہ یہ کس قسم کی عورت ہے جو آگے بات نہیں کررہی۔ میرے ذہن میں تو تصور یہ تھا کہ طوائفیں خود آدمی پر ڈورے ڈالتی ہیں اور قابو کرتی ہیں۔ پھر میں نے براہ راست بات کرنے کی کوشش کی۔

’’ تو کیا آدمی لوگ کو اس طرح اندر لانا بھی محنت مزدوری میں شامل ہے۔ ‘‘

اس نے میری طرف دیکھا اور زیرِ لب مسکراہٹ کے ساتھ آہستہ سے گردن کو جھٹکا دیا۔
’’ اچھا تو کیااس کے علاوہ بھی کیا تم آدمی لوگوں کے ساتھ محنت مزدوری وغیرہ کرتی ہو۔ ‘‘
میں نے دیکھا کہ وہ ایک منٹ کے لئے رکی کہ جیسے اس کی سمجھ میں آیا ہو کہ میری کیا مراد تھی۔ اس کا چہرہ سرخ ہوگیا ، اور وہ کچھ شرم اور احتجاج کے ساتھ بولی۔

’’ نہیں بھائی ایسا نہیں ہے۔ آپ غلط سمجھے ہیں۔ میری عزت ہے ، بال بچے ہیں ، میں یہ کام نہیں کرتی۔ آپ غلط سمجھے ہیں۔‘‘ اس کے بعد وہ اس طرح سکڑی کہ جیسے مجھ سے بہت زیادہ خائف ہوگئی ہو۔ ایک لمحے کے لئے مجھے ایسا بھی لگا کہ وہ برگر ادھورا چھوڑ کر چلی جائے گی۔ اس وجہ سے مجھے اپنا اندازبدلنا پڑا۔

’’ معاف کرنا۔ میرا مطلب تمہیں ڈرانا نہیں تھا۔ بس میرا خیال اس طرف چلا گیا تھا ... ‘‘
وہ خاموش رہی۔
’’ تو کیا بہت سی عورتیں یہاں پر یوں مردوں کو اندر لاتی ہیں ؟ ‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’ کچھ ... ‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’ تم ان کو جانتی ہو ؟ ‘‘
نہیں ... ‘‘ اس نے گردن ہلائی۔ ... ‘‘
’’ تو پھر تم نے یہ کام کیسے کرناشروع کیا ؟ ‘‘
’’ بھائی میں غریب عورت ہوں ... میرے بال بچے ہیں ... پیٹ پالنے کے لئے یہ بھی کرلیتی ہوں ... ‘‘
’’ خوب خیال آیا تمہیں اس کام کا ... ‘‘ میں نے ذرا مسکرا کر کہا۔
وہ بھی مسکرائی۔ اور پھر مجھے ایسا لگا کہ اس نے اپنی زبان پر سے پابندی ہٹا لی ہو۔

’’ میرا گھر ادھر قریب ہے۔ میں نے اکثر ادھر سے آتے جاتے دیکھاکہ کالج کی لڑکیاں لڑکوں سے پیسے لے کر انہیں اندر لے جاتی ہیں۔ میں بھی ان کو حیرت سے دیکھتی تھی ... کہ یہ بھی کمائی کا اچھا طریقہ ہے۔ آسان بھی ہے ... خطرہ بھی کم ہے۔ پھر ایک روز دن میں مجھے پیسے کم ملے۔ میں نے شام کو سوچا چلو ادھر ٹرائی کرتے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر ایک بار پھر شرم کی پرچھائیں اس کے چہرے پر سے گزری۔ ’’لیکن بھائی ہم شریف لوگ ہیں ... اس کے آگے ہم کچھ نہیں کرتے۔ ‘‘

میں دل ہی دل میں محظوظ بھی ہورہا تھا اور مجھے اس عورت کی عقل و فہم اور جراء ت پر حیرت بھی تھی۔ لیکن میرے ذہن کی شہوت ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوئی تھی۔ ’’ اچھا یہ بتاؤ کہ تم کسی ایسی عورت کو جانتی ہو ...جو ...‘‘

