ہفتہ، 22 اپریل، 2017

جانور کہیں کا


عبداللہ کے پیٹ سے دوبارہ آواز آئی۔

’’ چپ کر حرام زادے، اس وقت کچھ نہیں ہے میرے پاس، تیرے لئے‘‘۔ اس نے اپنے پیٹ سے کہا۔وہ میدان کے کونے میں، کوڑے کے ڈھیر پر کھڑا، ردّی کاغذ جمع کررہا تھا۔
اس نے دیکھا کہ کچھ آگے ایک ہیروئنچی بیٹھا پیشاب کررہا ہے۔
’’بھاگ حرام زادے۔ کتے کی اولاد... جہاں دیکھو بیٹھ کر پیشاب کرنے لگتا ہے... تیرے باپ کی زمین ہے کیا ؟‘‘ساتھ ہی ایک پتھر کھینچ کر ہیروئنچی کے مارا۔
ہیروئنچی پتھر سے بچ گیا ۔ لیکن گھبرا کر اس نے بھاگنے کی کوشش کی۔پر چونکہ پیشاب اس وقت جاری تھا، اس لئے زیاہ دور نہیں جا پایا۔ دو چار قدم آگے بڑھ کر دوبارہ بیٹھ گیا۔
عبداللہ کو اسُ کا پیشاب میں اٹھ کربھاگنا بہت مضحکہ خیز لگا۔ایک زور دا ر قہقہہ لگایا ’’ جانور کہیں کا...‘‘ اور دوُر سے دو تین پتھر اٹھا کر اور مارے۔ کوئی بھی نشانے پر نہیں لگا، ہیروئنچی وہیں بیٹھا پیشاب کرتا رہا۔ لیکن ہر پتھر پر کمر اس طرح موڑتا جیسے بچنے کی کوشش کررہا ہو۔ عبداللہ اس کی لہراتی کمر کا ناچ دیکھتا رہا اور ہنستا رہا۔
کچھ دیر میں ہیروئنچی اٹھ کر ازار بند باندھنے لگا۔ عبداللہ کو زور زور سے گالیاں دیں اور پتھر مارے۔ عبداللہ نے اپنا ردّی بھرا بورا اٹھایا اور بھاگا... ہیروئنچی نے اس کا پیچھا نہیں کیا۔
میدان سے نکل کر وہ سڑک پر آگیا۔ کونے پر ایک اور کوڑے کا ڈھیر تھا۔ وہاں کھڑا ہو کر کاغذ چننے لگا۔ کچھ دیر میں اس کا بورا بھر گیا۔ آج اس کا بورا خاصی جلدی بھر گیا تھا۔ خیال تھا کہ آج ایک پھیرا اور لگا پائے گا ، یعنی رات کی فلم پکی۔
اسی خیال میں مگن وہ تیز تیز سڑک پر چلا جارہا تھا کہ اس کی نظر ایک دکان پر پڑی۔ شیشے کے دروازے پر فلموں کے پوسٹر لگے تھے۔ ایک پوسٹر میں ہیرو اور ہیروئن ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے ہونٹ سے ہونٹ ملا رہے تھے۔ ایک اور پوسٹر مادھوری ڈکشٹ کا تھا۔ جس میں وہ سرخ لباس پہن کر رقص کررہی تھی۔ وہ مادھوری کی تصویر میں کھوگیا۔
یکا یک اسے بریک لگنے کی آواز آئی ، کوئی چیز اس سے آ کر ٹکرائی اور پھر اس نے اپنے آپ کو سڑک پر لڑکھتا ہوا پایا۔ شکر تھا کہ معمولی چوٹ آئی ۔ وہ اپنا جسم جھاڑتا ہوا اٹھا تو ایک موٹر سائیکل والا کھڑا اس پر چیخ رہا تھا۔
’’ اندھا ہوگیا ہے کیا ... راستہ دیکھ کر نہیں چلتا ‘‘
اب عبداللہ بے چارہ کیا کرتا ، وہ تو مادھوری دیکھ کر چل رہا تھا۔ لیکن وہ خاموش رہا اور موٹر سائیکل والا بک بک کرتا رہا۔
’’ مرنے کا اتنا شوق ہے تو کسی پل سے چھلانگ لگا دے ... جانور کہیں کا۔‘‘
’’ جانور کہیں کا ...‘‘ عبداللہ نے یہ الفاظ اپنے ذہن میں دہرائے۔ اسے خیال آیا کہ ابھی وہ اس ہیروئنچی کو یہی کہہ رہا تھا۔ ’’خیر ...اب دوبارہ میری باری ہے کسی کو یہ کہنے کی۔‘‘ اس نے اپنے دل میں سوچا۔
جب وہ مکانوں کی آخری قطار پر پہنچا جہاں سے کچی آبادی شروع ہوتی تھی اور جہاں اس کا گھر تھا ، تو اس نے اپنے چھوٹے بھائی کو گلی میں کھیلتے پایا ’’کمال ہے آج سلیم نیکر پہنے ہوئے ہے... آج ماں کو بڑا خیال آگیا۔‘‘ اس نے دل میں سوچا۔
دو قدم آگے چل کر وہ اپنی آباد ی کے میدان میں داخل ہوگیا۔ میدان میں ایک جانا پہچانا ٹرک کھڑا تھا، لیکن اس کی طرف زیادہ دھیا ن نہیں دیا۔ اپنی جھونپڑی کے دروازے پر پہنچا تواس نے دروازہ بند پایا، اور تب اس کی سمجھ میں آیا۔
’’ او ہو... یہ حرام زادہ پھر آیاہوا ہے۔‘‘
جھونپڑی کے اندر سے کسی مرد اور عورت کی باتیں کرنے کی آواز آرہی تھی۔ جس حرام زادے کی طرف عبداللہ کا خیال گیا تھا وہ اس کا سوتیلا باپ تھا جو ٹرک چلاتا تھا اور زیادہ وقت شہر سے باہر دور دراز کے چکر لگاتا تھا۔ اس کا اپنا باپ کون تھا یہ اسے نہیں معلوم تھا اور نہ ہی اس کے بارے میں اس نے کبھی سوچتا تھا۔
اب جب تک سوتیلا باپ اس کی ماں کے ساتھ رہے گا، اس کی ماں چھوٹے کی طرف توجہ زیادہ دے گی ۔ ’’ چلو اس میں بھی کیا برائی ہے۔ اس بورے کے پیسے تو میری جیب میں آئے۔‘‘ یہ سوچ کر وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا کباڑی کی دکان کی طرف چل دیا۔
بورے کی ردّی کے اسے پچاس روپے ملے۔ ابھی صرف دوپہر ہوئی تھی۔ شام تک وہ ایک اور بورا بھر سکتا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ دوسرے بورے کو بھی ماں سے بچالے۔ اس لالچ میں وہ دوبارہ نکل پڑا۔
شام کو جب میدان میں داخل ہوا تو اس کی ماں اور سوتیلا باپ باہر بیٹھے ہوئے تھے۔دل ہی دل میں اس نے اپنی قسمت کو گالی دی۔
اس کی ماں نے چیخنا شروع کیا ’’ شام کا یہ ٹائم ہوگیا ہے اور ابھی تک تو نے صرف ایک بورا بھرا ہے ...تو روز بروز کام چور ہوتا جارہا ہے‘‘ پھر اس نے سوتیلے باپ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’ دیکھ اس کو ... صرف گھر بیٹھا روٹیاں توڑتا ہے... کام کرنے بھیجو تو ایک بورا بھر کر لاتا ہے ،صبح سے۔‘‘
سوتیلے باپ نے بھی اسے سخت سست کہنا شروع کیں۔ عبداللہ اداس سا چہرہ بنائے کھڑا رہا۔یہ باتیں اس کے لئے معمولی تھیں۔ پھر سوتیلے باپ نے کہا۔