اس کی زبان کو پھر لگام لگ گئی۔ وہ اس سوال کے بوجھ تلے کچھ پریشان نظر آئی۔ پھر جیسے اس بات کو نظر انداز کرتے ہوئے اس نے کہا ’’ ان کالج کی لڑکیوں کو دیکھنا ... شاید تمہارا کام بن جائے ... ‘‘ اس نے ایک طرف کو اشارہ کیا جہاں سے وہ کالج کی لڑکیاں گزر رہی تھیں جنہیں میں نے پہلے گیٹ پر دیکھا تھا۔ ان لڑکیوں کے لئے اس عورت کے لہجے میں حقارت تھی۔ میں بھی ان لڑکیوں کو دیکھ کر چونک سا گیا۔ وہ لڑکے ابھی تک ان کے ہمراہ تھے۔

اب ہمارے برگر ختم ہوچکے تھے۔ اور اس نے پھر جانے کا اظہار کیا ’’ اچھا بھائی ...مہربانی آپ کی بہت بہت ... نہیں تو ہم غریب لوگوں کو یہ کہاں نصیب ہوتا ہے ...‘‘

مجھے لگا کہ وہ واقعی تہہ دل سے شکریہ ادا کررہی ہو۔ ’’ اچھا ...ٹھیک ہے ‘‘ میں نے کہا۔ ’’یہ تو بتاؤ تمہارا کیا نام ہے ؟ ‘‘
’’ شادا ‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’ اچھا ... شادا ... پھر کیا ہماری ملاقات ہوگی ؟ ‘‘
وہ مسکرائی۔ ’’ جب دوبارہ دل چاہے ... ادھر آجانا ... باہر۔‘‘
میں بھی مسکرا دیا۔ وہ چلی گئی۔

وہ لڑکیاں اور لڑکے قریب ہی چند کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھے جستجو ہوئی کہ ان کی باتیں سنوں۔

ان کی بات چیت میں اب وہ پہلے والا بھاؤ تاؤ اور کھنچاؤ نہیں تھا، بلکہ اس میں دوستانہ پن اور شوخی آگئی تھی۔ بالکل عام سے کسی یونیورسٹی کالج کے طلبا لگ رہے تھے ، اور باتیں بھی کوئی خاص مختلف نہیں تھیں۔ بعد میں پردے کے پیچھے ان کے درمیان کیا کچھ ہو اس سے مجھے کوئی سروکار نہیں تھا۔ اور نہ کسی بات پر مجھے کوئی تعجب ہوتا۔ میں ان کی باتیں سننے کا اس لئے شائق تھا کہ اب سے کچھ دیر پہلے میں نے ان کے درمیان لین دین ہوتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ اور اس پر مجھے تعجب تھا۔ میرے خیال میں یہ ہمارے اس معاشرے میں ہونے والی پوشیدہ تبدیلیوں کا ایک اظہار تھا۔

کچھ دیر میں ان کی باتیں سنتا رہا پھر بور ہوکر ایک اور طرف کو نکل گیا۔

لیکن اگلے روز میں اپنے ایوننگ اخبار میں یہ خبر لگانے سے خود کو بازنہیں رکھ سکا ... خبر کا خلاصہ کچھ یوں تھا :

’’ الہ دین پارک میں فحاشی ‘‘
’’ہمارے اسٹاف رپورٹر نے پتا چلایا ہے کہ الہ دین پارک شہر میں فحاشی کا مرکز بنتا چلا جارہا ہے۔ بدچلن عورتیں مردوں سے پیسے وصول کرکے اندر لے جاتی ہیں اور پارک میں بد فعلیاں عروج پکڑ رہی ہیں ...‘‘

اس خبر میں اصل حقائق کو بے پردہ نہ کرنے کی وجہ سے مجھے افسوس تھا لیکن اپنی نوکری اور ایک ایوننگ پیپر کے تقاضوں کے تحت میں بھی مجبور تھا۔