’’ اب کھڑا منہ کیا دیکھتا ہے۔ جا ،جا کر کباڑی کو بیچ کر آ۔ اس سے پہلے کہ وہ دکان بند کردے... جانور کہیں کا...‘‘
’’ جانور کہیں کا! ...جانور کہیں کا!‘‘ عبداللہ نے سنااور اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ اب دوسری دفعہ کسی نے اس کے لئے یہ الفاظ استعمال کئے تھے اور ابھی تک اس کو کسی پر بدلہ اتارنے کا موقع نہیں ملا تھا۔
غصے کے مارے اس کے جی میں آیا کہ اپنے سوتیلے باپ پر چیخنا شروع ہوجائے۔ ’’جانور کہیں کا ... جانور کہیں کا‘‘ لیکن پھر اس کا وہاں رہنا مشکل ہوجاتا،کسی طرح اپنے غصے کو قابو میں رکھا اور تیزتیز قدم اٹھاتا ہوا کباڑی کی دکان کی طرف بڑھنے لگا۔
کباڑی نے اس کا بورا تولا اور صبح کی طرح اس کو پچاس روپے نکال کر دینے لگا۔ لیکن عبداللہ نے کہا ’’ ٹھیک سے تول ... یہ پورے ستر کا مال ہے۔‘‘
کباڑی بولا ’’ صبح بھی تو ایک بورا لے کر آیا تھا ، اس کے بھی تو پچاس روپے بنے تھے۔‘‘
’’ لیکن اس میں کاغذ زیادہ ہے ...تیرا ترازو خراب ہے ... اس کے ستر روپے بنیں گے۔‘‘
’’ ارے لڑکے زبردستی ہے کیا ؟‘‘
’’ ایک تو چور بازاری کرتا ہے، اور اوپر سے اڑی دکھاتا ہے ... تیرے سارے دھندے پتا ہیں مجھ کو... اس بستی میں کیاصرف کباڑ کی کمائی ہے تیری۔ سارے میں اعلان کردوں گا تیرے کالے دھندے کا۔‘‘ عبداللہ کباڑی پر بری طرح چیخ رہا تھا۔
کباڑی خاموش رہا اور اس کے بدلتے تیوروں کا اندازہ لگانے لگا۔
’’ پورے پیسے نکال …… ورنہ ……‘‘
کباڑی نے عبداللہ کے غصے کا مزید امتحان لینا مناسب نہیں سمجھا۔ ویسے بھی وہ ان لوگوں سے خاصا منافع کمالیتا تھا۔ خاموشی سے بیس روپے اور نکال کر عبداللہ کو دے دیئے۔
عبداللہ نے پورے ستر روپوں کو اپنی مٹھی میں دباتے ہوئے زور سے کہا ’’ جانور کہیں کا...‘‘ اور تیزی سے دکان سے باہر چلا گیا۔
عبداللہ کے کلیجے میں کچھ ٹھنڈک پڑی۔ لیکن ابھی بھی ایک ادھار اُسے چکانا تھا۔
واپس آکر اس نے ماں کے ہاتھ میں چالیس روپے رکھے۔ ماں نے اس سے کہا ’’ صرف چالیس روپے ملے ؟‘‘
’’ ہاں کاغذ ہلکا تھا …… بھاؤ بھی آج کل کم ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ میدان سے باہر نکل گیا۔
80 روپوں نے اس کی جیب کو خاصا گرم کیا ہوا تھا۔ اب سوال یہ تھا کہ تفریح کا کیا بہانہ نکالا جائے۔ ابھی وہ میدان سے نکل کر گلی کے کونے تک آیا تھا کہ پان والے کی دکان پر اُسے کریم کھڑا ہوا نظر آیا۔
’’ اور استاد کیا ہورہا ہے۔‘‘ عبداللہ نے کریم سے کہا۔
’’ کچھ نہیں یار۔ بس ایسے ہی کھڑا ہوں‘‘
’’ کیا پروگرام ہے آج شام کا ...کچھ کرنے کا موڈ ہے۔‘‘ عبداللہ نے پوچھا۔
’’ کیا کرسکتے ہیں ...صرف پانچ روپے ہیں جیب میں۔‘‘ کریم نے بور منہ بناکرجواب دیا۔
’’پانچ روپے ہیں... تو ایک سگریٹ پلاؤ ... باقی سارا حساب کتاب اپنے باس پر چھوڑ دو۔‘‘
کریم نے دو سستے برانڈ کے سگریٹ خریدے اور دونوں سگریٹ پینے لگے۔
’’ اور کوئی شغل میلہ چل رہا ہے آس پاس۔‘‘ عبداللہ نے پوچھا۔
’’ بنگالی پاڑے میں کوئی انگلش فلم لگی ہوئی ہے ...سنا ہے کافی ٹھیک ٹھاک سین ہیں اس میں ... یا اگر تھوڑی دور جانے کا پروگرام ہے تو ذرا آگے ہیجڑوں کا شو بھی چل رہا ہے.. جو چیز باس کو زیادہ گرم کرے۔‘‘
عبداللہ نے سکون کے انداز میں جواب دیا۔ ’’ دونوں کرتے ہیں۔‘‘
سب سے پہلے انہوں نے گٹکا خریدا اورکلے میں دبا کر بنگالی پاڑے کی طرف چلے۔
گٹکے کے نشے میں دونوں نے وہ انگریزی فلم دیکھی۔ کریم نے ٹھیک کہا تھاکافی گرما گرم سین تھے اس میں اورفائیٹنگ کا تو جواب نہیں۔
عبداللہ نے کہا۔ ’’ مزہ آگیا یار... کیا ہیروئن تھی ...یہ سالی ہمارے ملک کی عورتیں ایسی کیوں نہیں ہوتیں... یہ سالا ملک... عورتیں بھی جعلی ہیں یہاں کی‘‘ عبداللہ خاصے موڈ میں تھا۔
انہوں نے ڈبل پتی کے پان اور سگریٹ دوبارہ خریدے اور مجرے کی طرف چلے۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ اندر جانے کا ٹکٹ بیس روپے کا ہے۔ عبداللہ نے اپنی جیب ٹٹولی تو پتہ چلا کہ اس کے پاس صرف ستائیس روپے باقی بچے ہیں۔
اس نے گیٹ والے سے بڑی التجا کی ’’ بھائی دو ٹکٹ دے دے ۔ ستائیس روپے کے‘‘
’’ دو ٹکٹ تو چالیس کے آئیں گے...تیرا اور لاؤ۔‘‘
’’ اور نہیں ہیں ابھی ... کل لادوں گا۔‘‘
’’ کل لاؤ گے …… تو پھر شو بھی کل دیکھنا‘‘۔
’’ دیکھو تم سے تمیز سے کہہ رہا ہوں ...پھر بعد میں نہیں کہنا کہ میں نے آرام سے بات نہیں کی۔‘‘ عبداللہ کچھ انداز بدل کر بولا۔
’’ ابے لڑکے... چل بھاگ یہاں سے ...پیسے نہیں ہیں تو شو کیسے دیکھے گا۔‘‘ گیٹ والا عبداللہ کے رعب میں نہیں آیا۔
’’ اچھا یہ بات ہے ...جانور کہیں کا۔‘‘ عبد اللہ نے نہایت تحقیر سے کہا۔
پھر اگلے ہی لمحہ اس کا غصہ آپ ہی آپ اتر گیا۔ شو نہ دیکھ پانے کا دکھ بھی ختم ہوگیا۔ اس کو لگا کئی من بوجھ اس کے دل سے ہٹ گیا ہے۔ اور ادھار تمام چکُ گئے ہیں۔ اس نے خاموشی سے کریم سے کہا ’’ چل یار نکل، کل آئیں گے۔‘‘
عبداللہ دل میں بہت خوش تھا۔ ’’ واہ یار کیا فٹ کرکے بدلہ اتارا ہے‘‘ اب تمباکو کا نشہ اس پر اور زیادہ اثر انداز ہورہا تھا۔ ایک فقیرنی کواس نے آپ سے پانچ روپے دے دیئے۔ کریم نے جب اس کی طرف کچھ حیرت سے دیکھا تو اس نے جواب دیا۔ ’’ غریب لوگ ہیں... موج کرلیں گے ... ان کا بھی کبھی کبھی خیال کرلینا چاہئے۔‘‘
ابھی وہ موڑ مڑ کر تھوڑی ہی دور گئے ہوں گے کہ انہوں نے دیکھا کہ آگے ایک پولیس کی موبائل کھڑی ہوئی ہے اور پولیس والے تلاشی لے رہے ہیں۔ یہ عام سی بات تھی، عبداللہ نے اس کی طرف بالکل دھیان نہیں دیا۔
لیکن پھر اچانک اس نے دیکھا کہ پولیس موبائل کو دیکھ کر کریم الٹے قدم واپس بھاگ گیا۔ اس کی سمجھ میں بالکل نہیں آیا۔ ابھی وہ کریم کی طرف حیرت سے دیکھ ہی رہا تھا کہ پولیس والے اسُ تک آگئے۔ انہوں نے کریم کو بھاگتا ہوا دیکھ لیا تھا۔
’’ یہ کون تھا... ایک نے کریم کے بھاگنے کی سمت اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔
’’ کریم‘‘
’’ کریم ؟... تو کیسے جانتا ہے‘‘
’’ اس لئے کہ وہ میرے علاقے میں رہتا ہے۔‘‘
’’ تم کون ہو ؟‘‘
’’ عبداللہ ... لیکن ہوا کیا ہے ؟‘‘ عبداللہ نے سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے پوچھا۔
’’ ہوا کیا ہے ؟... ایک تو دہشت گردوں کے ساتھ پھرتے ہو اور اوپر سے پوچھتے ہو ہوا کیاہے ... بتاؤ کیا کررہے تھے تم لوگ اسُ طرف؟‘‘ پولیس والے نے گرج کر پوچھا۔
عبداللہ کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ ابھی وہ خوفزدہ نظرو ں سے پولیس والے کو تک ہی رہا تھا کہ ایک اور نے اس کی تلاشی شروع کردی۔ اور اس کی جیب میں جو بائیس روپے ملے، وہ نکال کر اپنی جیب میں رکھ لئے۔
اس پر عبداللہ ایک دم پریشان ہو کر چیخنے لگا۔ ’’ میرے پیسے واپس کرو ...میرے پیسے واپس کرو۔‘‘
لیکن پولیس والے نے جواب دیا۔ ’’ ابے ... ایک تو علاقے میں دہشت گردی کرتا ہے اور اوپر سے کہتا ہے تیرے پیسے ہیں یہ... خیریت چاہتا ہے تو دفعان ہوجا یہاں سے۔
عبداللہ خاموش ہو کر کھڑا ہوگیا۔
’’ جاتا ہے کہ لے جاؤں تھانے تجھے۔‘‘
عبداللہ ا ب بھی کھڑا رہا۔
’’ بھاگو یہاں سے... اس بارپولیس والا زور سے چلایا۔ عبداللہ پلٹا۔ اور ابھی اس نے دو تین قدم ہی لئے ہوں گے کہ اس پولیس والے نے اپنی کلاشنکوف کی نال اوپر کی اورایک فائر کیا۔
گولی عبداللہ کے سر میں سے ہوتی ہوئی نکل گئی۔ اس کی کھوپڑی کے پرخچے اڑُ گئے ۔ عبد اللہ اس وقت اس پولیس والے کے اتنے قریب تھا کہ خون کے چند چھینٹے پولیس والے کی آستین پر بھی آئے۔
پولیس والا پریشان ہوکر پیچھے کی طرف ہوا اور اپنی آستین جھاڑتے ہوئے اس نے کہا ، ’’ جانور کہیں کا... سالا...‘‘

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں